You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اسلام ایک آفاقی دین!
****************
غلام مصطفی رضوی، مالیگاؤں
==================
اللہ کریم کا ارشاد ہے:
’’بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے‘‘
(سورۃ آل عمران:۱۹)
اور یہ دین ’’دین فطرت‘‘ ہے جس کے ہر ہر اصول کی تائید و تصدیق روحانی ذرائع کے ساتھ ساتھ عقلی ذرائع سے بھی ہوتی ہے۔
مادی انقلاب کے ساتھ ہی اسلام مخالف قوتوں نے یہ گمان کر لیا کہ اب مادیت کے مقابل اسلام کا روحانی نظام ٹک نہیں سکے گا اور سائنسی ترقی اسلام کی راہ میں رکاوٹ بن جائے گی لیکن بہت جلد یہ وہم ڈھے گیا اور عقلی تحریک کے نتیجے میں اسلام کا حسن مزید نکھر کر نگاہوں کو خیرہ کرنے لگا۔
سرکار کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو دعوت پیش کی وہ پوری کائنات اور ساری مخلوق کے لیے تھی۔
ارشاد ہوتا ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ
(سورۃسبا:۲۹) ’’
اور اے محبوب ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے‘‘ (کنزالایمان)
…اس میں دین کی آفاقیت کے ساتھ ہی ختم نبوت کا پہلو بھی ہے اور محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کہلوایا گیا:
’’اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں‘‘
(سورۃ الاعراف:۱۵۸)
معلوم ہوا کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جس کی دعوت ہر دور ہر علاقہ اور ہر فرد کے لیے ہے، دعاۃ و مبلغین اور علما و صوفیا نے اشاعت دین کے لیے جو کاوشیں کی ہیں وہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔
عالمی مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی (ولادت ۱۳۱۰ھ/ ۱۸۹۲ء وصال۱۳۷۲ھ/ ۱۹۵۴ئ) گزری صدی کے ایک فعال و سرگرم اور مثالی مبلغ گزرے ہیں، جن کی دعوتی خدمات کے نقوش صرف بر صغیر ہی میں نہیں بلکہ یورپ و افریقا اور روس و چین کی سر زمین پر جگ مگا رہے ہیں۔ آپ کا اسلوبِ دعوت بڑا دل کش، دل نشیں اور دل پذیر و موثر اور حکمت سے پر تھا۔ جس خطے میں تشریف لے جاتے وہاں کی زبان میں دعوت اسلام پیش فرماتے۔ مادی دنیا میں اسلام کے روحانی نظام کی تشریح و توضیح کے لیے سائنسی و عقلی اور تجرباتی علوم سے مثال پیش فرماتے اور اسلام کی سچائی و صداقت کے دلائل پیش کرتے۔ جب کلام فرماتے تو اہل علم حیرت و استعجاب میں ڈوب جاتے۔ آپ کے دست حق پر اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ مغربی دانش ور برنارڈشا آپ سے مکالمہ کے نتیجے میں اسلام کی عظمت کا معترف و قائل ہوا۔
ایسے مہذہب و سچے دین کی اشاعت سلجھے اور احسن انداز میں کرنے کی ضرورت ہے۔اور یہی قرآن کا ارشاد بھی ہے:
’’اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہترہو‘‘
(سورۃ النحل:۱۲۵)
زعماے مغرب نے اسلام سے متعلق جو غلط فہمیاں پیدا کی ہیں اس کے متعدد اسباب ہیں
جن میں ایک سبب تو خود وہ افراد ہیں جن کی خود ساختہ توضیحات سے اسلام کی غلط شبیہ دنیا کے سامنے واضح ہو رہی ہے۔
دوسرے یہ کہ ایسے حالات میں بھی مسلمان اسلام کی تعلیمات پر عمل کی بجائے مغرب کی اندھی تقلید کا شکار ہو کر غیروں کو تنقید کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔
اگر مسلمان اسلامی تعلیمات پر صحیح طور پر عمل کرلیں تو بدگمانیاں اور جھوٹے پروپے گنڈے خود بہ خود دم توڑ دیں گے۔ اور اسی پہلو کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.