You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
انسانیت کا سب سے عظیم انقلاب:مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری
-----------------------------------
غلام مصطفی رضوی،نوری مشن مالیگاؤں
اندھیرا بڑھتا جارہا تھا۔اُمید کی کرنیں دَم توڑ رہی تھیں۔ معاشرتی ناہمواریوں نے کھلتی کلیوں کو کمھلا دیا تھا۔ کتنے ہی آنسو دامنوں میں جذب ہو چکے تھے۔ ماؤں کے کلیجے چھلنی تھے۔ درندوں نے اپنی ہی بچیوں کو ماؤں کی گودوں سے چھین کر زمیں کی گہرائیوں میں زندہ دفن کر دیا تھا۔ بچیوں کی گھٹی گھٹی چیخوں اور مدھم پڑتی نبضوں نے بھی بے رحمی کے پتھروں کو موم کا جگر عطانہیں کیا۔اَدھ کھلی کلیوں کو صبح صبح گورِ غریباں کی نذر کرنے والے بے رحم انساں شام کی محفلوں میں درندگی کی داستاں ہنس ہنس کر بیان کرتے۔ احساسِ انسانیت مر چکا تھا۔ شرک نے عقیدے کی بزم کو ویران کر ڈالا تھا۔ معبودانِ باطلہ کے آگے جبیں سجدہ ریز تھی۔ حیا کب کی بک چکی تھی۔ شراب عام تھی۔ طہارت عنقا تھی۔ فکر میلی تھی،نظر پراگندہ تھی۔ کردار کی چمک ماند تھی۔ افکار پر برسوں کی گرد نے بسیرا کر رکھا تھا۔
راگ وراگنی اور عیش و طرب زندگی کا سرمایہ کہلاتے۔ خواتین کو محض تفریحِ طبع کا ذریعہ جانا جاتا۔ بے غیرتی کا دور دورہ تھا۔ انسانی قباتار تار تھی۔ حیوانی خصلتیں تمغۂ افتخار تھیں۔ ہر طاقت ور غریب کی عزت کا سوداگر تھا۔ بازارِ دنیا میں عصمتیں نیلام تھیں۔ کوئی دُکھی دلوں کا سہارا نہ تھا، ایسی گھٹی گھٹی فضا میں کائنات انقلاب کو ترس رہی تھی۔ ایسا شکستہ دور عالمِ انسانیت نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ایسی معاشرتی ناہمواری کبھی وارد نہ ہوئی تھی۔ دنیا مسکنِ ظلم بن چکی تھی۔ فضا ایسی بوجھل کہ- الامان والحفیظ۔
یہ نظام قدرت ہے اندھیروں کے بعد اُجالوں کا دور آتا ہے۔ ظلم کے بادل چھٹتے ہیں تواُجالوں کی کرنیں نمودار ہوتی ہیں۔ انسانیت کے لیے سب سے مہیب دور کیا آیا کہ رب کی رحمت جوش پر آئی۔ ایک ایسی صبح نمودار ہوئی جس نے ساری انسانیت کو نہال کر دیا۔ اُسے بھیجا گیا جس کی آمد کا سبھی کو انتظار تھا،جس کے لیے کائنات آراستہ کی گئی تھی، جس ذات کے لیے کونین کی تخلیق ہوئی تھی۔ جس کا آنا انسانیت کا نقطۂ کمال ٹھہرا۔وہ آئے جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
’’اور اس سے پہلے اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے تو اللہ کی لعنت منکروں پر‘‘ (سورۃالبقرۃ:۸۹)
۱۲؍ربیع الاول کی ایک صبح تھی۔ جب انسانیت کا نصیبہ بیدار ہو گیا۔ایسی صبح کبھی نہ آئی۔ جس کے دامن سے احسان کا سویرا نمودار ہوا۔ زمانہ پُر نور ہوگیا۔ بزم ہستی نکھر گئی۔جانِ رحمت کے نغمے بلند ہونے لگے۔ اُفق سے تا بہ اُفق شہرہ ہونے لگا۔ رفعتِ ذکر پاک کا یہ عالم کہ رب کریم شان بیان کررہا ہے-وَرفَعنالَک ذِکرک-سے مقام محبوبیت کی اُن رفعتوں کو باور کرا رہا ہے جہاں عقل کی رسائی بھی نہیں۔فکرِ انسانی رفعتِ ذکر کا ادراک نہیں کرسکتی۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کیا آئے انقلاب آگیا۔ پتھر دل موم ہونے لگے۔ توحید کے نغمے گونجنے لگے۔ خزاں کے بادل چھٹ گئے۔ میلے دل مثلِ آئینہ ہوگئے۔اللہ اللہ ؎
وہ عہد ظلم و جہالت کے دل نما پتھر
نبی سے ملتے رہے آئینوں میں ڈھلتے رہے
کردار دمکنے لگے۔ افکار چمکنے لگے۔ اطوار مہکنے لگے۔ مُرجھائی کلیاں کھِل اُٹھیں۔ ٹوٹے دل جُڑنے لگے۔ ڈالیاں جھولنے لگیں۔ کلیاں کھلنے لگیں۔ صبحِ امید نمودار ہوئی۔ شام غم چھَٹ گئی۔ پژمردہ چہرے گلاب ہوگئے۔ ذرے آفتاب ہوگئے۔قطرے گُہر بن گئے۔کم تر برتر ہوگئے۔انسانیت کو رُسوا کرنے والے عزتوں کے سفیر بن گئے۔ رہزن رہبر ہوگئے۔تھمی تھمی ہوائیں مشک بار ہوگئیں۔ خزاں کے نشانات مٹ گئے۔ گلشن ہرے بھرے ہوگئے۔ بلبلیں چہکنے لگیں۔ قمریاں نغمہ سرا ہوگئیں۔ توحید کے نغمے بلند ہونے لگے۔ پستیوں میں بسنے والے ہم دوشِ ثریا ہوگئے ؎
اِک عرب نے آدمی کا بول بالا کردیا
خاک کے ذروں کو ہمدوشِ ثریا کردیا
نورِ کائنات بن کے شاہِ ذی وقار آگئے۔ رحمتِ کردگار آگئے۔ محسنِ انسانیت آگئے۔ نور کے باڑے بٹنے لگے۔ ایسی پُر نور ساعت کہ جس کے بطن سے وہ سویرا نمودار ہوا کہ اب کسی سویرے کی ضرورت باقی نہ رہی ۔ پہلے بھی سویرے ہوتے تھے۔ پھر اندھیری چھاجاتی۔ پہلے بھی انبیا آتے تھے، پھر انسانیت ہادی کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتی تھی۔ انسانی وقار ختم ہوتا تھا تو بزمِ ہستی کواُجالنے والے آتے تھے۔ تاریکی بڑھتی تو ہادی کی ضرورت محسوس ہوتی۔ ۱۲؍ربیع الاول کو وہ ہادی آئے جن کی ہدایت سبھی کے لیے ہے۔ جن کی نبوت ایسی کامل کہ اب کسی نبی کی ضرورت باقی نہ رہی۔ انبیا کا آنا جانا اسی آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جلوہ گری کے لیے تھا۔ وہ آئے تو کائنات کا نکھار بن کر، بزم ہستی کی بہار بن کر،کونین کا وقار بن کر، غمگیں دلوں کا قرار بن کر، قیامت تک انھیں کا سکہ چلے گا، اولین وآخرین انھیں کے کرم خاص سے حصہ پائیں گے۔ ؎
رُخِ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسراآئینہ
نہ کسی کی بزم خیال میں نہ دوکانِ آئینہ ساز میں
فقط اتنا سبب ہے انعقادِ بزم محشرکا
کہ ان کی شانِ محبوبی دکھائی جانے والی ہے
رضاؔ بریلوی نے جو اپنے آفاقی سلام میں رحمت کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’جانِ رحمت‘‘ اور ’’شمعِ بزمِ ہدایت‘‘ کہا لاریب خوب کہا۔ اس لیے کہ رحمت کی وہ جان ہیں۔ وہ کیا آئے رحمتیں چھاگئیں۔ زحمت کا دور رُخصت ہوا۔ بزم ہدایت کی آخری شمع ہیں آقا صلی اللہ علیہ وسلم۔ خاتم الانبیا کی روشنی سے اولین وآخرین منور ہورہے ہیں۔ قیامت تک انھیں کی روشنی کائنات کو نور نور رکھے گی۔ بزمِ محشر انھیں کے نورِ اقدس سے منور ہوگی۔ رب کریم نے عظمت عطا کی۔ ذرۂ ناچیز سے کم تر بشر خاک ان کی عظمتیںکم کرسکیں گے۔ رب نے بڑھایا ایسا کہ ہر لحظہ عظمت میں اضافہ ہورہا ہے۔ہر لمحہ درود وسلام کے والہانہ نغمے آفاق میں گونج رہے ہیں۔ محبتوں کی سوغات عقیدتوں کی تھالی میں سجا کر پیش کی جارہی ہے۔ عشاق کے قافلے رواں دواں ہیں۔ فرشتگانِ الٰہی قطار در قطار درِ محبوب پر آتے اور محبتوں کی سوغات نذر کرتے ہیں۔ درود وسلام کا سلسلہ صبحِ قیامت تک جاری رہے گا۔ رب کریم محبوب کی شان ایسی بڑھا رہا ہے کہ مٹانے والے مٹ گئے۔ ذکر پاک پھیلتا ہی جارہا ہے۔ دلوں کے طاق پر محبتوں کے دیے روشن ہیں ؎
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
[email protected]
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.