You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اسلامی شعار’’ذبیحہ‘‘ پر فرقہ پرستانہ حملوں کا تجزیہ :
ستمبر۱۹۱۹ء میں خلافت تحریک کاقیام عمل میں آیا۔
ترکی کی خلافتِ عثمانیہ دوسری جنگِ عظیم میں بُری طرح ہچکولے کھا رہی تھی۔ برطانیہ کے مدِ مقابل ہونے کے باعث ترکی اپنے اتحادی جرمنی کی شکست سے نیم جاں ہو چکاتھا، مسلمانوں کے مراکزحرمین- خلافتِ عثمانیہ کے زیرِ خدمت تھے، اس لیے ان کی بقا کے لیے عثمانی حکومت کی بقا ضروری سمجھی گئی اور ہندی علما میں بالخصوص خلافت تحریک کے روحِ رواں مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے انگریز کے خلاف محاذ آرائی میں مشرکوں کے لیڈر گاندھی جی کو ساتھ ملایا۔
گاندھی نے حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے مسلمانوں کی ہم دردی حاصل کی اور اپنا مقام بنایا، مختلف تحریکات اِس پلیٹ فارم سے چلوائیں۔ Non Co-operation، تحریک عدم تعاون، تحریک ہجرت وغیرہ قابلِ ذکرہیں۔ لیکن جب اس سیاسی تحریک کو شباب کے زمانے میں اچانک فروری ۱۹۲۲ء میں عملاً خاموش کروادیاگیا تب مسلمانوں کو ہوش آیا کہ مشرکین نے کس طرح مسلم مفادات پر ضربِ کاری لگائی ۔
حالاں کہ بعض علما نے مشرکین کی سازشوں کو بھانپ لیا تھا اور مسلمانوں کو خبردار بھی کیا تھا کہ مشرکین تمہارا بھلا کب چاہیں گے؟ لیکن! افسوس کہ جب کارواں لُٹا تب ہوش آیا۔مسلمانوں کی جائز نوکریاں گئیں۔ ہجرت سے سرحدوں پر مسلماں شہید کیے گئے، جو لوٹے ان کی جائے دادوں پر فرقہ پرست قابض تھے، مسلم یونی ورسٹی میں طلبا کا تعلیمی نقصان ہوا، ہندو یونی ورسٹی میں یہ تحریک نہیں چلائی گئی اور اُسے آباد رکھاگیا، فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کو توڑ کر رکھ دیا۔
ہندوؤں کو منظور نہ تھا کہ مسلمان سرکاری عہدہ پائیں۔ان کے بس میں نہ تھا کہ جس یونی ورسٹی کی بدولت تعلیم پاکر آسامیاں پر کریں اسے بندکراسکیں۔ تحریک کی آڑ میں موقع ملا؛ مسلم یونی ورسٹی کو انگریزی تعلیم کے بائی کاٹ کی آڑ میں تعطل کا شکار بنایا؛ ہندویونی ورسٹی بنارس پہ آنچ نہ آئی۔ روزنامہ پیسہ لاہورنے ۳؍دسمبر ۱۹۲۰ء میں طنزیہ نظم شائع کی ؎
مشقِ عمل کی ہوگی علی گڑھ سے ابتدا
لے کر خدا کا نام گھر اَپنا جلائیں گے
سچر کمیٹی کی منفی رپورٹ کی بنیادی وجہ ’نان کوآپریشن‘ کے زمانے میں مسلمانوں کاتعلیمی نقصان ہے، وہ نہ ہوتا تو تعلیمی پستی کی نودہائیاں درپیش نہ آتیں۔اسی کے بعد ’’قربانی‘‘ کو نشانہ بنایا۔
اقبالؔ نے اسی تناظر میں یہ اشعار کہے:
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
توٗ احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی
خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے
مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشائی
بلکہ خلافت تحریک کے قیام سے قریب ایک صدی قبل [۲۵؍جون ۱۸۳۸ء میں]ہی فرقہ پرستوں نے اسلامی شعار ’قربانی‘ کو گھیرنا شروع کردیا تھا، بمقام شملہ شاہ شجاع الملک و رنجیت سنگھ کے مابین معاہدہ ہوا تو اُس کا ایک پوائنٹ یہ تھا کہ ’’جن اوقات میں رنجیت سنگھ اور شاہ شجاع کا لشکر ایک ہی جگہ مقیم ہو وہاں گائے[مُراد گائے کی نوع کے تمام جانور] کاٹی نہ جائے گی۔
‘‘ [النور،ص۲۲ بحوالہ سرحد اور جدوجہد آزادی، اللہ بخش،ص۶۰،طبع کراچی۱۹۸۹ئ]
۱۸۸۰ء میں بھی اسلامی شعار قربانی کے خلاف مشرکین نے زور آزمائی کی، اسی دور میں علماے کرام نے ان کے خلاف فتویٰ دیا، امام احمد رضا نے قربانی کے ’شعارِ اسلام‘ اور اس سے دست برداری ’ذلتِ اسلام‘ ہونے کے ضمن میں فتویٰ ’’انفس الفکر فی قربان البقر‘‘[۱۲۹۸ھ]جاری کیا۔
-بلاشبہہ مسلمانوں کو ملکی قوانین کا احترام کرنا چاہیے اور جہاں قانوناً ذبح گائے پر پابندی ہے، اس کا لحاظ ہو- لیکن اس نوع کے دیگر تمام جانوروں کو بھی ممنوع قرار دینے کی کوشش مسلمانوں کی قربانی پر ہی وار ہے؛ ایسی حرکتیں جس کو فرقہ پرستانہ سوچ کے ساتھ جمہوری ملک میں مسلمانوں پر مذہبی دُشمنی کی بنیاد پر تھوپا جائے جس میں اسلامی شعائر کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں جمہوری طور پہ شرعی تحفظات کی خاطر ضرور آواز اٹھانی چاہیے۔ ورنہ آج قربانی پر حملہ ہے کل کو عبادت، مسجد، مدرسہ، خانقاہ، مزارات، قبرستان، اسلامی احکام، جمعہ وعیدین،اذان، سلام، خطبہ کی ادائیگی پر بھی حملہ ہوگا، فرقہ پرستوں کے سبب اسلامی اصولوں سے ایک قدم پیچھے جانا، مزید دس قدم دھکیلے جانے کے برابرہے، فرقہ پرستوں کے وہ منصوبے جو اسلام دشمنی میں ایک صدی سے زائد عرصے سے مسلمانوں پر تھوپے جا رہے ہیں، اُنھیں نامراد بنانے کے لیے بیداری کا مظاہرہ کریں۔ یاد رکھیں! جمہوری ملک میں جمہوریت کا گلا گھوٹنے کی جو سازشیں ہورہی ہیں، اُن سے نگاہیں موند لینا مستقبل میں بڑے خطرات سے دوچار کر سکتا ہے۔
ہندومسلم اتحاد کی آڑ میں مسلمانوں کے شعار قربانی کو بند کروانے کی تحریک ۱۳۲۹ھ/۱۹۱۱ء میں چلائی گئی۔ اس زمانے میں اسلامی شعار کی حمایت میں علما میں امام احمد رضا، مولانا امجد علی اعظمی،مولانا نواب مرزا خان نے فتوے جاری کیے۔جب کہ بعض ’’اپنے‘‘ قربانی کے خلاف مشرکین سے معاونت کر رہے تھے، یہ تسامح مشرکین کے اتحاد سے ہوا۔پروفیسر مولانا سید سلیمان اشرف بہاری[صدرشعبۂ علوم اسلامیہ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ] نے اسلامی شعائر بالخصوص قربانی کے ضمن میں ایک رسالہ ’’الرشاد‘‘ [طبع ۱۹۲۰ء از علی گڑھ] لکھا جس پر حکیم محمد حسین عرشی نے ماہ نامہ فیض الاسلام راول پنڈی [نومبر ۱۹۸۱ئ] میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’ہندوذہن آج بھی وہی ہے جو ۲۱۔۱۹۲۰ء میں تھا۔‘‘…قارئین! قربانی کو جس طرح سے آج فرقہ پرستوں نے نشانہ بنایا یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ان کی پرانی پلاننگ ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ فرقہ پرست دوست نہیں ہوسکتے، ان سے ایسا اتحاد جو دین وشعائرِ اسلام کی تباہی کا اندیشہ ہے مُضر وناروا ہے۔ پروفیسر سید سلیمان اشرف لکھتے ہیں:
’’مسلم لیگ میں جب رزولیوشن پیش ہونے لگے تو ڈاکٹر انصاری صاحب نے ترکِ قربانی گاؤ کا رزولیشن پیش فرمایا جو تھوڑی خوش بیانیوں کے بعد منظور ہوگیا…ترک قربانی گاؤ[یعنی گائے کی نسل کے تمام جانور] کے لیے جن افسوس ناک طریقوں کو عمل میں لائے سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسی بے باکی پر باوجود مسلمان ہونے کے انھیں جرأت کیوں کر ہوئی۔‘‘
[النور،طبع ممبئی،ص۱۳۔۱۶۔۱۷]
شعائرِ اسلام خواہ قربانی ہو یا مذہبی اُمور کی انجام دہی، اس سے احترازمیں فرقہ پرستوں کی حوصلہ افزائی ہے، اس لیے ملک بھر میں اس ضمن میں مسلم نمائندوں کوموثر و پرامن و جمہوری اقدام ضرور کرنا چاہیے۔ [email protected]
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.