You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی اشعری الشافعی علیہ الرحمہ کے بہنوئیشاہ ابوسعید المظفر کوکبری المعروف شاہ اربل علیہ الرحمہ کاجشنِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم.
حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی اشعری الشافعی علیہ الرحمہ کے بہنوئیشاہ ابوسعید المظفر کوکبری المعروف شاہ اربل علیہ الرحمہ کاجشنِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم..................................شاہ ابوسعید المظفر (متوفی 630ہجری) عظیم فاتح سلطان صلاح الدین ایوبی کے بہنوئی تھے%u06D4 سلطان کی حقیقی ہمشیرہ ربیعہ خاتون ملک ابو سعید المظفر کے عقد میں تھیں اور سلطان بادشاہ سے بغایت درجہ محبت رکھتے تھے وہ دونوں خدمتِ اسلام میں ایک دوسرے کے ساتھ دل و جان سے شریک تھےبادشاہ خادمِ اسلام ہونے کے باوصف بہت متقی، پرہیزگار اور فیاض واقع ہوئے تھےبادشاہ کا عظیم دینی و روحانی مقام اور خدمتِ اسلام کی تڑپ دیکھ کر ہی سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی ہمشیرہ ’ حضرت ربیعہ خاتون‘ کی شادی ان سے کی تھی سلطان صلاح الدین ایوبی کے حوالے سے ملک ابو سعید المظفرکا یہ تعارف کرانے کے بعد امام ابن کثیر نے تین چار سطور میں موصوف کے سیرت وکردار، تقویٰ و پرہیزگاری اور دریا دلی پر روشنی ڈالی ہے اور میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے تفصیلات شرح و بسط کے ساتھ رقم کی ہیںانہوں نے اس موضوع پر بالتفصیل لکھا ہے کہ بادشاہ کس جوش و جذبہ اور مسرت و سرور سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریب کا اہتمام کیا کرتا تھا امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ شاہ مظفر ابو سعید کو کبری بن زین الدین علی بن تبکتکین ایک سخی، عظیم سردار اور بزرگ بادشاہ تھا، جس نے اپنے بعد اچھی یادگاریں چھوڑیںاس نے قاسیون کے دامن میں جامع مظفری تعمیر کروائی وہ برزہ کے پانی کو اس کی طرف لانا چاہتا تھا تو معظم نے اسے اس کام سے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ سفوح کے مقام پر مسلمانوں کے قبرستان سے گزرے گاوہ ماہ ربیع الاول میں میلاد مناتا تھا اور عظیم الشان محفلِ میلاد منعقد کرتا تھااس کے ساتھ ساتھ وہ بہادر، دلیر، حملہ آور، جری، دانا، عالم اور عادل بھی تھااللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے اور اسے بلند رتبہ عطا فرمائے شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ نے اس کے لیے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ’’التنویر فی مولد البشیر والنذیر‘‘ رکھاشاہ نے اس تصنیف پر اُسے ایک ہزار دینار انعام دیاس کی حکومت حکومتِ صلاحیہ کے زمانے تک رہی، اس نے عکا کا محاصرہ کیا اور اس سال تک وہ قابلِ تعریف سیرت و کردار اور قابلِ تعریف دل کا آدمی تھاسبط نے بیان کیا ہے کہ مظفر کے دستر خوانِ میلاد پر حاضر ہونے والے ایک شخص کا بیان ہے کہ اس میں پانچ ہزار بھنے ہوئے بکرے، دس ہزار مرغیاں، ایک لاکھ مٹی کے دودھ سے بھرے پیالے اور تیس ہزار مٹھائی کے تھال ہوتے تھےابن کثیر ، البدایہ والنہایہ جلد 9 صفحہ 182.محبی ، خلاصۃ الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر جلد 3 صفحہ 2333.سیوطی ، حسن المقصد فی عمل المولد صفحہ 42-444.سیوطی ، الحاوی للفتاویٰ صفحہ 2005.احمد بن زینی دحلان ، السیرۃ النبویہ جلد 1 صفحہ 53-54اِس کے بعد امام ابن کثیر کی عبارت ملاحظہ فرمائیں : میلاد کے موقع پر اُس کے پاس بڑے بڑے علماء اور صوفیاء حاضر ہوتے تھے، وہ انہیں خلعتیں پہناتا اور عطیات پیش کرتا تھا اور صوفیاء کے لیے ظہر سے عصر تک سماع کراتا تھا اور خود بھی ان کے ساتھ رقص کرتا تھا ہر خاص و عام کے لیے ایک دارِ ضیافت تھا اور وہ حرمین شریفین و دیگر علاقوں کے لیے صدقات دیتا تھا اور ہر سال بہت سے قیدیوں کو فرنگیوں سے چھڑاتا تھاکہتے ہیں کہ اس نے ان کے ہاتھ سے ساٹھ ہزار قیدیوں کو رہا کرایااس کی بیوی ربیعہ خاتون بنت ایوب کہتی ہے کہ اس کے ساتھ میرا نکاح میرے حضرت بھائی صلاح الدین ایوبی اشعری الشافعی علیہ الرحمہ نے کرایا تھااس خاتون کا بیان ہے کہ شاہ کی قمیص پانچ دراہم کے برابر بھی نہ ہوتی تھیپس میں نے اسے اس بارے میں سوال کیا تو وہ کہنے لگے : میرا پانچ درہم کے کپڑے کو پہننا اور باقی کو صدقہ کر دینا اس بات سے بہتر ہے کہ میں قیمتی کپڑا پہنوں اور فقراء اور مساکین کو چھوڑ دوں اور وہ ہر سال محفل میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تین لاکھ دینار اور مہمان نوازی پر ایک لاکھ دینار اور حرمین شریفین اور حجاز کے راستے میں پانی پر خفیہ صدقات کے علاوہ تیس ہزار دینار خرچ کرتا تھا، رحمہ اﷲ تعالیاس کی وفات قلعہ اِربل میں ہوئی اور اس نے وصیت کی کہ اسے مکہ لے جایا جائے، مگر ایسا نہ ہو سکا اور اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اِجتماع گاہ میں دفن کیا گیا-
‘حوالاجات1.ابن کثیر ، البدایہ والنہایہ جلد 9 صفحہ 182.سیوطی ، حسن المقصد فی عمل المولد صفحہ 443.سیوطی ، الحاوی للفتاوی 2004.صالحی ، سبل الھدیٰ و الرشاد فی سیرۃ خیرالعباد صلی اللہ علیہ وسلم جلد 1 صفحہ 362-363 5.نبہانی ، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 2366.دفیات الاعیان صفحہ 536-5407.البدایہ والنہایہ جلد 13 صفحہ 1478.العبر فی خبر من غبر جلد 2 صفحہ 2249.تاریخ الاسلام صفحہ 402-40510.سیر اعلاء والنبلاء جلد 16 صفحہ 25711.آثار البلاد واخبار العباد صفحہ 29012.شذرت الذہب جلد 5 صفحہ 14013.البراہین الجلیہ صفحہ 9214.الفتح القسی فی الفتح القدسی صفحہ 5115.مراۃ الزمان صفحہ 392-39316.کتاب الروضتین صفحہ جلد 3-919117.العسجد السبوک والجواہر المحکوک جلد1 صفحہ 49218.التکملۃ لوفیات النقلہ جلد 3 صفحہ 35419.دول الاسلام صفحہ 34120.الباعث
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.