You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
مشہور نقاد اور دانش ور پروفیسر عابد حسین نے اپنی معرکۃ الآرا تصنیف ''قومی تہذیب کا مسئلہ ''کی ابتدا ان الفاظ میں کی ہے:.
''علمی کامو ں میں سب سے دقت طلب کا م تعریف خصوصاََ مجرد تصورات کی تعریف ہے ۔ایک ایسا کلی تصور قائم کرنا جو بے شمار جزئیات کو اپنے احاطے میں لے لے بڑی درد سری چاہتا ہے ۔سقراط سے جو ایتھنس والے عاجز آگئے تھے اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ہر شخص کو مجرد تصورات مثلاََعدل ،شجاعت ،عفت اور عشق کی تعریف پر مجبور تھا اور جرح کرتے کرتے اس کے ناک میں دم کر دیتا تھا ۔مگر مشکل یہ ہے کہ عملی مسائل میں اس کے بغیر کام بھی نہیں چلتا ۔ہم کلی اور مجرد الفاظ دن رات استعمال کرتے ہیں۔ہمارے ذہن میں ان کا کوئی واضح اور معین مفہوم نہیں ہوتا ہے ۔چنانچہ علمی بحثوں میں جہاں موضوع بحث کا مفہوم میرے نزدیک کچھ اور ہوتا ہے اور آپ کے نزدیک کچھ اور ،بڑی الجھن پیدا ہو جاتی ہے ۔اس لیے مناسب یہ ہے کہ جن الفاظ پر ساری بحث کا دارو مدار ہو ان کا مفہوم شروع ہو نے سے پہلے معین کر لیا جائے ''۔[1]
لہٰذا ''اتحادو اختلاف’’ جیسے مجرد تصورات کا مفہوم طے ہونا نہایت ضروری ہے۔
شاہ راہ حیات کے ہر ہر موڑ پر پیش نظر گروہ یا افراد کے ما بین آپسی ہم نوائی اور اتفاق رائے کو اگر مثالی اتحاد فرض کیا جائے تو اس کا وجود نطق و فکر سے عاری، زبان و بیان سے عاجز جانوروں میں بھی پایا جانا تقریباََمتعذر ہے چہ جائیکہ ان خوبیوں کے مالک مخلوق ''انسان''میں ۔ ان کے درمیان اس چیز کو ڈھونڈھ نکالنا ہندستان کے مغربی چھور پر کوہ ہمالہ تلاش کرنے والی بات ہوگی ،کیوں کہ وہاں بجز کھارے پانی اور اتھاہ سمندر کچھ ہاتھ نہ آے گا۔۔کہنے کا مطلب یہ ہے اپنے 'عمومی مفہوم 'کے ساتھ' اتحاد' کاوجود اگر محال نہیں تو کافی حد تک 'شایدباید 'کے قبیل سے ہے ۔اس کو مانتے تو سب ہیں ۔گاہے گاہے اس کی نعرہ بازی بھی کر لیتے ہیں۔انقلابات اور تختہ پلٹ کرنے میں اس کو بطور ہتھکنڈہ استعمال بھی کرتے ہیں ۔اکثر اس کی پر زور حمایت اور بلند بانگ وکالت بھی کرتے ہیں مگر (معاف فرمائیے گا!)یہ حقیقت ہے کہ اگر مناطقہ کے کلی طبعی سے صرف نظر بھی کر لیا جائے پھر بھی یہ کوئی ایسی کلی نہیں جس کا وجود خارج میں ضروری ہو۔یہ حقیقت ہے کہ 'اتحاد' من کل الوجوہ کوئی سماجی حقیقت نہیں ،اس کا حال مساوات ،انسانی وقار( Human dignity)وغیرہ سے مختلف نہیں کہ اگر طاقت و قوت کے بَل پر ان کو زندگی کے ہر ہر شعبے میں نافذکرنے کی کوشش کی جا ئے ،تو زندگی اجیرن ہو جائے گی،اور اجیرن ہی کیا معمول و اعتدال سے ہٹ کر بد نظمی اور انارکی کی راہ پر لگ جایے گی ۔جیسا کہ کمیونسٹ نظریات کے حامل ممالک میں اس کا مشاہدہ کیا جا چکا ہے۔
عالمی شہرت یافتہ فلسفی اور ماہر اقتصادیات کارل مارکس(Karl Marx)کے اقتصادی اور سماجی نظریات سے متاثر ہوکر بعض ممالک نے فلسفۂ کمیونیزم کی پر زور وکالت کی جس میں طبقہ بندی سے خالی سماجی تفاوت و اختلاف سے دور سماج میں یقین کیا جاتا ہے ،اور کسی بھی طبقے کے استحصال کی مخالفت کی جاتی ہے۔
اس فلسفہ پر سب سے پہلے عمل کرنے والوں میں روس کا نام لیا جاتا ہے پھر اس کے بعد چین کا۔ان لوگوں نے دنیا میں مساوات اور برابری لانے کے لیے تمام حدود پار کر دیا۔ بہت سے لوگو ں نے طبقاتی تفریق و اختلاف کو ختم کرنے یا کم کرنے لیے اس فلسفہ کو قبول بھی کیامگر حقیقت یہ ہے کہ:
ع چمکتا جو نظر آئے وہ سب سونا نہیں ہوتا
اس فلسفہ کے مطابق غریب لوگوں کو چاہیے کہ انھیں جس چیز کی ضرورت ہو اسے امیروں اور صاحب ثروت لوگوں سے جس طرح چاہیں حاصل کر لیں خواہ اس کے لیے جبر واکراہ کی حد تک ہی کیوں نہ جانا پڑے یعنی اس ضمن میں وہ مار پیٹ، چوری ڈکیتی تک کر سکتے ہیں کیوں کہ ظاہر ہے کہ کوئی شخص اپنی گاڑھی کمائی آسانی سے دینے سے رہا!!
اگر غریب لوگ اس فلسفہ پرعمل کرتے ہوئے مالداروں کو لوٹنا شروع کر دیں تو ہوگا یہ کہ کل کے مالدار آج کے غریب ہو جائیں گے اور کل کے غریب آج کے مالدار ہو جائیں گے تو مساوات کہاں ہوئی؟یہ تو غنڈا راج ہوا۔
معاشی اور سماجی اختلاف ختم کرنے کے چکر میں چین کے مشہور رہنما Mao-Tse-Tungنے ایک نیا گل کھلایا ،ان کے مطابق سرمایہ داری کے خاتمے کے ذریعہ سماجی مساوات قائم نہیں ہو پائی لہٰذا اسے لانے کے لیے ثقافتی انقلاب لانے کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ ان افکار و خیالات میں تبدیلی لائی جائے جو سرمایہ دارانہ نظام کے عادی لوگوں کے قلوب و اذہان میں رچ بس گیے ہیں۔اپنے اس نظریہ کو عمل کا جامہ پہنانے کے لیے ماؤ نے بڑے عہدوں پر فائز حضرات کو چھوٹے کام پر مامور کرنا شروع کر دیا مثلاًپروفیسروں کو کوئلے کے کان میں کام کرنے پر آمادہ کیا ،شاعروں اور ادیبوں کو پتھر اٹھانے کو کہا ،ذرا سوچئے !ان شاعروں پر کیاگزری ہوگی جو محبوب کی ہلکی سی مسکراہٹ پر مر مٹتے ہیں ،اور بوڑھے پروفیسروں کو بھی مت بھولیے جن کی پوری زندگی تحقیق و ریسرچ میں گزری ہو ۔ جب ان سے کدال چلانے کا مطالبہ کیا گیا ہوگا ؟
ہواوہی جو منطقی طور سے ہونا چاہیے تھایعنی ہر شعبہ اس کے نا اہل لوگوں کے ہاتھ میں پڑ کر تباہی کی راہ پر لگ گیا،بہر کیف دھیرے دھیرے یہ فلسفہ کمزور ہوتا گیا اور اس کے حامیوں کی تعداد بھی کم سے کم تر ہو گئی ۔آج بھی دنیا میں عدم مساوات ہے اور غالباً یہ رہتی دنیا تک باقی رہنے والی حقیقت ہے۔
لیکن اگر ان مجرد تصورات سے مکمل چشم پوشی کی جائے تو حقائق سے ڈرنے کی اعلیٰ مثال ہوگی ،کذاب ہوگا وہ شخص ان تمام چیزوں کی پرواہ نہیں کرتا ،اور لچر قسم کے دلائل دے کر اس کا یک لخت انکار کرتا ہے ،ہم بعض چیزوں میں ان لوگو ں کے ساتھ بھی متحد ہیں جن سے سیدھے منہ بات کرنا ہمارے لیے عذاب معلوم ہوتا ہے،ہم میں سے کون ہے جو اس بات کا انکار کرے کہ وہ انسان نہیں ہے شاید کوئی عقل سلیم رکھنے والا ایسا ہر گز نہیں کر ے گا،ہمیں بعض چیزوں میں ان لوگوں سے بھی برابری کا دعویٰ کرنا پڑتا ہے جن کے ذکر سے ہماری ناک اور بھوں تن جاتی ہیں ،ہم میں کتنے ہیں جو اس بات کا انکار کریں کہ وہ اس دنیا کی مخلوق نہیں ہے!
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں اضافی اصطلاحات (relative terms)ہیں ہم بیک وقت متحد ہیں اور باہم مختلف بھی لیکن جہاں تک نظریات میں اتحاد کا سوال ہے تو یہ ایک ایسا قضیہ ہے جس کا حل تلاش کرنا بڑے سے بڑے کیا برے سے برے فلسفی کے بھی بس کا روگ نہیں۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.