You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
ارکانِ تصوف
مشائخ کرام کے نزدیک تصوف کے چار ارکان ہیں:
(۱) شریعت
(۲) طریقت
(۳) حقیقت
(۴) معرفت
------------------------------
قرآن و سنت کے ظاہری احکام کو ’’شریعت‘‘ کہا جاتا ہے۔
------------------------------
اور ’’طریقت‘‘ ان کے باطن کا نام ہے۔ مثال کے طور پر طہارتِ شرعی یہ ہے کہ بدن کو پاک کرلیا جائے لیکن ’’ طریقت‘‘کی طہارت یہ ہے کہ دل کو تمام برائیوں سے پاک کیا جائے۔
------------------------------
’’شریعت‘‘ کے احکام پر عمل کرنے سے جو اثرات ذہن و قلب پر مکمل طور پر چھا جائیں اور یقین کی دولت حاصل ہو جائے تو اِسے ’’حقیقت‘‘ کہا جاتا ہے۔
------------------------------
’’ معرفت ‘‘سے مراد ہے:اللہ تعالیٰ کی پہچان۔اس کا دوسرا نام ’’عرفان‘‘ ہے۔ جب صوفی پر حقائق کھلتے ہیں تو وہ حق الیقین کی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔یہی عرفان ہے اور یہی معرفت ہے۔
------------------------------
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء قدس سرہ فرماتے ہیں کہ
جب سالک سے کوئی غلَطی ہو جاتی ہے تو ’’معرفت‘‘ سے ’’حقیقت‘‘ کی منزل پر آجاتا ہے۔جب حقیقت کی منزل پر اس سے غلطی ہوتی ہے وہ ’’طریقت‘‘ کی منزل پر آجاتا ہے۔ جب طریقت کی منزل پر اس سے غلطی ہوتی ہے تو’’شریعت‘‘ کی منزل پر آجاتا ہے۔اس لئے ’’شریعت‘‘ کی پابندی ضروری ہے۔
=========
نکات واحد:
اگر یہ سوال کیا جائے : ’’صوفی‘‘ کون ہوتا ہے؟۔۔۔۔
تو اس کا مختصر جواب یہ ہے:
پاکیزہ خیال ، خیر اندیش ، نیک نیت ، اہل دل ، اہل ذوق ، فائدہ بخش اور دعا گو۔۔۔۔۔۔
---------------------
از: صاحبزادہ واحد رضوی صاحب
====================
صوفی انسانیت کا دشمن نہیں بلکہ دوست ہوتا ہے صوفی کو نفرت برے سے نہیں بلکہ برائی سے ہوتی ہے ۔ اگر صوفیا بروں سے نفرت کریں تو کون ہو گا جو بروں کو منزل کی راہنمائی کرےگا-
-----------------------
از:حضرت پیر علاؤ الدین صدیقی نقشبندی دامت برکاتھم العایہ
==================
اعلی حضرت ، امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
حاشا نہ شریعت و طریقت دو راہیں ہیں نہ اولیاء کبھی غیر علماء ہو سکتے ہیں، علامہ مناوی "شرح جامع صغیر " پھر عارف باللہ سیدی عبدالفنی نابلسی "حدیقہ ندیہ" میں فرماتے ہیں: امام مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
علم باطن نہ جانے گا مگر وہ جو علم ظاہر جانتا ہے ،
امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اللہ نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہ بنایا یعنی بنانا چاہا تو پہلے اسے علم دے دیا اسکے بعد ولی کیا۔
----------------------
(فتاوی رضویہ شریف، ج 21 ، ص 530)
===================
اعلی حضرت فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں:
شریعت ، طریقت ، حقیقت معرفت میں باہم اصلا کوئی اختلاف نہیں اس کا مدعی اگر بے سمجھے کہے تو نرا جاہل ہے اور سمجھ کر کہے تو گمراہ ، بد دین۔
شریعت، حضور اقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال ہیں،
اور طریقت ، حضور کے افعال،
اور حقیقت، حضور کے احوال،
اور معرفت ، حضور کے علوم بے مثال.
------------------------
فتاوی رضویہ شریف ، ج 21 ص 460
=======================
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.