You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حضرت آدم علیہ السلام نے جنت سے زمین پر آنے کے بعد تین سو برس تک ندامت کی وجہ سے سر اٹھا کر آسمان کی طرف نہیں دیکھا اور روتے ہی رہے روایت ہے کہ اگر تمام انسانوں کے آنسو جمع کئے جائیں تو اتنے نہیں ہوں گے جتنے آنسو حضرت داؤد علیہ السلام کے خوف ِ الٰہی سے زمین پر گرے اور اگر تمام انسانوں اور حضرت داؤد علیہ السلام کے آنسوؤں کو جمع کیا جائے تو حضرت آدم علیہ السلام کے آنسو ان سب لوگوں سے زیادہ ہوں گے۔
(تفسیر صاوی،ج۱،ص۵۵،پ۱،البقرۃ: ۳۷)
بعض روایات میں ہے کہ آپ نے یہ پڑھ کر دعا مانگی کہ
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ
لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِی اِنَّہٗ لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلاَّ اَنْتَ۔
یعنی اے اللہ! میں تیری حمد کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتا ہوں۔ تیرا نام برکت والا ہے اور تیری بزرگی بہت ہی بلند مرتبہ ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے تو مجھے بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی نہیں جو گناہوں کو بخش دے۔
(تفسیر جمل علی الجلالین، ج۱،ص۶۳،پ۱، البقرۃ:۳۷)
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیۡنَ ﴿23﴾
یعنی اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کرلیا اور اگر تو ہمیں رحم فرما کر نہ بخشے گا تو ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
(تفسیر جلالین، ص۱۳۱،پ۸، الاعراف:۲۳)
لیکن حاکم و طبرانی و ابو نعیم و بیہقی نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ
جب حضرت آدم علیہ السلام پر عتاب ِ الٰہی ہوا تو آپ توبہ کی فکر میں حیران تھے۔ ناگہاں اس پریشانی کی عالم میں یاد آیا کہ وقت پیدائش میں نے سراٹھا کر دیکھا تھا کہ عرش پر لکھا ہوا ہے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ ِ اسی وقت میں نے سمجھ لیا تھا کہ بارگاہِ الٰہی میں وہ مرتبہ کسی کو میسر نہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام اپنے نام اقدس کے ساتھ ملا کر عرش پر تحریر فرمایا ہے۔ لہٰذا آپ نے اپنی دعا میں رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا کے ساتھ یہ عرض کیا کہ اسئلک بحق محمد ان تغفرلی اور ابن منذر کی روایت میں یہ کلمات بھی ہیں کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِجَاہِ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَکَرَامَتِہِ عَلَیْکَ اَنْ تَغْفِرَلِیْ خَطِیْئَتِی
یعنی اے اللہ! تیرے بندہ خاص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جاہ و مرتبہ کے طفیل میں اور ان کی بزرگی کے صدقے میں جو انہیں تیرے دربار میں حاصل ہے میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو میرے گناہ کو بخش دے۔ یہ دعا کرتے ہی حق تعالیٰ نے ان کی مغفرت فرما دی اور توبہ مقبول ہوئی۔
(تفسیر خزائن العرفان، ص ۱۰۹۴، ۱۰۹۵،پ۱، البقرۃ:۳۷)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:
فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿37﴾ (پ1،البقرۃ:37)
ترجمہ کنزالایمان:۔پھر سیکھ لئے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ
قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔
درسِ ہدایت:۔اس واقعہ سے چند اسباق پر روشنی پڑتی ہے جو یہ ہیں:
(۱)اس سے معلوم ہوا کہ مقبولانِ بارگاہِ الٰہی کے وسیلہ سے بحق فلاں و بجاہ فلاں کہہ کر دعا مانگنی جائز اور حضرت آدم علیہ السلام کی سنت ہے۔
(۲)حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ دسویں محرم کو قبول ہوئی جنت سے نکلتے وقت دوسری نعمتوں کے ساتھ عربی زبان بھی آپ سے بھلا دی گئی تھی اور بجائے اس کے سریانی زبان آپ کی زبان پر جاری کردی گئی تھی۔ مگر توبہ قبول ہونے کے بعد پھرعربی زبان بھی آپ کو عطا کردی گئی۔
(تفسیر خزائن العرفان، ص ۱۰۹۵،پ۱، البقرۃ: ۳۷)
(۳)چونکہ حضرت آدم علیہ السلام کی خطا اجتہادی تھی اور اجتہادی خطا معصیت نہیں ہے اس لیے جو شخص حضرت آدم علیہ السلام کو عاصی یا ظالم کہے گا وہ نبی کی توہین کے سبب سے کافر ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ مالک و مولیٰ ہے وہ اپنے بندہ خاص حضرت آدم علیہ السلام کو جو چاہے فرمائے اس میں ان کی عزت ہے دوسرے کی کیا مجال کہ خلافِ ادب کوئی لفظ زبان پر لائے اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے فرمائے ہوئے کلمات کو دلیل بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی تعظیم و توقیر اور ان کے ادب و اطاعت کا حکم فرمایا ہے لہٰذا ہم پر یہی لازم ہے کہ ہم حضرت آدم علیہ السلام اور دوسرے تمام انبیاء کرام کا ادب و احترام لازم جانیں اور ہرگزہرگز ان حضرات کی شان میں کوئی ایسا لفظ نہ بولیں جس میں ادب کی کمی کا کوئی شائبہ بھی ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
=================
از: عَجَائِبُ القرآن
مع
غَرَائِبِ القرآن
مؤلف
شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا عبدالمصطفٰی اعظمی
رحمۃ اللہ علیہ
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.