You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حدائق بخشش ایک کرامت ہے
--------------------------------
حسان الہند ،سیدی اعلی حضرت ، امام عشق و محبت ، مجدد دین و ملت ، عاشق شمع رسالت ، امام اہلسنت ، تصویر سنیت ، حامی سنت ، آفتاب قادریت ،حضرت الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ کو--------- عصر حاضر میں------ نعتیہ شاعری میں--------- درجہ امامت حاصل ہے ۔
اعلی حضرت امام اہلسنت نے -----جس طرح نعت گوئی میں------ آداب شریعت کو ملحوظ رکھا----- یہ آپ کا ہی خاصہ ہے -- اور یہ ہی وہ خاصیت ہے---- کہ جس نے آپ رضی اللہ عنہ کے کلام حدائق بخشش----- کو ایک زندہ جاوید کرامت بنا دیا۔
آپ رضی اللہ عنہ خود " الملفوظ " میں ارشاد فرماتے ہیں؛
----------------------------------------
"حقیقتا نعت شریف لکھنا بڑا مشکل کام ہے ----- جس کو لوگوں نے آسان سمجھ لیا ہے ------ اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے ----اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتا ہے ------ اور اگر کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے -------البتہ حمد آسان ہے ----کہ اس میں صاف راستہ ہے ----- جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے ۔۔۔۔ غرض حمد میں اصلا حد نہیں اور نعت میں دونوں جانب سخت حد بندی ہے "
-------------------------------------------------------
نعت شریف لکھنا کمال ہے ۔۔۔اور اس کے تقاضوں کو وہی پورا کر سکتا ہے ۔۔۔۔جس کا دل عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی اور سچی محبت سے سرشار ہو۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ علم شریعت سے بھی دل پوری طرح باخبر ہو۔۔۔اور یہ خوبی بدرجہ اتم آپ رضی اللہ عنہ میں پائی جاتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعلی حضرت ، عظیم المرتبت کا یہ اعجاز ہے کہ آپ نعت شریف کے قواعد کو ہمیشہ مدنظر رکھتے اور کوئی کسر شان والا معمولی سے معولی لفظ بھی آپ کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہتا تھا ۔۔۔۔ اس کی ایک مثال میں علامہ سید اختر الحامدی صاحب کے ایک مقالے "کلام اعلی حضرت کی خصوصیات اور فنی خوبیاں " سے عرض کرتا ہوں ؛
------------------------------------------------------------------------------
"مشہور شاعر جناب اطہر ہاپوری مرحوم نے اعلی حضرت قدس سرہ کی خدمت میں ایک نعت ارسال کی جس کا مطلع تھا:
کب ہیں درخت حضرت والا کے سامنے
مجنوں کھڑے ہیں خیمہ لیلی کے سامنے
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے برہم کو فرمایا ۔۔۔ مصرعہ ثانی منصب رسالت سے فروتر ہے ۔۔۔۔ حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیلی سے اور گنبد خضرا کو خیمہ لیلی سے تشبیہ دینا سخت بے ادبی ہے اور یوں قلم برداشتہ اصلاح فرمائی:
کب ہیں درخت حضرت والا کے سامنے
قدسی کھڑے ہیں عرش معلی کے سامنے
سبحان اللہ کیا خوب شان اللہ تعالی نے اعلی حضرت رضی اللہ عنہ کو عطا کی کہ کہاں مجنوں اور خیمہ لیلی اور کہاں قدسی اور عرش معلی ۔۔۔۔۔۔ جب اکابرین امت ، اولیاء دین اس بات کی تصریح فراتے رہے ہیں کہ جو مٹی روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے مبارک بدن سے مس ہو رہی ہے وہ عرش معلی سے بھی اعلی ہے۔۔۔۔۔ تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی نعت لکھنے جاۓ اور آپ کی شان و عظمت کے خلاف لکھ جاۓ اور اعلی حضرت کی غیرت ایمانی اس کو اجازت بھی دے دے ۔۔یہ ہرگز نہیں ہو سکتا اسی لیے اعلی حضرت اس کے اشعار سن کر ناراض ہوے اور اصلاح بھی فرما دی ۔
-------------------------------------------------------------------------------
کلام اعلی حضرت حدائق بخشش کی یہ خوبی ہے کہ یہ قرآن و حدیث اور اقوال اولیاء پر مبنی ہے ۔۔۔ اس کا کوئی شعر ، کوئی مصرعہ اس کے علاوہ پر نہیں ۔۔۔۔بلکہ یہ اعلی حضرت پراللہ عزوجل کا خاص کرم اسکے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر رحمت تھی کہ آپ کا کلام امام الکلام بن گیا ۔۔
----------------------------------------------------------------------------------------
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ کے کلام حدائق بخشش کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ قرآن پاک کی آیات سے اپنے اشعار کو زینت دی ۔ مثال کے طور پر آپ کی ایک نعت جس کا مطلع یہ ہے کہ
------------------------------
وہی رب ہے جس نے تم کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو پرا آستاں بتایا
تجھے حمد ہے خدایا
------------------------------
میں یہ شعر ملاحظہ فرمائیں
----------------------------------
فَاِذَا فَرَغْتَ فَانۡصَبْ یہ ملا ہے تجھ کو منصب
جو گدا بنا چکے اب بٹھو وقت بخشش آیا
کرو قسمت عطایا
-------------------------------
اس شعر میں قرآن پاک کی آیت " فَاِذَا فَرَغْتَ فَانۡصَب " کا بیان ہے جس میں اللہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ " تو جب تم نماز سے فارغ ہو تو دعا میں محنت کرو"
اعلی حضرت اس شعر میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب نے آپ کو " فَاِذَا فَرَغْتَ فَانۡصَب " کا منصب دیا ہے کہ جب آپ نماز سے فارغ ہوں تو دعا میں محنت کریں " اور یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ کے در کے گدا ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کرم سے ہمیں اپنا گدا بنا لیا ہے تو اب ہمارے لیے اپنے رب عزوجل سے بخشش کے لیے دعا کریں اور ہمارے نصیب چمکا دیں
---------------------------------------
ایک اور شعر اعلی حضرت کی نعت جس کا مطلع یہ ہے کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سچی بات سکھاتے یہ ہیں
سیدھی راہ چلاتے یہ ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔جس کو اعلی حضرت نے قرآن پاک کی آیت سے زینت دی ہے اور اس شعر میں خوبی یہ ہے کہ پہلے مصرعہ میں آیت کا بیان ہے دوسرے مصرعہ میں اس کا ترجمہ ہے ،
-------------
اِنَّاۤ اَعْطَیۡنٰکَ الْکَوْثَرَ
ساری کثرت پاتے یہ ہیں
-----------------
اعلی حصرت رضی اللہ عنہ نے کہیں تو قرآن پاک کی پوری آیت سے اپنی نعتیہ شاعری کو عزت دی تو کہیں قرآن پاک کی آیت کے ایک لفظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اپنی درخواست پیش کی۔ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں یہ شعر
----------------------------
مجرم بلاۓ آۓ ہیں جَآءُوۡکَ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
------------------------------
اس شعر میں اعلی حضرت نے قرآن پاک کی اس آیت "وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا
" ترجمہ : اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللّٰہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللّٰہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں" کے ایک لفظ " جَآءُوۡکَ " کے ذریعے اپنی درخوست کو حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا ہے ۔
کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم گناہوں کے مجرم آپ کے در پر اللہ کے بھیجنے سے آۓ ہیں اور اس پر یہ " جَآءُوۡکَ" والی آیت گواہ ہے ۔ اور ہماری معافی آپ کی شفاعت سے مشروط ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری شفاعت فرما دیں کہ آپ تو کریم ہیں اور کریم خالی ہاتھ نہیں موڑتے اور آپ کی شان تو بہت بلند ہے ۔
اسی طرح اعلی حضرت کے کلام کی اک خاص بات یہ بھی ہے کہ آپ نے صحابہ کرام کے بڑے بڑےخوبصورت واقعات کو دو مصرعوں میں بیان فرما دیا اور بڑا خوبصورت انداز اختیار فرمایا۔ایک مثال ملاحظہ فرمائیں؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں جناب بوہریرہ تھا وہ کیسا جام شیر
جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منہ پھر گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ واقعہ کچھ یوں ہے اپنے الفاظ میں عرض کرتا ہوں ۔۔ ایک دفعہ صحابی رسول حضرت ابو ہریرہ کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی تو حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ پر کرم فرما کر ساتھ لیا اور اصحاب صفہ کے پاس تشریف لے گئے جن کی تعداد ستر (70) تھی اور جن کو بھی بہت ذیادہ بھوک لگی ہوئی تھی ۔ اور ایک دودھ کا پیالہ بارگاہ رسالت میں پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے ابوہریرہ یہ پیالہ باری باری ہر صحابی کو پلاؤ۔ اب حضرت ابو ہریرہ سوچ رہے تھے کہ پیالہ ایک پینے والے ستر اور میں بھی ساتھ ۔۔ میرے حصے میں تو کچھ بھی نہیں آۓ گا وہ اسی حیرانی کے عالم میں پیلاتے رہے اور صحابہ کرام سیر ہو کر پیتے رہے یہاں تک کے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اپنی باری بھی آ گئی تو انہوں نے دیکھا کہ پیالہ ابھی بھی بھرا ہوا ہے تو حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہ پیو ، آپ نے نوش فرمایا ، فرمایا اور پیو آپ نے اور نوش فرمایا یہاں تک کے سیر ہو گئے۔
تو اعلی حضرت اسی منظر کی عقاسی اس شعر میں فرما رہے ہیں کہ کیوں ابوہریرہ کیسا برکت والا دودھ کا پیالہ تھا جس سے ستر صحابہ بھی سیر ہو گئے اور تم بھی سیر ہوگئے اور اتنے ذیادہ سیر ہوے کہ دودھ کے پیالے سے سب کا منہ پھر گیا ۔
------------------------------------------------
اعلی حضرت کہ کلام کی خاص بات یہ بھی ہے کہ آپ نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف کو ایک ہی نعت شریف میں چار مختلف ذبانوں میں اس طرح خوبصورتی سے ذکر کیا کہ لگتا ہی نہیں کہ چار مختلف زبانیں(عربی ، فارسی ، اردو ، ہندی) استعمال ہوئی ہیں کہیں بھی کسی جگہ بھی شعری حسن خراب نہیں ہوا بلکہ اپنے جمال کی ضیائیں لوٹاتا نظر آتا ہے
------------------------------
لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تو رے سر سو ہے تجھ کو شہ دوسرا جانا
-------------------------------------
اس میں (لم یات نظیرک فی نظر ) عربی زبان ہے اور (مثل تو نہ شد پیدا جانا) فارسی زبان میں ہے ، اور ( جگ راج کو تاج تو رے سر سو) ہندی زبان ہے اور (ہے تجھ کو شہ دوسرا جانا) اردو زبان ہے ۔۔۔۔اسی طرح پوری نعت میں یہ حسن موجود ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مٹی کو ہمارے یہاں حقیر جانا جاتا ہے اور اگر اس کی نسبت اللہ والوں سے اور اور اللہ کے نشانوں کی طرف ہو جاۓ تو یہ بابرکت ہوجاتی ہے ، اس کی عظمتیں آسمانوں سے بھی بلند ہو جاتی ہے ۔۔۔ اعلی حضرت نے اپنے کلام میں اس خصوصیت کو بھی خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا۔۔۔۔۔ اور ہمیں یہ درس دیا کہ جب کسی حقیر چیز کو بھی اللہ اور اسکے محبوبوں سے نسبت ہو جاۓ تو وہ اعلی اور انمول ہو جاتی ہے ۔۔۔۔۔اس کی شان و شوکت اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے سر اور دل اسکے سامنے ادب سے جھک جاتے ہیں۔ اعلی حضرت فرماتے ہیں کہ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم
اس خاک پہ قربان دل شیدا ہے ہمارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو اعلی حضرت ، عظیم المرتبت ، باعث خیر و برکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ کے کلام حدائق بخشش کا ہر ہر شعر حسن سخنوری کا شاہکار ہے اور شریعت کے ادب سے نور نور ہے ۔۔ مگر میں نے اختصار کے پیش نظر اوپر کچھ خصوصیات عرض کی ہیں اور علماء کرام نے تو اعلی حضرت کے کلام پر بہت کچھ لکھا ہے
اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ ہمیں اعلی حضرت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت کا صدقہ ہمیں دنیا ، و قیامت ، و حشر میں اعلی حضرت کا غلام رکھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتوں سے دونوں جہان میں مالا مال کرے آمین
طالب دعا ، ڈاکٹر صفدر علی قادری
پروڑکشن ایگزیکٹو
سی سی ایل فارما سیوٹیکل
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.