You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
امام احمد رضا کے دور میں ہزاروں اہلسنت علماء موجود تھے ان میں سے چند عظیم علماء و مشائخ کے نام زندہ رہے، یاد رہے یہ حضرات بذات خود ایک سند تھے۔ مثلا پیر مہر علی سرکار، دو مختلف جماعت علی شاہ سرکار، سیال شریف والے پیر، شرقپور والے پیر اور چند عمیق تحقیق والے علماء کرام۔۔۔۔!
امام اہلسنت مولانا احمد رضا خان قادری کے دور میں ان پر تنقید والے علماء اہلسنت کی بھی کمی نہ تھی یعنی حاسدین وافر مقدار میں موجود تھے۔ان میں سے کچھ علماء تو امام کو ایک سادہ سا مولوی سمجھتے تھے،باقیوں کو اپنی دستار اونچی رکھنے کا شوق تھا۔امام احمد رضا اٹھائیس برس کے تھے کہ اسلامی ہجری قمری صدی نے موڑ کاٹا، تیرھویں ختم اور چودھویں شروع ہوئی۔تب تک آپ کی شہرت بلاد عرب و عجم میں پہنچ چکی تھی۔بہت سوں کا خیال تھا کہ آپ بڑے طمطراق والے مولانا صاحب ہونگے۔لیکن آپ نے سادہ سے لباس میں بغیر کروفر کے زندگی گزاری۔امام احمد رضا پر تنقید کرنے والوں کے ناموں سے بھی آج ہم واقف نہیں ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کسی معتبر خانقاہ سے امام احمد رضا کی تحقیقات پر سختی سے تنقید نہیں ہوئی۔ جن حضرات کو پچھلی صدی کے اولیاءاللہ مانا جاتا ہے وہ امام اہلسنت کی تحقیقات سے متفق تھے۔اعلی حضرت کے دور میں علمی کام اہلسنت علماء دنیا کے مختلف کونوں میں کررہے تھے۔آپ کے متوازی بھی بہت سے کام کرنے والے حضرات تھے۔کس چیز نے آپ کو منفرد بنا دیا۔ایک جملہ جس میں ہم بیان کردیتے ہیں وہ ہے ان کاعشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو انہیں ممتاز کرتا ہے۔امام احمد رضا نے زبانی کلامی دعووں کی بجائے اپنے عمل سے خود کو رسولِ خدا کا غلام ثابت کیا۔درحقیقت وہ شریعت پر سختی سے عمل پیرا تھے
اور انتہائی محتاط محقق مفتی تھے۔اللہ عزوجل نے امام کو ایسا حافظہ عطا فرمایا تھا جو ہر دیکھے گئے منظر کو ایک فوٹو سکین کی طرح محفوظ کرلیتا۔ آپ نے بچپن میں ہی وہ کتب پڑھ ڈالی تھیں جن کو بڑے بڑے زعماء جوانی کے بعد پڑھنے کا سوچتے۔ لہذا آپ انتہائی دقیق سوالات پر نپی تلی عالمانہ رائے دیتے۔امام احمد رضا بہت سے علوم کےساتھ ساتھ فنون پر مہارت رکھتے تھے انہوں نے علم وفن کے کئی خودساختہ اماموں کو فن کی باریکیوں کے ذریعے بتایاکہ علم کیا ہوتاہے۔وہ قدیم فلسفے اور جدیدسائنس کے رموز سے واقف تھے۔جدید طب، ریاضی، جغرافیہ اور آسٹرونومی میں مغرب والے ان سے متاثر ہیں۔امام احمد رضا خان قادری ایک جاگیر دار رئیس خاندان سے تعلق رکھتے تھے آپ نے درویشانہ زندگی بسر کی اور اپنی جائیداد میں سے کثیر مال و دولت خرچ کرکے دینی کاموں میں معاونت فرماتے رہے۔آپ کی عمر سڑسٹھ برس تھی جس میں سے زیادہ تر وقت پڑھنے لکھنے میں گزرا۔غیروں نے امام احمد رضا کی مخالفت میں اندھی تقلید سے کام لیا۔ ساتھ ساتھ اپنوں نے بھی خوب حسد و تعصب کی آگ بھڑکائے رکھی۔امام نجانے کتنے درجن علوم کے ماہر تھے۔ جبکہ ان کے ناقدین میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں اردو کا ایک جملہ تک درست لکھنا نہیں آتا۔ آج کے دور میں اپنے اور غیر دونوں ہی آنکھیں بند کرکے ایک راگ الاپتے جارہے ہیں کہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ بہت متشدد تھے۔ غلط قسم کے الزامات ان کے کھاتے میں ڈالے جارہے ہیں۔انہیں کئی چیزوں کا بانی بتایا جارہا ہے!جس کے منہ میں جو بات آتی ہے امام کے نام لگا دی جاتی ہے! اپنوں میں بہت سے اہل علم حجروں میں بیٹھے سنجیدہ تحقیقات کرتے رہتے ہیں اور بعض اس کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ انہی بزرگوں کی بدولت ہمیں امام اہلسنت سے شناسائی نصیب ہوئی ہے۔
ان میں سے کئی بزرگ اب پردہ فرما گئے ہیں۔غیروں میں سے بھی چند قدردانوں نے امام احمد رضا کی علمی خدمات کو مانا اور خوب سراہا بلکہ علم و فن کے میدان میں امام کی پیروی کی۔ کئی متشدد مخالفین نے بھی بعض مقامات پر امام کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مولانا احمد رضا کی پیدائش سے پہلے اہلسنت علماء نے اسماعیل دہلوی پر نہ صرف کفر کے باقاعدہ فتوے دیئے تھے بلکہ اس کے باطل عقائد و نظریات کے رد میں کتابیں تصنیف فرمائی تھی۔ اعلی حضرت کو کہیں سے زبانی پتہ چلا کہ وہ مرنے سے پہلے توبہ کرگیا تھا۔آپ نے اس کی مطلقا تکفیر نہیں کی۔۔۔۔ اعلیحضرت شخصیات کی بجائے نظریات پر بات کرتے تھے ان کے ملفوظات والی کتاب سے بہت سی دانشمندانہ باتوں کا پتہ چلتا ہے مثلا وہ اس بات کے قائل نہ تھے کہ خواجہ اجمیری علیہ الرحمہ نے موسیقی یعنی باجے گاجے وغیرہ کو قوالی کاحصہ بنایا۔کئی مشہور افواہوں کا رد اس کتاب میں موجود ہے!
امام احمد رضا خان جمعہ کی تقریر کے علاوہ سالانہ 12 ربیع الاول کی صبح کو وعظ فرماتے۔آج ساری ساری رات سپیکروں میں گلا پھاڑ پھاڑ کر لوگوں کو کافر کافر کہنے والے خود کو اعلی حضرت کا وارث بتاتے ہیں۔اور ساری عمر سوائے گلا پھاڑنے کے کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دیتے۔امام احمدرضا کے سیاسی فلسفے میں 1912 کے 4 نکاتی چارٹر کو بہت اہمیت حاصل ہے۔آج تک جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس ایجنڈے کو مسلمانوں کے سیاسی معاملات کا حل مانتا چلا آرہا ہے۔ خصوصا ڈاکٹر محمد ہارون برطانوی نومسلم اور ڈاکٹر مسعود جیسے ماہرین اپنے رفقا سمیت اس کا پرچار کرتے رہے۔یاد رہے ڈاکٹر مسعود اور وحید احمد مسعود دو علیحدہ علیحدہ شخصیات تھیں۔ آج کے دور میں خلیل احمد رانا ایک بزرگ ہیں جو جہانیاں سے علمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔خصوصا انٹرنیٹ پر خوبصورت پی ڈی ایف کتابیں اپلوڈ کرنے میں ان کا کردار ہے۔علامہ مفتی محمد عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اعلی حضرت فاضل بریلوی کی تعلیمات کو عام کرنے کیلئے بہت جدوجہد فرمائی۔حکیم موسی امرتسری رحمۃ اللہ علیہ نے علمی کام کرنے کیلئے مختلف ادارے، لائبریریاں اور ادبی شخصیات کو متعارف کرایا اور حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.