You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اہمیت عبادات
محمد مدثر
البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ
علی گڑھ،ہندوستان
====================
اللہ تبارک وتعالیٰ جو ساری کائنات کا خالق ومالک ہے ،جس نے زمین کا بچھونا اور آسمان کا شامیانہ لگایا اور اس دنیا میں ہمارے ہی لئے تمام چیزوں کو پید افر مایا ۔
ارشاد ربانی ہے :
﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُم مَّا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعا﴾(البقرۃ ؍۲۹)
ترجمہ :وہی ہے جس نے تمھارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے (کنزالایمان )
یہ تمام چیزیں اپنے اپنے رب کی تسبیح اور اس کی عبادت میں لگی ہوئی ہیں ہر لمحہ اسی کے ذکر کے ترانے گائے جارہی ہیں ۔
ارشاد خداوندی ہے۔
﴿تُسَبِّحُ لَہُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالأَرْضُ وَمَن فِیْہِنَّ وَإِن مِّن شَیْءٍ إِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدَہِ وَلَکِن لاَّ تَفْقَہُونَ تَسْبِیْحَہُمْ ﴾(بنی اسرائیل ؍۴۴)
ترجمہ : اس کی پاکی بولتے ہیں ساتوں آسمان اورزمین اور جو کوئی ان میں ہیں اور کوئی چیز نہیں جو اسے سراہتی ہوئی اس کی پاکی نہ بولے ۔ہاں تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے ۔(کنز الایمان )
دوسری جگہ اللہ تعالی ارشادفر ماتاہے :
﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یُسَبِّحُ لَہُ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّیْرُ صَافَّاتٍ کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہُ وَتَسْبِیْحَہُ وَاللَّہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُون﴾(النور/۴۱)
ترجمہ :کیا تم نے نہ دیکھا کہ اللہ کی تسبیح کر تے ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمینوں میں ہیں اور پرندے پر پھیلائے ،سب نے جان رکھی ہے اپنی نماز اور اپنی تسبیح اور اللہ ان کے کاموں کو جانتاہے (کنزالایمان )
ان آیات بینات سے یہ واضح ہوا کہ دنیا کی تمام چیزیں اسی کی تعریف وتسبیح میں لگی ہوئی ہیں خواہ وہ آنشاروں کا ترنم ہو یا کلیوں کا تبسم ،پہاڑوں کی بلندیاں ہو ں یا صحراکی وسعتیں ہر ایک اپنے خالق ومالک کی یا دمیں لگے ہوئے ہیں ،ہر ایک اپنے اپنے طریقے پر مصروف عبادت ہیں ۔
مذکورہ مخلوقات اور دیگر مخلوقات اپنے طور پر عبادت الٰہی میں مصروف ہیں اور خالق کائنات ارشاد فر ما تا ہے کہ شمس وقمر، لیل ونہار، اور زمین وآسمان کے اندر جو کچھ بھی ہے اسے انسان کے لئے مسخر کر دیا گیا ہے ۔جس سے ا نسان فائدہ اٹھاتارہاہے اور اٹھاتارہے گا۔لیکن
بے شمار چیزوں کو انسان کے لئے مسخر کر کے انہیں آزاد نہیں چھوڑدیاگیا بلکہ ان کامقصد تخلیق بھی انہیں واضح طور سے بتلادیاگیا ۔جس کا ذکر
مندرجہ ذیل آیت کریمہ میں ہے ۔
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ﴾(الذاریات/۵۶)
خلاصہ یہ ہوا کہ تخلیق انسانی کا اصل مقصدیہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرے تاکہ اس کی رضااور روحانی بالیدگی حاصل ہو ۔یہ ہے اصل مقصد اور اصل فائدہ باقی دیگر بہت سے ضمنی فوئد بھی ہیں جنہیں آپ آئندہ سطور میں ملاحظہ فر ما ئیں گے ۔
ذہن انسانی میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ان عبادات کی اہمیت کیا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے بندون پر کیوں فرض کیا ؟ جبکہ وہ ہر ایک کی عبادت سے بے نیاز ہے ،ہماری عبادتیں اسکی شان میں کچھ زیادتی نہیں کرتیں ،عبادتوں کی اسے کوئی حاجت وضرورت نہیں لیکن اس نے انسان پر فرض کیوں کیا؟ تو اسکا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ حکیم ہے اسکا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں وہ انہیں چیزوں کا حکم دیتا ہے جس میں ہمارے فائدے ہیں اور وہ ہماری اصلاح کے لئے ہو تی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :
﴿قَالَ ہَذَا مِن فَضْلِ رَبِّیْ لِیَبْلُوَنِیْ أَأَشْکُرُ أَمْ أَکْفُرُ وَمَن شَکَرَ فَإِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہِ وَمَن کَفَرَ فَإِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْم﴾ (النمل؍۴۰)
ترجمہ: کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا نا شکری اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو نا شکرے کرے تو میرا بے پرواہ ہے سب خوبیوں والا (کنزالایمان)
اسکے علاوہ بے شمار احادیث بھے اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ہماری عبادتوں اور اطاعتوں کا ثمرہ ہمیں ہی ملتا ہے اور ہماری بد اعمالیوں کا بدلہ بھی ہمیں ہی ملتا ہے۔
مسلمانوں پر عبادت فرض کرنے میں اور اسکا مکلف بنانے میں بے شمار حکمتیں اور لا تعداد فوائد ہیں ۔ ان میں سے چند یہ ہیں ۔
عبادت روح کی غذا ہے
انسان صرف جسم کا نام نہیں کہ کھا پی کر اسے فربہ کیا جائے بلکہ انسان کے اندر ایک جوہر نفیس ہے جسکے ذریعہ انسان قابل احترام اور لائق سرداری ہو تا ہے اور وہ جوہر نفیس ’’روح‘‘ ہے ۔جس طرح ظاہرے جسم کے لئے غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کے لئے بھی غذا کی ضرورت ہو تی ہے اور روح کی غذا صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ریاضت ہے۔ اس لئے جب بندۂ مومن نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو کہتا ہے
﴿إِیَّاکَ نَعْبُدُ وإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ (الفاتحۃ؍۴)
ترجمہ :ہم تجھی کو پوجین اور تجھی سے مدد چاہیں۔
امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں :
“اعلم ان من عرف فوائد العبادۃ طاب لہ، الاشتغال بہا ،و ثقل علیہ الاشتغال بغیرھا”
ترجمہ: جان لو کہ جس نے عبادت کے فوائد جان لئے تو اسکا یہی مشغلہ ہو جاتا ہے اور دوسری چیزیں اس پر بوجھ لگنے لگتی ہیں ۔
امام رازی آگے فرماتے ہیں۔
“و بیانہ من وجوہ” اور اسکی چند وجہیں ہیں ۔
امام رازی نے یہاں بڑی مفصل بحث فرمائی ہے جن کو اختصار کے ساتھ ہم بیان کرتے ہیں ۔
(۱) انسان کی سب سے بلند حالت یہ ہے کہ وہ اللہ کی ذات اور اسکی عبادت میں لگا رہے ۔اس لئے کہ اس کا دل نور الٰہی سے مستنیر ہو گا ۔اسکی زبان اسکے ذکر سے مشرف ہو گی اور اسکے اعضاء اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے سبب خوبصورت ہونگے ۔اور یہ حالتیں انسانی کمالات کی سب سے اعلیٰ حالت ہے ۔اور اسکے ذریعہ سعاد توں کے مینار پر فائز ہوگا۔ تو جو ان احوال پر مطلع ہوا تو اس سے اطاعتوں کا بوجھ دور ہو گیا اور اسکی محبت دل میں سما گئی ۔
(۲) عبادت امانت الٰہی ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَۃَ عَلَی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَن یَحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْإِنسَانُ إِنَّہُ کَانَ ظَلُوماً جَہُول﴾(الاحزاب؍۷۲)
ترجمہ : بیشک ہم نے پیش کیا آسمانوں اورزمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اسکے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور آ ور آدمی نے اٹھا لی بیشک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے ۔ (کنزالایمان)
اور امانت کا ادا کرنا شرعا اور عقلا واجب ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔
﴿إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا﴾(النساء/۵۸)
ترجمہ : بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو ۔(کنزالایمان)
اس آیت کے ضمن میں ایک واقعہ نقل فرماتے ہیں ۔
’’بعض صحابۂ کرام نے فرما یا کہ میں نے ایک اعرابی کو مسجد کے دروازے پر دیکھا کہ وہ اپنی اونٹنی سے نیچے آیا اور اونٹنی کو چھوڑ دیا اور مسجد میں داخل ہو کر اطمینان و وقار کے ساتھ نماز پڑھی اور جو دعا اس نے چاہی مانگی ۔ تو ہم کو تعجب ہوا ۔ پھر جب وہ باہر آیا اور اپنی اونٹنی کو نہ پایا تو اس نے کہا :
’’ِ إِلٰہی أدیت امانتک فاین امانتی”
ترجمہ: مولیٰ میں نے تجھے تیری امانت لوٹادی میری امانت کہاں ؟
راوی کہتے ہیں کہ ہمارا تعجب اور زیادہ ہو گیا پھر تھوڑی ہی دیر میں ایک شخص اسکی اونٹنی لے کر آیا اس حال میں کہ اسکے ہاتھ کٹے ہوئے تھے اور اونٹنی اسکے حوالے کر دی۔
امام رازی فرماتے ہیں کہ یہاں نکتہ یہ ہے کہ جب اس نے اللہ کے امانت کی حفاظت کی تو اللہ نے بھی اسکے امانت کی حفاظت فرمائی ۔ اور یہی مطلب ہے نبی کریم ﷺکے فرمان کا جو اپنے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے فرمایا :
“احفظ اللہ فی الخلوات یحفظک فی الفلوات”
تم تنہائی میں حدود خداوندی کی پاسداری کرو اللہ تعالیٰ تمہاری نگہبانی فرمائے گالوگوں کے درمیان۔
(۳) عبادت بندے کو اللہ تک پہنچاتی ہے
جب کوئی بندہ عبادت میں مستغرق ہوتا ہے تو وہ عالم غرور سے نکل کر عالم سرور تک کی طرف منتقل ہو جاتا ہے ۔مخلوق سے منقطع ہو کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو جاتا ہے اور پھر کمال لذت و سرور حاصل کرتا ہے ۔
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے تعلق سے مروی ہے کہ جب آپ نماز پڑھ رہے تھے تو چھت سے ایک سانپ گرا جس سے لوگ تو منتشر ہو گئے، لیکن امام اعظم اپنی نماز ہی میں مشغول رہے اور کچھ احساس تک نہ ہوا ۔(التفسیر الکبیر؍ج؍۱؍ص؍۲۴۶؍۲۴۷؍ زیر تفسیر ؍ ایاک نعبد)
عبادت ہی کے ذریعہ انسان مکمل آزادی حاصل کر سکتا ہے اس لئے کہ جب وہ ہر شخص سے منہ موڑ کر اللہ کی طاعت وعبادت میں لگا رہے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اسے اپنے لئے مخصوص فرما لے گا اور پھر وہ بندہ مخلوق سے بے نیاز ہو جائے گا۔
عبادت اللہ کی طرف سے آزمائش ہے جو بندے کو پاکیزہ اور اسکو مصقل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہے ۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّہُ الَّذِیْنَ جَاہَدُواْ مِنکُمْ وَیَعْلَمَ الصَّابِرِیْن ﴾(آل عمران/۱۴۲)
ترجمہ: کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی اللہ نے ابھی تمہارے غازیوں کا امتحان بھی نہ لیا اور نہ صبر والوں کی آزمائش کی( کنزالایمان)
دنیا میں یہ دستوررائج ہے کہ جو چیز جتنی نفیس اور عمدہ ہوا کرتی ہے اسکا حصول بھی اسی قدر مشکل ہوا کرتا ہے ۔ اور ایک بندۂ مومن کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں کا بھی امتحان لیتا ہے تا کہ مطیع و نا فرمان میں فرق ہو جائے۔
عبادت بندوں پر اللہ کا حق ہے
امام بخاری اور امام مسلم رحمھما اللہ تعالیٰ ایک حدیث نقل فر ما تے ہیں ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
“کنت ردف النبی صلی اللہ ولیہ وسلم علیٰ حماریقال لہ عفیر فقال یا معاذا تدری ما حق اللہ علی عبادہ ۰۰۰؟ قلت : اللہ و رسولہ اعلم”
قال:“حق اللہ علی العباد ان یعبدوہ و لا یشر کوا بہ شیئا ”( بخاری کتاب الجھاد ؍باب اسم الفرس والحمار)
ترجمہ :میں ایک گدھے پر حضور ﷺ کے پیچھے سوار تھا جس کا نام عفیر تھا ،تو حضور ﷺنے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے ؟ میں نے کہا اللہ اور رسول زیادہ بہترجانتے ہیں ۔ رسول اللہ ص لی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔
غور کرنے کا مقام ہے کہ ابتدا ء ہم عدم کی تاریکی میں تھے، پھر اسی نے وجود عطا کیا ،پھر ہمیں سب سے معزز مخلوق بنایا اور ہمیں بہترین صورت پر پیدا کیا ،ہمیں بیان عطا کیا ،عقل و ارادہ عطا کیا ،کائنات کو ہمارے لئے مسخر کیا، الغرض دنیا کی ساری چیزیں ہمارے لئے پیدا فرمائیں ، لہذا جب ایک عقل رکھنے والا انسان ان نعمتوں کا مشاہدہ کرتا ہے تو خود بخود اسکی پیشانی بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہو جاتی ہے ، اس لئے بندوں پر یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ وہ اسکی عبادت کریں اور کسی کو اسکا شریک نہ ٹھہرا ئیں ۔
تمام عبادتوں میں افضل نماز ہے ،پھر زکوٰۃ ،پھر روزہ ، اور حج ہیں ۔ جب ہم ان کا قرآن و حدیث کی روشنی میں مطالعہ کرتے ہیں اور طریقۂ عبادت کو دیکھتے ہیں تو اس میں بھی بندے ہی کے فائدے نظر آتے ہیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ یہ تمام عبادتیں بندوں کے فائدے ہی کے لئے ان پر فرض کی گئی ہیں ۔
اسلام میں نماز کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور سب سے زیادہ تاکید اور چھوڑنے پر وعید اسی پر آ ئی ہیں ۔ حتیٰ کہ جس نے جان بوجھ کر نماز کو اس کے وقت کے علاوہ میں ادا کیا تو اس پر بھی سخت وعید آئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
﴿فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ * الَّذِیْنَ ہُمْ عَن صَلَاتِہِمْ سَاہُون﴾(الماعون؍۴؍۵)
ترجمہ:تو ان نمازیوں کی خرابی ہے جو اپنی نماز سے بھولے بیٹھے ہیں (کنزالایمان)
حدیث شریف میں وارد ہے ۔
“من ترک الصلوٰۃ متعمدا فقد کفر”(مشکوٰۃ المصابیح؍ کتاب الصلوۃ)
ترجمہ: جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی تو اس نے کفر کیا ۔
نماز ایک معرا جی عبادت ہے اس کے ذریعہ بندہ اللہ تعالیٰ سے بات کرتا ہے ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
“ اعتدلو ا فی السجود و لا یبسط ذراعیہ کالکلب و اذا بصق فلا یبز قن بین یدیہ و لا عن یمینہ فانہ یناجی ربہ ”(بخاری ؍کتاب الصلوٰۃ ؍باب المصلی ینا جی من ربہ )
ترجمہ: سجدے میں اعتدال کرو اور اپنے بازوؤں کو کتے کی طرح نہ پھیلاؤ اور جب تھوکے تو وہ سامنے اور دائیں نہ تھوکے اس لئے کہ وہ اپنے رب سے سر گوشیاں کر رہا ہوتا ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کہ نمازی نماز کی حالت میں اپنے رب سے ہم کلام ہو تا ہے۔
نماز کے بے شمار فوائدہیں، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں ۔
جدید طبی تحقیق کے مطابق اگر کوئی شخص پانچ وقت کی نمازیں اس کے ارکان کی مکمل رعایت کے ساتھ ادا کرلے تو اسکا جسم صحت مند اور بیماریوں سے دور رہے گا ۔
پانچ وقت کی نمازوں کو فرض کرنے میں حکمت یہ ہے کہ جب وہ پانچ ووقت کی نماز وں کے لئے وضو کریگا تو اسکی ظاہری اور باطنی گندگی دور ہو جائینگی ۔
نماز کے ذریعہ انسان مکمل صفائی اور خوبصورتی حاصل کرتا ہے۔
نماز کے شرائط میں سے یہ ہے کہ جگہ، کپڑا اور بدن پاک ہو ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿یَا بَنِیْ آدَمَ خُذُواْ زِیْنَتَکُمْ عِندَ کُلِّ مَسْجِدٍ﴾(الاعراف ؍۳۱)
ترجمہ: اے آ دم کی اولاد اپنی زینت لو جب مسجد میں جاؤ ۔
صاحب خزائن العرفان صدرالافاضل نعیم الدین مرادابا دی علیہ الرحمۃ اس آیت کے تحت ارشاد فرماتے ہیں :
’’یعنی لباس اور ایک قول کے یہ ہے کہ کنگھی کرنا ،خوشبو لگانا داخل زینت ہے۔ (خزائن ا لعرفان؍تففسیرآیت مذکورہ)
اسی طرح اسلامی عبادات کا ایک عظیم رکن روزہ ہے قرآن و احادیث میں اسکی بے شمار فضیلتیں وارد ہوئی ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“ قال اللہ : کل عمل ابن آدم لہ الا الصیام فانہ لی وانا اجزی بہ ”(بخاری ؍ کتاب مواقیت الصلوٰۃ؍باب المصلی یناجی من ربہ )
ترجمہ:اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : کہ ابن آدم کا ہر عمل اسکے لئے ہے سوائے روزہ کے۔اس لئے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں اسکا بدلہ دونگا ۔
دوسری جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
“من صام رمضان ایمانا و احتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ”(مشکوٰۃ المصابیح؍کتاب الصوم)
ترجمہ : جس نے رمضان کا روزہ ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت کے ساتھ رکھا تو اسکے پچھلے گناہ معاف کر دئے جائینگے
روزے کے سائنسی فوائد بھی بہت ہیں ۔
(۲) مہینہ میں ایک دو بار روزہ رکھنا امراض کے لئے حفظ ما تقدم اور قیام صحت کے لئے مفید تر ہے۔(ڈاکٹر جی جیکپ)
(۳) سکون اور اطمینان پیدا کرنے کے لئے روزہ بہترین چیز ہے ۔(ڈاکٹر سمر سیٹ)
(۴) روزہ رکھنے سے خیالات پریشان نہیں ہو تے،جذبات کی تیزی جا تی رہتی ہے ،برائیاں دور ہو تی ہین اور تجرد کی زنگی بخوبی گذر جا تی ہے۔ (ماخوذ از اسلام اور جدید سائنس )
حج بھی اسلامی عبادات کا ایک عظیم رکن ہے اس میں بے شمار دنیاوی اور اخروی فوائد ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ جس نے اللہ عز و جل کے لئے حج کیا اور فحش گوئی اور گناہ نہیں کیا تو جب وہ لوٹے گا تو اس دن کی طرح ہو گا جس دن کہ اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہو ‘‘(کتا ب الحج ؍باب فضل حج المبرور)
دوسری جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ سے سب سے افضل اعمال ھے بارے میں پوچھا گیا تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لانا ۔ عرض کیا گیا اس کے بعد کون سا عمل سب سے بہتر ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ پھر عرض کیا گیا اس کے بعد کون سا عمل بہتر ہے ؟ تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : حج مقبول ۔(کتا ب الحج ؍باب فضل حج المبرور)
حج ایک عالمی اتحاد اور یکجہتی کا داعی ہے ۔
جب حج کا زمانہ آتا ہے اور سب احرام باندھ لیتے ہیں تو سب کا لباس ،سب کی تسبیحیں اور افعال ایک جیسے ہو جا تے ہیں ،جو یہ پیغام دیتا ہے کہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف رہیں ، ایک دوسرے کو تکلیف پہنچائیں اور اس کے جذبات کو مجروح کریں ۔ بلکہ حج یہ سکھاتا ہے کہ ہم دو جسم اور ایک جان ہوجائیں ،اگر کسی مسلمان کو تکلیف ہو تو ہمیں بھی اسکا احساس ہو۔
دوسرا فائدہ یہ ہے کہ حج کا موسم یہ ایسا موسم ہے جو دنیا کے تمام لوگوں کو بیک وقت ایک مقام پرایک ساتھ ایک مقصد کے لئے جمع کرتا ہے جس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ایک مسلمان بھائی دوسرے مسلمان بھائی کی تکلیفوں اور پریشانیوں کو جان لے اور اسکی مدد اور حمایت کرے۔
زکوٰۃ بھی اسلامی عبادات کا ایک عظیم رکن ہے۔ زکوٰۃادا کرنے والے کی بے شمار فضیلتیں اور ادا نہ کرنے والون کے لئے سخت وعید یں آئی ہیں۔
زکوٰۃ ادا کرنے کے چند فوائد ہیں۔
(۱) زکوٰۃ ادا کرنے والے کے اندر جودو سخا کا جذبہ بیدار رہتا ہے اور بخل سے اسکا دل و دماغ محفوظ رہتا ہے ۔
(۲) مال زکوٰۃ سے قوم کے مستحق غربااور فقیروں کی پرورش ہوتی ہے ۔
(۳) زکوٰۃ کی ادائیگی کے ذریعہ کے ذریعہ اسکا باقی مال پاک و صاف ہو جاتا ہے۔
(۴) زکوٰۃ کی ادائیگی سے اسکا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔
(۵) مستحق غربا اور کمزوروں کی دعائیں حاصل ہو تی ہیں اور یہ ہزار درجہ بہتر ہے اس سے کہ زکوٰۃ نہ دے کر ان کا حق اپنے پاس رکھیں ،اس لئے کہ یہ نفرت وکراہت کا باعث ہے ،جبکہ زکوۃ دینا قبولیت اور محبوبیت کے مقام پر پہونچنے کا ذریعہ ہے ۔ خدا کی مدد اور رحمت کمزوروں کی امداد اور انکی خدمات سے حاصل ہوتی ہیں۔
اسلام ہی ایسا جامع ومکمل دین ہے کہ خالص دنیوی کام بھی جائز حدودمیں رہتے ہوئے نیک نیتی کے ساتھ کوئی بھی مسلمان کرے تواسے بھی اسلام میں داخل عبادت قرار دیا ۔مثلا کوئی شخص زراعت،تجارت اور حرفت و صنعت کا پیشہ اختیار کرکے اپنے اہل و عیال کو حلال کمائی کے ذریعہ کھلاتا پلاتا ہے تو یہ بھی ایک بڑی عبادت ہے۔
حاصل کلام یہ کہ جو بھی عبادت اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہیں وہ بندوں کے فائدے ہی کے لئے ہیں اور ہر عبادت میں اسکی جسمانی اور روحانی تسکین کا انتظام کیا گیا ہے ۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.