You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
یہ مضمون علامہ اسید الحق صاحب قادری بدایونی کی کتاب خیرآبادیات سے پیش کیا گیا
مدرسہ خیرآباد کی ایک امتیا زی خصوصیت اساتذہ کی طلبہ کے ساتھ شفقت ومحبت ہے، اساتذہ خیرآباد اپنے طلبہ کو اپنی اولاد سے کم نہیں سمجھتے تھے،ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھتے، اور تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بڑی توجہ دیتے تھے، مولانا معین الدین اجمیری کے شاگرد مولانا اسرائیل پشاوری لکھتے ہیں:
ہندوستان کے اکثر علما اپنے شاگردوں پر انتہائی شفقت اور بے حد مہربانی فرمایا کرتے تھے، مگر خاندان عالیہ خیرآبادیہ کے علما تو بالخصوص انہیں اپنی اولاد سمجھتے تھے، اور اپنی حویلی ،مکان،یا قریبی جگہ میں ٹھہرایا کرتے تھے، کیوں کہ ان کا مقصد صرف پڑھنا نہیں تھا ساتھ ساتھ صحیح تربیت بھی ہوتی تھی۔ ( مولانا معین الدین اجمیری تلامذہ کا خراج عقیدت: ص ۹۷)
شفقت ومحبت کا یہ انداز بانی مدرسہ خیرآباد مولانا فضل امام خیرآبادی سے چلا آرہا ہے، ان کی تربیت وتعلیم کا نتیجہ تھا کہ یہ شفقت ومحبت خیرآبادی اساتذہ میں نسلاً بعد نسل منتقل ہوتی رہی، حضرت غوث علی شاہ پانی پتی(ولادت:۱۲۱۹ھ؍۱۸۰۴ئ۔وفات:۱۲۹۷ھ؍۱۸۸۰ئ) مولانا فضل امام خیرآبادی کے تلمیذ ہیں ،اپنے استاذ اور ان کی اہلیہ کی شفقتوں کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
یہ ( مولانا فضل امام خیرآبادی ) مبرور مغفور ہمارے حال پر نہایت شفقت فرماتے تھے ، اور ان کی اہلیہ کو بھی مثل مادر مشفقہ محبت تھی حتیٰ کہ بغیر ہمارے کھانا تناول نہ فرمایا کرتی تھیں ،ہم ان کے ساتھ پٹیالہ بھی گئے اور ضروری کتب دینیہ اور منطق پڑھتے رہے جب وہ عالم قدس کو رحلت فرما ہوئے تو ہم کو نہایت رنج والم ہوا اس دن سے کتابیں بالائے طاق رکھ دیں کہ نہ اس شفقت سے کوئی پڑھائے گا نہ ہم پڑھیں گے۔ ( تذکرہ غوثیہ : ص۱۷)
مولانا فضل امام خیرآبادی نے اپنے طلبہ سے شفقت ومحبت کرنے کی تربیت کس طرح اپنے فرزند وجانشین علامہ فضل حق کو دی اس کا احوال بھی غوث علی شاہ نے لکھا ہے ، علامہ فضل حق خیرآبادی درسیات سے فارغ ہوئے تو والد کے حکم سے مسند درس کو رونق بخشی ،مولانا فضل امام نے ایک طالب علم کو علامہ کے پاس سبق پڑھنے بھیجا ،یہ طالب علم دراز عمر اور کند ذہن تھے،علامہ نوخیز ، نازک مزاج اورذہین وفطین ،سبق پڑھانے کے دوران جھنجلا گئے ، غصے سے کتاب اٹھا کر پھینک دی اور طالب علم کو برا بھلا کہہ کردرس سے نکال دیا،طالب علم روتا ہوا مولانا فضل امام کے پاس پہنچا اور شکایت کی، مولانا فضل امام نے علامہ کو بلایا ،غوث علی شاہ جو اس واقعے کے عینی شاہد ہیں فرماتے ہیں:
مولوی فضل حق صاحب آئے اور دست بستہ کھڑے ہوگئے مولانا(فضل امام ) صاحب نے ایک تھپڑ دیاایسے زور سے کہ ان کی دستار فضیلت دور جاپڑی اور فرمانے لگے کہ تو تمام عمر بسم اللہ کے گنبد میں رہا، نازونعمت میں پرورش پائی ،جس کے سامنے کتاب رکھی اس نے خاطر داری سے پڑھایا، طالب علموں کی قدرو منزلت (تو)کیا جانے ،اگر مسافرت کرتا بھیک مانگتا اور طالب علم بنتا تو حقیقت معلوم ہوتی ارے طالب علمی کی قدر ہم سے پوچھ ۔۔۔۔۔۔ خبردار تم جانو گے اگر آئندہ ہمارے طالب علموں کو کچھ کہا،یہ چپ کھڑے روتے رہے،کچھ دم نہ مارا ،خیر قصہ رفع دفع ہوا ،لیکن پھر کسی طالب علم کو کچھ نہ کہا ( تذکرہ غوثیہ :ص ۱۳۰)
مولانا فضل امام کی یہی وہ تربیت تھی جو آگے چل کر خیرآبادی مدرسہ کی خصوصیت بن گئی،علامہ فضل حق خیرآبادی کے بارے میں ان کے تلمیذ مولانا عبداللہ بلگرامی لکھتے ہیں:
وکان رحمہ اللہ رؤفاً بالطلاب حریصاً علیٰ تدریس اولی الافہام والالباب( التحفۃ العلمیۃ حاشیہ ہدیہ سعیدیہ:۲۹)
ترجمہ: آپ طلبہ پر بہت شفیق، اورذہین طلبہ پر نہایت مہربان تھے۔
آگے لکھتے ہیں:
ویسوی بین ولدہ وفلذۃ کبدہ وبین احد من الطلبۃ فی الرشاد والتعلیم (مرجع سابق )
ترجمہ: تعلیم وارشاد کے باب میں اپنے بیٹے اورجگر گوشے اور عام طلبہ کو برابر سمجھتے تھے، (یعنی کوئی فرق نہیں کرتے تھے)
استاذ کی یہی وہ شفقت ومحبت تھی جس سے طلبہ ایسے گرویدہ ہوجاتے تھے کہ تعلیم مکمل ہونے کے باوجود بھی برسہا برس استاذ کی خدمت میں رہتے تھے،علامہ کے شاگرد مولانا ہدایت اللہ رامپوری ا یسے ہی طلبہ میں تھے، علامہ جب ۱۲۵۶ھ؍ ۱۸۴۰ء میںرامپورپہنچے تو مولانا ہدایت اللہ صاحب علامہ کے حلقہ درس میں شامل ہوئے ،یہاں علامہ تقریباً ۷؍ ۸ برس رہے، رامپور سے علامہ لکھنؤ اور وہاں سے الور گئے،مگر مولانا ہدایت اللہ نے علامہ کا ساتھ نہ چھوڑا،اور اس وقت تک علامہ کی خدمت رہے جب تک علامہ قید کرکے انڈمان نہ بھیج دئے گئے ۔
مولانا ہدایت اللہ رامپوری خود اپنے طلبہ پر بہت شفقت فرماتے تھے، جو طلبہ ذہین اور محنتی ہوتے تھے ان کے ساتھ خصوصیت سے شفقت کا معاملہ کرتے تھے، ان کے تلمیذ مولانا امجد علی اعظمی لکھتے ہیں:
حضرت مولانا عموماً جملہ طلبہ کے ساتھ نہایت شفقت ومہربانی فرماتے اور خصوصیت کے ساتھ مولانا محمد صدیق اور مولانا سید سلیمان اشرف صاحب بہاری ،ان صاحبوں پر مخصوص کرم تھا ( حیات صدرالشریعہ : ص ۲۳)
مولانا عبدالحق اپنی تمام ترنازک مزاجی بلکہ تنک مزاجی کے باوجود اپنے تلامذہ پر بے حد شفیق تھے، ان کی طلبہ پر شفقت ومحبت کا تذکرہ باغی ہندوستان میں شیروانی صاحب نے کیا ہے،مولانا عبدالحق کے شاگرد مولانا برکات احمد ٹونکی کے بارے میں ان کے تلمیذسید مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں:
صحبتوں میں وہ ایک مہربان دوست سے زیادہ معلوم نہیں ہوتے تھے، غیر درسی مجلسوں میں ہر قسم کے ذکرواذکار بلکہ کبھی کبھی کسی طالب علم سے ظرافت بھی فرمالیا کرتے ، تواضع کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی وجہ سے کسی طالب العلم پر آپ خفا بھی ہوتے تو تھوڑی دیر بعد آپ کو منفعلانہ افسوس ہوتا اور اس کی تلافی کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا فرمالیتے ( حیات مولانا حکیم برکات احمد : ص ۵۶)
ایک مرتبہ غصے میں کسی سرحدی طالب علم کو اثنائے درس کچھ سخت سست کہہ دیا، وہ طالب علم خفا ہوکر درس گاہ سے اٹھ کر چلا گیا، مولانا گیلانی لکھتے ہیں:
اس وقت تو بات یوں ہی ہوگئی، مغرب کے بعد میں نے تاریکی میں دیکھا کہ کوئی آدمی اس کے حجرے میں داخل ہوا ،اور مولوی ابو البشر سے مرضاۃ بلکہ معافی کے کلمات کہہ رہا ہے ،غور کیا تو وہ حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ تھے ،اس تواضع اور انکسار پر دل نے عبرتوں کا ایک سبق حاصل کیا ( مرجع سابق : ص ۵۷)
مولانا برکات احمد کے تلمیذ علامۃ الہند مولانا معین الدین اجمیری کے بارے میںبھی یہی بات ان کے شاگرد مولانا نجم الحسن خیرآبادی نے لکھی ہے :
اگرکبھی کسی طالب علم سے ناراض ہوجاتے تھے تو دوسرے وقت اس کی پوری دلجوئی فرماتے تھے(مولانا معین الدین تلامذہ کا خراج عقیدت : ص ۲۶)
مزید فرماتے ہیں:
طلبہ کے حال پر شفقت وکرم کا یہ عالم تھا کہ دو ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ مولانا اپنے دست مبارک سے کھانے کی سینی لے کرآئے ہیں( مولانا معین الدین تلامذہ کا خراج عقیدت : ص ۲۵)
مولانا برکات احمد اور مولانا معین الدین اجمیری کا ایک واقعہ اور پڑھ لیں جس سے استاذ کی اپنے شاگرد پر شفقت اور اس کی صلاحیتوں پر اعتماد کی ایک جھلک نظر آتی ہے ، مولانا برکات احمد کے مدرسے میں سالانہ امتحان تھا ، حسب روایت کوئی صاحب باہر سے امتحان لینے کے لیے آئے تھے ،دستور کے مطابق امتحان گاہ میں استاذ مولانا برکات احمد، تمام طلبہ اور بعض طلبہ کے والدین بھی موجود تھے ،مولانا معین الدین اجمیری کی باری آئی تو انہوں نے نہایت عمدگی ،اعتماد اور بے تکلفی سے جوابات دئے،اس پر استاذ مولانا برکات احمد اور مولانا اجمیری کے والد مولوی عبدالرحمن سمیت سبھی حاضرین بہت خوش ہوئے، مگر طالب علم کی یہ حاضر جوابی اور خود اعتمادی ممتحن کو گراں گزری،انہوں نے زیر امتحان کتاب کے معیار سے بلند سوالات پوچھنا شروع کردیے،یہ سوالات اگرچہ مولانا معین الدین کی پڑھی ہوئی کتاب کے نہیں تھے،مگر پھر بھی انہوں نے شافی جواب دیا،اس کے بعد ممتحن نے مولانا کا امتحا ن ختم کیا اور ان کو جانے کی اجازت دی، آگے کا حال حکیم محمود احمد برکاتی کے الفاظ میں پڑھیے:
اب مولانا جو اس صورت حال اور ممتحن کے اس طرز عمل پر برہم ہوچکے تھے کہ یہ طالب علم کے ساتھ زیادتی ہے ،ممتحن سے مخاطب ہوئے کہ’’ ابھی سوالات کا سلسلہ بند نہ کیجیے اور پوچھیے جو کچھ پوچھنا چاہیں پوچھیے،یہ سب کے جوابات دے گا او ر اگر یہ جواب نہ دے سکا تو میں اسی محفل میں ذبح کردوں گا‘‘یہ تھا اپنے طلبہ پر اعتماد ،یہ تھی محبت کہ ان کے ساتھ ممتحن کی زیادتی پر برہم ہوئے ،ان کو ملال ہوا اور عالم جلال میں طالب علم کے والد کے سامنے یہ اعلان کرگئے کہ ’’ اگر یہ جواب نہ دے سکا تو میںاسے اسی محفل میں ذبح کردوں گا‘‘ ( مولانا حکیم سید برکات احمد سیرت اور علوم : ص ۱۲۵؍ ۱۲۶)
مولاناسید عبدالعزیز انبیٹھوی( تلمیذ مولانا عبدالحق خیرآبادی) بھی اپنے طلبہ پرنہایت شفیق ومہربان تھے،حضرت مولانا عبدالقدیر بدایونی رامپور میں سید صاحب کی خدمت میں معقولات کی تحصیل کرنے گئے تو آپ کے ساتھ آپ کے طلبہ بھی گئے، حضرت دن میںسید صاحب سے پڑھتے تھے،اور خالی اوقات میں اپنے طلبہ کو پڑھاتے تھے،اسی دوران یونیورسٹی کے امتحانات کا زمانہ آگیا، حضرت نے طلبہ کو خرچہ دے کر دہلی روانہ کیا، اب آپ کے پاس رقم ختم ہوگئی تو ملازم کو بدایوں بھیجا کہ اور رقم لے کرآجائے،ملازم بدایوں آیا تو اس نے سوچا جب آیا ہوں تو دو ایک روز اپنے گاؤں بھی رہ لوں،ادھر حضرت کے پاس پیسے ختم ہوگئے ،اور فاقوں کی نوبت آگئی،مگر درس ترک نہیں کیا،چہرے سے کمزوری کے آثار ظاہر ہونے لگے،استاذ مولانا سید عبدالعزیز نے بھانپ لیا درس کے بعد فرمایا کہ آؤ آج تمہاری قیام گاہ پر چلیں،آگے کا واقعہ مولانا عبدالہادی بدایونی کے الفاظ میں سنیں جن کا کہنا ہے کہ مجھے یہ واقعہ خود میرے والد مولانا عبدالقدیر بدایونی نے سنایا،جب حضرت مولانا عبدالقدیر بدایونی اور ان کے استاذ مولانا سید عبدالعزیز حضرت کی قیام گاہ پر پہنچے تو :
وہاں دروازہ پر قفل تھا، انھوں نے بڑھ کر قفل کھولا، استاذ نے پوچھا تمہارے شاگرد کہاں ہیں؟ عرض کیا امتحان دینے دہلی گئے ہیں، استاذ نے پوچھا اور ملازم؟ عرض کیا وہ کام سے بدایوں گیا ہے۔استاذ نے سارا معاملہ سمجھ لیا اور کہا اچھا تم بیٹھو، وہ اپنے گھر گئے وہاں سے کھانا لے کر آئے اور خود کھلایا اور فرمایا مجھ سے کیوں نہ کہا؟ ایسی تکلیف کیوں اٹھائی ؟اور جب تک ملازم بدایوں سے واپس نہ آیا استاذ المولوی(مولانا عبدالقدیر بدایونی) کے کھانے کا انتظام کرتے رہے۔ (احوال ومقامات: ص۵۴)
یہ ہے خیرآبادی اساتذہ کی اپنے طلبہ کے ساتھ شفقت و محبت،جس کو مدرسہ خیرآباد کا امتیاز کہا جاسکتا ہے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.