You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سیرت کیاہے ؟
قدمائے محدثین وفقہاء مغازی وسیرکے عنوان کے تحت میں فقط غزوات اوراس کے متعلقات کو بیان کرتے تھے مگر سیرت نبویہ کے مصنفین نے اس عنوان کو اس قدرو سعت دے دی کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے وفات اقدس تک کے تمام مراحل حیات ،آپ کی ذات وصفات، آپ کے دن رات اورتمام وہ چیزیں جن کو آپ کی ذات والا صفات سے تعلقات ہوں خواہ وہ انسانی زندگی کے معاملات ہوں یا نبو ت کے معجزات ہوں ان سب کوکتاب سیرت ہی کے ابواب وفصول اورمسائل شمار کرنے لگے۔
چنانچہ اعلان نبوت سے پہلے اور بعد کے تمام واقعات کا شانہ نبوت سے جبل حراء کے غار تک اورجبل حراء کے غار سے جبل ثور کے غار تک اورحرم کعبہ سے طائف کے بازار تک اورمکہ کی چراگاہوں سے ملک شام کی تجارت گاہوں تک اور ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے حجروں کی خلوت گاہوں سے لیکر اسلامی غزوات کی رزم گاہوں تک آپ کی حیات مقدسہ کے ہر ہرلمحہ میں آپ کی مقدس سیرت کاآفتاب عالم تاب جلوہ گر ہے ۔
اسی طرح خلفاء راشدین ہوں یادوسرے صحابۂ کرام ، ازواج مطہرات ہوں یا آپ کی اولاد عظام ، ان سب کی کتاب زندگی کے اوراق پر سیرت نبوت کے نقش ونگار پھولوں کی طرح مہکتے ، موتیوں کی طرح چمکتے اورستاروں کی طرح جگمگاتے ہیں۔ اور یہ تمام مضامین سیرت نبویہ کے شجرۃ الخلد ہی کی شاخیں ، پتیاں ، پھول اورپھل ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
خلفاء راشدین بلکہ خلیفۂ عادل حضرت عمر بن عبدالعزیزاموی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت سے کچھ قبل تک چونکہ حدیثوں کا لکھنا ممنوع قرار دے دیا گیاتھا تاکہ قرآن وحدیث میں خلط ملط نہ ہونے پائے اس لئے سیرت نبویہ کے موضوع پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی کوئی تصنیف عالم وجود میں نہ آسکی مگر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جب احادیث نبویہ کی کتابت کا عام طور پر چرچا ہوا تو دور تابعین میں محدثین کے ساتھ ساتھ سیرت نبویہ کے مصنفین کابھی ایک طبقہ پیداہوگیا۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سیرت نبویہ کے موضو ع پر کتابیں تو تصنیف نہ کرسکے مگر وہ اپنی یادداشت سے زبانی طور پر اپنی مجالس ، اپنی درسگاہوں، اپنے خطبات میں احادیث احکام کے ساتھ ساتھ سیرت نبویہ کے مضامین بھی بیان کرتے رہتے تھے ۔ اسی لئے احادیث کی طرح مضامین سیرت کی روایتوں کا سرچشمہ بھی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہی کی مقدس شخصیتیں ہیں۔
بہر حال دور تابعین سے گیارہویں صدی تک چند مقتدر محدثین ومصنفین سیرت کے اسمائے گرامی ملاحظہ فرمائيے ۔گیارہویں صدی کے بعد والے مصنفین کے ناموں کو ہم نے اس فہرست میں ا س لئے جگہ نہیں دی کہ یہ لوگ درحقیقت اگلے مصنفین ہی کے خوشہ چین وفیض یافتہ ہيں۔
(۱)حضرت عروہ بن زبیر تابعی (متوفی ۹۲ھ)
(۲)حضرت عامر بن شراحیل امام شعبی (متوفی ۱۰۴ھ)
(۳)حضرت ابان بن امیر المومنین حضر ت عثمان (متوفی ۱۰۵ھ)
(۴)حضرت وہب بن منبہ یمنی(متوفی ۱۱۰ھ)
(۵)حضر ت عاصم بن عمر بن قتادہ (متوفی ۱۲۰ھ)
(۶)حضرت شرجیل بن سعد(متوفی ۱۲۳ھ)
(۷)حضرت محمد بن شہاب زہری(متوفی ۱۲۴ھ)
(۸)حضرت اسمٰعیل بن عبدالرحمن سدی (متوفی ۱۲۷ھ)
(۹)حضرت عبداللہ بن ابوبکر بن حزم(متوفی ۱۳۵ھ)
(۱۰)حضرت موسیٰ بن عقبہ(صاحب المغازی)(متوفی ۱۴۱ھ)
(۱۱)حضرت معمر بن راشد(متوفی ۱۵۰ھ)
(۱۲)حضرت محمد بن اسحاق (صاحب المغازی)(متوفی ۱۵۰ھ)
(۱۳)حضرت زیاد بکائی (متوفی ۱۸۳ھ)
(۱۴)حضرت محمد بن عمر واقدی (صاحب المغازی)(متوفی ۲۰۷ھ)
(۱۵)حضرت محمد بن سعد(صاحب الطبقات)(متوفی ۲۳۰ھ)
(۱۶)حضرت ابوعبداللہ محمدبن اسمٰعیل بخاری(مصنف بخاری شریف)(متوفی۲۵۶ھ)
(۱۷)حضرت مسلم بن حجاج قشیری (مصنف مسلم شریف)(متوفی ۲۶۱ھ)
(۱۸)حضرت ابو محمد عبدللہ بن مسلم بن قتیبہ(متوفی ۲۶۷ھ)
(۱۹)حضرت ابو داود سلیمان بن اشعث سجستانی صاحب السنن(متوفی ۲۷۵ھ)
(۲۰)حضرت ابو عیسیٰ محمدبن عیسیٰ ترمذی(متوفی ۲۷۹ھ)(مصنف جامع ترمذی)
(۲۱)حضرت ابو عبداللہ محمد یزید بن ما جہ قزوینی(متوفی ۲۷۳ھ)(صاحب السنن)
(۲۲)حضرت ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی(متوفی ۳۰۳ھ)(مصنف سنن نسائی)
(۲۳)حضرت محمد بن جریر طبری (صاحب التاریخ)(متوفی ۳۱۰ھ)
(۲۴)حضرت حافظ عبدالغنی بن سعید امام النسب (متوفی ۳۳۲ھ)
(۲۵)حضرت ابو نعیم احمد بن عبداللہ (صاحب الحلیہ)(متوفی ۴۳۰ھ)
(۲۶)حضرت شیخ الاسلام ابو عمر حافظ ابن عبدالبر (متوفی ۴۶۳ھ)
(۲۷)حضرت ابوبکر احمد بن حسین بیہقی (متوفی ۴۵۸ ھ)
(۲۸)حضرت علامہ قاضی عیاض (صاحب الشفاء)(متوفی ۵۴۴ھ)
(۲۹)حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ سہیلی(صاحب الروض الانف)(متوفی ۵۸۱ھ)
(۳۰)حضرت علامہ عبدالرحمن ابن الجوزی(صاحب شرف المصطفیٰ)(متوفی ۵۹۷ھ)
(۳۱)حضرت احمد بن محمد بن ابوبکر قسطلانی(متوفی ۹۲۳ھ)(صاحب مواہب لدنیہ)
(۳۲)حضرت امام شرف الدین عبدالمومن دمیاطی(متوفی ۷۰۵ھ)(صاحب سیرت دمیاطی )
(۳۳)حضرت ابن سید الناس بصری(صاحب عیون الاثر)(متوفی ۷۳۴ھ)
(۳۴)حضرت حافظ علاء الدین مغلطائی(صاحب الاشارۃ الی سیرۃ المصطفیٰ )(متوفی ۷۶۲ھ)
(۳۵)حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی (متوفی ۸۵۲ھ)(شارح بخاری)
(۳۶)حضرت علامہ بدرالدین محمود عینی (شارح بخاری)(متوفی ۸۵۵ھ)
(۳۷)حضرت ابو الحسن علی بن عبداللہ بن احمد سمہودی(صاحب وفاء الوفاء)(متوفی ۹۱۱ھ)
(۳۸)حضرت محمد بن یوسف صالحی(صاحب السیرۃ الشامیہ)(متوفی ۹۴۲ھ)
(۳۹)حضرت علی بن برہان الدین(صاحب السیرۃ الحلبیہ)(متوفی ۱۰۴۴ھ)
(۴۰)حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی(صاحب مدارج النبوۃ)(متوفی ۱۰۵۲ھ)
--------------------
از : سیرتِ مصطفی
مؤلف
شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ رحمۃ اللہ الغنی
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.