You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
ہندوستان سے ہمارا تعلق آج کل کا نہیں ہے ،ہندوستان ہمارے باپ کی سرزمین ہے
اسلام کا رشتہ ہندوستان کی سرزمین سے اتنا مضبوط ہے کہ ہمیں اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے شیو،وشنو،شنکر اور پاروَتی کو اسلامی پیغمبر کا درجہ دینے کی ضرورت نہیں
ہندوستان تمام مسلمانوں اور انسانوں کا آبائی وطن ہے
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
***********************************
۲۷؍فروری ۲۰۱۵ء کو جمعیۃ العلماء کی جانب سے بلرام پور میں قومی یک جہتی کا ایک پروگرام ہونے جا رہاہے۔اس پروگرام میں سادھوسنتوں کو بھی مدعو کیا جانا ہیں۔ ۱۸؍فروری بروز بدھ کو جمعیۃ العلماء مفتی محمد الیاس قاسمی نے گفتگوکرتے ہوئے ایسا بیان دیاجس کے سبب پوری دنیاکے مسلمان دردوکرب میں مبتلا ہے۔جمعیۃ العلماء کے رکن مفتی محمد الیاس قاسمی نے ایودھیامیں یہ متنازعہ بیان دیاکہ ’’بھگوان شیو مسلمانوں کے پہلے پیغمبر ہیں اور اس بات کو قبول کرنے میں مسلمانوں کو کوئی گریز نہیں ہے ، مسلمان بھی سناتن دھرمی ہیں اور ہندوئوں کے دیوتاشنکر اور پاروتی ہمارے ماں باپ ہیں۔‘
‘گمراہ طبیعت کے حامل بدعقیدہ مفتی محمد الیاس قاسمی نے آر ایس ایس کے اس مطالبے کی کہ یہ ملک ’’ہندوراشٹر‘‘بنناچاہئے یہ کہہ کر حمایت بھی کی کہ ’’مسلمان ہندوراشٹر کے مخالف نہیں ہیں۔‘‘مزیدخباثت پھیلاتے ہوئے کہا کہ ’’جس طرح چین میں رہنے والا چینی،امریکہ میں رہنے والا امریکی ہے اسی طرح سے ہندوستان میں رہنے والا ہر شخص ہندو ہے ،یہ تو ہمارا ملکی نام ہے ۔‘‘انہوں نے مزید کہاکہ ’’جب ہمارے ماں،باپ اور ملک ایک ہے تو اس لحاظ سے ہمارا دھرم بھی ایک ہے ،ہمارے دھرم کی شروعات یہیں بھارت سے ہوئی ہے،شنکر بھگوان لنکا میں آئے تھے۔ہمارے اسلام دھرم کے پہلے پیغمبر ہیں،ہم یہیں پیداہوئے ہیں،ہماراکرم اور ہمارا دھرم یہیں کا ہے۔اس لیے ہمیں اس سے پیار ہے۔‘‘ (اردوٹائمز، ممبئی ایڈیشن،۲۰؍فروری ۲۰۱۵ئ)
مفتی الیاس قاسمی جمعیت علمائے ہند کا ہندودھرم کے بھگوان کو اسلام کا پہلا پیغمبرکہنا،اپنااور سارے مسلمانوں اور انسانوں کا باپ کہنا اور خود کواور ہندوستان میں رہنے والے سارے مسلمانوں کو ہندوکہناقرآن،حدیث اور اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی مذموم کوشش ہے ۔
برادران وطن کو خوش کرنے کے لیے مفتی محمد الیاس قاسمی نے اسلامی تعلیمات کے خلاف بیان تو دے دیامگر شاید انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس کے بعد حساس مسلمانوں کی جانب سے کس قدر شدید رد عمل کیاجائے گا،صرف مسلمانوں ہی نے نہیں بلکہ شنکر آچاریہ نے بھی مفتی الیاس قاسمی کے بیان کی بھرپور مذمت کی۔جمعیۃ العلماء کے ممبران کو جب اس بات کا احساس ہواکہ اسلام مخالف بیان کے سبب تنظیم کی عزت دائو پر لگی ہے تو جمعیۃ العلماء کے دونوں گروپوں کی جانب سے یہ اعلان کیاگیا کہ مفتی الیاس قاسمی کا جمعیۃ العلماء سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ چلئے اک لمحے کے لیے اگر مان بھی لیاجائے کہ مفتی الیاس قاسمی کا جمعیۃ العلماء سے کوئی واسطہ نہیں ہے مگرہے تو وہ آپ ہی کے عقیدے کا،آپ ہی کے مسلک کااور آپ ہی کے عقائد کا پیروکار۔’’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ‘‘کے مصداق الیاس قاسمی کی رکنیت بھی رد ہوگئی اور دنیا وآخرت کی رسوائی بھی مقدر بنی۔
ہمیں اپنے آپ کو ہندوستانی ثابت کرنے کے لیے اسلامی تعلیمات وتاریخ کی دھجیاں اڑانے کی ضرورت نہیں۔اپنے ہم وطنوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ ورسول ﷺکوبھی ناراض کرنے کی حاجت نہیں۔شنکر،شیو،وشنو،پاروَتی اور دوسرے ہندودیوی و دیوتائوں کو پیغمبربناکر،اپنے ماں باپ تسلیم کرکے ہندوستانی ہوناثابت نہیں ہوتاہے ۔ مسلمانوں کے ہندوستانی ہونے کی سب سے مضبوط دلیل یہ ہے کہ اسلام کے سب سے پہلے پیغمبراور دنیاکے سب سے پہلے انسان اسی سرزمین پرجنت سے تشریف لائیں۔ساتھ ہی کائنات کی جان ،وجہہ تخلیق کائنات،کارخانہ ٔ قدرت کے عظیم شاہکار مصطفی جان رحمت ﷺکانوربھی پیشانی آدم کے ساتھ سب سے پہلے ہندوستان آیا۔ یہاں مراد موجودہ ہندوستان نہیں بلکہ وہ ہندہے جس کی سرحدیں پاکستان، افغانستان، بھوٹان،نیپال،بنگلہ دیش،میانمار(برما)،سری لنکا اورمالدیپ تک وسیع تھیں۔علامہ عبدالرزاق بہترالوی تحریر فرماتے ہیں کہ’’حضرت آدم علیہ السلام سراندیپ(سری لنکا)میں اورحضرت حوا ’’جدّہ‘‘میں اتارے گئے۔‘‘(تذکرۃ الا نبیائ، ص؍ ۶۰ )
حسان الہند مولانا سید غلام علی آزاد بلگرامی(م۱۲۰۰؍ھ)رقم طراز ہیں:
’’حضرت آدم علیہ السلام کی برکت سے ہندوستان میں جواہرات اور کانوں کا وجود ہے۔کسی نے ہندوستان کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’اس کے سمندرموتی ہے،اس کے پہاڑ یاقوت ہیں،اس کے درخت عود اور پتے عطر ہیں۔‘‘(شمامۃالعنبر،طبع جائس، ص؍ ۶۴ )
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہندوستان کی زمین اس لئے عمدہ اور ہری بھری ہے اور عود قرنفل وغیرہ خوشبوئیں اس لیے وہاں پر پیدا ہوتی ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام جب اس زمین پر آئے تو ان کے جسم پر جنّتی درخت کے پتے تھے۔وہ پتے ہواسے اُڑکرجس درخت پرپہنچے وہ ہمیشہ کے لیے خوشبودار ہوگیا۔(تفسیر نعیمی،جلد۱،ص؍۲۸۴)
مولانا سید غلام علی آزاد بلگرامی نے اپنے اشعار میں بھی ہندوستان کاذکر کیاہے۔جس میں مذکورہ نکتہ کی وضاحت ہوتی ہے ؎
قدأوع الخلاق آدہ نورہ متلالاًکالکوکب الوقاد
والہندمہبط جد قاومقامہ قول صحیح جیدالأسناد
فسوادأرض الہند ضاء بدایۃ من نور احمد خیرۃ الأمجار
ترجمہ:بنانے والے نے آدم علیہ السلام کے اندراپنا نور رکھ دیا،روشن ستارے کی طرح چمکتا ہوا۔ہندوستان ہمارے جد امجد کی جائے نزول اور قیام گاہ ہے۔یہ صحیح قول ہے اوراس کی سند مضبوط ہے تو ہندوستان کی سر زمین سب سے پہلے نورِ محمدیﷺ سے ضیاء بار ہوئی،جو سب عظمت والوں سے بہتر ہیں‘‘۔
(شمامۃ العنبر،طبع جائس،ص؍۸۹)ڈاکٹر اقبال نے اسی نکتہ کی وضاحت کچھ اس طرح کی ؎
ہے اگرقومیت اسلام پابند قوم ہند ہی بنیاد ہے اس کی،نہ فارس ہے نہ شام
معلوم ہوا کہ ہندوستان سے ہمارا رشتہ عہد صحابہ،مجاہد اسلام محمدبن قاسم اور مغلیہ حکومت سے نہیں ہے بلکہ یہ تو ہمارے باپ کی سرزمین ہے۔اسلام کی بنیاد اور اساس کا رشتہ ہندوستان کی سرزمین سے اتنا مضبوط ہے کہ ہمیں اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے شیو،وشنو،شنکر اور پاروَتی کو اسلامی پیغمبر کا درجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ اگر یہ بیان جمعیۃ العلماء کے مفاد کی خاطر دیاگیاہے کہ حکومت ہند کے سائے میں جمعیۃ العلماء کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا تو ذہن نشین رہے کہ اللہ ورسول ﷺکا ناراض کرکے دنیاوآخرت میں کامیاب نہیں ہواجا سکتا۔دین کی بنیادوں کو منہدم کرکے اپناسیکولرزم جتانا کہاں کی عقل مندی ہے ؟
اب آئیے اسلامی تاریخ کی روشنی میں اسلام اور ہندوستان کا تعلق کس قدر مضبوط ہے جاننے کی کوشش کریں۔
دنیا کے پہلے انسان ابولبشر حضرت آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے اسی دھرتی پرتشریف لائیں۔آپ کو ہندوستان میں’’سراندیپ‘‘کے’’لوذ۔یا۔راہون‘‘پہاڑ پر اتارا گیا۔
بلکہ پشت آدم کے حوالے سے ایک لاکھ کم وبیش چوبیس ہزارانبیاء ومرسلین یہیں ہند میں اتارے گئے۔
سیدنا آدم علیہ السلام نے اسی سرزمین پہ اشک ندامت بہائے،تین سو سال تک روتے رہے اور آسمان کی طرف آپ نے حیا کی خاطر سَر نہیں اٹھایا۔
آپ نے دعائیں اسی جگہ مانگیں۔
آپ کی توبہ یہی قبول ہوئی۔
پیارے مصطفی ﷺ کا وسیلہ رب کی بارگاہ میں آپ نے اسی دھرتی پر پیش کیا۔
نبی آخرالزماں سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے نام پاک کا نعرہ وغلغلہ زمین پہ سب سے پہلے یہیں بلند ہوا۔
بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت شیث علیہ السلام کا مزار پاک بھی ہندوستان میں ہے،ایودھیا میں بتایا جاتا ہے۔
توالد وتناسل کا سلسلہ بھی غالباً یہیں سے شروع ہوا۔گویا ہندوستان تمام مسلمانوں اور انسانوں کا آبائی وطن ہے۔
سید الملائکہ جناب جبرئیل علیہ السلام ایک نبی کی بارگاہ میں سب سے پہلے سر زمین ہند پہ آئے۔
سب سے پہلے اذان ہندوستان میں ہوئی۔
سب سے پہلی نماز بھی یہی ہوئی،جو آپ نے قبول توبہ کے شکرانے میں ادا فرمائی۔
آپ نے چالیس حج اور ایک ہزار عمرے بھی اسی سرزمین ہند سے مکہ شریف پیدل جا کر ادا فرمائے،کعبہ چوں کہ آپ کی تخلیق سے دوہزار سال پہلے فرشتوں کے ذریعے تعمیر ہوچکاتھا۔
جنتی اوزار:سانڈسی،ایرن اور ہتھوڑا ہندوستان میں اتارے گئے۔
جنتی برگ وثمر اور خوشبوئیں یہیں اتاری گئیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ انجیر کے پتّے،عجوہ کجھور،کیلا اور لیموں وغیرہ یہی اتارے گئے ۔
فصل ،گل وشبنم،پیڑ پودے اور کھیتیاں سب سے پہلے اسی دھرتی پہ لہلہائیں۔
حضور ﷺلوگوں کو ہندوستانی جڑی بوٹی’’عود ہندی‘‘کے استعمال پر زور دیتے تھے کہ اس میں سات بیماریوں سے شفا ہے۔
آج بھی دوائوں میں استعمال ہونے والی بیشتر جڑی بوٹیاں اور خوشبوئیں ہندوستان میں پیدا ہوتی ہیں۔
ہندوستان پرکئی مجاہدین نے فوج کشی کی مگر غزوۂ ہندکایہ ذوق محض کشور کشائی کے جذبے سے نہیں تھا بلکہ انہوں نے جہادِ ہندکے لیے پیش رفت ارشاد نبوی کی تکمیل کے لیے کی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے دوگروہوں کو اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ سے محفوظ رکھاہے۔ایک وہ گروہ جو ہندوستان میں جہاد کرے گااور دوسرا وہ گروہ جو حضرت ابن مریم کا ساتھ دے گا۔
(سلطان الہند خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ،ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی)
فضائل ہند کی روایتیں مندرجہ ذیل کتب سے ماخوذہیں:
بخاری شریف کتاب الطب ج۲ص؍۸۴۹تا۸۵۱،
سنن ابی دائود،کتاب الطب ج۲ص؍۵۴۱،
تفسیر الدر المنثور سورئہ بقرہ ، ج۱ ، ص ؍ ۰ ۱ ۱ ، ۱۱۵،
تفسیر مدارک شریف ج۳ص؍۶۸،
تفسیر روح البیان ج۱ص؍۲۳۷۔۴۹۸،
تفسیر نعیمی ج۱ص؍۲۹۰تا۲۹۱،
تفسیر خازن و تفسیر جمل،
حاشیۂ صاوی ج۱ص؍۶۴، ۱۱۰،
حاشیہ شیخ زادہ ج۱، ص ؍ ۲۶۶ ،۲۶۷،۴۲۰،
حاشیۂ جلالین ص؍۱۳۱،حاشیہ نمبر۲،
مدارج النبوۃ ج۱ ص؍۵(بحوالہ:ماہنامہ کنزا لایمان،مارچ۲۰۱۰ئ)
ابن ابوحاتم حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے روایت کرتے ہیں،آپ نے فرمایا:
مکہ مکرمہ اور ہندوستان سارے جہاں سے اچھاہے۔
(تفسیر الدرالمنثور ، ج ۶ ، ص ؍ ۳ ۱ ،مطبع بیروت)یقیناباستثنائے دیار حرم اور روضۂ رسول کے (کیوں کہ روضۂ رسول کاوہ حصہ جہاں سرکار ﷺ کا جسم اطہر ہے وہ عرش اعظم سے بھی بہتر ہے)ہمارا ہندوستان سارے جہاں سے اچھاہے۔جہاں سے ہمارے رسول ﷺ نے بوئے وفا محسوس کی،ہندوستان کی طرف دیکھ کر ہمارے نبی ﷺ مسکرائے ہیں،خود سرکار ﷺ نے اپنی زبان فیض ترجمان سے ہندوستان کی سرزمین پر جہاد کرنے والے مجاہدین کو جنت کا مژدۂ جاں فزا سنایا،ان پر جہنم کی آنچ حرام قرار دی،یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ہمیشہ ہندوستان آنے کے مشتاق رہتے تھے ،ان کی تمنا تھی کہ کاش میں ہندوستان کے کسی غزوے میں شریک ہوتا،تواپنی جان اور اپنا مال خرچ کرتا۔
(سنن نسائی کتاب الجہاد باب غزوۃ الہند،ج۲ص؍۵۲)
شاید انہی تمام خوبیوں کو دیکھتے ہوئے اور ان کی منظر کشی کرتے ہوئے شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے کہا تھاکہ ؎
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
ہندوستان کی سرزمین جہاں ان تمام تر فضائل ومناقب اور خصوصیات کی حامل ہے وہیں اس دھرتی کو خدا وندقدوس نے صحابیت کے شرف سے بھی مشرف فرمایا۔
ان فضائل کے علاوہ بھی ہند کی دھرتی متعدد فضائل کی حامل ہے۔
تفصیل کے لیے کتب احادیث وتاریخ کا مطالعہ کریں۔
زہرافشانی کرتے ہوئے نام نہاد مفتی الیاس قاسمی نے یہ جو بات کہی کہ ’’جس طرح چین میں رہنے والا چینی،امریکہ میں رہنے والا امریکی ہے اسی طرح سے ہندوستان میں رہنے والا ہر شخص ہندو ہے ،یہ تو ہمارا ملکی نام ہے ۔‘‘سچ فرمایاہے کسی نے ؎
خداجب دین لیتاہے تو عقل چھین لیتا ہے
چین،امریکااور جاپان وغیرہ کسی مذہب کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے نام ہیں۔چین،امریکااور جاپان میں رہنے والاہر مسلمان یقیناچینی،امریکی اور جاپانی مسلمان ہے۔اس لحاظ سے اگر ہمارے ملک کو انڈیا،بھارت اور ہندوستان کہاجائے تو ہر مسلمان انڈین،بھارتی اور ہندوستانی کہلائے گا نہ کہ ہندو۔ہندوایک مذہب کا نام ہے اس لیے کسی بھی ہندوستانی مسلمان کو ہندوہر گزہرگزنہیں کہاجاسکتا۔
عطا ء الرحمن نوری( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.