You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے محبوب ومقرب بندوں کو خصوصی انعامات سے نوازتا ہے 'انھیں اپنا قرب خاص عطا فرماتا ہے اور نمایا ںمقام پر فائز فرماتا ہے ۔وہ اپنے محبوب بندوں کی دعائیں بھی قبول کر تا ہے اور انھیں آزمائش میں بھی ڈالتا ہے اور ان کی قوت ایمانی کا امتحان بھی لیتاہے اور انھیں ارفع واعلیٰ مقامات پر فائز بھی کرتا ہے ۔ انبیا ئے کرام کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح کائنات میں سب سے بلند مراتب پر فائز فرمایا ہے اور اپنے قرب ووصال کی نعمتوں سے نوازا اسی طرح انھیں بڑی کٹھن منزلوں سے بھی گزرنا پڑا۔انھیں بڑی بڑی قربانیوں کا حکم ہو الیکن ان کے مقام بندگی کا یہ اعجاز تھا کہ سر مو حکم ربّی سے انحراف یا تساہل نہیں برتا 'ان کی اطاعت، خشیت اور محبت کا یہی معیار تھا کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی اور اس میں موجود جملہ نعمتوں کو اپنے مولا کی رضا کے لئے وقف کئے رکھا حتیٰ کہ اولاد جیسے عزیز ترین متاع کے قربانی کا حکم بھی ملا تو ثابت کردیا کہ یہ بھی اس کی راہ پر قربان کی جاسکتی ہے ۔جملہ انبیا ء کرام اپنی شان بندگی میں یکتا اور بے مثال تھے لیکن سلسلہ انبیا ء میں سید نا ابراہیم علیہ السلام کی داستان عزیمت بہت دلچسپ اور قابل رشک ہے ۔ان کے لئے اللہ کی راہ میں بیٹے کو قربان کر نے کا حکم ایک بہت بڑی آزمائش تھی لیکن سید نا ابراہیم علیہ السلام اس آزمائش میں بھی پورے اترے ۔قرآن کی زبانی ملاحظہ فرمائیے ۔
''الٰہی مجھے لائق اولاد دے، تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی ایک عقلمند لڑکے کی پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا، میں تجھے ذبح کرتا ہوں، اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے، کہا اے میرے باپ کیجئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے، تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پر گردن رکھی او باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا حال نہ پوچھ، اور ہم نے اسے ندافرمائی کہ اے ابراہیم بے شک تو نے خواب سچ کردکھایا ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو، بیشک یہ روشن جانچ تھی اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دیکر اسے بچا لیا۔" ( الصفت پارہ ٢٣، آیت ٩٩تا١٠٧)
غور کیا جائے تو یہ مقام حیرت واستعجاب ہے ۔اللہ کا پیغمبر یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ آج تک کسی انسان کی قربانی کا حکم نہیں دیا گیا وہ اس پرپس و پیش سے بھی کام لے سکتے تھے اور اس کا قرینہ بھی تھا کیونکہ یہ حکم آپ کو خواب میں دیا گیا لیکن یہ پیغمبر کے ایمان وعمل کی رفعتیں ہیں کہ انھوں نے ایک لمحہ بھی توقف کئے بغیر سارا ماجرا اپنے بیٹے اسماعیل کو سنا یااور انھیں حکم نہیں دیا بلکہ ان سے رائے پوچھی ۔قربان جائیں اس پیغمبر زادے کی ایمانی عظمتوں پر جنہوں نے باپ کے خواب کو اللہ کا حکم سمجھتے ہو ئے سر تسلیم خم کرکے تاریخ انسانیت میں ذبیح اللہ کا منفرد اعزاز حاصل کیا ۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام سے مخاطب ہو تے ہیں کہ بیٹا ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے اللہ کی راہ میں ذبح کررہا ہوں 'بتا تیری کیا رائے ہے ؟باپ بیٹے دونوں جانتے ہیں کہ پیغمبر کا خواب اللہ کی وحی ہو تا ہے اس لئے اطاعت گزار بیٹا جواب دیتا ہے'' ابا جان !آپ اپنے ربّ کے حکم کی تعمیل کیجئے ۔ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ قرآن بتا تا ہے کہ سید نا ابراہیم اپنے لاڈلے بیٹے حضرت اسماعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے اوندھے منہ لٹا دیتے ہیں اور انھیں ذبح کر نے کے لئے چھری ہاتھ میں لیتے ہیں کہ غیب سے آواز آتی ہے ''ابراہیم تو نے اپنا خواب اللہ کا امر سچا کر دکھایا ۔ہم اسی طرح نیکوکاروں کو جزا دیتے ہیں ـاپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کر نے کا حکم اللہ کے نبی کی بہت بڑی آزمائش اور بہت بڑا امتحان تھا ۔حضرت سید نا ابراہیم علیہ السلام اس بڑے نازک امتحان میں کامیاب وکامران رہے۔ آسمان سے ایک مینڈھا آتا ہے اور حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل کی جگہ اس مینڈھے کو ذبح کر تے ہیں۔ارشاد ہو تا ہے ابراہیم !تمہاری قربانی قبول ہو گئی۔ہم نے اسماعیل کے ذبح کو ایک عظیم ذبح کے ساتھ فدیہ کر دیا ۔یوں سید نا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی بھی بارگاہ خداوندی میں مقبول ومنظور ہو گئی اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زندگی بھی بچ گئی ۔
اب ذہن انسانی میں سوال پید اہو تا ہے کہ اگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بچانا ہی مقصود تھا تو پھران کو اللہ کی راہ میں قربان کرے کا حکم کیوںہو ا؟اور اگر حکم ہو اتھا تو ان کی زندگی کو تحفظ کیو ں دیا گیا ؟اس کی وجہ کیا ہے 'حکم اس لئے ہو اتاکہ سراپائے ایثارو قربانی حضرت ابراہیم کے لخت جگر سے ذبح کی تاریخ کی ابتدا ء ہو جائے کہ راہ حق میں قربانیاں دینے کا آغاز انبیاء کی سنت ہے اور حضرت اسماعیل کو بچایا اس لئے گیا کہ اس عظیم پیغمبر کی نسل پاک میں نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ہو نا تھی ۔اولاد ابراہیم علیہ السلام میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریف لانا تھا ۔اس لئے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح کو جنت سے لائے گئے مینڈھے کی قربانی کی صورت میں عظیم ذبح کے ساتھ بدلا گیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام محفوظ ومامون رہے۔
حضرت سید نا حضرت اسماعیل علیہ السلام سن بلوغت کو پہنچے تو مکہ معظمہ کی وادی میں اپنے والد بزرگوار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تشریف لائے ۔اللہ ربّ العزت کی طرف سے انھیں کعبۃ اللہ کی تعمیر کا حکم ہوایہ ایک بہت بڑا عزاز تھا جو سرور کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد کے حصے میں آیا ۔انہی کی نسل پاک میں مبعوث ہو نے والے پیغمبر اعظم وآخر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں یہ سعادت بھی آئی کہ کعبۃ اللہ کو تین سو ساٹھ بتوں سے پاک کرکے اس پر پرچم توحید لہرایا ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات مقدسہ پر ایک نظر ڈالیں تو کار نبوت کی انجام دہی میں انھیں ان گنت مصائب کا سامنا رہا اور آزمائش کے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا ۔اللہ کے اس عظیم پیغمبر نے راہ حق میں آنے والی ان مشکلات کاخندہ پیشانی سے مقابلہ کیا اور ہر آزمائش پر پورا اترے ۔کامیابی نے قدم قدم پر ان کے قدموں کو بوسہ دینے کا اعزاز حاصل کیا ۔چنانچہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے بار بار سید نا ابراہیم علیہ السلا م کی داستان عزیمت کو شاندار الفاظ میں دہرایا ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد خداوندی ہے ! اور (وقت یاد کرو)جب ابراہیم کو ان کے ربّ نے کئی باتوں میں آزمایا تو انھوں نے وہ پوری کردیں (اس پر) اللہ نے فرمایا میں تمہیں لوگوں کاپیشوا بناؤں گاانہوں نے عرض کیا (کیا )میری اولاد میں سے بھی ارشاد ہوا (ہاں مگر) میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا۔
آزمائش کامرحلہ گزر گیا،کامیابی کا نور سید نا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مقدس پیشانی پر چمکنے لگا ۔اس وقت پیغام آیا کہ ابراہیم! ہم نے تیری عبدیت کو پرکھ لیا'ہم نے تیری شان خلیلی کا امتحان لے لیا ۔ہم نے دیکھ لیا کہ تیرے دل میں ہماری محبت کے کتنے سمندر موجزن ہیں ہم نے تیری قربانیوں کا بھی مشاہدہ کیا قدم قدم پر تیرے صبر واستقامت کو دیکھا ۔ہم نے تیرے توکل اور کلمہ شکر ادائیگی کا حسن بھی دیکھا ان تمام آزمائشوں پر پورا اترنے کے بعد اے ابراہیم !اب ایک خوشخبری بھی سن لے ایک مژدہ جانفزا بھی سماعت کروہ یہ کہ میں تجھے نسل بنی آدم کی امامت عطا کرتا ہوں یعنی پوری انسانیت کی امامت اقوام عالم کی امامت ۔
سید نا ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا باری تعالیٰ ! یہ امامت صرف میرے لئے ہے یا میری ذریت اور نسل کے لئے بھی ؟ارشاد ہوا :ہم نے تجھے بھی امامت دی اور یہ امامت تیر ی ذ ریت اور نسل کو بھی عطا کی مگر شرط یہ ہے کہ امامت اس کا مقدر بنے گی جو تیرے نقش قدم پر چلے گا اور صراط مستقیم کو اپنائے گا لیکن جو تیری راہ سے منحرف ہو گا امامت کا حق دار نہیں ہو گا ۔
اس کے بعد تعمیر کعبہ کا حکم ہو ا۔عظیم باپ اور عظیم بیٹا تعمیر کعبہ میں مصروف ہو گئے ایک ایک پتھر لاتے اور کعبہ کی دیواریں تعمیر کرتے ۔دیواریں بلند ہو گئیں 'ایک پتھر عطا ہوا جس پر کھڑے ہو کر تعمیر کاکام ہو رہا تھا ۔جوں جوں دیواریں اونچی ہو رہی تھیں تو ں توں یہ پتھر بھی بلند ہو تا جاتا ۔ حضرت سید نااسماعیل علیہ السلام تعمیر کعبہ میں اپنے والد گرامی کی معاونت فرماتے اورپتھر اٹھا اٹھا کر لاتے ۔دونوں جلیل القدر پیغمبر بارگاہ خداوندی میں ساتھ ساتھ دعا بھی کررہے تھے کہ: اے مولا! ہم تیرے گھر کی تعمیر کررہے ہیں ہماری یہ مشقت قبول فرما ۔یا باری تعالیٰ !ہماری جبینیں تیرے حضور جھکی رہیں، ہمارے سجدوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما ۔ہماری آل اور ذرّیت سے امت مسلمہ پیدا کر ۔پھر عرض کیا :یاباری تعالیٰ ہم نے تیرے گھر کی دیواریں بلند کی ہیں ہم نے اپنی ذرّیت میں سے امت مسلمہ مانگ لی ہے اے خدا رحیم وکریم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر مجھ تک ہر نبی اپنے زمانے میں نبی آخرالزماں کے ظہور کا اعلا ن کر تا رہا ہے یہ سلسلہ نبوت ورسالت اس مقدس ہستی پر جاکر ختم ہو گا وہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم جس کی خاطر تو نے یہ بزم کائنات سجائی۔ کرہ ارض پر ہزارہاانبیاء کو معبوث فرمایا وہ رسول آخر صلی اللہ علیہ وسلم جس کے لئے تونے ملتوں کو پیدا کیا ۔دنیا ئے رنگ وبوکو آراستہ کیا، آبشاروں کو تکلم کا ہنر بخشا، ہواؤں کو چلنے کی خو عطا فرمائی ۔وہ رسول بر حق جس کی خاطر تو نے اپنا جلوہ بے نقاب کیا، جس کی خاطر تونے اپنی مخلوقات کو پردہ عدم سے وجود بخشا، جس کی خاطر تو نے انسانوں کے لئے ہدایت آسمانی کے سلسلے کا آغاز کیا ـاس رسول معظم ؐاور نبی آخر الزماں کا اس کائنات رنگ وبو میں ظہور ہو نے والا ہے ۔باری تعالیٰ نے فرمایا: ہاں ابراہیم ہمارا وہ محبوب رسول آنے والا ہے بتا تو کیا چاہتا ہے ؟ فرمایا :ربّ کائنات اگر تو تعمیر کعبہ کی ہمیں مزدوری دینا چاہتا ہے اگر تعمیل حکم میں ہمیں کچھ عطا کرنا چاہتا ہے تو اے پروردگار !اپنے اس آخر ی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو میری اولاد میں مبعوث ہو نے کا شرف عطا فرما ۔میری ذرّیت کونور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوؤں سے ہمکنار کر دے میری اولاد کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قدم بوسی کی سعادت بخش دے 'مولا مجھے اپنا محبوب صلی اللہ علیہ وسلم دےدے ۔
1نبوت اور رسالت
2ختم نبوت
3-امّت مسلمہ اپنی ذریت کے لئے مانگ لی ہیں-ابراہیم تو نے میری محبت اور رضا کے لئے میر اگھر تعمیر کیا ہے اور دعا بھی وہ مانگی ہے جسے میں رد نہیں کر سکتا اس لئے ابراہیم جا ہم نے تجھے تیری مزدوری کے صلے میں یہ تینوں چیزیں عطا کیں ۔
پتھر کی عظمت:
روایات میں ہے کہ سید نا ابراہیم علیہ ا لسلام نے جس پتھر پر کھڑے ہو کر اپنی نسل میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کی دعا مانگی تھی یہ وہی پتھر تھا جس پر کھڑے ہو کر آپ نے تعمیر کعبہ کاکام سر انجام دیا تھا۔اس مقدس پتھر کی عظمت پر جان ودل نثار جس پر کھڑے ہو کر اپنی اولاد میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہو نے کی دعا مانگی جارہی ہے۔ ربّ نے کہا : اے بے جان پتھر تجھے خبر ہے کہ تجھ پر کھڑے ہو کر ابراہیم علیہ السلام نے ہم سے کیا مانگ لیا ہے اس لمحے کو اپنے سینے میں محفوظ کر لے کہ یہ لمحہ قبولیت کا لمحہ ہے ۔اس لمحے ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس وقت رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تذکار جلیلہ سے روح کائنات معطر ہے قدرت خداوندی سے پتھر موم ہو گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشانات قیامت تک کے لئے اس میں پیوست ہو گئے ۔
اس پتھر کا اعزاز یہ تھا کہ اس پر کھڑے ہو کر اللہ کے ایک جلیل القدر پیغمبر نے اس کے محبوب کا تذکرہ چھیڑ دیا تھا ۔اللہ کے نبی کی نسبت سے وہ پتھر بھی محترم ہو گیا ۔ بے شمار پتھروں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان لگے ہو ئے ہوں گے 'ان گنت پتھروں نے کف پائے ابراہیم علیہ السلام کو بوسہ دینے کا اعزاز حاصل کیا ہو گالیکن امتداد زمانہ کے ساتھ وہ نقوش مٹتے گئے ماہ وسال کی گرد انھیں اپنے دامن میں چھپاتی رہی مگر جس پتھر پر کھڑے ہو کر سید نا ابراہیم علیہ السلام نے طلوع صبح میلاد کی دعا مانگی تھی اللہ سے اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مانگاتھا ۔کونین کی دولت کو اپنے دامن میں سمیٹنے کی آرزو کی تھی وہ پتھر حرم اقدس میں مقام ابراہیم پر قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا گیا ۔
فرمایا اس پتھر کو کعبہ کے سامنے گاڑو، اس وقت تک میرے گھر کا طواف کامل نہ ہوگاجب تک طواف کر نے والے اس پتھر کے سامنے میرے حضور سجدہ ریز نہ ہوں گے تاکہ دنیا کو معلوم ہو جا ئے کہ یہ تمام انعامات وکرامات صدقہ ہے اس پتھر کا ۔
دعائے خلیل کی قبولیت :
دعائے خلیل کو خلعت قبولیت عطا ہو ئی، کونین کی دولت سید نا ابراہیم علیہ السلام کے دامن طلب میں ڈال دی گئی ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: جیسا ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔ (البقرہ پارہ٢، ١٥١)
سید نا ابراہیم علیہ السلام کی حیات مقدسہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ ایسا واقعہ ہے جس کی وجہ سے انہیں بارگاہ خداوندی سے شرف امامت بھی عطا کیا گیا ۔باپ بیٹے نے تسلیم جاں کا یہ اظہار زبانی کلامی نہیں کیا بلکہ عملاً حکم کی بجا آوری کے لئے بیٹے کی قربانی کی غرض سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ہاتھ میں چھری بھی لے لی تھی ۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زندگی محفوظ رہی کہ ان کی نسل پاک سے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ہو نا تھی ۔خدائے بزرگ وبرترنے وفد ینا بذبح عظیم کہہ کر اسماعیل کے ذبح کو ذبح عظیم کا فدیہ قرار دیا ۔فرزند پیغمبر کی قربانی ہو نا بعثت مصطفےٰ کی خاطر موقوف ہو ئی ۔
سنّت ابراہیمی پر عمل کر تے ہو ئے مسلمان اللہ کی راہ میں قربانی پیش کر تے ہیں اس قربانی کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اللہ کی راہ میں اپنی عزیز ترین شے کی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں اور ہر امتحان میں ثابت قدم رہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ اپنے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام وحضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرح آزمائشوں اور امتحانوں میں ثابت قدمی سے عبارت ہے۔ امّت مسلمہ کا فرد ہو نے کے ناطے ہم میں سے ہر ایک دین اسلام کی بلندی اور عروج کے لئے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لائے تاکہ لِیُظْھِرَ ہ' عَلَی الْدِّیْنِ کُلِّہ کی عملی تعبیر ممکن ہو سکے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم میں سے ہر کوئی ''قُلْ اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن کے مصداق ہو جائے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.