You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
مولانا جلال الدین رومی لکھتے ہیں:
ایک شیر ، بھیڑیا اور لومڑی شکار کی طلب میں پہاڑ پر پہنچے ، اور گائے ، بکری ، خرگوش کا شکار کیا ۔
شیرنے بھیڑیے سے کہا:
تو پرانا ہے ، اِنھیں انصاف سےتقسیم کر ، تاکہ تیرا تجربہ معلوم ہوسکے ۔
بھیڑیا کہنے لگا:
بادشاہ سلامت! یہ گائے آپ کے لیے ، کیوں کہ یہ بڑی ہے اور آپ بھی بڑے ہیں ، شہ زور ہیں ۔
بکری درمیانی ہے ( میں بھی درمیانہ ہوں ) اس لیے یہ میری ہوئی ، اورخرگوش لومڑی صاحبہ کا ہوا ( کیوں کہ ان کا قد ہم دونوں سے چھوٹا ہے ) ؛ میرا تو یہی درست فیصلہ ہے!
شیرنے اُس کی کھوسٹ تقسیم دیکھی تو چراغ پا ہوگیا ، کہنے لگا:
شیر گفت ای گرگ چون گفتی بگو
چون که من باشم تو گویی ما و تو
گفت پیش آ ای خری کاو خود بدید
پیشش آمد پنجه زد او را درید
او بھڑیے یہ کیا بکتا ہے ، جب میں موجود ہوں تو میرے تیرے کی کیا بات ؛ او خود پسند گدھے آگے آ ! جب بھیڑیا آگے آیا ، توشیرنے پنجے سے اسے چیرپھاڑ دیا ۔
اس کے بعد لومڑی کی طرف رخ کیا اور کہا ، تُو تقسیم کر !
لومڑی سجدے میں گرگئی اورعرض کی:
یہ موٹی تازی گائے میرے بادشاہ کا ناشتہ ہوگا ، بکری دوپہر کو یخنی کےلیے استعمال فرمائیے گا اورخرگوش شام کے کھانے میں ۔
شیر اس تقسیم پر بہت خوش ہوا اور کہا:
گفت ای روبه تو عدل افروختی
این چنین قسمت ز کی آموختی
از کجا آموختی این ای بزرگ
گفت ای شاه جهان از حال گرگ
تونے انصاف روشن کردیا ؛ اے عقل مند لومڑی! بتا یہ عمدہ تقسیم تو نے کہاں سے سیکھی ہے ؟
عرض کرنے لگی: اے شاہِ جہاں ، بھیڑیے کے انجام سے!
گفت چون در عشق ما گشتی گرو
هر سه را برگیر و بستان و برو
شیر کہنے لگا:
جب تو میرے عشق میں اس طرح گم ہے تو یہ تینوں تیرے ہوئے ، انھیں قبضے میں کر اور چلتی بن !
دیکھیے: مثنوی معنوی ، دفتر اول ، ص 115 ، 116 ، 117 ، ط تھران ، س 1387
امریکہ بہادر اس وقت شیر بنا بیٹھا ہے ، جو ملک بھیڑیے کی طرح حکومتی معاملات تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، انھیں انجام تک پہنچا دیتا ہے ؛ اور جو لومڑی کا کردار ادا کرتے ہے ان پر نوازشات کی بارشیں ہوتی ہیں ۔
اِس خون خوار کو پچھاڑنے کے لیے ، موجودہ سیاسی بھیڑیوں اور لومڑیوں کی نہیں ، سلطان ایوبی جیسےشیروں کی ضرورت ہے !!
لقمان شاہد
11/8/2018 ء
https://www.facebook.com/qari.luqman.92
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.