You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
شیخ طریقت، اَمیراَہلسنّت ،بانی ٔ دعوتِ اسلامی، حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادِری رَضَوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ کی ولادت مبارکہ ۲۶ رَمَضانُ المبارَک ۱۳۶۹ھ بمطابق ۱۹۵۰ء میں پاکستان کے مشہور شہر باب المدینہ کراچی میں ہوئی۔
-------------------------------------------------------
والدِ بزرگوار
امیرِ اَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے والدِبُزُرگوارحاجی عبدالرَحمن قادِری علیہ رحمۃ اللہ الھادی باشرع اور پرہیز گارشخص تھے اور سلسلۂ عالیہ قادِریہ میں بیعت تھے۔ امیرِ اَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ عالَمِ شِیْر خوارگی ہی میں تھے کہ آپ کے والد ِ محترم ۱۳۷۰ھ میں سفرِ حج پر روانہ ہوئے ۔ایامِ حج میں منٰی میں سخت لُو چلی جس کی وجہ سے کئی حجاج کرام فوت ہوگئے،ان میں حاجی عبدالرحمن علیہ رحمۃ المنّان بھی شامل تھے جو مختصر علالت کے بعد ۱۴ذوالْحِجَّۃ الحرام ۱۳۷۰ھ کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔اِنَّا لِلّٰہِ واِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !
صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
ایمان افروز خواب
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہکی بڑی ہمشیرہ کا بیان ہے کہ اباجا ن علیہ رحمۃ المنان کے وِصال کے بعد میں نے ایک مرتبہ یہ ایمان افروز خواب دیکھا کہ
’’اباجان علیہ رحمۃ المنان ایک انتہائی نورانی چہرے والے بزرگ کیساتھ تشریف لائے ،میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے ،بیٹی! تم ان کو پہچانتی ہو؟
یہ ہمارے مدنی آقامیٹھے میٹھے مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ہیں ، پھر شہنشاہ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے مبارک لبوں سے رحمت کے پھول جھڑنے لگے اور الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے : تم بہت نصیب دار ہو۔
سنا ہے آپ ہر عاشق کے گھر تشریف لاتے ہیں
میرے گھر میں بھی ہوجائے چراغاں یارسول اللہ
-------------------------------------------------------
حصولِ علمِ دین
امیرِ اَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ دورِ شباب ہی میں علومِ دینیہ کے زیور سے آراستہ ہوچکے تھے۔آپ دامت برکاتہم العالیہ نے حصولِ علم کے ذرائع میں سے کتب بینی اورصحبت ِعلماء کو اختیار کیا ۔اس سلسلے میں آپ نے سب سے زیادہ استفادہ مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی وقارالدین قادِری رَضَوی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے کیااورمسلسل ۲۲ سال آپ علیہ رحمۃ اللہ الوالی کی صحبت بابَرَکت سے مستفیض ہوتے رہے حتیٰ کہ انہوں نے قبلہ امیرِاَہلسنّتدامت برکاتہم العالیہ کو اپنی خلافت واجازت سے بھی نوازا۔
الحمدللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ! کثرتِ مطالعہ ،بحث وتمحیص اوراَکابر علَماء ِکرام سے تَحْقِیق وتَدْقِیق کی وجہ سے آپ دامت برکاتہم العالیہ کو مسائلِ شَرْعیہ اورتصوّف واَخلاق پر دسترس ہے ۔
صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی شہرۂ آفاق تالیف ’’بہارِ شریعت‘‘ اورامامِ اہلِسنّت ،مجددِ دین وملت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن کے فتاویٰ کا عظیم الشان مجموعہ ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ عموماً آپ دامت برکاتہم العالیہ کے زیرِ مطالعہ رہتے ہیں۔
حجۃُ الاسلام امام محمدغزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی کی کتب بالخصوص ’’احیاء العلوم‘‘ کی بہت تحسین فرماتے ہیں اوراپنے مُتَوَسِّلین کوبھی پڑھنے کی تلقین فرماتے رہتے ہیں ، ان کے علاوہ دیگر اکابرین دامت فیوضہم کی کتب کا چیدہ چیدہ مطالعہ بھی آپ کے معمولات میں شامل ہے ۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
-------------------------------------------------------
یادگارِ اسلاف
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ خوفِ خداعَزَّوَجَلَّ وعشق رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰٰلہٖ وسلم،جذبۂ اتباع ِقرآن وسنّت ،جذبہ احیائِ سنّت،زہدوتقویٰ، عفو ودرگزر، صبروشکر، عاجزی وانکساری،سادگی ،اخلاص، حسنِ اخلاق،جود وسخا، دنیاسے بے رغبتی، حفاظتِ ایمان کی فکر ، فروغ ِعلم دین ،خیر خواہیٔ مسلمین جیسی صفات میں یادگارِ اسلاف ہیں۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
-------------------------------------------------------
عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
سرکارِ ابد قرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے بھرپور محبت کا نتیجہ ہے کہ امیرِ اہلِسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی زندگی سنّتِ مصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے سانچے میں ڈھلی ہوئی نظر آتی ہے۔آپ دامت برکاتہم العالیہ کا عاشقِ رسول ہونا ہر خاص وعام پر اتنا ظاہر وباہِر ہے کہ آپ کو عاشقِ مدینہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کو بار ہا یادِ مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اور فراق طیبہ میں آنسوبہاتے دیکھا گیا ہے۔ اجتماع ِ ذکرونعت میں تو آپ کی رقّت کا بیان کرنے سے قلم قاصر ہے۔ کبھی کبھی آپ یادِ مصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میں اس قدردیوانہ وار تڑپتے اور روتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو رحم آنے لگتا ہے اور وہ بھی رونے لگتے ہیں۔
سرکارکے قدموں کے نشاں ڈھونڈرہا ہے
جو اشک مری آنکھ کی پُتلی سے گِرا ہے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
-------------------------------------------------------
عقیدتِ اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
امیرِ ا َہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ اپنے رسالے سیِّدی قطبِ مدینہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں تَحریر فرماتے ہیں :
’’الحمدللّٰہ عَزَّوَجَلَّ میں بچپن ہی سے امامِ اَہلسنّت، عظیم ُالبَرَکت، پروانۂ شمعِ رسالت ، مجدّد دین و ملت مولیٰنا شا ہ اَحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے متعارف ہوچکا تھا ۔پھر جُوں جُوں شُعور آتا گیا اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ الرحمن کی محبت دل میں گھر کرتی چلی گئی ۔میں بِلاَ خوفِ تردید ،کہتا ہوں کہ ربُّ العُلیٰ کی پہچان، میٹھے میٹھے مصطفی صَلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ذریعے ہوئی ۔ تو مجھے میٹھے میٹھے مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پہچان امام اَحمد رضا علیہ رحمۃ الرحمن کے سبب نصیب ہوئی ۔‘‘
اعلیٰ حضرت سے ہمیں تو پیار ہے
ان شآء اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنا بیڑا پارہے
اسی عقیدت کا صدقہ ہے کہ آپ دامت برکاتہم العالیہ نے اپنی زندگی کا پہلا مدنی رسالہ بھی اعلی حضرت علیہ رحمۃ الرحمن سے متعلق لکھا جس کا نام
’’تذکرۂ امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ‘‘ ہے ۔
آپ دامت برکاتہم العالیہ ہی کا شعر ہے :
تُونے باطل کو مٹایا اے امام احمد رضا
دین کا ڈنکا بجایا اے امام احمد رضا
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
-------------------------------------------------------
بیعت وارادت
امامِ اہلِسنّت مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن سے بے حد عقیدت کی بنا پر امیرِ اَہلسنّتدامت برکاتہم العالیہ کوآپ علیہ رحمۃ الرحمن کے سلسلے میں داخل ہونے کا شوق پیدا ہوا ۔جیسا کہ امیرِ اَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ خود لکھتے ہیں :
’’(مرید ہونے کے لئے) ایک ہی ’’ہستی‘‘ مرکز توجہ بنی ،گومشائخِ اہل ِسنت کی کمی تھی نہ ہے مگر
؎ پسند اپنی اپنی خیال اپنا اپنا
اس مقدس ہستی کا دامن تھام کر ایک ہی واسطے سے اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ الرحمن سے نسبت ہوجاتی تھی اور اس ’’ہستی‘‘ میں ایک کشش یہ بھی تھی کہ براہِ راست گنبدِ خضرا کا سایہ اُس پر پڑ رہا تھا۔اس ’’مقدس ہستی‘‘ سے میری مراد حضرت شَیخُ الفضیلت آفتابِ رَضَویت ضیائُ الْمِلَّت، مُقْتَدائے اَہلسنّت، مُرید و خلیفہ ٔ اعلیٰ حضرت،پیرِ
طریقت، رَہبرِ شَرِیْعَت ، شَیخُ العَرَب و العَجَم، میزبانِ مہمانانِ مدینہ ، قطبِ مدینہ ، حضرت علامہ مولٰینا ضیاء الدین اَحمد مَدَنی قادِری رَضَوی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی ذات گرامی (ہے) ۔
ضیاء پیر ومرشد مِرے رہنما ہیں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
سُرورِ دل وجاں مِرے دل رُبا ہیں
مُنوَّر کریں قلبِ عطّارؔ کو بھی
شہا! آپ دین مبیں کی ضِیا ہیں
-------------------------------------------------------
امیرِ اہلِسنّت مد ظلہ العالی کا تاریخی کارنامہ
{تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کا قیام }
اس پُر فِتن دور میں کہ جب دنیا بھر میں گناہوں کی یلغار،ذرائع ابلاغ میں فحاشی کی بھر مار اور فیشن پرستی کی پھٹکار مسلمانوں کی اکثریت کو بے عمل بناچکی تھی۔قبلہ شیخِ طریقت ، امیر اہلسنت، بانیٔ دعوتِ اسلامی ، حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادِری رَضَوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ نے نیکی کی دعوت عام کرنے کی ذمہ داری مَحسوس کرتے ہوئے ایک ایک اسلامی بھائی پر انفرادی کوشش کر کے مسلمانوں کویہ ذہن دینا شروع کیا کہ ’’مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے ۔ ‘‘یہاں تک کہ آپ نے ۱۴۰۱ ھ میں ’’دعوتِ اسلامی‘‘ جیسی عظیم اورعالمگیر تحریک کے مَدَنی کام کا آغاز فرما دیا۔الحمدللّٰہ عَزَّوَجَلَّ یہ آپ کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ مختصر سے عرصے میں دعوتِ اسلامی کا پیغام (تادم تحریر)دنیا کے66 ممالک میں پہنچ چکا ہے اور لاکھوں عاشقانِ رسول نیکی کی دعوت کو عام کرنے میں مصروف ہیں ، مختلف ممالک میں کُفار بھیمُبَلِّغینِ دعوت ِ اسلامی کے ہاتھوں مُشَرَّف بہ اسلام ہوتے رَہتے ہیں۔ آپ دامت برکاتہم العالیہکی جہدِمسلسل نے لاکھوں مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کی زندگیوں میں مَدَنی انقلاب برپا کردیاجس کی بدولت وہ فرائض وواجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ سر پر سبز سبز عمامے کے تاج اور چہرے پر سنت کے مطابق داڑھی بھی سجالیتے ہیں۔
امیرِ اہلِسنّتدامت برکاتہم العالیہ کے منفرد اور تاریخی کام کا بیّن ثُبوت یہ ہے کہ امتِ محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو جن شعبوں کی حاجت تھی ،آپ ان شعبوں کو قائم کرنے میں مصروف ہو گئے اور آج الحمدللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ان میں سے کئی شعبہ جات میں کام شروع ہوچکا ہے، مَثَلاًمساجد کی تعمیرات کے لئے’’خدام ُالمساجد‘‘ ،حفظ و ناظرہ کے لئے’’مدرَسۃ المدینہ‘‘ بالِغان کی تعلیمِ قرآن کے لئے ، ’’مدرَسۃُ المدینہ برائے بالِغان‘‘،شرعی مسائل میں رَہنمائی کے لئے ’’ دار ُالاِفتائ‘‘ ،علماء کی تیاری کے لئے ’’جامعۃُ المدینہ‘‘ ، تربیت ِ اِفتاء کے لئے’’ تَخَصُّصْ ِفی الفِقہ‘‘ اور امّت کو درپیش جدید مسائل کے حل کے لئے’’ مجلسِ تحقیقاتِ شرعیہ ‘‘پیغامِ اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحْمَۃُ ربِّ الْعِزَّتکو عام کرنے کے لئے ’’مجلسِ المدینۃُ العِلْمِیّۃ‘‘ ، تصنیفات وتالیفات کو شرعِی اَغلاط وغیرہ سے مَحفوظ رکھنے کے لئے’’مجلسِ تفتیشِ کتب و رَسائل ‘‘، روحانی علاج کے لئے’’ مجلسِ مکتوبات و تعویذاتِ عطاریہ‘‘،اسلامی بہنوں کو باحیا بنانے کے لئے ان کے ’’ہفتہ وار اجتماعات و دیگر مَدَنی کام‘‘ ،مسلمانوں کو باعمل بنانے کے لئے ’’مَدَنی انعامات کا تحفہ‘‘ اور دنیا بھر کے لوگوں کی اصلاح کی کو شش کے لئے دنیا کے کئی ممالک میں ’’مَدَنی قافلوں اور ہفتہ وار اجتماعات ‘‘کا مَدَنی جال بچھادیا ، ’’گونگے بہرے، نابینا اور جیلوں میں قیداسلامی بھائیوں کی اصلاح‘‘ کے لئے مجالس قائم کر دیں ،’’مختلف سطح کی مشاورتیں ‘‘ اور اس طرح سنتوں کی خدمت کے کم و بیش 30شعبہ جات قائم فرما نے کے بعد آپ دامَتْ بَرَکاتُہُمُُ الْعالیہ نے سارا نظام ’’مرکزی مجلسِ شوریٰ ‘‘ کے سِپُردکر دیااور اب ان کی کارکردگی پر بھی نظر رکھتے اور ضَرورتاً اصلاح کے مَدَنی پھولوں سے بھی نوازتے رہتے ہیں۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
---------------------------------------------
آپ کے مرید ین
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّآپ دامت برکاتہم العالیہ کے کردارِ سنّت شعار سے متأثر ہوکر کروڑوں مسلمان آپ دامت برکاتہم العالیہ کے ہاتھوں بیْعَتْ ہوکر حضور سیدنا غوثِ اعظم دستگیر ،پیرانِ پیر ،قطبِ ربّانی شَیخ عبد القادرجیلانی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کے دامنِ کرم سے وابستہ ہوچکے ہیں۔آپ دامت برکاتہم العالیہ کے تخلص عطّار کی نسبت سے آپ کے مُریدین اپنے نام کے ساتھ عطّاری لکھتے اور بولتے ہیں۔
ہیں شَرِیْعَت اور طریقت کی حسیں تصویر جو
زُہد و تقویٰ کے نظّارے حضرتِ عطار ہیں
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
---------------------------------------------
علمائے اہلسنّت سے محبت
اَمیرِ اَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ عُلَمائے اہلسنّت دامت فیوضہم سے بے حد عقیدت و محبت رکھتے ہیں اور نہ صرف خود انکی تعظیم کرتے ہیں بلکہ اگر کوئی آپ دامت برکاتہم العالیہ کے سامنے عُلَمائے اَہلسنّت دامت فیوضہم کے بارے میں کوئی نازیبا کلِمہ کہہ دے تو اس پَرسخت ناراض ہوتے ہیں۔ ایک جگہ تَحریرفرماتے ہیں کہ’’ اسلام میں عُلَمائِ حق کی بَہُت زیادہ اَہمِیَّت ہے اور وہ علْمِ دین کے باعِث عوام سے افضل ہوتے ہیں۔ غیر عالم کے مقابلے میں ان کو عبادت کا ثواب بھی زیادہ ملتا ہے۔‘‘ چُنانچِہ حضرتِ محمد بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مَروی ہے : ’’عالم کی دو رَکْعَت غیرِ عالم کی ستّر رَکْعَتْ سے افضل ہے۔‘‘
(کنزالعُمّال،ج ۱۰ ص ۶۷ ،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
لہٰذا دعوتِ اسلامی کے تمام وابَستگان بلکہ ہر مسلمان کے لئے ضَروری ہے کہ وہ عُلَمائے اہلسنّت سے ہر گز نہ ٹکرائیں ، ان کے ادب و احِترام میں کوتاہی نہ کریں ، عُلَمائے اہلسنّت کی تَحقیر سے قَطْعاً گُرَیز کریں ، بِلا اجازتِ شرعی ان کے کردار اور عمل پر تنقید کرکے غیبت کا گناہِ کبیرہ، حرام اور جھنَّم میں لے جانے والاکام نہ کریں ، حضرتِ سیِّدُنا ابوالحَفص الکبیر علیہ رحمۃُ القدیر فرماتے ہیں :’’جس نے کسی عالِم کی غیبت کی تو قِیامت کے روز اُس کے چہرے پر لکھا ہوگا، یہ اللہ کی رَحْمت سے مایوس ہے۔‘‘
(مُکاشَفَۃُ الْقُلُوْب ،ص ۷۱،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ایک مکتوب میں لکھتے ہیں :’’علماء کو ہماری نہیں ،ہمیں علماء دامت فیوضھم کی ضرورت ہے ،یہ مَدَنی پھول ہر دعوتِ اسلامی والے کی نس نس میں رچ بس جائے۔‘‘ ایک مرتبہ فرمایا: ’’علماء کے قدموں سے ہٹے تو بھٹک جاؤ گے۔‘‘
مجھ کو اے عطّار سُنّی عالموں سے پیار ہے
ان شآء اللہ عَزَّوَجَلَّ دوجہاں میں اپنا بیڑا پارہے
الحمدللّٰہ عَزَّوَجَلَّ علمائے اہلِسنّت دامت فیوضہم بھی آپ کی مَدَنی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کا اظہار بھی فرماتے رہتے ہیں۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
---------------------------------------------
آپ کے پُرتاثیر بیا نات
نیکی کی دعوت دینے کا ایک مؤثر ذریعہ بیان بھی ہے۔الحمدللّٰہ عَزَّوَجَلَّ امیرِ اہلِسنّت دامت برکاتہم العالیہبھی ان علماء میں سے ہیں جن کے بیانات سننے والوں پرجادو کی طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ مُنجیات (یعنی نجات دلانے والی چیزوں )مَثَلاً صبْر ، شُکْر ، تَوَکُّل، قناعَت اورخوف ورِجا وغیرہ کی تعریفات وتفصیلات اورمہلِکات(یعنی ہلاکت میں ڈالنے والی چیزوں )مَثَلاً جھوٹ، غیبت، بغض، کینہ اورغفلت وغیرہ کے اسباب وعلاج آسان وسہل طریقے سے بیان کرنا آپ دامت برکاتہم العالیہ کا خاصہ ہے ۔آپ کے سنّتوں بھرے اِصلاحی بیانات کوسننے والوں کی محویّت کا عالم قابل ِ دید ہوتا ہے ۔ تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے سنتوں بھرے بین الاقوامی اور صوبائی سطح کے اجتماعات میں بیک وقت لاکھوں مسلمان آپ کے بیان سے مستفیض ہوتے ہیں ، بذریعہ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ ‘بیان سننے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آپ کے بیانات بذریعہکیسٹ گھروں ،دکانوں ، مساجد،جامعات وغیرہ میں بھی نہایت شوق سے سنے جاتے ہیں۔ بیانات کی ان کیسیٹوں ، سی ڈیز اور وی سی ڈیز کو مکتبۃ المدینہ شائع کرتا ہے ۔ آپ کا اندازِبیان بے حد سادہ اور عام فہم اورطریقہ تفہیم ایسا ہمدردانہ ہوتا ہے کہ سننے والے کے دل میں تاثیر کا تیر بن کر پیوست ہوجاتا ہے ۔ لاکھوں مسلمان آپ کے بیانات کی برکت سے تائب ہوکر راہِ راست پر آچکے ہیں۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
---------------------------------------------
آپ کی تالیفات
الحمدللّٰہ عَزَّوَجَلَّ امیرِ اہلِسنّت دامت برکاتہم العالیہ صاحب ِ قلم عالمِ دین ہیں۔آپ دامت برکاتہم العالیہ کوصفِّ مصنفین میں امتیازی حیثیت حاصل ہے ۔ جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کا حق ادا کردیا یہی وجہ ہے کہ عوام وخواص دونوں آپ دامت برکاتہم العالیہکی تحریروں کے شیدائی ہیں اور آپ دامت برکاتہم العالیہ کی کتب ورسائل کو نہ صرف خود پڑھتے ہیں بلکہ دیگر مسلمانوں کو مطالعے کی ترغیب دلانے کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں خرید کر مفت تقسیم بھی کرتے ہیں۔ آپ کی عظیم تالیف ’’فیضانِ سنت ‘‘(جلد اول) پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، اس کے علاوہ بھی درجنوں موضوعات پر آپ کی کتب ورسائل موجود ہیں۔ اللھُمَّ زِدْ فَزِدْ
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
---------------------------------------------
امیرِ اہلسنّت کی شاعری
امیرِاَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ شاعری بھی فرماتے ہیں مگر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرح امیرِاَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کا سرمایہ شاعری بھی صرف نعت و منقبت اور مناجات وغیرہ پر مشتمل ہے۔جو اسلامی بھائی امیرِاَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی شب و روز کی مصروفیات سے واقف ہیں وہ حیرت زدہ ہیں کہ آپ دامت برکاتہم العالیہ کو شعر کہنے کا موقع کیسے مل جاتا ہے ؟ پھر آپ دامت برکاتہم العالیہ دیگر ارباب سخن کی طرح ہر وقت شاعری کیلئے مصروف بھی نہیں رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جب پیارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی یاد تڑپاتی اور سوزِ عشق آپ کو بے تاب کرتا ہے توآپ نعتیہ اشعارومناجات لکھتے ہیں۔ شیخ طریقت دامت برکاتہم العالیہ نے حمد ونعت کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین اور بزرگان دین رحمھم اللہ کی شان میں متعدد منقبتیں اور مدحیہ قصائد بھی قلم بند فرمائے ہیں ،تادم تحریرآپ دامت برکاتہم العالیہکے226 کلام شمار میں آئے ہیں۔ امیرِ اَہلسنّتدامت برکاتہم العالیہکی شاعری میں ایک انفرادی خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ کی شاعری میں نیکی کی دعوت کی تڑپ اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ نمایاں طور پر پایا جاتا ہے ۔ چنانچہ آپ دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں :
شہاایساجذبہ پاؤں کہ میں خوب سیکھ جاؤں
تری سنتیں سکھانا مدنی مدینے والےﷺ
ملے سنتوں کاجذبہ مرے بھائی چھوڑیں مولیٰ
سبھی داڑھیاں منڈانامدنی مدینے والےﷺ
مِری جس قدرہیں بہنیں سبھی کاش برقع پہنیں
ہوکرم شہِ زمانہ مدنی مدینے والےﷺ
اللہ تعالیٰ ہمیں امیرِ اہلِسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سنّتوں کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
اللہ عَزّوَجَلَّ کی اِن پر رحمت ہو اور اِن کے صد قے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
---------------------------------------------
{امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی کرامات}
{1}پیدائشی نابینا کی آنکھیں روشن ہو گئیں
صوبہ پنجاب کے شہر گلزارِ طیبہ(سرگودھا) کے مبلغِ دعوتِ اسلامی کے حلفیہ بیان کا خُلاصہ ہے کہ غالباً 1995ء کی بات ہے مجھے یہ خوشخبری ملی کہ (واہ کینٹ) میں امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ کا سنتوں بھرا بیان ہے ۔چنانچہ میں نے انفرادی کوشش کے ذریعے عاشقانِ رسول کا ایک مَدَنی قافِلہ تیار کیا کہ سفر کے اختتام پر سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی سعادت پائیں گے ۔ شرکاء میں میرے بہنوئی بھی شامل تھے جو کرامات اولیاء کے منکرین کی صحبت میں بیٹھنے کے باعث عقائد کے معاملے میں تَذَبْذُب کا شکار تھے۔
اسی دوران ایک پیدائشی نابینا حافظ صاحب تشریف لے آئے جو کسی اور پیر صاحب سے نقشبندی سلسلے میں مُرید تھے اور امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ سے طالب تھے اور آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہسے بے انتہا محبت کرتے تھے۔وہ بھی مَدَنی قافلے میں سفر کیلئے اصرار کرنے لگے۔ انہیں سمجھا یا گیا کہ آپ نابینا ہیں ،3 دن سفر میں کس طرح رہ سکیں گے؟ مگر وہ بضد رہے حتیٰ کہ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے ،وہ کہنے لگے، کہ زندگی میں کم از کم ایک بار اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس ولی یعنی امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہسے ملنے کی ترکیب بنادیں۔ان کا شوق و جذبہ دیکھ کر آخر کار انہیں بھی ساتھ لے لیا گیا۔
3 دن مَدَنی قافلے میں سفر کے بعدجب ہمارا مَدَنی قافِلہ اجتماع گاہ میں پہنچا تو لوگوں کی تعداد اس قدر کثیر تھی کہ منچ(اسٹیج)نظر نہیں آرہا تھا۔امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ کا بیان جاری تھا ۔ اچانک دورانِ بیان آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ نے شرکاء اجتماع سے ارشاد فرمایا! ’’ابھی بارش ہوگی مگر معمولی ہوگی ،لہٰذا کوئی بھی فکر مند نہ ہو۔‘‘ یہ سن کر میری نظر بے ساختہ آسمان کی طرف اٹھی مگر وہاں بارش کے قطعاً کوئی آثار نہ تھے اورمطلع بالکل صاف تھا۔مگر حیرت انگیز طور پربیان کے بعد دورانِ دعا اچانک ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلنا شروع ہوئی اور ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی۔ ایک ولیِ کامل کی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ کی تائید میں ہونے والی بارش نے عقیدت کے پھولوں کو مزید مَہکا دیا۔
اجتماع کے اختتام پر جب ہم گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوئے تو راستے میں خوش قسمتی سے امیرِاَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ کی گاڑی آتی دکھائی دی۔بس پھر کیا تھا، اسلامی بھائی گاڑی سے اتر کرامیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ کی کار کے گرد جمع ہوگئے ۔ امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہنے کار کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے سلام ارشاد فرمایااورہماری خیریت دریافت فرمائی۔ اجتماع چونکہ بہت کامیاب ہوا تھا ، لہٰذاآپ بہت خوش تھے۔ میں نے اور دیگر اسلامی بھائیوں نے امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ کی دست بوسی کی سعادت حاصل کی۔ میرے بہنوئی بھی قریب کھڑے تمام منظر دیکھ رہے تھے مگر انہوں نے امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ سے ملاقات نہیں کی اور نہ ہی کسی عقیدت کا اظہار کیا۔اتنے میں پیدائشی نابینا اسلامی بھائی بھی کسی طرح اپنی گاڑی سے اتر کر گرتے پڑتے آپہنچے اور امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ کی کار کے اگلے حصے پرہاتھ مارمار کرآپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ کی تو جہ چاہنے لگے۔ کسی نے امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ کو اشارے سے عرْض کی کہ یہ مادرزاد نابینا ہیں ان پر دم کردیں اور دعا بھی فرمادیں۔امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ نے جُھک کر شیشے میں سے اس مادر زاد نابینا کے چہرے پر اپنی نگاہ ولایت ڈالی اور سامنے رکھے بیگ میں سے ٹارچ نکال کر اسکی روشنی اُس مادر زاد نابینا کے چہرے پر ڈالتے ہوئے جیسے ہی دَم کرنے کے انداز میں پھونک ماری تواُس مادر زاد نابینا نے ایکدم جُھر جُھری سی لی اور اسکی آنکھیں روشن ہوگئیں۔
وہ اسلامی بھائی اچانک آنکھیں روشن ہوجانے پر عجیب کیفیت و دیوانگی کے عالم میں چِلّانے لگے کہ مجھے نظر آرہا ہے ، میری آنکھیں روشن ہوگئیں ، مجھے نظر آرہا ہے۔یہ کہتے ہوئے وہ امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ کی جانب بڑھے اور روتے ہوئے آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ کے قدموں میں گر پڑے۔ یہ ایسا ناقابلِ یقین منظر تھا کہ وہاں موجود 35 کے قریب چَشْم دید گواہ دَم بَخود رہ گئے ۔ رات کا آخری پہر تھا ۔ لوگوں پرکچھ دیر تو سکتہ طاری رہاپھر جب حواس بحال ہوئے تو ان کی آنکھیں بھی زمانے کے ولی کی کُھلی کرامت دیکھ کرجذباتِ تاثر سے بھیگ گئیں۔ پیدائشی نابینا جن کی اب آنکھیں روشن ہوچکی تھیں اُن کی حالت قا بلِ دید تھی ، وہ آنکھوں کو روشن پا کر پھولے نہیں سما رہے تھے اور امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ پر فِدا ہوئے جارہے تھے۔آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ نے اسے سینے سے لگا کر پیٹھ تھپکتے ہوئے فرمایا : بیٹا اللہ عَزَّوَجَلَّ شفاء دینے والا ہے ۔
میرے بہنوئی بھی(جو کرامات اولیاء کے منکرین کی صحبت میں رہے تھے ) یہ ایمان افروز کرامت دیکھ کر اپنے جذبات قابو میں نہ رکھ سکے اورروتے ہوئے آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ کے قدموں میں گرپڑے اور بدعقیدگی اور سابقہ گناہوں سے توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ سنّت کے مطابق داڑھی شریف سجانے کی نیت بھی کرلی اور امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ سے مرید ہوکر سلسلہ عالیہ قادِریہ رَضَویہ عطّاریہ میں داخل بھی ہوگئے۔
گویاکہ امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ نے ایک طرف اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ و صلّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عطا سے ظاہری آنکھوں کو روشن فرمایا تو دوسری طرف ایک شخص کو راہِ حق کی روشنی عطا فرمادی۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ میرے بہنوئی کی زندگی میں ایسا مَدَنی انقِلاب برپا ہوا کہ گھر آکرنہ صرف خود باجماعت نماز پڑھنے لگے بلکہ دوسروں کوبھی تلقین کرنے لگے۔ گھر سے T.V اور. V.C.Rنکال باہر کیا اور دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہوکر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچا نے لگے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
{2}سبز عمامے والے بزرگ
بابُ المدینہ (کراچی) کے علاقہ اورنگی ٹاؤن کے مقیم اسلامی بھائی کے بیان کا لبّ لباب ہے : ہماری خوش نصیبی کہ مجھ سمیت تمام گھر والے دعوتِ اسلامی کے سنّتوں بھرے مَدَنی ماحول سے وابستہ اور شیخ ِطریقت امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہکے مُرید ہیں۔صفر المظفر ۱۴۲۹ھ بمطابق فروری 2008ء میں مجھے عاشقانِ رسول کے ساتھ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافلے میں سفر کی سعادت ملی ۔اسی دوران میں نے 63دن کا تربیتی کورس کرنے کی نیت بھی کی اور نام بھی لکھوا دیا ۔ اسی طرح کی اچھی اچھی نیّتیں کرنے کے بعد جب میں گھر پہنچا تو میرے بچوں کی امّی نے بتایا کہ کل شام دونوں بیٹے گھر کے باہر کھیلتے کھیلتے کہیں نکل گئے ۔کافی تلاش کیا مگر نہ ملے۔ صدمے سے میرابُرا حال تھا۔ دل میں طرح طرح کے وسوسے آرہے تھے ۔ میں رونے لگ گئی ۔اتنے میں دونوں مَدَنی مُنّے گھر میں داخل ہوئے ،انہیں دیکھ کر میری جان میں جان آگئی۔وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے ۔جب ان کی حالت ذرا سنبھلی تو بتایا کہ ہم باہر کھیل رہے تھے کہ ایک کچرا چُننے والا شخص (جس کے ہاتھ میں بوری تھی ) ہمارے قریب آیا اور آنا ًفاناً کوئی چیز سنگھائی جس سے ہم بے سُدھ ہوکر گر پڑے اس نے جلدی سے ہمیں بوری میں ڈال لیا ۔اس کے بعد ہمیں کسی چیز کا ہوش نہ رہا ۔پھر نہ جانے کتنی دیر بعد جب ہمیں ہوش آیا تو دیکھا کہ ہم بوری سے باہر زمین پر پڑے ہیں اور وہ کچرا چُننے والا ہمارے قریب ہی زمین پر پڑا درد کے مارے کراہ رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے اسے بہت مارا ہو۔ پھر ہماری نظر سبز عمامے والے ایک بُزُرگ پر پڑی جن کے چہرے سے نُور برس رہا تھا ۔ وہ ہمیں تسلی دیتے ہوئے فرمانے لگے :’’ بچو! گھبراؤ مت ،آؤ میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آتا ہوں۔‘‘چنانچہ وہی بزرگ ابھی ہمیں گھر چھوڑ کر گئے ہیں۔ (میری بیوی نے مزید بتایا کہ)میں نے رب تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شُکر ادا کیا اور اس بزرگ کے بارے میں سوچنے لگی کہ ہمارے مُحسن ‘وہ سبز عمامے والے بزرگ نہ جانے کون تھے؟ پھر جب میں نے سونے سے پہلے مکتبۃ المدینہ کی جاری کردہ VCD’’عوامی وسوسے اور امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہکے جوابات‘‘ لگائی تو جیسے ہی شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کا جلوۂ مبارک دکھائی دیاتو دونوں مَدَنی منّے بے ساختہ پُکارنے لگے :امّی! یہی تو وہ بزرگ ہیں جنہوں نے ہمیں اغوا ہونے سے بچایا تھا اور گھر تک چھوڑنے بھی آئے تھے ۔‘‘
اس اسلامی بھائی کا بیان ہے کہ یہ سُن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگا جس نے ہمیں امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ جیسے ولیٔ کامل کے دامن سے وابستہ ہونے کی سعادت عطا فرمائی ۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حساب مغفِرت ہو
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.