You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سُوال:کيا اسلامی بہن کا اپنے دَیْوَر وجَیٹھ ،بہنوئی اور خالہ زاد ،ماموں زاد، چچا زاد و پھوپھی زاد، پُھوپھااور خالو سے بھی پردہ ہے ؟
جواب:جی ہاں۔بلکہ ان سے تو پردہ کے مُعامَلہ میں احتياط زيادہ ہونی چاہئے کیوں کہ آشنائی(یعنی جان پہچان) کے سبب جِھجک اُڑی ہوئی ہوتی ہے اور یوں ناواقِف آدَمی کے مقابلے میں کئی گُنا زیادہ فِتنے کا خطرہ ہو تا ہے مگر افسوس ! آج کل ان سے پردہ کرنے کا ذِہن ہی نہیں ، اگر کوئی مدینے کی دیوانی پردہ کی کوشِش کرے بھی تو بے چاری کو طرح طرح سے ستایا جاتاہے۔مگر ہِمّت نہیں ہارنی چاہئے۔ نامُساعِد حالات کے باوُجُود جو خوش نصیب اسلامی بہن شَرعی پردہ نبھانے میں کامیاب ہو جائے اورجب دُنیا سے رخصت ہو تو کیا عجب!مصطَفٰے کی نورِ عین ، شہزادیئ کونَین ، مادَرِحَسَنَین ، سیِّدۃُ النِّساء فاطمۃُ الزَّہراء صلَّی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اُس کا پُر تپاک استقبال فرمائیں ، اُس کو گلے لگائیں اور اسے اپنے بابا جان ،دو جہان کے سلطان، رحمتِ عالمیان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی انجمن میں پہنچائیں۔ ؎
کیوں کریں بزمِ شَبستانِ جِناں کی خواہِش
جلوۂ یار جو شمعِ شبِ تنہائی ہو (ذوقِ نعت)
دَیْوَر وجَیٹھ ،بہنوئی اور خالہ زاد ،ماموں زاد، چچازاد و پھوپھی زاد، پھوپھااور خالو سے پردے کی تاکید کرتے ہوئے میرے آقااعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِ سنّت، مُجَدِّدِدين وملّت ،مولاناشاہ احمد رضا خان عليہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہيں: جَیٹھ، دَیْوَر، بہنوئی، پُھپّا، خالو ،چچا زاد ، ماموں زاد، پُھپّی زاد، خالہ زاد بھائی يہ سب لوگ عورت کے لئے مَحض اجنبی ( یعنی غیر مرد) ہيں بلکہ ان کا ضَرَر(نقصان) نِرے ( یعنی مُطلَقاً ) بَیگا نے (یعنی پَرائے ) شخص کے ضَرَر سے زائد ہے کہ مَحْض غیر(یعنی بِالکل ناواقِف ) آدمی گھر ميں آتے ہوئے ڈرےگا اور يہ( یعنی بیان کردہ رشتے دار) آپس کے مَیل جُول ( اور جان پہچان)کے باعِث خوف نہيں رکھتے۔ عورت نِرے اجنبی(یعنی مُطلَقاً نا واقِف ) شخص سے دَفْعَۃً(فوراً) مَیل نہيں کھا سکتی (یعنی بے تکلُّف نہیں ہو سکتی ) اور اُن (یعنی مذکورہ رشتہ داروں) سے لحاظ ٹوٹا ہوتا ہے ( یعنی جھجک اُڑی ہوئی ہوتی ہے) وَلہٰذاجب رسولُ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے غَیر عَورَتوں کے پاس جانے کو مَنْع فرمايا (تو) ایک صَحابی انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی،يارسولَ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جَیٹھ دَیْوَرکے لئے کیا حُکم ہے؟ فرمايا: جَیٹھ دَیْوَر تو موت ہيں۔
(فتاوٰی رضویہ ج۲۲ ص ۲۱۷ )
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.