You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
ادارتی نوٹ کی تنقیح
**************
محترم ایڈیٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
امید کہ مزاج بخیر ہونگے ’جام نور‘ میں میرا مضمون شائع کر نے اور ادارتی نوٹ میں بعض نوازشات کا شکریہ، اللہ تعالی ایڈیٹر اور محقق اسید الحق صاحبان کی میرے حق میں کی گئی دعا قبول فرمائے، آمین۔
ایڈیٹر صاحب کا یہ ادارتی نوٹ بعض جہت سے مقالہ نگار کی رائے کے خلاف ہے، جس کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے:
*********************************
ایڈیٹر صاحب فرماتے ہیں:’’زیر نظر مضمون (حدیث ـضعیف محدثین کی نظر میں ایک تجزیاتی مطالعہ) در اصل ایک جملہ کی تشریح و تفسیر پر مبنی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا اسید الحق صاحب نے لکھا تھا: اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قاعدہ (فضائل میں ضعیف حدیث بھی مقبول ہے) اپنی جگہ درست ہے، اس کے ثبوت میں بڑے بڑے ائمہ حدیث کے حوالے دئے جاسکتے ہیں، لیکن اس قاعدہ کے اطلاق کا بھی ایک دائرہ ہے اور اس کے استعمال کے کچھ شرائط ہیں‘‘۔
غالبا محقق صاحب کے قول میں لفظ ’شرائط‘ سے میرے مقالہ میں ذکر کردہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا مذہب مراد ہے(میں تو غالبا ہی کہہ سکتاہوں کیونکہ مجھے ایڈیٹر صاحب کی طرح محقق صاحب کے عبارت کی مراد معلوم نہیں ) میں یہاں ایڈیٹر صاحب پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ مجھے ان کی ذکر کردہ شرائط کی پہلی بنیادی شرط سے اتفاق نہیں ،جس پر شدید ضعیف حدیث قبول کرنے اور نہ کرنے کا دارو مدار ہے ، یہاں پر میں نے اپنا موقف ثابت کرنے کے لئے قدرے تفصیلی گفتگو کی ہے۔
ایڈیٹر صاحب نظر عنایت فرمائیں، محقق صاحب فرماتے ہیں:’’ہم ان متشددین کے حامی نہیں جو معمولی سے معمولی علت کی بنیاد پر حدیث کو موضوع قرار دیدیتے ہیں اور ضعیف حدیث خواہ اس میں کتنا ہی خفیف درجہ کا ضعف ہو اس کو رد کر دیتے ہیں، متقدمین میں حافظ ابن جوزی اورمتاخرین میں ناصر الدین البانی اور ان کے ہم مزاج حضرات کو اس کی مثال میں پیش کیا جاسکتا ہے‘‘۔محقق صاحب دوسری جگہ فرماتے ہیں:’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قاعدہ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس قاعدہ کے اطلاق کا بھی ایک دائرہ ہے اور اس کے استعمال کے کچھ شرائط ہیں‘‘۔ حالانکہ محقق صاحب نے فضائل کے باب میں بعض حدیثوں کو جس میں خفیف ضعف تھا اور وہ شر ائط کے تحت کھری اتر بھی رہی تھیں بڑی آسانی سے اس کو بیان کرنے سے منع کردیا،
فرماتے ہیں: ’’ ان میں فلاں فلاں حدیث ـضعیف و منکر ہے ا س کوآپ بیان نہ ہی کریں تو بہترہے‘‘۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں: ’’اس واقعے کے سلسلے میں(صحیح حدیثیں) ہمیں ضعیف احادیث سے مستغنی کر دیتی ہیں‘‘۔ مجھے ان دونوں اقوال سے اتفاق نہیں۔
ایڈیٹر صاحب ماتھے کی آنکھوں سے دیکھیں محقق صاحب کے یہ ا قوال جہاں ایک جہت سے حافظ ابن جوزی اور البانی کے مثل تشدد کا حامل ہے ، وہیں دوسری جہت سے محقق صاحب کے تضاد قول کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ،جو اہل نظر پر واضح اور بین ہے۔نیز ان اقوال سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ محقق صاحب نے حدیث ضعیف کے بارے میں کہا کچھ اور ہے، اور کیا کچھ اور ہے۔
ان اختلافات کے باوجود بھی ایڈیٹر صاحب فرماتے ہیں: ’’زیر نظر مضمون در اصل ایک جملہ کی تشریح و تفسیر پر مبنی ہے‘‘ اور وہ یہ ہے: ’’ہم ان متشددین کے الخ اور پھر ایڈیٹر صاحب نتیجہ نکالتے ہوئے فر ماتے ہیں:
’’ازہار صاحب کے اس مضمون سے مولانا اسید الحق صاحب کی مذکورہ عبارتوں کی تائید ہی ہوتی ہے‘‘۔
اگر ایڈیٹر صاحب کے علاوہ کسی اور نے یہ بات کہی ہوتی تو ضرور میں استعجاب کے عالم ڈوب گیا ہوتا، مگر افسوس کہ یہ بات ایڈیٹر صاحب نے کہی ہے جس کہ وجہ سے میں صحیح ڈھنگ سے تعجب کا اظہار بھی نہیں کر سکتا۔ میں نے محقق صاحب کی کس حد تک تائید اور کس حد تک ان سے نا اتفاقی کی ہے قارئین ’جام نور ‘پر شفاف آئینہ کی طر ح واضح ہے۔
ایڈیٹر صاحب فرماتے ہیں:’’مولانا اسید الحق صاحب کی دو عبارتوں سے ازہار صاحب کو گمان ہوا کہ مولانا اسید الحق صاحب مطلقا ضعیف حدیثوں کو قابل قبول نہیں سمجھتے حالانکہ اسید الحق صاحب کا یہ مقصد نہیں تھا‘‘۔
میں نے کب کہا کہ محقق صاحب مطلقا ضعیف احادیث کو قابل قبول نہیں سمجھتے؟میں نے نہ ایسا کہا ہے اور نہ ہی میں نے ایسا گمان کیا ہے، البتہ محقق صاحب کے متضاد قول اور بعض فضائل کے باب میں حدیث ضعیف کو بیان کرنے سے منع کرنے کی وجہ سے میں نے اس باب میں محدثین کے مذاہب تفصیل کے ساتھ ضرور بیان کردئے تاکہ اہل حل و عقد دلائل و براہین کی بنیاد پر فیصلہ کر سکیں کہ محقق صاحب کا ان چند فضائل کے ابواب میں ضعیف حدیثوں کو بیان کرنے سے روکنا کیسا ہے؟
ایڈیٹر صاحب فرماتے ہیں:’’آپ مولانا کے مضمون کو دوبارہ امعان نظر سے پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ مولانا کا مقصد یہ ہے کہ جن معاملات میں ہمارے پاس صحیح احادیث موجود ہیں وہاں ہم ضعیف اور کمزور احادیث بیان کر کے اپنے مسلکی حریف کو یہ کہنے کا موقع کیوں دیں کہ ان حضرات کے عقائد اور معاملات ضعیف احادیث پر منحصر ہیں‘‘۔
اس مقام پر تین باتیں کہنا چاہونگا:
پہلی بات: ایڈیٹر صاحب کی عبارت اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ محقق صاحب نے صحیح اور ضعیف احادیث کے درمیان تقابل کر کے صحیح احادیث پر عمل کرنے کی رغبت دلائی ہے، حالانکہ حقیقت حال اس کے خلاف ہے کیونکہ محقق صاحب کے مقالے کا محور تقریبا موضوع اور صحیح احادیث ہیں، مقالے میں ایک جگہ کے علاوہ کہیں بھی ضعیف اور صحیح احادیث کے درمیان تقابل پیش نہیں کیا ہے۔ اور دونوں مفہوموں(صحیح اور موضوع احادیث، صحیح اور ضعیف احادیث) کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے،لہذا یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ محقق صاحب نے صحیح احادیث پر عمل کرنے اور موضوع احادیث کو ترک کرنے کی طرف رغبت دلائی ہے لیکن ایڈیٹر صاحب نے جو مفہوم نکالا ہے وہ کہنا مشکل ہے۔
دوسری بات:یہ عبارت ایڈیٹر صاحب کی محقق صاحب کے ساتھ محبت کی عکاسی کر رہا ہے، اس محبت کا لحاظ کر تے ہوئے اگر بر سبیل تنز ل مان بھی لیا جائے کہ محقق صاحب نے اپنے مقالہ میں وہی کہنا چاہاہے جو ایڈیٹر صاحب کی عبارت سے ظاہر ہورہا ہے۔اس صورت میں بھی میری ایڈیٹر صاحب سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگر آپ کی مراد ’’معاملات‘‘ سے ’’مسائل احکام‘‘ مراد ہیں تو اس باب میں آپ کی یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے، لیکن اگر اس سے عقائد مراد ہیں تو اس باب میں یہ فکر درست نہیں، کیونکہ عقائد کے باب میں نہ کہ صرف صحیح بلکہ بعض ابواب میں تو حدیث متواتر اور مشہور صحیح حدیث کا ہونا ضروری ہے، اورضعیف احادیث کا تو سرے سے اس باب میں کوئی اعتبار ہی نہیں، ایڈیٹر صاحب دیکھیں:’ ظفر الأمانی‘ (مصنف: علامہ عبد الحی لکنؤی رحمہ اللہ) ص۲۰۰، تحقیق: عبد الفتاح ابو غدۃ، مطبع: دار البشائر الاسلامیہ ، بیروت، لبنان۔
اور اگر ایڈیٹر صاحب کی عبارت میں مذکور لفظ ’’معاملات‘‘ سے فضائل کی احادیث مراد ہیں تو اس باب میں بھی محقق صاحب کی یہ توجیہ ایڈیٹر صاحب کی ز بانی تسلیم نہیں کی جاسکتی، کیونکہ محدثین کرام نے فضائل کے باب میں صرف احادیث ـضعیفہ پر عمل کرنے کی تر غیب دلائی ہے ، یہ شرط ذکر نہیں کی ہے کہ :جس باب میں صحیح احادیث ہوں اس باب میں ضعیف حدیث مقبول نہیں ہونگی یا ان کو بیان نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کے خلاف ہی محدثین کا عمل رہا ہے،یہاں پر صرف ایک کتاب کے چند ابواب کی طر ف اشارہ کر دیتا ہوں۔ ایڈیٹر صاحب شاید آپ کی نظر سے امیر المؤمنین فی الحدیث محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ کی کتاب ’الأدب المفرد‘ گزری ہو،جس کے مختلف ابواب میں آپ نے صحیح احادیث کے علاوہ ضعیف احادیث سے بھی استدلال کیا ہے، اطمنان قلب کے لئے بعض ابواب مندرجہ ذیل ہیں:۶۔باب جزاء الوالدین ،۱۵۔باب عقوبۃ عقوق الوالدین، ۱۹۔باب بر الوالدین بعد موتہما، ۲۰۔ بر من کان یصلہ أبوہ، ۲۶۔ باب صلۃ الرحم(تحقیق: فرید عبد العزیز الجندی، مطبع: دار الحدیث، قاہرۃ مصر) طوالت کے خوف سے انہیں بعض ابواب پر اکتفا کر تا ہوں۔
رہی بات مسلکی حریف کا عوام کو بہکانے کی تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ یہ تو ان کا قدیم پیشہ ہے، اہل سنت و جماعت ان کے مکر کی وجہ سے اجماع یا جمہور کا مذہب نہیں چھوڑ سکتے، اگر وہ اپنے معمولات سے ایسے ہی دامن جھاڑ نے لگیں تو انہیںاپنے بہت سارے معمولات کو جو قرآن ، حدیث،محدثین اور فقہاء کرام کی افکار و نظریات کے موافق ہیں چھوڑ نا پڑ جائے گا، لہذا ان کی مکاری کا شکوہ کر نے کے بجائے ضر وری ہے کہ عوام کو اہل سنت و جماعت کے افکار و نظریات کا پوری کوشش کے ساتھ متبع بننے کی تلقین کی جائے، نہ یہ کہ مسلکی حریف کے مکر و فریب کے سامنے ہتھیار ڈال دیا جائے۔بس بندہ کو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ اسی کا مکلف ہے جتنی اس کے پاس طاقت ہے، اسے اپنے اس دائرے میں کوتاہی نہیں کر نی چاہئے، باقی رشد و ہدایت خدا ہی کے ہاتھ میں ہے، فر ماتا ہے:’’مَنْ یَھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہُ وَلِیًّا مُرْشِداً‘‘(سورۃ الکہف۱۸، آیت نمبر۱۷)
فقط والسلام:
ازہار احمد امجدی مصباحی
طالب :جامعۃ الازہر الشریف،مصر
کلیۃ: اصول الدین، قسم الحدیث
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.