You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
رضائے الٰہی اوراخلاص کافقدان ،ہر کام سستی شہرت اور جھوٹی واہ واہی کے لیے کیاجارہاہے
اجتماعی نکاح بیاضوں کی تقسیم تعمیری کام وارثین کی مدداور بینززکے سلسلہ پرایک تلخ جائزہ
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،(MA,B.ED,MH-SET)مالیگائوں
آج کی اس رنگین دنیامیں ہر کوئی پرنٹ میڈیا،الکٹرانک میڈیااورسوشل میڈیاکے دامِ فریب میں مبتلاہے۔تعلیم یافتہ ہویاجاہل،امیر ہویاغریب،بلاتفریق مذہب وملت، اونچ نیچ وطبقاتیت کی دیوار سے اٹھ کرہرکوئی اپنی چھوٹی وبڑی تمام کارکردگیوں کوعام کرناچاہتاہے۔دینی،سیاسی،سماجی،اصلاحی،فلاحی،رفاحی،ملّی اور دیگر شعبہ جات میں کی جانے والی خدمات کو منظرعام پر لایاجاتاہے۔اس عمل کے دوپہلوہے۔ مثبت پہلویہ ہے کہ دوسروں میں بھی قوم وملت کے لیے کچھ کرگزرنے کاجذبہ پیداہوتاہے اور سبھی لوگ اپنی خدمات کودراز کرنے کامنصوبہ بناتے ہیں گویاکہ اس اظہار کے ذریعے خدمت خلق کے جذبے اوردیگر شعبہ ہائے حیات میںنمایاں خدمات انجام دینے کے ذوق میں اضافے ہوتاہے۔منفی پہلویہ ہے کہ میڈیاکی چمک دمک نے اخلاص،رضائے الٰہی اور بغیرکسی مفاد کے بندوں کی خدمت کاشوق ختم ہوچلاہے۔ہر کوئی اس لیے کام کرتاہے کہ اس کا نام ہو،شہرت ہو،عزت ہو،اخبارات میں فوٹوآئے یاکم ازکم نیوز شائع ہوجائے۔فی سبیل اللہ کام کرنے کا جذبہ ختم ہوچکاہے۔ غریبوں، یتیموں، حاجتمندوں اور ضرورت مندوں کی امداد کے پیچھے بھی کچھ نہ کچھ ذاتی مفاد پوشیدہ ہوتاہے۔آج کے اس برق رفتار دور میں انسان بغیر کسی فائدے کے محض رضائے الٰہی کے لیے کوئی کام کرنے کوتیار ہی نہیں ہے۔ (الاماشاء اللہ)راقم اس ضمن میں کتناصحیح ہے اور کتناغلط اس بات کا فیصلہ قارئین کوکرناہے جن کی عدالت میں راقم چند مثالیں پیش کررہاہے تاکہ وہ معاشرے کی اصلاح کریں یا راقم کی۔
ہندوستان جمہوری ملک ہے۔یہاں کے باشندے ووٹ بینک سسٹم کے ذریعے اپنانمائندہ منتخب کرتے ہے ۔مگر نمائندہ منتخب ہوکرایساغائب ہوتاہے کہ اس کا چہرہ دوسرے الیکشن ہی میں نظر آتا ہے۔یانظرآتابھی ہے تو اخباروں کی سُرخیوں میں۔کبھی ہاتھ میں ٹکم لیے،کبھی کسی بیت الخلاء کی گٹر درست کرواتے ہوئے ،کبھی کسی بریکرکی تعمیر کے لیے سیمنٹ کی پاٹی اٹھائے ہوئے،کسی چوک کاافتتاح کرتے ہوئے یا کسی بورڈ کی نقاب کشائی کرتے ہوئے۔عوام بھی اتنی بھولی بھالی ہے کہ اس نکمّے اور دوٹکے کے کام پر اپنے کارپوریٹر کومبارکباد پیش کرتی ہے جبکہ یہ کام تو اس کے فرائض میں شامل ہے،ہرحال میں اسے یہ سب کام کرنا ہی ہے،انہیں کاموں کے لیے تو عوام نے اسے منتخب کیاہے۔مگراہل سیاست کام نہ کرتے ہوئے بھی اپنانام کرناچاہتے ہیں، کبھی میڈیاکے ذریعے اور کبھی بورڈ پر یہ جملہ تحریر کرواکے’’فلاں فلاںصاحب کے فنڈ سے ‘‘ گویاکہ وہ کسی چوک یابورڈ کاافتتاح نہیں کررہے ہیں بلکہ اپنے نام کاڈھنڈوراپیٹ رہے ہیںاور واہ واہی تو ایسے بٹوری جاتی ہے جیسے انہوں نے اپنے جیب خاص سے تعمیری کام کروایاہو۔ہاں اگرکسی تعلیمی ادارے کاسنگ بنیادہوتا،کسی ہاسپٹل کاآغازہوتایا پھر ایساکوئی بڑااورنمایاںکام ہوتاجوتمام فرائض کواداکرتے ہوئے انجام دیاگیاہوتواس پر خوشی وانبساط کااظہارضروری ہے۔اس لیے کہ ہر بڑے کام کے پیچھے حوصلہ افزائی پوشیدہ ہوتی ہے۔مگر یہ کیا؟کہ تمام فرائض کال کاٹھری میں بند ہے اور فوٹوکچھوایاجارہاہے گٹر ،بیت الخلائ،روڈ اور بریکرکی تعمیرکرتے ہوئے۔افسوس صد افسوس!
جلد ہی اسکول وکالج میں داخلے کامرحلہ شروع ہوگا۔بہت سے فلاحی وسماجی ادارے یاکچھ ارباب سیاست اپنے اداروں اور کلبوں کے زیراہتمام طلبہ وطالبات میں بیاضوں کی تقسیم کریں گے۔اس فعل میں بھی اب رِیاکاری نے جگہ لے لی ہے۔پچاس روپئے کی بیاض تقسیم کرکے پانچ سوروپئے کی شہرت وصول کی جاتی ہے۔اسٹوڈنٹس کی لمبی قطار لگاکر فارم تقسیم کئے جاتے ہیں،اخباروں میں مراسلات آئینگے،پھرنام نہاد بڑے مہمانوں کی موجودگی میں اوسط یاادنیٰ درجے کی بیاضیں تقسیم کی جائینگی اور اگلے دن اخبار میں بچوں کی طویل قطار والی نمایاں فوٹو کی اشاعت کے ساتھ سستی شہرت کایہ مرحلہ اختتام پذیرہوتاہے۔اور پھراس امر پر کسی کوسرسیدتو کسی کواردوادب کاخدمت گزارقرار دیاجاتاہے۔
مالیگائوں میںاجتماعی شادیوں کارجحان بڑھ رہاہے جوخوش آئند امرہے جس سے لوگوں کابھلاہورہاہے۔مگر یہاں بھی بہت سے خامیاں راہ پاگئیں ہیں جس سے ارباب علم بخوبی واقف ہیں۔ ایک خامی یہ ہے کہ اشتہاربازی کی جاتی ہے،بینرزلگائے جاتے ہیں،پمفلٹ کی اشاعت ہوتی ہے اور بڑے تزک واحتشام کے ساتھ محفلِ نکاح آراستہ کی جاتی ہے جس میں اہل علم اور ارباب سیاست کاجمگھٹاہوتاہے۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ نکاح کے اسٹیج پر سرِعام اکیاون یااک سوگیارہ دولہوںکو بیٹھادیاجاتاہے اور جو بھی ادارہ اس کا اہتمام کرتاہے وہ اس عمل کے ذریعے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، دادو دہش کے ذریعے ،جھوٹی شہرت کے ذریعے یا اپنے کاموں کا دِکھاواکرکے خطیر چندہ حاصل کرکے وغیرہ وغیرہ۔منڈپ میں تمام دولہوں کویکجابیٹھاکہ گویایہ باور کرایاجاتاہے کہ یہ وہ نکّمے ،نالائق اورایسے ناکارہ افراد ہیںجو خود سے اپنی شادی بھی نہیں کرسکتے۔نکاح جیسی سنّت پر عمل کرنے کے لیے بھی انہیں خیراتی رقم یاکسی ادارے کے سہارے کی ضرورت ہے۔اگر آپ اتنے ہی مخلص ہوتواشتہاربازی کیوں کی جاتی ہے؟ کیوں انہیں سب کے سامنے بے نقاب کیاجاتاہے؟کیاجتنااہتمام آپ ڈیکوریشن پر کرتے ہواتنی رقم میں چند اور غریب بچوں کی شادی نہیں ہوسکتی؟اور پھر فیس بُک،واٹس ایپ اور عوامی رابطے کی دیگر سوشل ویب سائٹس پر اس کی فوٹوزاورویڈیوزکیوں شیئرکی جاتی ہیں؟یہ نیک کام پوشیدگی میں کیوں نہیں کیاجاتا؟آخر غریبوں کی ضرورتوں پر اپنی روٹیاں کب تک سینکی جائیں گی؟اب توحال یہ ہوگیاہے کہ کسی کی موت پر بھی شہرت بٹوری جاتی ہے۔کوئی کسی حادثے میں انتقال کرجائے اور کوئی صاحب وارثین کی مددکردے تو اس کی بھی نیوز بنادی جاتی ہے کہ فلاں فلاں صاحب نے روپیوں پیسوں کے ذریعے اہل خانہ کی مدد کی۔اناللہ وانا۔۔۔۔۔۔یہ کام تو اخباری نمائندوں اور صحافی حضرات کاہے کہ معاشرے میں وقوع پذیرہونے والے کاموں کی نشاندہی کریں،صحیح کاموں کی حوصلہ افزائی کریں اور غلط پر سرزنش۔مگرصحافی حضرات بھی کیاکریں؟انھیں تو گھربیٹھے مفت کی نیوز مل جاتی ہے اور دوسرے یہ کہ اب تو ہر قلم کاکوئی نہ کوئی قبلہ بن چکاہے۔ہر قلم کسی نہ کسی کی طرف جھکاہواہے۔کوئی کسی کی اصلاح کرناہی نہیں چاہتاسب کو خیال ِرزق ہے،کسی کو رزاق کی رضاکاخیال ہی نہیں۔
مالیگائوں میں چھوٹے چھوٹے کاموں پر بڑے بڑے بینزلگانے کارجحان بھی کافی بڑھ چکاہے۔ عید پرراقم کے مضمون ’’عیدپر مبارکبادیوں کے بینرکاسلسلہ:سنّت ہے یابدعت؟‘‘میں اس نحوست کی تفصیلی خبرلی گئی تھی۔ چھوٹاموٹاکام کرلواور پھر شاہراہِ خاص پر بڑاسا بورڈ لگوادو، جس میں ایک صاحب ہاتھ میں موبائل لیے،چشمہ پہنے ،گھٹیا اِسٹائیل میں کھڑے ہواور ان کی چپل کے نیچے آٹھ دس چیلوں کی فوٹوہو۔کاش کہ اتناہی روپیہ کسی یتیم کودے دیاجاتا،کسی بھوکے کوکھاناکھلادیاجاتایاکسی بھی نیک کام میں لگادیاجاتا۔مگر افسوس!اب سب کچھ توفوٹوبازی کے لیے ہوکررہ گیاہے۔کیاعامی کیاجاہل؟ سب اس مرض میں ملوث ہیں۔آخرکون کس کی اصلاح کریں؟جبکہ آج ہر ایک کواصلاح کی ضرروت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے بارے میں جس چیز سے میں ڈرتا ہوں وہ شرکِ اصغر ہے، صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! شرکِ اصغر کیا چیز ہے، فرمایا ریا(یعنی دکھاوے کے لئے کوئی کام کرنا)۔ (رواہ: احمد)وہ اعمال جن کو رِیا (دکھاوا) یا سُمعَہ (نام و نمود) کے لئے کیا جائے بظاہر وہ اعمال ادا تو ہو جاتے ہیں لیکن عمل کا مقصد صرف اس کا ادا ہوجانا ہی نہیں ہے بلکہ عمل کا مقصد تو یہ ہے کہ اس سے دنیو ی واُخروی فوائد وبرکات کا حصول ہو اور ریاو سُمعَہ کے لئے عمل کرنے والا نہ صرف اُس سے محروم رہتا ہے بلکہ وہ تباہی اور عذابِ خداوندی کا شکار بھی ہوجاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے لئے جہنم کا وہ ٹھکانہ متعین فرمایا کہ جس ٹھکانے سے خود جہنم پناہ مانگتا ہے چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وہ جو دکھاوا کرتے ہیں اور برتنے کی چیز مانگے نہیں دیتے۔(پ؍۳۰،سورئہ ماعون،آیت ۴-۷)یہ صرف چندباتوں کااشاریہ تھا۔قارئین کرام اپنے گردوپیش اس مرض کابخوبی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ علمائے کرام،مفتیان عظام اور اہل سیاست سے التماس ہے کہ اس مرض کے ازالے کے لیے مل بیٹھ کرمنصوبہ بنائیں تاکہ معاشرہ امن وسکون کاگہوارہ بن سکے۔
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، ایم ایچ سیٹ،جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.