You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
انبیاء اور صحابہ پر بننے والی فلمیں:شرعی جائزہ
پیش کش:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی (جرنلسٹ،مالیگائوں)
====================
انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تصاویر بنانا بالاتفاق حرام ہے۔
اہل علم کا اس مسئلہ میں اجماع ہے۔
کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کی کمپنی’’الشرکۃ العربیۃ للا نتاج السنیمائی العالمی‘‘نے ’’محمد رسول اللہ‘‘کے عنوان سے ایک فلم بنانے کا معاہدہ کیا،جس کے بعد سعودی عرب کے علماء سے اس کے متعلق شرعی رہنمائی حاصل کی گئی اور’’ھیئۃ کبارالعلمائ‘‘ نے حضرت محمد ﷺ پر فلم بنانے کی حرمت کا فتوی جاری کیا۔اس سے پہلے ’’سعود لجنۃ دائمہ‘‘کے فتاویٰ جات میں بھی انبیاء اور صحابہ کرام کی تصویر کشی کی حرمت وبطلان پر کبار علما کا فتوی شائع ہو چکا ہے۔اس سلسلے میں مکہ معظمہ کی تنظیم’’رابطۃ لعالم الاسلامی‘‘کے ذیلی ادارے’’مجمع الفقہ الاسلامی‘‘(ISLAMIC FIQH ACADEMY)نے بھی اپنی فقہی رائے سے امت کو آگاہ کیا تھا کہ انبیاء کی تصاویر اور ویڈیو بنانا مطلقاً حرام اور سنگین جرم ہے۔
اس مسئلہ کی تنقیح و توضیح کی ضرورت اس لیے سمجھی گئی ہے کہ حال ہی میں ایک ایرانی چینل ’’الکوثر‘‘پر حضرت یوسف علیہ السلام پر بنائی گئی فلم کو قسط وار پیش کیا گیاہے۔اہل ایران نے اس کے ساتھ حضرت سلیمان علیہ السلام،حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اصحاب میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ پربنائی گئی فلمیں بھی جا ری کی ہیں۔(ان کے ساتھ ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت زکریاعلیہ السلام وحضرت مریم،اصحاب کہف اورصحابہ کرام میں حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ اور سلاطین اسلام میں سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ،محمد بن قاسم،یوسف بن تاشقین پربنائی گئی فلمیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ان فلموں کی سی ڈیز بڑے وافر مقدار میں مارکیٹ میں دستیاب ہے)یہ طوفانِ بد اطواری محض اس مقام پر تھم نہیں گیاہے،بلکہ اسے غالباً الحاد وکفر کی جس منتہاتک لے جانے کی کوشش و سعی کی گئی تھی،وہ اب ظلم وعدوان کی منزل تک پہنچا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔اس لیے کہ ابن سبا کی قوم نے خدا کے آخری پیغمبر سیدنا محمد الرّسول اللہ ﷺ کی تصویر بھی شائع کر دی ہے۔ اورجن قارئین کو یہ تصویر دیکھنے کا حادثہ پیش آیا ہے ،انہیں اب اس حقیقت کو بھانپ لینے میں کوئی دشواری نہ ہوگی کہ زنادقہ کا یہ گروہ پیغمبر اسلام ﷺ سے کس درجہ بغض وعداوت رکھتا ہے۔یہ لوگ ان تصاویر کے ذریعے غیر محسوس انداز سے پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت وشخصیت کا اصل روپ مسخ کر دینا چاہتے ہیں۔یہ اپنے ظنون و اوہام کا پرچاراسلام کے نام پر صرف اسی لیے کرتے ہیں کہ خود میں اسلام سے اعلانیہ مقابلہ کی ہمت نہیں پاتے،لہٰذااہل اسلام کی صفوں میں داخل ہو کر ایک غدار کی حیثیت سے ملت اسلام کی کامل شکست اور یہود کی فتح وکامرانی کے منتظر ہیںاور اپنی سازشوں کا جال بچھانے میں مصروف عمل ہیں ۔اسی لیے انبیاء ورسل علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر فلمیں بنانے کا یہودی ایجنڈا بھی انہوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔اوّل اوّل تو یہ فلمیں یہودونصاری کی طرف سے بنائی جاتی رہیں،جن کی کہانی زیادہ تر سیدنا مسیح علیہ السلام کی حیات کے گرد گھومتی ہے۔ اورجیسا کہ عرض کیا گیا کہ زنادقہ نے اسلام کے لبادے میں یہ حرام عمل بڑے پیمانے پر دینی تعلیم و تبلیغ کے نام پرباقاعدہ جاری کردیا ہے،لہٰذاضروری ہے کہ قرآن وسنت کے محکم دلائل کی روشنی میں اس کا تحلیل و تجزیہ پیش کردیا جائے اور اس کے مفاسد اور مضرتوںسے امت مسلمہ کو آگاہ کیاجائے۔
مفاسد و نقصانات:
(۱) اس طرح کی فلموں اور تصاویر سے انبیائے کرام علیہم السلام کی تنقیص ہوتی ہے۔ان کا مقام زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ظاہر ہے جب فرستادگانِ الٰہی کے تذکروں کومجالسِ لہوولعب اورغیر سنجیدہ مباحثوں میں گھسیٹا جائے گاتو یہ ان کی عالی قدر شخصیات سے استہزاء وٹھٹھا کرنے کے مترادف ہے کیوں کہ تصاویر اور ویڈیوز کا تعلق ہی ہنسی مذاق اور تماشہ(Entertainment)سے ہے ۔ اور یہ بات پوری قطعیت سے ثابت ہے کہ یہ ان اعمال میں سے ہے جو انسان کو ملت اسلام سے خارج کردیتے ہیں۔پیغمبروں کے بارے میں اس نوع کا رویہ اختیار کرنا کھلا کفر ہے،خواہ اس فعل کا مرتکب قولاً یہ اقرار بھی کرتا ہوکہ وہ انبیاء پر ایمان رکھنے والا ہے۔چن
انچہ ارشاد الٰہی ہے،ت
رجمہ:’’اگر ان سے پوچھوکہ تم کیا باتیں کررہے تھے،تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کررہے تھے۔ان سے کہو!کیا تمھارہ ہنسی دل لگی اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ تھی؟اب عذرات نہ تراشو،تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے۔‘‘
(التوبہ، ۹ : ۶۵ ۔ ۶ ۶ )
(۲)تمام پیغمبروں کو خدا نے معصوم رکھا ہے۔عصمتِ انبیاء کا تقاضا ہے کہ ان خدا رسیدہ ہستیوں سے کوئی ایسا فعل صادرنہ ہوجسے اللہ نے محرمات کی فہرست میں شامل کیا ہے اورکوئی ایسا عمل ترک نہ ہوجائے جس کو شریعتِ اسلام میں واجب کا درجہ حاصل ہے۔
مگر ان فلموں میں فرضی پیغمبر ایسے خلافِ شریعت کام بھی کرتا ہے جن کا تصور ایک نبی سے تو کجا،زہد وورع کے بنیادی اوصاف رکھنے والے مسلمان سے بھی مشکل ہو جاتا ہے۔مثال کے طور پران فلموں میں دکھایا گیا ہے کہ فرضی نبی غیر محرم عورتوں کے ساتھ بے پردہ گھومتا ہے۔
اسی طرح عصمتِ انبیاء کا یہ بھی تقاضا ہے کہ وہ خلعتِ نبوت ورسالت جس کے ذریعے سے اللہ نے ان کو زینت بخشی ہے،وہ کسی غیر نبی کو نہ پہنایا جائے،نہ حقیقتاً اور نہ ڈرامائی اسلوب میں۔اس معاملے میں بھی ان فلموں سے سخت بگاڑپیدا ہو گیا ہے۔وہ لوگ جو انبیاء اور صحابہ کا کردارپیش کررہے ہوتے ہیں،یعنی جن کو فرضی نبی یا فرضی صحابی بنایا گیا ہوتا ہے،وہ اپنی تمام حرکات وسکنات ایک نبی کے فرضی قالب میں سامنے لاتے ہیں اور فلم کے دوسرے کردار ان کو نبی کے نام،مثلاًیوسف یا موسیٰ سے ہی پکارتے ہیں۔اور ظاہر ہے کہ فلم بینوں کی باہمی گفتگومیں بھی اس فرضی کردار کو نبی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔یہ طرز عمل عصمتِ انبیاء کو پامال کرنے والا ہے۔
(۳)تاریخ نے جن حضرات کے تذکروں کو اپنے دامن میں جگہ دی ہے،ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی پوری زندگی ایک مربوط کہانی کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔انبیاء کی صورت حال بہت کچھ مختلف ہے،ان کے ٹھیک ٹھیک حالات بس اسی قدر ہمارے سامنے ہیں جن کو خدا کی آخری کتاب نے بیان کردیا ہے،اور قرآن مجید کا ایک عام ناظر بخوبی جان لیتا ہے کہ یہ بیانات قصہ گوئی کی قبیل سے نہیں ہیں بلکہ حالات کے پیشِ نظرمخاطبین کی اصلاح ودرستی اور سبق آموزی کے لیے گزشتہ انبیاء اور ان کی اقوام کا اتناہی تذکرہ کیا جاتا ہے جسے مخاطبین کی موجود صورت حال پر منطبق کرنا حکمت بالغہ کا تقاضا قرار پاتا ہے۔اس کے علاوہ جو کچھ تاریخی شہادات میں ہے،وہ سخت اختلافی اور کم مایہ ہے۔
جہاں تک آخری نبی اور رسول محمد ﷺ کی سیرت کا تعلق ہے،اس کا ہر گوشہ اور پہلو سیرت وحدیث کی کتابوں میں کشادہ ہے۔مگر وہ بھی اس طرح نہیں ہے کہ ایک مکمل کہانی تیار کی جا سکے۔کہانی اور قصوں کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ان میں واقعات کا تسلسل اورربط برقرار رہے تاکہ قاری اس قسم کی تحریر سے ذوق ادب کی تسکین کا سامان مہیا کرسکے۔اسی لیے کہانی کی کتابوں ، نا و لو ں ،ادبی شہ پاروں اور تاریخی روایات اور سیرت وسوانح کا بنیادی اسلوب نگارش ہی بہت مختلف ہوتا ہے۔کہانی لکھتے ہوئے مصنف بہت سے واقعات اور بیانات خود سے فرض کرتے ہوئے ا حا طہ تحریر میں لے آتا ہے ،جن کو بر بنائے حقیقت جانچا جائے تو وہ محض جھوٹی داستان قرار پائیں گے۔
مثال کے طور پراردو میں لکھے گئے تاریخی ناول اور تاریخی شخصیات پر مرتب کی گئی کہانیاں جو التمش اور نسیم حجازی وغیرہ کی کتابوں میں ہمیں ملتی ہیں،ان میں بیسیوں واقعات مصنفوں کے مخترعات ہیں،حقیقت سے انھیں کوئی علاقہ نہیں۔جبکہ دوسری طرف تاریخ و سیر کی کتابوں میں روایات وتفحص کے بعد ہی انہیں درج کیاجاتا ہے،لہٰذاغیر ثابت شدہ بیانات قطعی طور پر مسترد کردیے جاتے ہیں۔اسی لیے یہ سب کچھ ایسی کہا نی کی صورت اختیار نہیں کرتاجس کے تمام واقعات با لتر تیب ایک دوسرے سے پیوست ہوں۔
ان فلموں میں چونکہ انبیاء وصحابہ کرام کی پوری کہانی فلمائی جاتی ہے،لہٰذابہت سے واقعات خود گھڑ لیے جاتے ہیں۔حالاں کہ انبیاء کے حق میں اس طرح کا جھوٹ وضع کرنا غیر معمو لی جرم ہے چنانچہ حدیث میں ہے:’’جس نے میرے بارے میں جان بوجھ کر جھوٹ باندھا،وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار کرلے‘‘۔
(صحیح بخاری،کتاب الجنائز:۱۲۹۱)
(۴)ان فلموں میں جو لوگ پیغمبر کے مخالفین اور حق کے منکرین کا کردار ادا کریں گے،اور یہ جوکہانی کی ضرورت ہے،وہ ظاہر ہے کہ لات،منات کی قسمیں اُٹھائیں گے،نبی اور رسول کو دیوانہ اور مجنون کہیں گے،ناروا الفاظ کا استعمال ہوگا اور ائمہ سنت کے حسب تصریح یہ سب وہ اعمال ہیں جن کا محض تلفظ بھی کفر ہے،چنانچہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایسے لوگوں کا حکم کیا ہوگا!!
(۵)ان فلموں کا ایک سنگین پہلو یہ ہے کہ ان میں ایسے مرد اور خواتین انبیائ،صحابہ اور صحابیات کا کردار پیش کرتے ہیں،جن کو شاید پوری طرح مسلمان بھی نہ کہا جا سکے،یہ وہ لوگ ہے جو معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کی علامت ہیں،ان کا کردار یہ ہے کہ یہ غیر محرم عورتوں کے ساتھ اختلاط ہی نہیں،ملامست کے جرائم میں بھی مبتلا رہتے ہیں۔ان کی خواتین وہ ہے جو بالکل بے پردہ رہنے والی اور بے حیائی کا مظہر ہوتی ہیں۔وہ محافلِ رقص وسرور کی زینت بنتی اور پوری دنیا کے سامنے اپنے اعضائے جسم کی عریاں نمائش کرتی ہیں۔
کس قدر لغو اور بے ہودہ حرکت ہے کہ اس قماش کے لوگ کوعزت مآب انبیاء اور عفت مآب صحابیات اور عائلاتِ انبیاء کے روپ میں پردۂ سیمیں پر دکھایا جائے۔
یہ انبیاء کی کھلی تذلیل ہے،جس پر ایک ایمان دار کسی طور خاموش نہیں رہ سکتا۔
چنانچہ ارشاد ہے:
ترجمہ:’’تاکہ اے لوگو!تم اللہ اوراس کے رسول پر ایمان لائو اور اس کی تعظیم وتوقیر کرو اور صبح وشام اللہ کی تسبیح کرتے رہو‘‘۔
(الفتح،۴۸:۹)
(۶)اس طرح کی فلموں سے لگاؤ کا یقینی نتیجہ یہ ہے کہ قرآن مجید،جومخزن العلوم ہے،سے تعلق اور تأ لف ختم ہو جاتا ہے۔ایک شخص بجائے اس کے کہ انبیاء علیہم السلام کے واقعات قرآن مجید میں پڑھے اور ان سے درس ونصیحت حاصل کرے،وہ کتاب اللہ کو چھوڑ کرسی ڈیز،ٹیلی ویژن اور سنیما کی طرف متوجہ رہے گا۔جب کہ اسلام جس نفسیات کو پیدا کرناچاہتا ہے،وہ یہ ہے کہ مسلمان تمام تررہنمائی قرآن وسنت سے اخذ کرے اور اس کا دل مسجد میں ہی قرار پائے۔
(۷)وہ فلمیں جنھیں عیسائیوں یا یہودیوں نے تیار کیاہے،انہوں نے ان میں اپنے عقائد کی پوری طرح آمیزش کردی ہے۔حالانکہ قرآن مجید ان عقائد کا رد کرتا ہے۔مثال کے طور پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا سولی کے نتیجے میں فوت ہوجانا۔یہ عقیدہ اسلام کی نگاہ میں بالکل باطل ہے۔
قرآن صراحت سے کہتا ہے:
’’حالاں کہ فی الواقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیا،نہ صلیب پر چڑھایا،بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کردیا‘‘۔
(النسائ:۱۵۷)
(۸)انبیاء کی فلمیں تیار کرنا حکمت بالغہ کے خلاف ہے۔حکمت متقاضی ہے کہ کوئی بھی غیرنبی،نبی کی صورت میں پیش نہ ہو۔جنات ایسی مخلوق ہے کہ اسے انسانی شکل دھارنے کا اختیار دیا گیا ہے۔مگر انبیاء کے حق میں جنوں سے یہ صلاحیت و اختیار سلب کرلیاگیا ہے۔
چنانچہ ارشاد نبوی ہے:
’’جس نے مجھے خواب میں دیکھااس نے حقیقتاً مجھے ہی دیکھا ہے،کیوں کہ شیطان میرا روپ نہیں دھار سکتا‘‘۔(بخاری)
جنوں سے اختیارسلب کرنے کی حکمت یہ ہے کہ پیغمبر کی شخصیت کو بے کار محل سے محفوظ رکھاجائے۔ان فلموں میں اسی حکمت کے خلاف تکلفاًپیغمبر کے روپ میں غیر نبی کو دکھایا جاتا ہے۔
بعض لوگ ان فلموں کے حق میں یہ دلیل رکھتے ہیں کہ ان کی دعوتی مصلحت حاصل کی جاتی ہے۔یہ فلمیں انبیاء اور قرآن کی دعو ت کو پھیلانے کا ذریعہ ہیں۔یہ دلیل نہ صرف یہ کے شرعی لحاظ سے غیر معتبر،بلکہ صورت واقعہ کے خلاف بھی ہے۔تجربات سے ثابت ہے کہ اس نوع کی فلمیں اور ڈرامے دیکھ کر نہ کوئی پابندِ صوم وصلوٰۃہوا ہے اور نہ اخروی کامیابی کی کوئی امنگ اس کے قلب وذہن میں پیدا ہوئی ہے۔یہ نعمتیں صرف پیغمبر ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی کامل پیروی ہی سے حاصل ہوتی ہیں۔دوسرے یہ کہ ہم نے جن مفاسد کی نشان دہی کی ہے،ان کی موجودگی میں ان فلموں کی تھوڑی بہت مصلحت کی بھی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔کیونکہ فقہا کے ہاں یہ قاعدہ مسلم ہے کہ’’ منفعت کو قبول کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ مضرتوں سے بچائو حاصل کرلیا جائے‘‘۔
جب یہ طے ہے کہ اس طرح فلموں کے مزعوعہ فوائد کے بالمقابل ان کے منفی پہلو کہیں زیادہ سنگین اور تباہ کن ہیں تو انہیں مسلم معاشروں میں کسی طور گوارانہیں کیا جا سکتا،بلکہ اس طرح کی لغویات کا سختی بائیکاٹ ہی تعلیمات اسلام اور مقاصد شریعت کا حقیقی تقاضا ہے۔
(ماہ نامہ ’’نور الحبیب‘‘بصیر پور شریف،جون۲۰۱۱۔ء کے شمارے سے ماخوذ،از:سید محمد علی،ص:۸۷تا ۹۲)
عطا ء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی(فارماسسٹ اینڈ جرنلسٹ)
مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
ای میل:[email protected]
موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.