You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
یقینا وہی اولاد اُخروی طور پر نفع بخش ثابت ہوگی جو نیک وصالح ہو اور یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اولاد کو نیک یا بد بنانے میں والدین کی تربیت کو بڑا دخل ہوتا ہے ۔
ایک مرتبہ ایک مجرم کو تختہ دار پر لٹکایا جانے والا تھا ۔جب اس سے اسکی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ میں اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہوں۔ اس کی یہ خواہش پوری کردی گئی ۔
جب ماں اس کے سامنے آئی تو وہ اپنی ماں کے قریب گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا کان نوچ ڈالا ۔ وہاں پر موجود لوگوں نے اسے سرزنش کی کہ نامعقول ابھی جبکہ تو پھانسی کی سزا پانے والا ہے تونے یہ کیا حرکت کی ہے؟
اس نے جواب دیا کہ مجھے پھانسی کے اس تختے تک پہنچانے والی یہی میری ماں ہے کیونکہ میں بچپن میں کسی کے کچھ پیسے چُرا کر لایا تھا تو اس نے مجھے ڈانٹنے کی بجائے میری حوصلہ افزائی کی اوریوں میں جرائم کی دنیا میں آگے بڑھتا چلاگیا اور انجام کار آج مجھے پھانسی دے دی جائے گی ۔
===============
(ماخوذ از:اولاد بگڑنے کے اسباب:بیان امیراہلِسنت مدظلہ العالی)
اس کے برعکس ماں کی نیک تربیت کی برکت پر مشتمل حکایت بھی ملاحظہ کیجئے:
ايک قافلہ گیلان سے بغداد کی طرف رواں دواں تھا۔جب يہ قافلہ ہمدان شہر سے روانہ ہوا تو جيسے ہی جنگل شروع ہوا ڈاکوؤں کا ايک گروہ نمودار ہوا اور قافلے والوں سے مال واسباب لوٹنا شروع کر ديا ۔اس قافلے ميں ايک نوجوان بھی تھا جس کی عمر 18سال کے لگ بھگ تھی ۔ايک راہزن اس نوجوان کے پاس آيا اور کہنے لگا :
صاحب زادے!تمہارے پاس بھی کچھ ہے ؟۔
نوجوان بولا :
ميرے پاس چالیس دينار ہيں جو کپڑوں ميں سلے ہوئے ہيں ۔
راہزن نے کہا کہ
صاحب زادے! مذاق نہ کرو سچ سچ بتاؤ؟
نوجوان نے بتايا
ميرے پاس واقعی چالیس دينار ہيں يہ ديکھو ميری بغل کے نیچے ديناروں والی تھیلی کپڑوں ميں سلی ہوئی ہے
راہزن نے ديکھا تو حيران رہ گيا اور نوجوان کو اپنے سردار کے پاس لے گيا اور سار اواقعہ بيا ن کيا۔
سردار نے کہا
نوجوان !کيا بات ہے لوگ تو ڈاکوؤں سے اپنی دولت چھپاتے ہيں مگر تم نے سختی کيے بغير اپنی دولت ظاہر کر دی؟
نوجوان نے کہا
ميری ماں نے گھر سے چلتے وقت مجھے نصیحت فرمائی تھی کہ
بيٹا!ہر حال ميں سچ بولنا ۔
بس ميں اپنی والدہ کے ساتھ کيا ہو اوعدہ نبھا رہا ہوں۔
نوجوان کا يہ بيا ن تاثير کاتير بن کر ڈاکوؤں کے سردار کے دل ميں پيوست ہوگيا اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا درياچھلکنے لگا ۔اس کاسويا ہوامقدر جاگ اٹھا ، وہ کہنے لگا
صاحبزادے!تم کس قدر خوش نصیب ہو کہ دولت لٹنے کی پرواہ کيے بغير اپنی والدہ کے ساتھ کيے ہوئے وعدے کو نبھا رہے ہو اور ميں کس قدر ظالم ہوں کہ اپنے خالق ومالک کے ساتھ کيے ہوئے وعدے کو پامال کر رہا ہوں اور مخلوق خدا کا دل دکھا رہا ہوں۔
يہ کہنے کے بعدوہ ساتھيوں سميت سچے دل سے تائب ہو گيا اورلوٹا ہوا سارا مال واپس کر ديا۔
==============
(تاریخ مشائخ قادریہ ،جلد اول ، ص۱۲۱تا۱۲۲:بہجۃ الاسرار ،ذکر طریقہ رضی اللہ عنہ،ص۱۶۸ماخوذاً)
نامساعد حالات اور بگڑی ہوئی اولاد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
موجودہ حالات میں اخلاقی قدروں کی پامالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ نیکیاں کرنابے حد دُشوار اوراِرتکابِ گناہ بہت آسان ہوچکاہے ،مسجدوں کی ویرانی اور سینماگھروں وڈرامہ تھیٹروں کی رونق، دین کا درد رکھنے والوں کوآٹھ آٹھ آنسو رُلاتی ہے، ٹی.وی ، وی سی آر ، ڈش انٹینا ، انٹر نیٹ اور کیبل کاغلط استعمال کرنے والوں نے اپنی آنکھوں سے حیادھو ڈالی ہے، تکمیل ِ ضروریات وحصول ِسہولیات کی جد وجہدنے انسان کو فکرِ آخرت سے یکسرغافل کردیا ہے،
یہی وجہ ہے دنیاوی شان و شوکت اورظاہری آن بان مسلمانوں کے دلوں کو اپناگرویدہ بناچکی ہے
مگر افسوس !اپنی قبر کو گلزارِجنت بنانے کی تمنا دلوں میں گھر نہیں کرتی ۔
ان نامساعد حالات کا ایک بڑا سبب والدین کا اپنی اولاد کی مدنی تربیت سے غافل ہونا بھی ہے کیونکہ فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ بنتا ہے تو جب فرد کی تربیت صحیح خطوط پر نہیں ہوگی تو اس کے مجموعے سے تشکیل پانے والا معاشرہ زبوں حالی سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے ۔
جب والدین کا مقصدِ حیات حصولِ دولت ،آرام طلبی ، وقت گزاری اور عیش کوشی بن جائے تووہ اپنی اولاد کی کیا تربیت کریں گے اور جب تربیتِ اولادسے بے اعتناعی کے اثرات سامنے آتے ہیں تو یہی والدین ہر کس وناکس کے سامنے اپنی اولاد کے بگڑنے کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے والدین کو غورکرنا چاہيے کہ اولاد کو اس حال تک پہنچانے میں ان کاکتنا ہاتھ ہے
کیونکہ انہوں نے اپنے بچے کو ABC بولنا تو سکھایا مگر قرآن پڑھنا نہ سکھایا ،
مغربی تہذیب کے طور طریقے تو سمجھائے مگررسول عربی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم کی سنتّیں نہ سکھائیں ،
جنرل نالج (معلوماتِ عامہ)کی اہمیت پر اس کے سامنے گھنٹوں کلام کیا مگر فرض دینی علوم کے حصول کی رغبت نہ دلائی ،
اس کے دل میں مال کی محبت تو ڈالی مگر عشق ِ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم کی شمع فروزاں نہ کی ،
اسے دنیاوی ناکامیوں کا خوف تو دلایا مگرامتحان قبر وحشر میں ناکامی سے وحشت نہ دلائی ،
اسے ہائے ہیلو کہنا تو سکھایا مگر سلام کرنے کا طریقہ نہ بتایا ۔
ارتکابِ گناہ کی مادر پدر آزادی اور لہوولعب کے طرح طرح کے آلات کا بلاروک ٹوک استعمال ،کیبل ،وی سی آرکی کارستانیاں، رقص وسرود کی محفلوں میں انہماک اوربگڑا ہوا گھریلوماحول ،یہ سب کچھ بچے کی طبیعت میں شیطانیت ونفسانیت کو اتنا قد آور کردیتا ہے کہ اس سے پاکیزہ کردار کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی جیسے گندے نالے میں ڈبکی لگانے والے کے جسم کی طہارت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اولاد کے بگڑنے کا ذ مہ دار کون؟
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
عموماً دیکھا گیا ہے کہ بگڑی ہوئی اولادکے والدین اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر کے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں مگریاد رکھئے اولاد کی تربیت صرف ماں یامحض باپ کی نہیں بلکہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ وَ اَہۡلِیۡکُمْ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ عَلَیۡہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوۡنَ اللہَ مَاۤ اَمَرَہُمْ وَ یَفْعَلُوۡنَ مَا یُؤْمَرُوۡنَ ﴿۶﴾
ترجمہ کنز الايمان:اے ايمان والو اپنی جانوں اوراپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤجس کے ايندھن آدمی اور پتھر ہيں اس پر سخت کرّے(طاقتور)فرشتے مقرر ہيں جو اللہ کاحکم نہيں ٹالتے اورجو انہيں حکم ہو وہی کرتے ہيں ۔(پ ۲۸،تحريم:۶)
جب نبی اکرم ، نورِ مجسّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم نے یہ آیتِ مبارکہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے سامنے تلاوت کی تو وہ یوں عرض گزار ہوئے :
یارسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم! ہم اپنے اہل وعیال کو آتش ِ جہنم سے کس طرح بچا سکتے ہیں ؟
سرکارِ مدینہ ،فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا:
تم اپنے اہل وعیال کو ان چیزوں کاحکم دو جو اللہ عزوجل کو محبوب ہیں اور ان کاموں سے روکوجو رب تعالیٰ کو ناپسندہیں۔
======================
(الدر المنثور للسیوطی ،ج۸،ص۲۲۵)
اورحضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے :
تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
بادشاہ نگران ہے ، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔
آدمی اپنے اہل وعیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل وعیال کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔
عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولادکی نگران ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔
================
(صحیح البخاری،کتاب العتق،باب کراہیۃالتطاول ....الخ،الحدیث ۲۵۵۴،ج۲،ص۱۵۹)
تربیتِ اولاد کی اہمیت
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
اگرہم اسلامی اقدار کے حامل ماحول کے مُتَمَنِّی (یعنی خواہش مند) ہیں تو ہمیں اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی مَدَنی تربیت بھی کرنی ہوگی کیونکہ اگرہم تربیتِ اولاد کی اہم ذمہ داری کو بوجھ تصور کر کے اس سے غفلت برتتے رہے اور بچوں کو ان خطرناک حالات میں آزاد چھوڑ دیا تو نفس وشیطان انہیں اپنا آلہ کار بنا لیں گے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نفسانی خواہشات کی آندھیاں انہیں صحرائے عصیاں (یعنی گناہوں کے صحرا)میں سرگرداں رکھیں گی اوروہ عمرِ عزیز کے چار دن آخرت بنانے کی بجائے دنیا جمع کرنے میں صرف کردیں گے اور یوں گناہوں کا انبار لئے وادیئ موت کے کنارے پہنچ جائیں گے۔
رحمتِ الٰہی عزوجل شامل حال ہوئی تو مرنے سے پہلے توبہ کی توفیق مل جائے گی وگرنہ دنیا سے کفِ افسوس ملتے ہوئے نکلیں گے اور قبر کے گڑھے میں جاسوئیں گے ۔
سوچئے تو سہی کہ جب بچوں کی مدنی تربیت نہیں ہوگی تو وہ معاشرے کا بگاڑ دور کرنے کے لئے کیا کردار ادا کرسکیں گے،جو خود ڈوب رہا ہو وہ دوسروں کو کیا بچائے گا ،جو خود خوابِ غفلت میں ہو وہ دوسروں کو کیا بیدار کریگا ، جو خود پستیوں کی طرف محوِ سفر ہو وہ کسی کو بلندی کا راستہ کیونکر دکھائے گا ۔
سُونا جنگل رات اندھیری ،چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو جاگتے رہیو چوروں کی رَکھوالی ہے
(حدائق بخشش)
صاحبِ اولاد اسلامی بھائیو!
آپ کی اولاد ،آپ کے جگر کاٹکڑا اور اپنی ماں کی آنکھوں کا نور سہی لیکن اس سے پہلے اللہ عزوجل کا بندہ ،نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم کا امّتی اور اسلامی معاشرے کا اہم فرد ہے ۔
اگر آپ کی تربیت اسے اللہ عزوجل کی بندگی ،سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم کی غلامی اور اسلامی معاشرے میں اس کی ذمہ داری نہ سکھا سکی تو اُسے اپنا فرماں بردار بنانے کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیجئے کیونکہ یہ اسلام ہی ہے جو ایک مسلمان کو اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار بننے کی تعلیم دیتا ہے ۔
اس لئے اولاد کی ظاہری زیب وزینت ،اچھی غذا ،اچھے لباس اور دیگر ضروریات کی کفالت کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی وروحانی تربیت کے لئے بھی کمربستہ ہوجائيے۔
کیابیٹا بھی باپ کو مارتا ہے؟
تنبیہ الغافلین میں ہے کہ
سمرقند کے ایک عالم ابوحفص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا:
میرے بیٹے نے مجھے ماراہے اور تکلیف دی ہے۔
انہوں نے حیرانگی سے پوچھا:
کیا کبھی بیٹا بھی باپ کو مارتا ہے ؟
اس نے جواب دیا :
جی ہاں! ایسا ہوا ہے ۔
ابوحفص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دریافت کیا :
کیاتونے اسے علم وادب سکھایا ہے ؟
اس شخص نے نفی میں جواب دیا ۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:
قرآن کریم سکھایا ہے؟
اس نے پھر نفی میں جواب دیا تو آپ نے پوچھا:
پھر وہ کیا کرتا ہے؟
اس نے بتایا:
وہ کھیتی باڑی کرتا ہے۔
ابوحفص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:
کیا تجھے معلوم ہے کہ اس نے تجھے کیوں مارا ہے ؟
اس نے کہا:
نہیں۔
ابوحفص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس پر چوٹ کی:
میرا خیال تو یہ ہے کہ جب صبح کے وقت وہ گدھے پر سوار ہوکر کھیت کی طرف جارہا ہوگا ، بیل اس کے آگے اور کتاّ اس کے پیچھے ہوگا ،قرآن اسے پڑھناآتا نہیں لہٰذا وہ کچھ گنگنا رہا ہوگا ،ایسے میں تم اس کے سامنے آئے ہوگے ۔ اس نے سمجھا ہوگا کہ گائے ہے اور تمہارے سر پر کوئی چیز دے ماری ہوگی ،شکر کرو کہ تمہارا سر نہیں پھوڑ دیا۔
===========================
(تنبیہ الغافلین،باب حقِ الولد علی الوالد ،ص۶۸)
بچوں کی تربیت کب شروع کی جائے؟
والدین کی ایک تعدادہے جو اس انتظار میں رہتی ہے کہ ابھی تو بچہ چھوٹا ہے جو چاہے کرے ،تھوڑا بڑا ہوجائے تو اس کی اخلاقی تربیت شروع کریں گے ۔
ایسے والدین کو چاہيے کہ بچپن ہی سے اولاد کی تربیت پر بھر پور توجہ دیں کیونکہ اس کی زندگی کے ابتدائی سال بقیہ زندگی کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں اوریہ بھی ذہن میں رہے کہ پائیدار عمارت مضبوط بنیاد پر ہی تعمیر کی جاسکتی ہے ۔ جو کچھ بچہ اپنے بچپن میں سیکھتا ہے وہ ساری زندگی اس کے ذہن میں راسخ رہتا ہے کیونکہ بچے کا دماغ مثل ِ موم ہوتا ہے اسے جس سانچے میں ڈھالنا چاہیں ڈھالا جا سکتا ہے ،۔۔۔۔۔۔ بچے کی یاداشت ایک خالی تختی کی مانند ہوتی ہے اس پر جو لکھا جائے گا ساری عمر کے لئے محفوظ ہوجائے گا،۔۔۔۔۔۔
بچے کاذہن خالی کھیت کی مثل ہے اس میں جیسا بیج بوئیں گے اسی معیارکی فصل حاصل ہوگی ۔یہی وجہ ہے کہ اگر اسے بچپن ہی سے سلام کرنے میں پہل کرنے کی عادت ڈالی جائے تو وہ عمر بھر اس عادت کونہیں چھوڑتا ، اگراُ سے سچ بولنے کی عادت ڈالی جائے تو وہ ساری عمر جھوٹ سے بیزاررہتا ہے ، اگراُسے سنّت کے مطابق کھانے پینے ، بیٹھنے، جوتا پہننے ، لباس پہننے ،سر پرعمامہ باندھنے اور بالوں میں کنگھی وغیرہ کرنے کا عادی بنادیا جائے تو وہ نہ صرف خود ان پاکیزہ عادات کو اپنائے رکھتا ہے بلکہ اس کے یہ مدنی اوصاف اس کی صحبت میں رہنے والے دیگر بچوں میں بھی منتقل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
تربیت کرنے والے کو کیسا ہوناچاہے؟
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
اِسلامی خطوط پرتربیتِاولادکا خواب اسی وقت شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے جب اس کے والدین اور گھر کے دیگر افراد قدرِ کفایت علمِ دین کے حامل ہوں بلکہ اس پر عامل بھی ہوں کیونکہ جس کی اپنی نماز دُرُست نہیں وہ کسی کودُرُست نماز پڑھنا کیسے سکھائے گا ، جو خودکھانے پینے، لباس پہننے اور دیگر کاموں کو سنت کے مطابق کرنے کا عادی نہیں وہ اپنی اولاد کو سنتوں کا عامل کس طرح بنائے گا ، جو خود روزے وغیرہ کے مسائل نہیں جانتا وہ اپنی اولاد کو کیا سکھائے گا علیٰ ھذا القیاس ۔
تربیت کرنے والوں کے قول وفعل میں پایا جانے والا تضاد بھی بچے کے ننھے سے ذہن کے لئے بے حدباعث ِ تشویش ہوگا کہ ایک کام یہ خود تو کرتے ہیں مثلاًجھوٹ بولتے ہیں،آپس میں جھگڑتے ہیں مگر مجھے منع کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اپنے بڑوں کی کوئی نصیحت اس کے دل میں گھر نہ کرسکے گی ۔ الغرض تربیتِ اولاد کے لئے والدین کا اپناکردار بھی مثالی ہونا چاہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ گھریلو ماحول کا بھی بچوں کی زندگی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ اگر گھر والے نیک سیرت، شریف اور خوش اخلاق ہوں گے تو ان کے زیرِ سایہ پلنے والے بچے بھی حسنِ اخلاق کے پیکر اور کردار کے غازی ہوں گے اس کے برعکس شرابی ، عیاش اور گالم گلوچ کرنے والوں کے گھر میں پرورش پانے والا بچہ ان کے ناپاک اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا ۔ الغرض بچوں کی تربیت صرف پڑھانے پرموقوف نہیں ہوتی بلکہ مختلف رویّوں ، باتوں اور باہمی تعلقات سے بھی بچوں کی ذہنی تربیت ہوتی ہے۔
چند قابلِ لحاظ اُمور
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
یوں تو انسان کی پوری زندگی ہی قرآن وسنّت کے مطابق ہونی چاہيے مگر چند امور ایسے ہیں جن کا اولادکے وجود میں آنے سے پہلے لحاظ رکھنا بے حد ضروری ہے کیونکہ اولاد کی صَالِحِیَّت(یعنی پرہیز گاری) ان امور سے بھی وابستہ ہوتی ہے ۔
(1) نیک عورت کا انتخاب:
عمدہ سے عمدہ بیج بھی اسی وقت اپنے جوہر دکھا سکتا ہے جب اس کے لئے عمدہ زمین کا انتخاب کیا جائے ۔ ماں بچے کے لئے گویا زمین کی حیثیت رکھتی ہے ،لہٰذا بیوی کے انتخاب کے سلسلے میں مرد کوبہت احتیاط سے کام لینا چاہيے کہ ماں کی اچھی یا بری عادات کل اولاد میں بھی منتقل ہوں گی ۔متعدد احادیث ِ کریمہ میں مرد کو نیک ، صالحہ اور اچھی عادات کی حامل پاک دامن بیوی کا انتخاب کرنے کی تاکیدکی گئی ہے چنانچہ
(۱)حضرت سيدنا ابو ہريرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روايت ہے کہ
تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت، پیکرِ عظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزت،محسنِ انسانیت صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمايا:
کسی عورت سے نکاح کرنے کے ليے چار چيزوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے ،(۱)اس کا مال،
(۲)حسب نسب،
(۳)حسن و جمال اور
(۴)دين۔
پھر فرمایا:
تمہارا ہاتھ خاک آلود ہوتم ديندار عورت کے حصول کی کوشش کرو۔
==============================
(صحيح بخاری،کتاب النکاح،باب الاکفاء فی الدین ،الحدیث ۵۰۹۰،ج۳،ص۴۲۹)
(۲) حضرتِ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ
حبیبِ پروردْگار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختارصلَّی اللہ تعالی علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا:
تقوٰی کے بعد مومن کے لیے نیک بی بی سے بہتر کوئی چیز نہیں
اگر اسے حکم کرتاہے تو وہ اطاعت کرتی ہے
اور اسے دیکھے تو خوش کر دے
اور اس پر قسم کھا بیٹھے تو قسم سچی کر دے
اوراگر وہ کہیں چلا جائے تو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں بھلائی کرے (یعنی خیانت و ضائع نہ کرے)۔
=========================
(سنن ابن ماجہ ،کتاب النکاح ،باب فضل النساء ،الحدیث ۱۸۵۷،ج۲،ص۴۱۴)
(۳)حضرت سيدناعبد اللہ بن عمرورضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ،نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالی علیہ والہٖ وسلم نے ارشاد فرمايا:
بے شک دنيا بہترين استعمال کی چيز ہے ليکن اس کے باوجود نيک اور صالحہ عورت دنيا کے مال و متاع سے بھی افضل و بہترين ہے
=========================
(سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب فضل النساء ،الحدیث ۱۸۵۵،ج ۲،ص۴۱۲)
(۴)حضرت سيدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ روايت فرماتے ہيں کہ
رسول پاک،صاحب لولاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمايا:
عورتوں سے ان کے حسن کی وجہ سے نکاح نہ کرواور نہ ہی ان کے مال کی وجہ سے نکاح کرو،کہيں ایسا نہ ہو کہ ان کا حسن اور مال انہيں سرکشی اور نافرمانی ميں مبتلا کر دے ،
بلکہ ان کی دينداری کی وجہ سے ان کے ساتھ نکاح کرو۔
کيونکہ چپٹی ناک،اور سياہ رنگ والی کنيز دين دارہو تو بہتر ہے ۔
===============================
(سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب تزويج ذات الدين، الحديث ۱۸۵۹ ،ج۲،ص۴۱۵)
(2) اچھی قوم میں نکاح کرے:
نکاح کے سلسلے میں عورت کے اہل ِ خانہ کے طرزِ زندگی کو بھی مدِ نظر رکھنا ضروری ہے
چنانچہ ام المؤمنين حضرت سيدتنا عائشہ صديقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روايت ہے
نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالی علیہ والہٖ وسلم نے ارشاد فرمايا:
اپنے نطفہ کے لئے اچھی جگہ تلاش کروکہ عورتيں اپنے ہی بہن بھائیوں کے مشابہ بچے پيد اکرتی ہيں۔
===============================
(کنز العمال:الکامل فی ضعفاء الرجال ،عیسیٰ بن میمون الجروی ،ج۶،ص۴۲۳)
(3) نکاح کے لئے اچھی اچھی نیّتیں کرے:
حضرت سيدناانس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روايت ہے کہ
ميں نے حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو فرماتے سنا:
جس نے کسی عورت سے اس کی عزت کی وجہ سے نکاح کيا تو اللہ تعالیٰ اس کی ذلت کو بڑھائے گا،
جس نے عورت کے مال و دولت (کے لالچ)کی وجہ سے نکاح کيا، اللہ تعالیٰ اس کی غربت ميں اضافہ کریگا،
جس نے عورت کے حسب نسب(يعنی خاندانی بڑائی)کی بنا پہ نکاح کيا،اللہ تعالیٰ اس کی کمينگی کو بڑھائے گا
اور جس نے صرف اور صرف اس لئے نکاح کيا کہ اپنی نظر کی حفاظت کرے،اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھے،يا صلہ رحمی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے عورت ميں برکت دے گااور عورت کے لئے مرد ميں برکت دے گا۔
(المعجم الاوسط: الحديث۲۳۴۲،ج۲،ص۱۸)
(4) منگنی اور شادی کے موقع پر ناجائز رسومات سے بچے :
ہمارے معاشرے میں منگنی اور شادی کے موقع پرمختلف رسومات ادا کرنے کا بہت زیادہ رواج ہے ۔
پھرہرعلاقے ،ہر قوم اورہر خاندان کی اپنی مخصوص رسوم ہوتی ہیں ۔ چونکہ یہ رسوم محض عرف کی بنیاد پر ادا کی جاتی ہیں اور کوئی بھی انہیں فرض وواجب تصور نہیں کرتا لہٰذا جب تک کسی رسم میں کوئی شرعی قباحت نہ پائی جائے اسے حرام و ناجائز نہیں کہہ سکتے ۔
چنانچہ رسوم کی پابندی اسی حد تک کی جاسکتی ہے کہ کسی فعل ِحرام میں مبتلا نہ ہونا پڑے مگربعض لوگ اس قدر پابندی کرتے ہیں کہ ناجائز فعل کرنا پڑے تو پڑے مگر رسم کا چھوڑنا گوارا نہیں
مثلاً لڑکی جوان ہے اور رسوم ادا کرنے کو روپیہ نہیں تو یہ نہ ہو گا کہ رسوم چھوڑ دیں اور نکاح کر دیں کہ سبکدوش ہو جائیں اور فتنہ کا دروازہ بند ہوبلکہ سُود جیسی لعنت کوگلے لگانے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ والعیاذ باللّہ تعالٰی
====================
(ماخوذ از بہار شریعت،حصہ ہفتم، ص۹۴)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
كثیر رسومات ایسی ہوتی ہیں جوكہ شرعاً نا جائز ہوتی ہیں
مثلاً اس میں مرد و عورت كا بے پردہ اختلاط ہوتا ہے
یا
وہ رسم كسی مسلمان كی دل آزاری پر مشتمل ہوتی ہے,علیٰ ھذا القیاس
لیكن حیاء شرم كو بالائےطاق ركھ كر ان رسومات كوضرور پورا كیا جاتا ہے۔ مثلاً
اكثر گھروں میں رواج ہے كہ شادی كے ایام میں رشتہ دار اور محلے كی عورتیں جمع ہوكر ڈھولك بجاتی اور گیت گاتی ہیں, یہ حرام ہے كہ اولاً ڈھول بجانا ہی حرام پھر عورتوں كا گانا,مزید یہ كہ عورت كی آوازنا محرموں كو پہنچانا اور وہ بھی گانے كی اور وہ بھی عشق و ہجر و وصال كے اشعار یا گیت۔ جو عورتیں اپنے گھروں میں بات كرتے وقت گھر سے باہر آواز جانے كو معیوب جانتی ہیں ایسے موقعوں پر وہ بھی شریك ہوجاتی ہیں گویا ان كے نزدیك گاناكوئی عیب ہی نہیں كتنی ہی دور تك آواز جائے كوئی حرج نہیں نیز ایسے گانے میں جوان كنواری لڑكیاں بھی شریك ہوتی ہیں۔
ایسے اشعار پڑھنا یا سننا كس حد تك ان كے دبے ہوئے جوش كو ابھارے گا اور كیسے كیسے ولولے پیدا كرے گا اور اخلاق و عادات پر اس كا كہاں تك اثر پڑے گا یہ باتیں ایسی نہیں جن كے سمجھانے كی ضرورت ہو یا ثبوت پیش كرنے كی حاجت ہو
========================
(ماخوذ از بہارشریعت,حصہ ہفتم,ص 95)
اسی طرح مہندی کی رسم بھی ہے جس میں نوجوان لڑکیاں زرق برق لباس پہنے خوب بن سنور کر بے پردہ حالت میں بازاروں اور گلیوں میں سے مہندی کے تھال لئے ہوئے گزرتی ہیں اورپھردلہن یادولہاکے گھر جاکر ناچ گانے کی پرائیویٹ محفل سجاتی ہیں اور طرح طرح کے فتنوں کے پیدائش کا ذریعہ بنتی ہیں ۔
اے کاش ! ایسی اسلامی بہنوں کو چادرِ حیاء نصیب ہوجائے اور وہ اس بے ہودہ رسم سے باز آجائیں ۔
اسی پر بس نہیں بلکہ اب تو باقاعدہ فنکشن کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں سازوآلات کے ساتھ گلوکاروں اور گلوکاراؤں سے اسپیکر پرگانے سنے جاتے ہیں اور طوائفوں کا ناچ دیکھا جاتا ہے اورہاتھ پیٹ پیٹ کر تالیوں کی صورت میں انہیں 'داد ' بھی دی جاتی ہے۔
اس قسم کی محافل میں جن فواحش و بدکاریوں اور مخرب اخلاق باتوں کا اجتماع ہوتاہے ان کے بیان کی حاجت نہیں ۔
معاذ اللہ عزوجل ماں باپ ،بیٹا بیٹی،بھائی بہن ایک ساتھ ان خوشیوں میں مگن ہوتے ہیں اور' حیا'دُور کھڑی شرم سے پانی پانی ہو رہی ہوتی ہے۔
ایسی ہی محفلوں کی وجہ سے اکثر نوجوان آوارہ ہو جاتے ہیں اوراپنا دھن دولت برباد کر بیٹھتے ہیں ۔
انہیں طوائف سے محبت اور اپنی زوجہ سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔
منگنی شادی کے وعدہ کا نام ہے ۔
لیکن اس موقع پر بھی بے ہودہ رسموں کا انعقاد ضروری سمجھا جاتا ہے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لڑکا خود اپنے ہاتھوں سے اپنی منگیتر کے ہاتھ میں انگوٹھی پہناتا ہے ۔
مرد کو سر اور داڑھی کے بالوں کے سوا مہندی لگانا ناجائز ہے مگر اکثر دولہے اپنے ہاتھ بلکہ پاؤں کو بھی مہندی سے رنگے ہوئے ہوتے ہیں ۔
=======================
(ماخوذ از بہار شریعت،حصہ ہفتم، ص۹۵)
بینڈ باجے والے بلوائے جاتے ہیں جو بارات کی آمد کے موقع پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ساز وآلات بجانے کے گناہ کمانے کے ساتھ ساتھ سوئے ہوئے مسلمانوں اور مریضوں کو اذیت بھی پہنچاتے ہیں۔
رخصتی کے موقع پر دُودھ پلائی کی رسم ادا کی جاتی ہے جس میں دولہے کو نامحرم خواتین کے مجمع میں بلایا جاتا ہے ۔
اس کے دوست ایسے موقع پر اسے تنہا نہیں چھوڑتے اور اس کے ساتھ ہی تشریف لاتے ہیں۔پھرکوئی نامحرم نوجوان لڑکی اپنی ہمجولیوں کے جھرمٹ میںبڑی محبت سے دولہے کودودھ کا گلاس پیش کرتی ہے اور پھرہلہ گلہ ہوتا ہے اوردولہا کے دوست نامحرم عورتوں کے ساتھ ہنسی مذاق کا شغل کرتے ہیں ، پھر آخر میں دولہے سے دودھ پلائی کا مطالبہ کیاجاتا ہے جوعموماً اس کی حیثیت سے کئی گنا زائدہوتی ہے ایسے موقع پر بے پردگی کے علاوہ بھی بہت تکلیف دہ مناظر دکھائی دیتے ہیں ۔
آتش بازی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے مگر بعض لوگ ان کاموں کا اتنا اہتمام کرتے ہیں کہ یہ نہ ہوں تو گویا شادی ہی نہ ہوئی بلکہ بعض تو اتنے بیباک ہوتے ہیں کہ اگر شادی میں یہ حرام کام نہ ہوں تو اسے غمی اور جنازہ سے تعبیر کرتے ہیں۔
یہ خیال نہیں کرتے کہ ایک تو گناہ اور شریعت کی مخالفت ہے ،دوسرے مال ضائع کرنا، تیسرے تمام تماشائیوں کے گناہ کا یہی سبب ہے اور سب کے مجموعہ کے برابر اس پر گناہ کا بوجھ۔مگرآہ!ایک وقتی خوشی میں یہ سب کچھ کر لیا جاتا ہے ۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر لازم ہے کہ اپنے ہر کام کو شریعت کے موافق کريں
اللہ و رسول عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم کی مخالفت سے بچيں اسی میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔
(ماخوذ از بہار شریعت،حصہ ہفتم، ص۹۵)
(5)نکاح کے مستحبات پر عمل کرے :
مثلاً
(۱) اعلانیہ ہونا
(۲) نکاح سے پہلے خطبہ پڑھنا کوئی سا خطبہ ہو اور بہتر وہ ہے جو حدیث میں وارد ہوا
(۳) مسجد میں ہونا
(۴) جمعہ کے دن
(۵) گواہان عادل کے سامنے
(۶) عورت عمر ،حسب ،مال، عزت میں مرد سے کم ہو اور
(۷) چال چلن اور اخلاق و تقویٰ و جمال میں بیش (یعنی زیادہ)ہو ۔
======================
(الدرالمختار،کتاب النکاح،ج۴،ص۷۵)
(6) اِسراف سے پرہیزکرے :
قراٰن پاک میں ہے :
وَلَا تُسْرِفُوۡا ؕ اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیۡنَ ﴿۱۴۱﴾ۙ
ترجَمہ کنز الایمان : اور بے جانہ خرچو بے شک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔(پ ۸ الانعام ۱۴۱)
مُفسّرِ شہیر حضرتِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ المنّان اِس آیت کے تَحت بے جا خرچ( یعنی اِسراف)کی تفصیل بیان کرتے ہوئے رقم طَراز ہیں ناجائز جگہ پر خرچ کرنا بھی بے جا خرچ ہے اور سارا مال خَیرات کرکے بال بچّوں کو فقیر بنا دینا بھی بے جا خرچ ہے ،ضَرورت سے زِیادہ خرچ بھی بے جا خرچ ہے اِسی لئے اَعضائے وُضو کو (بلا اجازتِ شَرعی) چار بار دھونا اِسراف مانا گیا ہے ۔
==========
(نورُالعرفان، ص۲۳۲)
معلوم ہوا کہ ضرورت سے زیادہ خرچ بھی بے جاخرچ (یعنی اسراف) ہے مگر عام مشاہدہ ہے کہ احتیاط پسندی کی عادت رکھنے والے اسلامی بھائی بھی ایسے موقع پر بے احتیاطی کرجاتے ہیں،مثلاً مہمانوں کی تعداد سے کہیں زیادہ کھانا تیار کروا لیا جاتا ہے جس کے بچ جانے کی صورت میں خراب ہونے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے ۔
(7)تخلیہ میں شرعی حدود کی پاسداری کرے :
جب شوہر اپنی بیوی سے مباشرت کا ارادہ کرے تو شریعت نے اس کے بھی آداب بتائے ہیں ۔
چنانچہ شادی کی پہلی رات شوہر کو چاہيے کہ بیوی کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا پڑھے :
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ خَیْرَ ھَا وَخَیْرَمَاجَبَلْتَھَا عَلَیْہِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَ(مِنْ) شَرِّمَاجَبَلْتَھَا عَلَیْہِ
یعنی : یااللہ عزوجل ! میں تجھ سے اس کی بھلائی چاہتا ہوں اور خاص طور پر جو بھلائی تونے اس کی فطرت میں رکھی ہے اور اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو اس کی فطرت میں ہے ۔
===============
( سنن ابی داؤد،کتاب النکاح،باب فی جامع النکاح،الحدیث ۲۱۶۰،ج۲،ص۳۶۲)
حضرت سيدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روايت ہے،سيد دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمايا
جب تم ميں سے کوئی شخص اپنی بيوی سے جماع کا ارادہ کرے تو يہ دعا پڑھے:
بِسْمِ اللہِ، اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشّيْطٰنَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا
یعنی اللہ کے نام سے،اے اللہ!ہميں شيطان سے محفوظ رکھ اور جو (اولاد)ہميں دے اسے بھی شيطان سے محفوظ رکھ۔پس اگر ان کے لئے کوئی بچہ مقدر ہو گياتو اللہ تعالیٰ اسے ہميشہ شيطان سے محفوظ رکھے گا۔
=================
(صحیح مسلم،کتاب النکاح،باب ما یستحب ان یقولہ عند الجماع،ا لحديث۱۴۳۴،ص۷۵۱)
اس جذباتی موقع پر شرعی احکام پر عمل ہمیں شیطانی پنجوں سے بچا ئے گا اور ہماری نسلوں کی بھی حفاظت ہوگی ۔
وقتِ جماع ایک دوسرے کی شرم گاہ دیکھنے اور زیادہ باتیں کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے ۔
چنانچہ حضرت سيدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روايت ہے ،
رسو ل اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمايا
جب تم ميں سے کوئی اپنی بيوی يا لونڈی سے جماع کرے تو اس کی شرمگاہ کی طرف نہ ديکھے کہ اس سے بچہ کے نابينا ہونے کا انديشہ ہے۔
===================
(الکامل فی ضعفاء الرجال، بقیۃ ابن الولید،ج۲،ص۲۶۵)
حضرت سيدنا قبيصہ بن ذوہيب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں کہ:
جماع کے وقت زيادہ گفتگو نہ کرو کہ اس سے (بچے کے ) گونگا يا توتلا ہونے کا خطرہ ہے۔
===================
(کنز العمال:کتاب النکاح،با ب محظورات المباشرۃ،ج ۱۶،ص۱۵۱، الحديث ۴۴۸۹۳ )
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.