You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
خانوادۂ قادریہ اور خانوادۂ علیمیہ
تعلقات وروابط
مولانا اسید الحق قادری بدایونی
خانقاہ قادریہ بدایوں شریف
اترپردیش کا شہر ’’بدایوں‘‘ رقبے کے اعتبار سے چھوٹا مگر اپنی علمی وروحانی تاریخ ،شعری وادبی روایت، مردم خیزی اورمخصوص تہذیبی وثقافتی وراثت کے اعتبار سے اسلامیات، ادبیات اورعمرانیات کے ماہرین ومحققین کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے ، عہد وسطیٰ اور اس کے بعد تک یہ شہر اہل اللہ اور اہل علم وفضل کا مرکز توجہ رہا ، اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر اس کو تاریخ کی کتابوں میں بجا طور پر ’’ مدینۃ الاولیا ‘‘ اور ’’ قبۃ الاسلام ‘‘لکھا جاتا ہے ،اس شہر میں بے شمار علمی اور روحانی خانوادے عالم اسلام کے مختلف مراکز سے ہجرت کرکے آئے اور بدایوں کو اپنی علمی ، روحانی اور اصلاحی جد وجہد کامرکز بنایا ،بدایوں میں اولیا وشہدا کے مزارات ، قدیم مساجد اور مدرسوں و خانقاہوں کے باقیات آج بھی اس شہر کی عظیم تاریخ کا پتہ دیتے ہیں، عالم اسلام سے ہجرت کرکے بدایوں کو اپنا وطن بنانے والے خانوادوں میںایک اہم خانوادہ’’ خانوادۂ عثمانیہ‘‘ بھی ہے ، جس کو خانوادۂ قادریہ بھی کہا جاتا ہے ، امیرالمؤ منین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد امجاد سے ایک بزرگ حضرت قاضی دانیال قطری ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں یہاں تشریف لائے اورسلطان قطب الدین ایبک کی جانب سے بدایوں کے قاضی مقررکیے گئے ،آ پ کی اولاد میںعلم وفضل اور تصوف وروحانیت کا ایسا تسلسل قائم ہوا کہ آج آٹھ صدیوں بعد بھی یہ خانوادہ اپنی علمی اور روحانی میراث کاامین ومحافظ ہے ، اس خانوادے میں ہر دور میں اہل علم وفضل پیدا ہوتے رہے اور اپنے اپنے زمانے میں دین وملت کی بیش بہا خدمات انجام دیتے رہے۔ حضرت سیف اللہ المسلول مولانا شاہ فضل رسول بدایونی، مجاہد انقلاب آزادی مولانا فیض احمد بدایونی اور حضرت تاج الفحول مولانا شاہ عبدالقادر بدایونی اسی خانوادۂ قادریہ عثمانیہ کے متاخراکابر میں ہیں ۔
زیر نظر مضمون میں ہم اسی خانوادۂ عثمانیہ قادریہ کے بعض اکابرکے ساتھ خانوادہ ٔ علیمیہ کے علما واکابرکے تعلقات وروابط اور قومی وملی کاز میں ان حضرات کی مشترکہ جدوجہد پر روشنی ڈالیں گے ۔
خانوادۂ علیمیہ سے حضرت مبلغ اسلام مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی، آپ کے برادران گرامی حضرت مولانا احمد مختار میرٹھی ، حضرت مولانا نذیر احمد خجندی اورآپ کے فرزندان گرامی قائد اہل سنت مولانا شاہ
احمد نورانی اور حضرت مولانا محمد جیلانی صدیقی مراد ہیں۔
موضوع کی اہمیت :ہمارے خیال میں یہ موضوع تین پہلوؤں سے اہمیت کا حامل ہے:
(الف) ہمارے ناقص مطالعے کی حد تک اب تک خانوادۂ قادریہ یا خانوادۂ علیمیہ کے مؤ رخین وسوانح نگاروں نے اس گوشے پرباضابطہ کچھ نہیں لکھا ہے ،اس لیے جماعتی تاریخ میں اس کو ایک نیا پہلو قرار دیا جاسکتا ہے ۔
(ب) اس مضمون میں پیش کردہ مواد کاایک حصہ یا تو بالکل نایاب ہے یا کم یاب ہے ،کچھ حوالے ایسے ہیں جو کم وبیش ۷۰؍ ۸۰ برس بعد منظر عام پر آرہے ہیں ، اس لحاظ سے موجودہ نسل کے لیے یہ بالکل نئی معلومات ہے ۔
(ج)بیسویں صدی کے نصف اول کی قومی وملی سیاست اور آزادی کے بعد عالمی منظر نامے پر علمائے اہل سنت کے قائدانہ کردارکے چنداہم گوشے بھی اس مضمون کے ذریعے منظر عام پر آرہے ہیں ۔
مبلغ اسلام کے معاصر قادری علما : حضرت مبلغ اسلام کے زمانہ ٔحیات ( ولادت : ۱۳۱۰ھ /۱۸۹۲ء ، وفات : ۱۳۷۴ھ/ ۱۹۵۴ء )میںیوں تو خانوادۂ قادریہ بدایوں میںکئی اکابر واصاغر علما ومشائخ موجود تھے ، لیکن جن حضرات سے حضرت مبلغ اسلام کے معاصرانہ اور مخلصانہ تعلقات وروابط کا تاریخی ثبوت ملتا ہے وہ یہ تین عظیم المرتبت شخصیات ہیں:
(۱) نبیرۂ سیف اللہ المسلول حضرت مولانا عبدالماجد قادری بدایونی ( ولادت : ۱۳۰۴ھ / ۱۸۸۷ء ، وفات : ۱۳۵۰ھ /۱۹۳۱ء )
(۲) عاشق الرسول حضرت مولانا مفتی عبدالقدیر قادری بدایونی ( ولادت : ۱۳۱۱ھ /۱۸۸۴ء ، وفات : ۱۳۷۹ھ /۱۹۶۰ ء )
(۳) مجاہد آزادی حضرت مولانا عبدالحامد قادری بدایونی ( ولادت: ۱۳۱۸ھ /۱۹۰۰ء ، وفات : ۱۳۹۰ھ / ۱۹۷۰ء )
مخلصانہ تعلقات وروابط کی بنیادیں :خانوادۂ قادریہ کے ان تینوں اکابر اورخانوادۂ علیمیہ کے درمیان ایک سے زیادہ قدر مشترک ایسی تھیں جو باہم خلوص ومحبت اور قوم وملت کے لیے مشترکہ جد وجہد کی بنیاد بن سکتی تھیں مثلاً :
(الف ) خانوادہ ٔقادریہ کے یہ تینوں اکابر اور حضرت مبلغ اسلام تقریباً ہم عمر ہیں ان کے سالہائے ولادت میں کوئی زیادہ تفاوت نہیں ہے ۔
(ب) مسلک اہل سنت ، مذہب حنفیت اور مشرب قادریت یہ تینوں ایسی نسبتیں ہیں جو ان دونوں خانوادوں میں مشترک ہیں ،انہیں مشترکہ نسبتوں کی وجہ سے ان حضرات کے درمیان مکمل طور پر ذہنی اور فکری ہم آہنگی تھی جو مضبوط رشتہ خلوص ومحبت کی اہم بنیاد بنی ۔
(ج)خانوادۂ قادریہ کے مذکورہ تینوں اکابر گہرے علمی رسوخ کے علاوہ ملی اور سیاسی بصیرت بھی رکھتے تھے ، ساتھ ہی ان کے دلوں میں ملت اسلامیہ ہند کا درد، ملت کے مستقبل کی فکر اور امت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کا جذبہ بھی تھا جس کے نتیجے میں یہ حضرات قومی، ملکی اور سیاسی حالات کے سامنے محض خاموش تماشائی بننے کی بجائے آگے بڑھ کر ملت کی قومی اور سیاسی خدمت کے لیے میدان عمل میں اتر آئے ،ادھر مبلغ اسلام اور آپ کے برادران گرامی بھی ان تمام اوصاف کے بدرجۂ اتم حامل تھے، ملت کی سیاسی زبوں حالی کا درد اورہندی مسلمانوںکے روشن مستقبل کا خواب ان حضرات کو ذہنی و فکری طور پر اتنا قریب لے آیا کہ بیسویں صدی کے نصف اول کی جس ملی وسیاسی تحریک میں ہم مذکورہ اکابر بدایوں کو سرگرم جہاد دیکھتے ہیں وہیں مبلغ اسلام اور ان کے بردران گرامی بھی ان تحریکوں میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس ابتدائی اور تمہیدی گفتگو کے بعد اب ہم ان حضرات کے تعلقات وروابط اور مختلف سیاسی وملی تحریکات میں ان کی مشترکہ جدوجہد کا تاریخی تسلسل کے ساتھ جائزہ لیں گے ۔
تحریک خلافت کی متحدہ جدوجہد: تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات کے جواز وعدم جواز سے قطع نظر اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ برصغیر کی مسلم سیاست میںان دونوںتحریکوں نے ایک اہم رول ادا کیا ہے ،ان تحریکات کے اثرات نے اسلامیان ہند کوسیاسی طور پربیدار کیا اوران کوجدوجہد آزادی کے قومی دھارے میں شامل کیا، خانوادۂ قادریہ بدایوں شریف کی سابق الذکر تینوں شخصیات نے ان تحریکوںمیں نمایاں حصہ لیا اور ان کو بام عروج تک پہنچایا۔مبلغ اسلام اور آپ کے برادران گرامی مولانا احمد مختار میرٹھی ( وفات :۱۳۵۷ھ /۱۹۳۸ء ) اور مولانا نذیر احمد خجندی( وفات :۱۳۵۵ھ /۱۹۳۶ء ) بھی امام وقت مولانا قیام الدین عبدالباری فرنگی محلی، رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہرؔ اور خانوادۂ قادریہ کے ان اکابر کے شانہ بشانہ ان دونوں تحریکوں میں شامل رہے اور قوم وملت کی عظیم الشان خدمات انجام دیں ، پروفیسر مسعود احمد نقشبندی لکھتے ہیں :
خدمت اسلام کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا ( عبدالعلیم )میرٹھی علیہ الرحمہ نے سیاسیات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ تحریک خلافت اور ترک موالات میں شریک رہے(۱)
تحریک خلافت میں سرگرم حصہ لینے کے ساتھ ساتھ خانوادۂ علیمیہ کے افراد نے تحریک خلافت کے لیے سرمایے کی فراہمی کی خاطر جدوجہد بھی کی ،مولانا محمود احمد رفاقتی نے لکھا ہے :
آپ (مولانا شاہ احمد مختار صدیقی) نے اور آپ کے دونوں چھوٹے بھائیوں مولانا نذیر احمد خجندی اور مولانا شاہ عبدالعلیم نے ۱۹۲۱ء میں مرکزی خلافت فنڈ میں تین لاکھ کا چندہ جمع کیا (۲)
خانوادۂ قادریہ بدایوں شریف میں تحریک خلافت کے سلسلے میں نمایاں خدمات حضرت مولانا عبدالماجد قادری بدایونی کی ہیں ، آپ رکن مرکزی مجلس خلافت ،صدرمجلس خلافت صوبہ متحدہ ،رکن وفد خلافت برائے حجاز ،اور صدر خلافتی تحقیقاتی کمیشن مقرر کیے گئے ، اس کے علاوہ کئی مقامات کی خلافت کانفرنس آپ کی زیر صدارت منعقد کی گئیں ، خلافت کی تبلیغ کے سلسلے میں آپ نے ملک گیر دورہ کیا اور خلافت کے موضوع پر کم وبیش ۵؍ کتابیں تصنیف فرمائیں ، شوال ۱۳۳۹ھ /جون ۱۹۲۱ء میں آپ نے خلافت کانفرنس کے سلسلے میں بہار ،بنگال اور کرناٹک کا طویل دورہ کیا ، اس دورے کی تفصیلات آپ نے اپنے سفر نامے ’’المکتوب‘‘میں درج کی ہیں (۳)اس سفر نامے سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸؍ جون ۱۹۲۱ء کو بلگام ( کرناٹک ) میں مولانا عبدالماجد بدایونی کی زیر صدارت خلافت کانفرنس منعقد ہوئی جس میںمولانا محمد علی جوہرؔ وغیرہ کے ساتھ مبلغ اسلام مولانا عبدالعلیم میرٹھی نے بھی شرکت فرمائی ، آپ نے نہ صرف کانفرنس میں شرکت فرمائی بلکہ مولانا عبدالماجد بدایونی کے لیے تحریک صدارت کی تائید بھی کی ، مولانا عبدالماجد بدایونی لکھتے ہیں :
تلاوت قرآن کے بعد مولوی قطب الدین صدر خلافت کمیٹی بلگام نے خطبہ صدارت استقبالیہ پڑھا ، مولانا محمد علی صاحب نے ایک مختصر تقریر میں میری صدارت کی تحریک کی اور اپنی محبت سے جو کچھ جی میں آیا کہا ، تائید مولوی عبدالعلیم میرٹھی نے کی اور کہا مولانا عبدالباری وعبدالماجد جیسے علما کی ہم کو ضرورت ہے (۴)
اس کانفرنس میں مولانا محمد علی جوہرؔ نے اپنی تقریر کے بعد یہ تجویز پیش کی :
ضلع بلگام کی خلافت کانفرنس کا یہ جلسہ اس امر کا اعلان کرنا نہایت ضروری سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کو اس گورمنٹ کی فوج میں نوکر رہنا قطعاً حرام ہے اورہر مسلمان کو اس گورمنٹ کی فوج میں داخل ہونا یا بھرتی کرانا نیز کسی اور طرح کی فوجی مدد دینا از روئے شرع شریف نا جائز ہے اور اگر یہ گورمنٹ برطانیہ حکومت اسلامیہ انگورہ کے خلاف جنگ کرے گی یا اس کے خلاف یونانیوں کو اعلانیہ وخفیہ مدد دے گی تو اس حالت میں ہمارا فرض ہوگا کہ کانگریس کی معیت میں قانون شکنی کا آغاز کریں اور دسمبر میں احمدآباد کانگریس کے موقع پر ہندوستان کی کامل آزادی اور اس ملک میں جمہوری حکومت کے قیام کا اعلان کردیں(۵ )
اس تجویز کی تائید مولانا عبدالعلیم میرٹھی نے فرمائی ، مولانا عبدالماجد بدایونی لکھتے ہیں :
ڈاکٹر سیف الدین کچلو صاحب اور مولوی عبدالعلیم میرٹھی اور دو ہندو لیڈروں نے تائید کی اور عام جلسے نے عہد کیا کہ ہم ایسا ہی کریں گے (۶ )
اجلاس مؤتمر اسلامی کانپور:اسی طرح خانوادۂ قادریہ اور خانوادۂ علیمیہ کے افراد مؤتمر اسلامی کے اجلاس کانپور میں بھی قوم وملت کی فکر مند ی اور اس کی چارہ سازی کے لیے شانہ بشانہ اور قدم بقدم نظر آتے ہیں، مؤتمر اسلامی کا یہ اجلاس ۲۱؍ ۲۲ ؍ دسمبر ۱۹۲۹ء کو کانپور میں منعقد ہوا، اس کی صدارت جناب اے۔ ایچ۔ غزنوی ممبر مجلس قانون ساز نے فرمائی ،اس کانفرنس کے انعقاد کا اصل مقصد برطانوی حکومت کے ذریعے پاس کیے گئے ’’ ساردا ایکٹ ‘‘ کے خلاف احتجاج تھا، اس ایکٹ میں بہت سے ایسے قوانین تھے جو اسلام کے عائلی قوانین کے مخالف تھے ،مؤتمر اسلامی کے اس اجلاس میں مطالبہ کیا گیاتھا کہ مسلمانوں کو ساردا ایکٹ سے مستثنیٰ کیا جائے ، اس کانفرنس کی مختصر روداد سید ذاکر علی (سکریٹری مجلس استقبالیہ مؤتمر اسلامی کانپور )نے ’’مختصر روئداد اجلاس مؤتمر اسلامی ‘‘ کے نام سے مطبع مجیدی کانپور سے ۱۹۳۰ء میں شائع کی تھی ،یہ روداد ہمارے پیش نظر ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اجلاس میں:
’’ چار سو سے زائد نمائندگان نے صوبہ متحدہ آگرہ واودھ ( موجودہ یو۔ پی ) کے علاوہ صوبہ ہائے برما ، آسام ، بنگال ،بہار ،مدراس ،پنجاب ،سرحد ،بمبئی ،گجرات ، سندھ ،وسط ہند صوبہ متوسط ،راجپوتانہ شہر بمبئی ،شہرکلکتہ وریاست ہائے ہند سے شرکت فرمائی ‘‘ (۷)
اس اجلاس میں علمائے بدایوں کے علاوہ حضرت مولانا قطب الدین عبدالوالی فرنگی محلی کی معیت میں علمائے فرنگی محل ،برادر مبلغ اسلام مولانا نذیر احمد خجندی صدیقی ،مبلغ اسلام مولانا عبدالعلیم میرٹھی ، مولوی ابو القاسم سیف بنارسی ( غیر مقلد ) مفتی کفایت اللہ دہلوی صدر جمعیت علمائے ہند ( دیوبندی مکتب فکر ) اور مولوی نصیر الدین نجفی لکھنؤ ( شیعی مکتب فکر )وغیرہ نے شرکت کی (۸)
اس اجلاس میں ۶؍ تجاویز پاس کی گئیں ،یہاں ہم صرف ان تجاویز کا ذکر کریں گے جن کی تحریک یا تائید میں علمائے بدایوں اور خانوادۂ علیمیہ کے افراد شامل تھے ۔ پہلی تجویز حسب ذیل ہے :
تجویز (۱) اس مؤتمر اسلامی کی رائے میں جو مسلمانان ہند کی پورے طور پر نمائندہ ہے ساردا ایکٹ مداخلت فی الدین ہے اور مسلمانان ہند ملت اسلامیہ پر اس کے نفاذ کو ہر گز گوارا نہیں کرسکتے اوراس قانون کے متعلق حکومت کا جو رویہ رہا ہے اس کو سخت مذموم قرار دیتے ہوئے یہ مؤتمر اسلامی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ مسلمانوں کو اس ایکٹ کی نفاذ کی تاریخ سے پہلے ہی کلیتاً مستثنیٰ کردیا جائے (۹)
یہ تجویز مولانا آزاد سبحانی نے پیش کی ، اس کی تائید مولانا نذیر احمد خجندی (برادر مبلغ اسلام ) ، مولانا قطب الدین عبدالوالی فرنگی محلی اور مولانا عبدالصمد مقتدری بدایونی وغیرہ نے فرمائی ۔ (۱۰)
تجویز (۲) یہ مؤتمر اسلامی اپنی منظور کردہ تجاویز کی تنفیذاور ساردا ایکٹ کے نفاذ سے مسلمانوں کو مستثنیٰ کرانے کے واسطے دیگر مناسب وضروری تدابیر اختیار کرنے کے لیے مسلمانان ہند کی ایک نمائندہ کمیٹی حسب ذیل اشخاص کو مقرر کرتی ہے اور اس کو اختیار دیتی ہے کہ اپنے ارکان میں حسب ضرورت اضافہ کرتی رہے اور امید کرتی ہے کہ یہ کمیٹی مختلف صوبوں ، اضلاع ودیگر مقامات میں اپنے ماتحت جلد از جلد امدادی کمیٹیاں قائم کرائے گی اور ہر جگہ مسلم رضاکاروں کی ایک ایسی منظم جماعت قائم کرائے گی جو مذکورہ بالا تجاویز وتدابیر پر خود بھی عامل ہو اور تمام مسلمانان ہند کو ان پر عمل کرانے کے لیے آمادہ کرے نیز یہ مؤتمر اس کمیٹی کو یہ اختیار دیتی ہے کہ ان تمام کاموں کے لیے مسلمانان ہند سے مالی اعانت کی استدعا کرے اور حسب ضرورت جمع کردہ سرمائے کو صرف کرے ، مؤتمر ہٰذا جمعیت علما ونیز ان تمام کمیٹیوں کو جو مختلف مقامات پر اس ایکٹ کی مخالفت کے لیے قائم کی گئی ہیں دعوت دیتی ہے کہ وہ اس وسیع نظام ملی کے ساتھ اشتراک عمل کریں ۔( ۱۱)
اس تجویز کے محرک مولانا محمد علی جوہرؔ تھے اورتائید مولانا عبدالعلیم صدیقی ، مولانا شاہ محمد فاخر الٰہ آبادی اور مولانا عبدالصمد مقتدری بدایونی وغیرہ نے فرمائی ۔ (۱۲)
تجویز ( ۵) یہ اسلامی مؤتمر تجویز کرتی ہے کہ اگر تاریخ نفاذ ساردا ایکٹ تک اس کے نفاد سے مسلمانوں کو مستثنیٰ نہ کیا جائے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ حکومت کے مقابلہ میں قانون شکنی کے ان قابل عمل ومؤثر طریقوں پر کاربند ہوں جو کانفرنس کی مقرر کردہ کمیٹی بتقاضائے حالات تجویز کرے ۔(۱۳)
اس تجویز کی تحریک مولانا عبدالعلیم صدیقی نے فرمائی اور تائید مولانا حسرت موہانی نے کی ۔(۱۴)
اس مؤتمر میں تجویز نمبر ۲ کے تحت جس کمیٹی کی تشکیل کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اس کے ممکنہ ارکان کے لیے ۸۸؍ علما کے ناموں پر شرکائے مؤتمر کا اتفاق ہوا ، ان میں چند نام یہ ہیں :
مولانا محمد علی جوہر ( کنوینر کمیٹی )مولانا قطب الدین عبدالوالی فرنگی محلی ، مولانا عبدالماجد بدایونی ، مولانا عبدالقدیر بدایونی ، مولانا عبدالحامد بدایونی ، مولانا عبدالصمد مقتدری بدایونی ،مولانا نعیم الدین مرادآبادی ، مولانا حامد رضا خاں بریلوی ، مولانا عبدالعلیم صدیقی میرٹھی ، مولانا نذیر احمد خجندی ( بردار مبلغ اسلام ) حضرت سید پیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری ، مولانا ظفرالدین بہاری ،سید شاہ فاخر الٰہ آبادی ،حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی وغیرہ ( ۱۵)
مولانا عبدالحامد بدایونی اور مبلغ اسلام :مولانا عبدالحامد قادری بدایونی خانوادۂ قادریہ بدایوں کے وہ عظیم فرزند ہیں جن کی قومی وملی خدمات کا دائرہ ہندوپاک سے لے کر ممالک عربیہ، یورپ اور روس وچین تک وسیع ہے ، آپ مولاناحکیم عبدالقیوم قادری بدایونی ( ابن حکیم مرید جیلانی ابن مولانا محی الدین قادری ابن مولانا شاہ فضل رسول قادری بدایونی)کے چھوٹے صاحبزادے ہیں،مدرسہ قادریہ بدایوں، مدرسہ شمس العلوم بدایوں اور مدرسہ الٰہیہ کانپور میں تحصیل علم کی ، اساتذہ میں مولانا عبدالقدیر بدایونی ، علامہ محب احمد بدایونی ( تلمیذ تاج الفحول ) مولانا حافظ بخش قادر ی آنولوی ( تلمیذ تاج الفحول ) اور مولانا مشتاق احمد کانپوری وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔حضرت مولانا شاہ مطیع الرسول محمد عبدالمقتدر قادری بدایونی سے شرف بیعت حاصل کیا اور حضرت مولانا عبدالقدیر قادری بدایونی نے اجازت وخلافت سے سرفراز فرمایا ، تحریک خلافت وترک موالات کے زمانے میں اپنے بڑے بھائی مولانا عبدالماجد بدایونی کی نگرانی اور تربیت میں رہ کر ان تحریکات میں حصہ لیا ، شدھی تحریک کے زمانے میں اسلام کے ایک داعی اور مبلغ کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دیں ، بعد میں مسلم لیگ سے وابستہ ہوئے اور قیام پاکستان کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ،تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی اور جمعیت علمائے پاکستان کے صدر منتخب ہوئے ، تحریک ختم نبوت میں ایک مرد مجاہد کی طرح حصہ لیا جس کی پاداش میں قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، تحریک پاکستان میںمولانا عبدالحامد بدایونی کی خدمات کے اعتراف میں ۱۹۹۹ء میں حکومت پاکستان نے ان کے نام کا ڈاک ٹکٹ جاری کرکے ان کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کیا ۔ (۱۶)
مبلغ اسلام مولانا عبدالعلیم صدیقی اور آپ کے صاحبزادے قائد اہل سنت مولانا شاہ احمد نورانی کے ساتھ آپ کے نہایت گہرے مراسم تھے ،مختلف قومی وملی تحریکات میں یہ حضرات ایک ساتھ نظر آتے ہیں،بالخصوص قیام پاکستان کی تحریک میں ان دونوں حضرات نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے، ان دونوں حضرات کے درمیان کیسا رشتہ خلوص ومحبت تھا اس کا اندازہ نواب مشتاق احمد خاں کے ایک بیان سے ہوتا ہے ۔
نواب مشتاق احمد خاں ، مولانا بدایونی اورمبلغ اسلام: معروف سفارت کاراور ادیب نواب مشتاق احمد خاںاور حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی کے درمیان گہرے دوستانہ مراسم تھے ،نواب صاحب سے مبلغ اسلام کی پہلی ملاقات حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی ہی کے توسط سے ممکن ہوئی ، نواب صاحب مبلغ اسلام سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
۱۹۴۸ء کا مئی یا جون کا مہینہ تھا، حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی مرحوم کے ہمراہ ایک بزرگ میرے ہاں تشریف لائے ، تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ وہ حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی مشہور مبلغ اسلام ہیں ،جنہوں نے نہ صرف ایشیا اور افریقہ بلکہ یورپ کے بیشتر ملکوں میں پرچم اسلام لہرانے کی سعادت حاصل کی ہے ،حتیٰ کہ خود پاکستان میں مسلمانوں کو حقیقی معنوں میں مسلمان بنانے کے کام میں بھی قابل قدر پیش رفت کی ہے ۔
مولانا عبدالحامد بدایونی سے میرے گہرے دوستانہ مراسم تھے اورانہوں نے پاکستان میں میرے سفارتی مشن سے بڑی دلچسپی کا اظہار کیا تھا ، دوران گفتگو حیدرآباد کا ذکر چل نکلا تو مولانا عبدالحامد صاحب نے فرمایا کہ شاہ عبدالعلیم صدیقی صاحب مظلوم قوموں کی حمایت میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں ،چنانچہ کشمیر اور فلسطین کے مسائل میں انہوں نے بڑا مفیدکام کیا ہے ،اس لیے انہیں یقین ہے کہ مملکت حیدرآباد ( جو اس وقت خطرات میں گھری ہوئی ہے ) کے موقف کو عالمی برادری کے سامنے پیش کرنے میں بھی شاہ صاحب کا تعاون حاصل ہوگا (۱۷ )
اس سے نہ صرف حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی اور مبلغ اسلام کے باہم رشتہ خلوص ومحبت کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ مولانا عبدالحامد بدایونی مبلغ اسلام کی صلاحیتوں سے کس حد تک واقف تھے ، حیدرآباد کے معاملے کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کے لیے ان کی نگاہ انتخاب مبلغ اسلام پر ہی پڑی۔
آل انڈیا سنی کانفرنس : صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی کی کوششوں سے اپریل ۱۹۴۶ء میں بنارس کی سرزمین پر ’’آ ل انڈیا سنی کانفرنس ‘‘ کا انعقاد کیا گیا ، جس میںبڑی تعداد میں علماو مشائخ اہل سنت نے شرکت فرمائی ،یہ کانفرنس امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری کی صدارت میں منعقد ہوئی جب کہ محدث اعظم حضرت سید محمداشرفی جیلانی کچھوچھوی صدر مجلس استقبالیہ تھے ،آپ نے صدر مجلس استقبالیہ کی حیثیت سے خطبہ صدارت استقبالیہ پیش فرمایا جو بعد میںکانفرنس کی مختصر روداد کے ساتھ شائع کیا گیا ، اس روداد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کانفرنس میں’’ دو ہزار علماو مشائخ اور ساٹھ ہزار سے زیادہ عوام نے شرکت کی ‘‘ (۱۸)
یہ کانفرنس کئی نشستوں پر مشتمل تھی، تیسری نشست ۲۹؍ اپریل ۱۹۴۶ء کو بوقت ۹؍ بجے شروع ہوئی جس میںچند تجاویز منظور کی گئیں جن میں پہلی تجویز مندرجہ ذیل ہے :
آل انڈیا سنی کانفرنس کا یہ اجلاس مطالبہ پاکستان کی پُر زورحمایت کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ علما ومشائخ اہل سنت اسلامی حکومت کے قیام کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے ہر امکانی قربانی کے واسطے تیار رہیںاور یہ اپنافرض سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی حکومت قائم کریں جو قرآن کریم اور حدیث نبویہ کی روشنی میں فقہی اصول کے مطابق ہو ( ۱۹)
اس کانفرنس میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ مجوزہ اسلامی حکومت ( پاکستان ) کے لیے لائحہ عمل مرتب کرے ، یہ کمیٹی ۱۳؍ ارکان پر مشتمل تھی ، خانوادۂ قادریہ کی نمائندگی کرتے ہوئے اس میں مولانا عبدالحامد بدایونی کو شامل کیا گیا، آپ کے ساتھ مبلغ اسلام بھی اس کمیٹی کے اہم رکن تھے ، تجویز نمبر ۲؍ اور مجوزہ کمیٹی حسب ذیل ہے :
تجویز ۲؍ یہ اجلاس تجویز کرتا ہے کہ اسلامی حکومت کے لیے مکمل لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے حسب ذیل حضرات کی ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے :
(۱) حضرت مولاناشاہ سید ابو المحامدسید محمد صاحب محدث ہند کچھوچھوی (۲) صدرالافاضل استاذ العلما مولانا مولوی محمد نعیم الدین صاحب
(۳) حضرت مفتیٔ اعظم ہند مولانا مولوی شاہ مصطفی رضا خاںصاحب (۴) حضرت صدرالشریعہ مولانا مولوی محمد امجد علی صاحب
(۵) حضرت مبلغ اعظم مولانا مولوی عبدالعلیم صاحب صدیقی میرٹھی
( ۶) حضرت مولانا مولوی عبدالحامد صاحب قادری بدایونی
( ۷) حضرت مولانا مولوی سید شاہ دیوان آل رسول خاں صاحب سجادہ نشین اجمیر شریف
( ۸) حضرت مولانا ابوالبرکات سید احمد صاحب لاہور
( ۹ ) حضرت مولانا شاہ قمرالدین صاحب سجادہ نشین سیال شریف
( ۱۰) حضرت پیر سید عبدالرحمن صاحب بھرچونڈی شریف ( سندھ )
(۱۱) حضرت مولانا شاہ سید زین الحسنات صاحب مانکی شریف
( ۱۲) خان بہادر حاجی بخشی مصطفی علی صاحب ( مدراس)
( ۱۳) حضرت مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد صاحب لاہور ( ۲۰)
مبلغ اسلام مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی کی تجویز پر آل انڈیا سنی کانفرنس کے لیے مندرجہ ذیل عہدے داران کا انتخاب کیا گیا :
حضرت محدث اعظم ہند کچھوچھ شریف( صدر ) صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی ( ناظم اعلیٰ ) حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی ( ناظم نشرواشاعت )( ۲۱ )
یہ بھی ان دونوں حضرات کے درمیان مضبوط رشتہ اخلاص اور ایک دوسرے کی صلاحیتوں پر اعتماد کی دلیل ہے کہ مبلغ اسلام نے آل انڈیا سنی کانفرنس کے ناظم نشرواشاعت کے عہدے کے لیے مولانا عبدالحامد بدایونی کا نام پیش فرمایا ۔
دارالمبلغین بدایوں شریف : بنارس کی سابق الذکر سنی کانفرنس میںایک تجویز یہ بھی منظور کی گئی تھی کہ زمانے کے حالات اور تقاضوں کے پیش نظر اہل سنت کا ایک ’’ دارالمبلغین ‘‘ قائم کیا جائے، جس میں مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ اور انگریزی تعلیم یافتہ طلبہ کو دعوت وتبلیغ کے لیے خصوصی تربیت دی جائے ، اس اہم کام کے لیے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا کنوینر حضرت مولانا عبدالحامد قادری بدایونی کو مقرر کیا گیا ، اس میں مبلغ اسلام مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی بھی ایک رکن کی حیثیت سے شامل کیے گئے ، اس مجوزہ دارالمبلغین کا قیام بدایوںمیں ہونا تھا ، مولانا عبدالحامد بدایونی کو یہ ذمہ داری بھی دی گئی کہ وہ اس کا ایک عبوری خاکہ مرتب کریںاور اس کے اخراجات وغیرہ کا تخمینہ لگا کر مکمل رپورٹ آئندہ آل انڈیا سنی کانفرنس اجمیر شریف میں پیش کریں ۔
مولانا عبدالحامد بدایونی نے اس مجوزہ دارالمبلغین کا عبوری خاکہ مرتب کرکے اجمیر شریف کی سنی کانفرنس میں پیش کیا ،یہ کانفرنس جون ۱۹۴۶ء میں منعقد ہوئی ، اس کے دو تین ماہ بعد مولانا بدایونی اور مبلغ اسلام حجاز ( سعودی عربیہ ) ایک مخصوص مشن پر روانہ ہوگئے ، وہاں سے واپسی کے بعد جدوجہد پاکستان کی مصروفیات رہیں ،اورچند ماہ بعد اگست ۱۹۴۷ء میں ملک کی تقسیم عمل میں آگئی ، اس لیے دارالمبلغین کا خاکہ صرف کاغذ کی زینت ہی بنا رہ گیا اس کو عملی جامہ پہنانے کی نوبت نہیں آئی ۔
مولانا عبدالحامد بدایونی نے اس مجوزہ ’’ دارالمبلغین ‘‘ کا جو عبوری خاکہ مرتب فرمایا تھا اس کی ایک نقل خود مولانا بدایونی کے قلم کی لکھی ہوئی کتب خانہ قادری بدایوں شریف میں محفوظ ہے ،یہ خاکہ باریک قلم سے لکھے ہوئے فُل اسکیپ کے چار صفحات پر مشتمل ہے ، آخر میں مولانا بدایونی کے دستخط بھی ہیں ،مولانا عبدالحامد بدایونی اس کی تمہید میں لکھتے ہیں :
عرصے سے اس اہم ضرورت کا احساس کیا جاتا ہے کہ طبقہ اہل سنت کا ایک ایسا مرکزی دارالمبلغین قائم کیا جائے جس کے اندر فارغ التحصیل عربی طلبہ، انگریزی خواں اور دوسرے طلبہ کو معینہ نصاب کے ماتحت تعلیم دی جائے اور یہ مبلغین جاہل وغافل مسلمانوں کو دیہات وقصبات میں جاکر احکام دین سے باخبر کریں اور اصلاح معاشرت واخلاق کی مؤثر کوششیں کریں ، چھوٹے چھوٹے مدارس ومکاتب قائم کریں ، اسی طرح شہروں میں مستحکم طور پر تبلیغ کا انتظام کیا جائے۔ دارالمبلغین ایسے معیاری مبلغ تیار کرناچاہتا ہے جو ایک طرف دیہات میں کامیاب تبلیغ کرسکیں اور دوسری طرف مغربی الحاد ودہریت کا استیصال کرکے مغربی طبقات میں جاکر کام کرسکیں ، نئے نئے مسائل وتحریکات کے بالمقابل تعلیمات اسلامی کی جامعیت اور برتری ثابت کریں ، اسی طرح سیاسی تحریکات سے ہمارے مبلغین کو کافی طور پر باخبر رکھا جائے تاکہ وہ اس شعبے میں بھی مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کر سکیں ۔ اگر تبلیغی تحریک میں مختلف مذاہب اور فرق باطلہ سے مناظرہ ومکالمہ کا موقع پیش آجائے تو ہمارے مبلغین اس سے پیچھے نہ رہیں ۔ظاہر ہے کہ ایسے قابل اور معیاری مبلغین کی تیاری کے لیے ایک بڑے سرمایے کی ضرورت ہوگی ، طلبہ کو وظائف دیے جائیں گے ، اساتذہ کو معقول مشاہرہ دینا ہوگا ، ایک لائبریری رکھنا پڑے گی جس میں مبلغین و اساتذہ کی ضروریات کی مفید اور اہم کتابیں موجود ہوں ، اس عظیم الشان مقصد کے لیے آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس نے دارالمبلغین کے قیام کی تجویز منظور کی اور بدایوں مرکز قرار پایا ، جس کی نگرانی اور تنظیم کے لیے حسب ذیل افراد کی کمیٹی بنائی گئی ( جس میں اضافے کا حق دیا گیا ہے ) (۱) حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی مبلغ جاپان (۲) حضرت مولانا شاہ سید محمد صاحب محدث کچھوچھہ شریف (۳) حضرت مولانا صبغۃ اللہ صاحب شہید ؔ فرنگی محل لکھنؤ (۴) مولانا ابراہیم علی صاحب چشتی لاہور (۵) پروفیسر مولوی سلیم چشتی صاحب (۶) عبدالحامد قادری کنوینر بدایوں۔ (۲۲ )
اجمیر شریف کی سنی کانفرنس : بنارس میں کامیاب سنی کانفرنس کے تقریباً دو ماہ بعداجمیر شریف کے سالانہ عرس کے موقع پر آل انڈیا سنی کانفرنس کا ایک اور عظیم الشان اجلاس منعقد ہوا ، یہ اجلاس رجب ۱۳۶۵ھ ؍جون ۱۹۴۶ء میںشاہجہانی مسجد درگاہ غریب نواز میں منعقد ہوا،اس میں بڑی تعداد میں علما ومشائخ اور عوام نے شرکت کی ، حضرت محدث اعظم نے خطبہ صدارت پیش فرمایا جو بعد میں ’’ الخطبۃ الاشرفیۃ للجمہوریۃ الاسلامیۃ ‘‘ کے نام سے اہل سنت برقی پریس مرادآبادسے اواخر ۱۹۴۶ء میں شائع ہوا،یہ خطبہ صدارت راقم کی دسترس میں نہیں آسکا ، ورنہ اس کانفرنس کی مزید تفصیلات سامنے آتیں ،اس کانفرنس کے ایک اجلاس کی صدارت حضرت دیوان سید آل رسول علی خاں اجمیری ( متوفی : ۱۹۷۳ئ) نے بھی فرمائی، اس میں مبلغ اسلام اور حضرت مولانا عبدالحامدبدایونی دونوں حضرات نے شرکت کی اور خطاب بھی فرمایا ،اس کانفرنس کے بارے میںمحمد صادق قصوری لکھتے ہیں:
حضرت خواجہ غریب نواز اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے سالانہ عرس مبارک کے موقع پر اجمیرمیں ’’ سنی کانفرنس ‘‘ منعقد کی،یہ کانفرنس آپ(دیوان صاحب )کی زیر صدارت مسجد شاہجہانی واقع درگاہ معلیٰ اجمیر شریف میں دو دن جاری رہی ، اس میں ہزاروں علما ومشائخ اور ایک لاکھ سے زائد عوام نے شرکت کی ، اس تاریخی کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں سے چند اسمائے گرامی یہ ہیں :
۱۔ حضرت صدرالافاضل مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی
۲۔ مبلغ اسلام حضرت شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی میرٹھی
۳۔ ابوالمحامد حضرت سید محمد اشرفی محدث کچھوچھوی
۴۔فخر اہل سنت حضرت مولانا محمد عبدالحامد بدایونی
سنی کانفرنس کا موضوع بنارس سنی کانفرنس کی منظور کردہ تجاویز پر اعتماد ،پاکستان کا حصول ،مہاسبھائی تحریک کے مظالم کے خلاف احتجاج اور نفرت ،اعراس مقدسہ کے لیے اصلاحی پروگرام وغیرہ امور تھے (۲۳ )
محمد صادق قصوری صاحب نے منظور کردہ تجاویز کے ذیل میںاعراس مقدسہ کے لیے جس اصلاحی پروگرام کاذکر کیا ہے یہ دراصل ’’ اولیائے کرام کے اعراس کا نظام نامہ ‘‘ کے عنوان سے ایک ۱۵؍ نکاتی قرار دادتھی جو علما ومشائخ کے اتفاق سے کانفرنس میں پاس ہوئی ،اس قرار داد کا ایک قلمی نسخہ کتب خانہ قادریہ بدایوں میں محفوظ ہے ،جو مولانا عبدالحامد بدایونی کے قلم کا ہے ، ممکن ہے کہ بعد میں اس کی اشاعت بھی کی گئی ہو ،یہ قرار داد آج ساٹھ ستر سال بعد بھی اپنے اندر بڑی اہمیت رکھتی ہے ، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف ابتدا ہی سے اعراس میں ہونے والی بے اعتدالیوں اورخلاف شرع امور کے سخت مخالف تھے اور ان بدعات وخرافات سے بزرگوں کی بارگاہوں اور ان کے اعراس کو پاک وصاف کرنے کے لیے کوشاں بھی تھے۔
یہ قرار داد اگر اس وقت شائع ہوگئی ہو تو ممکن ہے کہ بعض پرانے ذخائر میں موجود ہواور اگر شائع نہیں ہوئی تھی تو آج جماعتی تاریخ کے طلبہ اور شائقین کے لیے یہ بالکل نئی چیز ہوگی، اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر ہم طوالت کے باوجوداس کو یہاں پورا نقل کررہے ہیں تاکہ محفوظ ہوجائے ۔
اولیائے کرام کے عرسوں کا نظام نامہ
جو سنی کانفرنس کے خصوصی اجلاس منعقدہ اجمیر شریف میں پیش ہوکر منظور ہوا ۔
دربار حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ میں بموقعہ عرس شریف ۶؍ ۷؍ جون ۱۹۴۶ء آل انڈیا سنی کانفرنس کا اجلاس خصوصی زیر صدارت حضرت دیوان سید آل رسول صاحب سجادہ نشین مدظلہ العالی منعقد ہوا ، اولیائے کرام کے آستانوں کی اصلاح کے لیے حسب ذیل ابتدائی نظام نامہ پیش ہوکر منظور ہوا۔
( ۱)خانقاہوںاور درگاہوں میں امور غیر شرعی رسماً وعملاً ممنوع قرار دیے جائیں ۔
(۲) طوائفوں کو بے پردہ اور نامحرموں کے ساتھ داخل ہونے اور گانے بجانے سے روکا جائے ۔
(۳) مستورات کے لیے مخصوص اوقات مقرر کیے جائیں جن میں وہ زیارت کریں ، ان اوقات میںمردوں کو اجازت داخلہ نہ ہو ، مردوں کے ساتھ عورتیں مختلط نہ ہوں ۔
(۴) قوالی وغیرہ اذان کی پہلی تکبیر کے وقت بند کردی جائے اور جب تک نماز باجماعت سے پوری طرح فراغت نہ ہو جائے مجالس موقوف رہیں ۔
(۵) کوشش کی جائے کہ عرس میں آنے والے نمازوں کی پابندی کریں ۔
(۶) خانقاہوں کی طرف سے زائرین کے لیے مصلوں اور وضو کے پانی کا معقول انتظام کیا جائے ۔
(۷) ہر عرس میں مجالس کے علاوہ حلقۂ ذکر کا اہتمام ہو ۔
(۸) عرسوں میں حضرات اولیائے کرام کی سوانح حیات ، مجاہدانہ حالات ، تبلیغی کارناموں ، شوق عبادت ، خدا پرستی جیسے اہم عنوانات پر تقریروں کا انتظام کیا جائے ۔
(۹) ہر آستانے پر تبلیغ و اشاعت کا نظم کیا جائے ، تاکہ خانقاہیں تبلیغ کا مرکز بن سکیں ، خلفا ومریدین میں تبلیغ واشاعت کا جذبہ پیدا کیا جائے ۔
(۱۰) ہرآستانے پر عقائد حقہ اہل سنت کا زائرین کو سبق دیا جائے اور صرف ایسے ہی مقررین کو اجازت تقریر دی جائے جو بزرگان دین کے ساتھ عقیدت رکھتے ہوں ۔
(۱۱) اور جو مقررین عرس وفاتحہ ، نذرونیاز ، میلاد مقدسہ ، قیام وغیرہ کو ناجائز سمجھتے ہیں انہیں تقریر کی اجازت نہ دی جائے ۔
(۱۲) عرسوں کے انتظامی اور غیر انتظامی امور اور خانقاہی معاملات میں کسی ایسے عنصر کو داخل نہ کیا جائے جو مشائخین کرام اور صوفیا ئے عظام کا عملاً یا اعتقاداً مخالف ہو ۔
(۱۳) حضرات سجادہ نشینان اپنی وضع واطوار کو متقدمین کے مبارک طریقوں کے مطابق بنائیں ۔
(۱۴)ختم کلام پاک ، میلاد نبویہ کا زیادہ سے زیادہ رواج دیا جائے تاکہ ہر آنے والا خدا کی خشیت اور حضور ختمی مرتبت ارواحنا لہ الفدا کی عظمت ومحبت وتوقیر کا نقش اپنے دل میں قائم کرے ،اور سیرت نبویہ وحالات صحابہ واولیائے کرام سے باخبر ہو اور واپس جا کر اپنے اپنے حلقے میں مبلغ بن سکے ۔
(۱۵) حضرات مشائخین وسجادگان مذکورہ بالا امور کی تکمیل کے لیے اپنے مشورے ونگرانی میں ایک مؤثر کمیٹی قائم کریں ۔
فقیر محمد عبدالحامد بدایونی
ناظم نشرواشاعت آل انڈیا سنی کانفرنس
کراچی سنی کانفرنس:اجمیر شریف کی اس سنی کانفرنس کے بعد کراچی میں ایک عظیم سنی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں یہ دونوں حضرات شریک ہوئے اور خطاب فرمایا ، یہ سنی کانفرنس ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو’’ بزم صوفیہ سندھ ‘‘ کے زیر اہتمام عید گاہ بندر روڈ کراچی میں منعقد ہوئی ، محمد صادق قصوری لکھتے ہیں:
اس بزم( بزم صوفیہ سندھ ) کے زیر اہتمام ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو عید گاہ بندر روڈ کراچی میں ایک عظیم الشان ’’ سنی کانفرنس ‘‘ منعقد ہوئی ،جس میں مبلغ اسلام مولانا شاہ عبدالعلیم میرٹھی ، مجاہد تحریک پاکستان مولانا عبدالحامد بدایونی ،مولانا ناصر جلالی دہلوی ودیگر مقتدر علمائے اہل سنت نے شرکت کی(۲۴)
بنارس ، اجمیر شریف اور کراچی کی ان سنی کانفرنسوں کی روداد دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آل انڈیا سنی کانفرنس کی ملک گیر کامیابی اور مقبولیت میں حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی اور مبلغ اسلام کی کوششوں کا ایک بڑا حصہ ہے ۔
۱۹۴۶ء کا وفد حجاز :۱۹۴۶ء کے نصف آخر تک مطالبہ پاکستان پوری توانائی اختیار کرچکا تھا ، اسی درمیان سنہ ۱۳۶۵ء کے حج کا زمانہ آگیا ، آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عمل نے طے کیا کہ یہ ایک اچھا موقع ہے کہ مطالبہ پاکستان کو عالم اسلام کے سامنے پرزور انداز میں پیش کیا جائے اور پاکستان کے حق میں عالمی رائے عامہ ہموار کی جائے، اس اہم کام کی ذمہ داری حضرت مولانا عبدالحامد قادری بدایونی اور مبلغ اسلام مولانا عبدالعلیم صدیقی کے سپرد کی گئی ، مجلس عمل نے ایک وفد تشکیل دیا جس کے کنوینر مولانا بدایونی تھے اور مبلغ اسلام اس کے ایک اہم رکن کی حیثیت سے وفد میں شامل تھے ،سید نور محمد قادری لکھتے ہیں :
مولانا( عبدالحامد ) بدایونی اور ان کے رفقا کا ایک عظیم کارنامہ ۱۹۴۶ء میں حج کے موقع پر جاکراسلامی ممالک کے مشاہیر کے سامنے تحریک پاکستان کو متعارف کروانا تھا ، اس وفد کے کنوینر مولانا بدایونی تھے اور ممبران میں مولانا عبدالعلیم صدیقی میرٹھی اور ابو الطیب حیدر شامل تھے ، اس وفد کو آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عمل نے ترتیب دیا تھا ، اس وفد نے مکہ شریف اور مدینہ شریف میں مسلمان ممالک سے آئے ہوئے مشاہیر سے نجی ملاقاتوں کے علاوہ حجاج کرام کے عام جلسوں سے بھی خطاب کیا ، امیر حجاز ابن سعود سے تفصیلی ملاقات کی ، مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے جملہ مسائل وامور کی وضاحت کی ۔واپسی کے بعد مولانا بدایونی نے اس وفد کی مصروفیات اور کارکردگی کے متعلق ایک مفصل رپورٹ بنام ’’ وفد حجاز کی رپورٹ ‘‘ مرتب کی جسے مسلم لیگ کی مجلس عمل نے دہلی سے شائع کیا ( ۲۵)
سید نور محمد قادری نے ’’ وفد حجاز کی رپورٹ‘‘(۲۶) کے حوالے سے جو معلومات درج کی ہیں ان کے مطابق ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء ( ۱؍ ذی الحجہ ۱۳۶۵ھ ) کویہ وفد مکہ مکرمہ پہنچا، ۲۸؍ اکتوبر کو مولانا عبدالحامد بدایونی اور مبلغ اسلام نے شاہ ابن سعودسے ملاقات کی،اس ملاقات کا احوال لکھتے ہوئے مولانا عبدالحامد بدایونی رقم طراز ہیں:
۹؍ بجے اراکین وفدقصر جلالۃ الملک پہنچ گئے ،چند منٹ کے بعد ہی قصر کے بالائی حصے پر بلایا گیا اور شاہی دربار میں جو مغربی تہذیب کا مرقع تھا جلالۃ الملک نے ہم سے ملاقات فرمائی ، سلام ومصافحہ کے بعد اپنے قریب ہی بٹھایا اور بیٹھتے ہی مسلمانان ہند کے سیاسی مسائل وحالات پر استفسارات شروع فرمادیے، تفصیل کے ساتھ پوری طرح مسلمانان ہند کے سیاسی مسائل ہم نے عرض کردیے ، مسئلہ پاکستا ن کے تمام موضوعات پیش کردیے ، کانگریس اور حکومت کا طرز عمل ، فسادات اور ہنگاموں کی تفصیلات بیان کردیں ،جلالۃ الملک کوائف سن کر بے حد متأثر ہوئے اور فرمایا کہ میں وفد کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اس نے حجاز مقدس آکر مجھے ان
تمام حالات سے باخبر کیا میری دلی دعائیں مسلمانان ہند کے ساتھ ہیں ( ۲۷)
حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی اور مبلغ اسلام کے اس وفد نے شاہ ابن سعود کے علاوہ عالم اسلام کے جن علما وعمائدین سے ملاقاتیں کیںان میں بعض یہ ہیں :
( ۱) شیخ حسن البناء قائد الاخوان المسلمون ( مصر )
( ۲) شیخ نجیب سراج ( حلب، شام )
(۳) شیخ محمد امین الاتاسی (حمص، شام )
(۴) شیخ درویش العجلانی ( شام )
(۵) شیخ ابراہیم ناطور ( سوڈان )
(۶) شیخ محمد جندلی ( حمص ، شام )
(۷) شیخ عارف عثمان ( دمشق، شام )
(۸) شیخ بکر کرامہ ( مصر )
(۹) شیخ زکی زعبول (بیروت )
(۱۰) شیخ توفیق آفندی ( سوڈان )
(۱۱) شیخ حسن آفندی ( مصر )
(۱۲) شیخ اسماعیل آفندی ( عراق )
(۱۳) شیخ استاذ ابراہیم زغلول ( مصر )
(۱۴) شیخ عبدالباسط محمد علی ( حلوان ، مصر )(۲۸ )
قیام پاکستان اور ہجرت : ایک طویل جد وجہد کے بعد بالآخر ملک تقسیم ہوا اور ایک نئی مملکت ’’پاکستان‘‘ وجود میں آئی ، مولانا عبدالحامد بدایونی اور مبلغ اسلام دونوں ہی حضرات نے مشترکہ طور پر قیام پاکستان کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا تھا اس لیے اب اس نوزائیدہ مملکت کو اسلامی قوانین کے مطابق چلانا اور اس کو ایک خالص اسلامی حکومت بنانا ان علما کی اہم ذمہ داری تھی ، اور دراصل پاکستان کے لیے ان حضرات کی کوششیں اور جدوجہد اسی خاطر تھیں کہ ان حضرات نے پاکستان کی صورت میں ایک ایسی آزاد مملکت کا خواب دیکھا تھا جس کی بنیادیں
کتاب وسنت کے اصولوں پر قائم ہوں ، چنانچہ قیام پاکستان کے بعد بہت سے مقتدر علماومشائخ کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی اور حضرت مبلغ اسلام نے اپنے وطن ، عزیز واقارب اور اپنی جائیداد کی پرواہ کیے بغیر محض اسلامی حکومت کی خاطر پاکستان ہجرت کی تاکہ وہاں جا کر مملکت اسلامیہ کی جدوجہد کو مزید توانائی بخشی جائے ۔
پاکستان کا اسلامی دستور : قیام پاکستان کے فوراً بعد ۱۹۴۸ء میں مبلغ اسلام اور حضرت مولانا بدایونی نے قیام پاکستان کے اصل مقصد ’’ اسلامی حکومت کے قیام ‘‘ کے لیے اپنی کوششیں شروع کردیں ، چنانچہ مبلغ اسلام کی قیادت میںکراچی میں علماومشائخ کی ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں پاکستان کے لیے آئین اسلامی کا ایک جامع خاکہ تیار کیا گیا ، اس پر علما ومشائخ کے اتفاق کے بعد مبلغ اسلام کی قیادت میں علما کے ایک وفد نے بانیٔ پاکستان مسٹر محمد علی جناح سے ملاقات کرکے آئین کا وہ مسودہ ان کے سامنے پیش کیا اور مطالبہ کیا کہ جلد از جلد اس کو اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے ، خلیل احمد رانا لکھتے ہیں :
کراچی میںپورے پاکستان کے علماو مشائخ کی ایک عظیم کانفرنس منعقد ہوئی، مبلغ اسلام شاہ عبدالعلیم میرٹھی کی نگرانی میں علامہ عبدالحامد بدایونی ، علامہ ابو الحسنات قادری ، مفتی صاحب دادخان ، علامہ سیداحمد سعید کاظمی ،
خواجہ قمرالدین سیالوی رحمہ اللہ اور بہت سے علما ومشائخ نے ایک جامع دستور آئین اسلامی کامسودہ تیار کیا ، اس پر علما نے تائیدی نوٹ لکھے ، مبلغ اسلام شاہ عبدالعلیم صدیقی ، مجاہد ملت مولانا عبدالحامد بدایونی ، مخدوم ناصر جلالی پر مشتمل علماومشائخ کے وفد نے حضرت قائد اعظم علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ مسودہ ٔ آئین اسلامی پیش کیا۔ (۲۹)
گویا قیام پاکستان کے سلسلے میں مبلغ اسلام اور حضرت مولانا بدایونی نے مشترکہ جدوجہد کی اور قیام پاکستان کے بعد بھی یہ رشتہ اخوت وتعاون منقطع نہیں ہوا بلکہ اب اس مشترکہ جدوجہدکا رخ پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام اور اس مملکت خدا داد میں اسلامی دستور کے نفاذ کی طرف ہوگیا ۔
جمعیت علمائے پاکستان :قیام پاکستان کے بعد۱۹۴۸ء میںجمعیت علمائے ہند کی طرز پر علمائے اہل سنت نے’’ جمعیت علمائے پاکستان‘‘ کی بنیاد ڈالی،مبلغ اسلام اور حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی اس کے بانیان میں تھے،حضرت مولانا ابو الحسنات قادری کو جمعیت کا مرکزی صدر اورعلامہ سید احمد سعید کاظمی کو ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا ،جب کہ مولانا عبدالحامد بدایونی کو کراچی زون اور سندھ کا صدر نامزدکیا گیا ،بعدمیںکسی وقت مولانا عبدالحامد بدایونی کوجمعیت علمائے پاکستان کامرکزی صدر منتخب کیا گیا ، اس عہدہ ٔ جلیلہ پر آپ اپنی وفات ( ۱۹۷۰ئ) تک فائز رہے ۔( ۳۰)آ پ کے بعد کچھ عرصے تک شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی جمعیت کے صدر رہے اس کے بعد قائد اہل سنت حضرت شاہ احمد نورانی جمعیت علما ئے پاکستان کے صدر منتخب ہوئے ، آپ بھی تاحیات اس عہدے کو زینت بخشتے رہے ۔
۲۵؍ ۲۶ ؍ اگست ۱۹۵۱ء کوآرام باغ کراچی میں جمعیت علمائے پاکستان کا ایک اہم اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں مبلغ اسلام نے شرکت کی، ’’ملت کے مسائل اورعلما ومشائخ کی ذمہ داری ‘‘کے عنوان سے آپ نے ایک اہم علمی خطبہ ارشاد فرمایا ( ۳۱)اس اجلاس میں مولانا عبدالحامد بدایونی کی شرکت کی صراحت تو کسی کتاب میں نظر سے نہیں گزری مگر قرین قیاس یہی ہے کہ وہ بھی مبلغ اسلام کے ساتھ اس اجلاس میں شریک رہے ہوں گے ، کیوں کہ جمعیت کا یہ اجلاس کراچی میں منعقد ہوا اور اس وقت آپ جمعیت کے کراچی زون کے صدر تھے ۔لہٰذا مولانا بدایونی کے اس اجلاس میں شریک نہ ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔
مبلغ اسلام کی وفات اور قائد اہل سنت :۱۳۷۴ھ / ۱۹۵۴ء میں حضرت مبلغ اسلام نے وصال فرمایا ، حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی کے لیے آپ کی وفات صرف ایک عالم اور دانشور کی وفات نہ تھی بلکہ یہ ایک جاں نثار دوست ،صاحب نظر مشیراور ایک مخلص ساتھی کی جدائی تھی، حضرت مولانا بدایونی کو آپ کی وفات سے جو صدمہ ہوا ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ، حضرت مبلغ اسلام کی وفات کے وقت آپ کے لائق وفائق فرزند قائد اہل سنت حضرت مولانا شاہ احمد نورانی کی عمر محض ( سنہ ہجری کے مطابق ) ۳۰؍ برس تھی ،یہ آپ کے شباب کا زمانہ تھا ، حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی نے اپنے مخلص دوست مبلغ اسلام کی اس نشانی کو اپنی سرپرستی میں لے لیا ، تعمیر پاکستان اور مملکت اسلامیہ کی تشکیل کی جدوجہد میںآپ کی سرپرستی میں قائد اہل سنت نے میدان عمل میں قدم رکھا، حضرت قائد اہل سنت بھی حضرت مولانا بدایونی کا ازحد احترام کرتے اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ان کا دست وبازو بن گئے ۔
قائد اہل سنت اور مولانا عبدالحامد بدایونی : حضرت علامہ شاہ احمد نورانی اور مولانا عبدالحامد بدایونی کے تعلقات وروابط خود ایسا وسیع موضوع ہے جو ایک مستقل مضمون کا متقاضی ہے ،یہاں ہم صرف چند واقعات پر اکتفا کرتے ہیں۔
انیس سو پچاس کی دہائی میں تعلیم وتربیت کے مراحل طے کرنے کے بعد قائد اہل سنت میدان عمل میںقدم رنجا فرماچکے تھے، جمعیت علمائے پاکستان کے ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے آپ نے میدان عمل میں قدم رکھا ،۱۹۵۲ء کے زمانے کی بات کرتے ہوئے محمد احمد ترازی لکھتے ہیں:
مولانا شاہ احمد نورانی اس زمانے میں علامہ عبدالحامد بدایونی کے نائب کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ جمعیت علمائے پاکستان سندھ کے سیکریٹری نشرواشاعت بھی تھے (۳۲)
۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی قائد اہل سنت اپنی نوجوانی کے باوجود اکابر علما بالخصوص مولانا عبدالحامد بدایونی کے شانہ بشانہ میدان عمل میں نظر آتے ہیں ، اپنے ایک انٹرویو میں آپ نے فرمایا :
میں اُس زمانے ( ۱۹۵۳ء ) میں پاکستان میں تھا اور کراچی میں اس تحریک کے دوران میں مولانا عبدالحامد بدایونی مرحوم اور دیگر علما کے ساتھ شریک رہا ، آرام باغ میں جمعہ کے دن اس مہم کا آغاز کیا گیا اور میں اس میں پیش پیش تھا، رضا کاروں کو گرفتاری کے لیے تیار کرنا اور دیگر انتظامی امور میری ذمہ داریوں میں شامل تھے (۳۳)
۱۹۵۷ء کا دورۂ روس: ۱۹۵۷ء میں مرکزی جمعیت علمائے پاکستان کو روسی علما کی جانب سے دورۂ روس کا دعوت نامہ موصول ہوا ،مولانا عبدالحامد بدایونی نے جمعیت علمائے پاکستان کے افراد کا ایک وفد ترتیب دیا جس میں حسب ذیل ارکان شامل تھے :
مولانا عبدالحامد بدایونی ( قائد وفد )
مولانا محمد جیلانی صدیقی ابن مبلغ اسلام ( رکن وفد )
مولانا شاہ احمد نورانی ( رکن وفد )
سید عبدالمنعم عددی ( رکن وفد )
جناب راغب احسن ( نمائندہ وزارت خارجہ پاکستان )
جناب عبدالوہاب ( نمائندہ وزارت خارجہ پاکستان )
سید افتخار علی (ڈپٹی سیکریڑی بحیثیت لیزان آفیسر)(۳۴)
یہ وفد ۲۷؍ جون ۱۹۵۷ء کو کراچی سے کابل کے لیے روانہ ہوا، تین روز افغانستان میں گزار کر۳۰؍ جون کو طاشقند پہنچا، ۳۰؍ جون سے ۲۳؍ جولائی تک اس وفد نے طاشقند ، سمرقند ،اسٹالن آباد،ماسکواور لینن گراڈکا دورہ کیا،اس کے بعد انگلینڈ، سوئزرلینڈاور شام ہوتاہوا سعودی عرب پہنچا، جہاں عمرہ اور زیارت سے مشرف ہوکر۱۸؍ اگست کو واپس کراچی پہنچا۔
اس سفر کی روداد مولانا عبدالحامد بدایونی نے ’’ تأثرات روس ‘‘ کے نام سے قلم بند فرمائی، جو جمعیت علمائے پاکستان نے ۱۹۵۷ء ہی میں شائع کردی تھی، اس سفر نامے کے سر ورق پر شائع کنندگان کی حیثیت سے حضرت علامہ شاہ احمد نورانی اور مولانا محمد جیلانی صدیقی کے اسمائے گرامی درج ہیں ۔اس روداد سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہ دونوں حضرات جمعیت علمائے پاکستان میں ناظم نشرو اشاعت کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔
یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اس وفد کے ارکان میں حضرت علامہ شاہ احمد نورانی اوران کے بھائی مولانامحمد جیلانی کی شمولیت پر وزارت خارجہ کے نمائندے جناب راغب احسن کی جانب سے اعتراض بھی کیا گیا کہ یہ دونوں ابھی نوجوان ہیں اور اس وفد میں ان دونوں کی شرکت مناسب نہیں ہے، مولانا عبدالحامد بدایونی نے اس اعتراض کو اہمیت نہ دی اور باصرار ان دونوں حضرات کو اپنے ساتھ روس لے گئے ، خود مولانا بدایونی اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
وہ( راغب احسن نمائندہ وزارت خارجہ ) شکوہ کرتے ہیں کہ جمعیت کے وفد میں دو نوجوان لڑکے مولانا نورانی میاں اور مولانا جیلانی میاں کو کیوں لیا گیا ؟ یہ وہی لڑکے تھے جو از اول تا آخر آٖپ کے ( راغب احسن کے ) ترجمان بنتے تھے ،دورۂ روس کے بعد جناب ایک لفظ عربی بولنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے ،نورانی میاں ہی حضرت ( راغب احسن )کی ساری ضروریات پوری کراتے تھے اور آپ کے مفہوم کو پیش کرتے۔ (۳۵)
مدینہ منورہ میں عرس علیمی:۱۹۵۷ء کے اسی دورے میں جس وقت جمعیت علما کا یہ وفد مدینہ منورہ میں قیام پذیر تھا اسی دوران قائد اہل سنت حضرت شاہ احمد نورانی نے مدینہ منورہ میں عرس علیمی کی تقریبات منعقد کیں، حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی بھی اس عرس میں شریک تھے ، آپ تحریر فرماتے ہیں :
حضرت مولانا شاہ ضیاء الدین صاحب قبلہ اور مولاناشاہ احمد نورانی صاحب صدیقی کے زیر اہتمام حضرت علامہ مولاناشاہ عبدالعلیم صدیقی کے عرس شریف کا اہتمام کیا گیا ،نیچے کا تمام حصہ اشخاص سے بھر گیا تھا، مدینہ طیبہ کے مشہور نعت خواں حضرات نے برزنجی شریف کا ختم کیا ، جناب بہزاد صاحب لکھنؤی نے نعتیں پڑھیں ،بڑی پرلطف محفل شریف رہی ،ہر شخص کے دل ودماغ پراچھے تأثرات رہے ، آخر میں مولانا شاہ احمد نورانی صاحب کی جانب سے عام دعوت طعام ہوئی (۳۶)
جنت المعلیٰ اور جنت البقیع کی حفاظت وصیانت کی تحریک : سعودی حکومت کی جانب سے بقیع شریف اور جنت المعلیٰ کے مزارات کے انہدام اوراہل بیت اطہار کے مزارات کے قبوں کو ڈھانے کی مہم شروع ہوئی تو حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی نے ان مزارات کی حفاظت وصیانت کے لیے عالم گیر مہم چلائی ، پہلے آپ نے قبور ومزارات پر قبوں کے شرعی جواز پر ایک فتویٰ مرتب کیا، پھر ہندوستان ، پاکستان اور بنگلا دیش ( جو اس وقت مغربی پاکستان تھا )کا دورہ کرکے وہاں کے معتبر علما ومشائخ سے اس فتوے پر تصدیق وتائید حاصل کی ،پھر آپ نے عالم عرب اور ایران کا دورہ کیا اور وہاں کے سرکردہ علما سے اس فتوے پر تصدیقیں اور تقریظات حاصل کیں، آپ نے سعودی حکومت سے مطالبہ کیا کہ قبوں اور مزارات کے انہدام پر روک لگائی جائے اورجو مزارات منہدم کردیے گئے ہیں ان کو از سر نو تعمیرکرکے ان کے اوپر کتبے لگائے جائیں ۔
مزارات صحابہ واہل بیت کی حفاظت وصیانت کی اس عالم گیر تحریک میں حضرت مولانا شاہ احمد نورانی مولانا عبدالحامد بدایونی کے ساتھ تھے،عالم عرب اور ایران کا یہ دورہ ۱۹۶۱ء میں ہواتھا،اس زمانے میں چونکہ جمعیت علمائے پاکستان پر پابندی لگی ہوئی تھی( ۳۷) اس لیے مرکزی انجمن تبلیغ اسلام کی جانب سے یہ وفد بھیجا گیا تھا، یہ وفد تین ارکان پر مشتمل تھا، حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی قائد وفدتھے، حضرت علامہ شاہ احمد نورانی اور مولانا عمر الٰہی دہلوی وفد کے ارکان تھے ، یہ سفر ۱۷؍ مئی ۱۹۶۱ء کو کراچی سے شروع ہوکر ۳۰؍ جولائی ۱۹۶۱ء کو کراچی ہی میں ختم ہوا ، ڈھائی ماہ کے سفر میں اس وفدنے مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ ، جدہ، عمان ( اردن) بیت المقدس ،بیروت ( لبنان ) دمشق ( شام ) قاہرہ ، اسکندریہ( مصر ) بغداد، نجف کربلا( عراق ) اورطہران،قم ، مشہد،اصفہان،خراسان( ایران) کا دورہ کیا ، ان بلادکے علما ومشائخ اور عمائدین مملکت سے ملاقاتیں کیں ۔ اس وفد نے عالم اسلام کی جن اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں ان میں شہنشاہ ایران،شیخ الازہر،حضرت نقیب الاشراف پیر ابراہیم گیلانی، مفتی اعظم فلسطین اورشیخ سید عبدالوہاب شامی قابل ذکر ہیں۔(۳۸)
شاہ ایران سے ملاقات کے وقت مولانا عبدالحامد بدایونی نے اپنی آمد کے مقصد اور اپنے موجودہ مشن کے بارے میں تفصیل سے بتایا ، حضرت شاہ احمدنورانی نے انگریزی زبان میںاس کا ترجمہ کیا ، مولانا بدایونی لکھتے ہیں:
ہم نے گذشتہ دس سال کے کاموں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اب سے ۶؍ ۷ سال قبل جمعیت علمائے پاکستان نے ایک وفد حجاز مقدس بھیجا تھا ، دوماہ کی لگاتار کوششوں کے بعد کامیابی حاصل کی ، گنبد خضرائے مقدسہ انہدام سے بچ گیا اور آثار شریفہ اور تبرکات نبویہ برقرار رہے ،اس وقت سے یہ تحریک میرے قلب میں جاگزیں تھی کہ بقیع واحد وجنت المعلیٰ میں ہزار ہا صحابۂ کرام و اہل بیت عظام کے منہدم مزارات وقبب کی صیانت حفاظت وبقا کے لیے کچھ کرنا چاہیے چنانچہ اس مرتبہ ایک فتویٰ مرتب کیا ، جس پر ابتداء ً پاک وہند کے علما کے دستخط کرائے گئے ، فریضہ حج سے فارغ ہوکر ہم لوگ جدہ شریف سے سیدھے قدس ، لبنان ، عمان ، بیروت ، دمشق، مصر و اسکندریہ ، بغداد گئے ان سب مقامات پر علمائے کرام کے دستخط حاصل کیے ،علمائے مصر کی تصدیقات کرائیں، فتوے پر مقدمہ لکھوایا ،آخر میں ہم لوگ ایران حاضر ہوئے ہیں ،الحمد للہ کہ اس بارے میں سب سے زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ حضرات علمائے ایران نے فرمایا اور طے کیا کہ اس سلسلے میں ایک فتویٰ بزبان فارسی وعربی شائع کیا جائے گا ، ہماری تجویز یہ ہے کہ ایک وفدیہ فتویٰ طہران سے شہنشاہ معظم کا گرامی نامہ لے کر جائے جس میں جلالۃ الملک المعظم سعود کو لکھا جائے کہ وہ مزارات صحابہ واہل بیت اطہار کو پختہ بنوائیں ہر ایک مزار پر کتبات لگائے جائیںجن پر نام کندہ ہوں تاکہ زائرین کو سہولت ہو ۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے انگریزی زبان میں مفصلاً تمامی امور پر روشنی ڈالی (۳۹)
صحابہ واہل بیت کے مزارات اور اسلامی تاریخ کی عظیم یادگاروں کی حفاظت وصیانت کی اس عالم گیر تحریک کو حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی اور حضرت مولانا شاہ احمد نورانی کی زندگی کا ایک اہم کارنامہ قرار دیا جانا چاہیے۔
قائد اہل سنت کا عقدمسنون: حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی اور خانوادۂ علیمیہ کے درمیان ایسا گہرا رشتہ خلوص ومحبت تھا کہ جب قائد اہل سنت حضرت شاہ احمد نورانی کے نکاح کی تقریب منعقد ہوئی تو ایجاب وقبول حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی ہی سے کروایا گیا ، یہ ان دونوں خاندانوں کے درمیان انتہائی گہرے اور مضبوط رشتوں کی دلیل ہے ۔
حضرت قائد اہل سنت کا عقد مسنون حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی کی پوتی اور حضرت مولانا فضل الرحمن قادری مدنی کی صاحبزادی سے مدینہ منورہ میں ۱۳۸۳ھ /۱۹۶۳ء میں ہوا تھا ،دیگر علما ومشائح کے ساتھ حضرت علامہ جمیل احمد نعیمی بھی اس تقریب سعید میں موجود تھے ، وہ اس تقریب کے چشم دید واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
عقد مسنون کی یہ تقریب سعید اگرچہ سادہ مگر پُروقار تھی جو کہ قطب مدینہ کے دولت کدے پر بروز اتوار۲۵؍ ذوالحجہ ۱۳۸۳ھ مطابق ۱۹؍ مئی ۱۹۶۳ء بعد مغرب منعقد کی گئی تھی، جس میں علمائے کرام ومشائخ عظام کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کا شرف حاصل کیا، یوں یہ سعادت احقر جمیل احمد نعیمی اور مفتی غلام قادر صاحب صابری کشمیری (مرحوم) کو حاصل ہوئی کہ ہم دونوں موصوف کو حضور اکرم ﷺ کے مواجہ شریفہ سے نکاح کی تقریب میں لے کر آئے ، خطبۂ نکاح تاج العلما مفتی محمد عمر صاحب نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ نے پڑھایا اور ایجاب وقبول مجاہد ملت علامہ محمد عبدالحامد صاحب قادری علیہ الرحمہ نے کرایا نیز دعائے اول قائد اہل سنت کے تجوید کے مدنی استاذ محترم شیح حسن الشاعر علیہ الرحمہ اور دعائے ثانی مشروبات کے بعد ( یعنی دودھ وغیرہ ) قطب مدینہ مولانا ضیاء الدین علیہ الرحمہ نے فرمائی اور اس طرح یہ بابرکت محفل اختتام پذیر ہوئی ( ۴۰)
قائد اہل سنت کا استقبال :۱۹۶۵ء میں قائد اہل سنت حضرت شاہ احمد نورانی نے افریقی ممالک کا تبلیغی دورہ کیا ، اس دورے میں آپ کینیا ،تنزانیہ ،یوگنڈا ،مالا گوسی ، ماریشس ،اور سرینام تشریف لے گئے ،یہ دورہ ۱۱؍ ماہ کا تھا،جب آپ اس کامیاب تبلیغی دورے سے واپس پاکستان تشریف لائے تو حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی نے آپ کے اعزاز میں ایک جلسہ استقبالیہ منعقد کیا ،جلسہ استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے قائد اہل سنت نے اپنے تبلیغی دورے پر تفصیل سے روشنی ڈالی، آپ نے فرمایا :
اپنے گیارہ ماہ کے قیام کے دوران جہاں بھی گیامیں نے محسوس کیا کہ افریقی مسلمان اسلام کو اسی طرح پسند کرتے ہیں جس طرح قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے پسند کیا ،سینگال ، تنزانیہ ،نائجیریا ،مڈغاسکر ،کانگو ،چاڈ ،واہومی ،آئیوری کوسٹ کے لوگ اچھی عادت کے حامل ہیں اور اپنی عادات کی وجہ سے وہ روز بروز اسلام کے قریب ہوتے جا رہے ہیں (۴۱)
آخری بات : گذشتہ صفحات میں پیش کی گئی خانوادہ ٔ قادریہ اور خانوادۂ علیمیہ کے درمیان تعلقات وروابط کی یہ داستان صرف کتب خانہ قادریہ بدایوں میں موجودمواد کے سرسری مطالعے کا نتیجہ ہے، اس سلسلے میں پرانے ذخائر کھنگالے جائیں، آزادی سے قبل کے اخبارات و رسائل کی فائلیں دیکھی جائیں،اور خود خانوادہ علیمیہ کے ذاتی اور آبائی ذخیرے پر تحقیق کی جائے تب کہیں جاکر یہ طویل داستان مکمل ہوسکتی ہے ۔جو کچھ تاریخی شواہد پیش کیے گئے ان سے بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خانوادۂ قادریہ اور خانوادۂ علیمیہ کے درمیان کیسی مسلکی، مشربی ، ذہنی اور فکری ہم آہنگی تھی، اور ان دونوں خانوادوں نے مشترکہ طور پر ملک وملت اور دین ومسلک کی کیسی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں ۔
رب قدیر ومقتدر ہمارے ان اسلاف واکابر کی دینی خدمات قبول فرمائے ، ان کو بہتر سے بہتر جزا عطا فرمائے اور ہمیں بھی اپنے ان اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین وملت کی خدمت کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے ۔
راقم الحروف خانوادۂ قادریہ بدایوں کے ایک ادنیٰ فرد کی حیثیت سے اس مضمون کے توسط سے پیغام محبت اور دعوت اتحادو اشتراک عمل دیتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ خانوادہ ٔ قادریہ اور خانوادۂ علیمیہ کے موجودہ افراد کو چاہیے کہ اپنے اسلاف کی طرح ایک مرتبہ پھر اپنے درمیان رشتہ خلوص ومحبت اورباہم اشتراک وتعاون کی اسی روایت کو زندہ کریں جس کی تاریخ نصف صدی پر محیط ہے۔
حواشی
(۱) تقدیم ’’ مبلغ اسلام علامہ شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی قادری ‘‘ خلیل احمد رانا ، ص ۸، کراچی ۱۹۹۴ء ۔
(۲)تذکرہ علمائے اہل سنت : محمود احمد رفاقتی ، ص ۳۲، خانقاہ قادریہ اشرفیہ بھوانی پور، مظفرپور بہار، ۱۳۹۱ھ ۔
(۳)یہ سفر نامہ ’’المکتوب ‘‘کے نام سے ۴۶؍ صفحات پر مشتمل ہے ، جس کومنشی مشتاق احمد (ناظم قومی
دارالاشاعت میرٹھ) نے میرٹھ سے ۱۹۲۱ ء میں شائع کیا۔
(۴) المکتوب : عبدالماجد بدایو نی ، ص ۱۹ ، قومی دارالاشاعت میرٹھ ۱۹۲۱ء
(۵)مرجع سابق، ص ۲۸؍۲۹ ۔
(۶)مرجع سابق ، ص ۲۹۔
(۷)مختصر روئداد اجلاس مؤتمر اسلامی:سید ذاکر علی ،ص ۲، مطبع مجیدی کانپور ۱۹۳۰ء
(۸)مرجع سابق ،ص۳/۴۔
(۹)مرجع سابق ،ص ۵۔
(۱۰) مرجع سابق ، نفس صفحہ۔
(۱۱)مرجع سابق ، ص ۶۔
(۱۲) مرجع سابق، نفس صفحہ
(۱۳) مرجع سابق ، ص ۷۔
(۱۴) مرجع سابق ،نفس صفحہ۔
(۱۵) مرجع سابق ،ص ۸؍ تا ۱۰۔
(۱۶)تفصیل کے لیے دیکھیے:
الف:تذکرہ اکابر اہل سنت پاکستان: عبدالحکیم شرف قادری ،ص ۲۰۲؍ تا ۲۰۹، مطبوعہ کانپور
ب: تحریک پاکستان میں علما ومشائح کا کردار : محمد صادق قصوری، ص ۵۳؍ تا ۵۹، لاہور ۲۰۰۸ء
ج: گلدستہ عقیدت:عابد القادری کراچی،۱۹۷۱ء
د: مولانا عبدالحامد بدایونی کی سیاسی اورملی خدمات: سیدنور محمد قادری، ادارہ پاکستان شناسی لاہور ،۲۰۰۲ئ۔
(۱۷) ماہنامہ ضیائے حرم لاہور:نومبردسمبر ۱۹۷۸ئ، ص ۷۳؍۷۴، بحوالہ مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی قادری ، از خلیل احمد رانا ص ۶۸، کراچی ۱۹۹۴ئ۔
(۱۸) مختصر رپورٹ خطبہ صدارت جمہوریہ اسلامیہ: ص ۱ ؍سرورق، اہل سنت برقی پریس مرادآباد ۱۹۴۶ئ۔
(۱۹)مرجع سابق، ص ۲۹۔
(۲۰)مرجع سابق ، نفس صفحہ۔
(۲۱)مرجع سابق،ص ۳۶۔
(۲۲) عبوری خاکہ دارالمبلغین قلمی: بقلم عبدالحامد بدایونی، ص ۱، مخزونہ کتب خانہ قادریہ بدایوں۔
(۲۳) تحریک پاکستان میں علما ومشائخ کا کردار : محمد صادق قصوری، ص۶۴۶؍ ۶۴۷،لاہور ۲۰۰۸ء
(۲۴)مرجع سابق، ص۳۴۳۔
(۲۵)مولانا عبدالحامد بدایونی کی سیاسی اور ملی خدمات : سید نور محمد قادری، ص ۵۵؍ ۵۷، ادارہ پاکستان شناسی لاہور ،۲۰۰۲ئ۔
(۲۶)مولانا عبدالحامد بدایونی کا یہ رسالہ دہلی سے جنوری ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا تھا، چند سال قبل خدا بخش لائبریری پٹنہ میں راقم نے اس کا مطالعہ کیا تھا ، خدا بخش میں اس کا نمبر Acc52586ہے، فی الحال یہ پیش نظر نہیں ہے ۔
(۲۷)وفد حجازکی رپورٹ: عبدالحامد بدایونی ، ص۱۷؍بحوالہ مولانا عبدالحامد بدایونی کی سیاسی اور ملی خدمات : سید نور محمد قادری، ص ۸۵، ادارہ پاکستان شناسی لاہور ،۲۰۰۲ء
(۲۸)مرجع سابق ، ص ۲۳؍ ۲۴ ، بحوالہ سابق، ص ۵۸/۵۹۔
(۲۹) مبلغ اسلام علامہ شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی قادری : خلیل احمد رانا ، ص ۴۸؍ ۴۹ ، کراچی ۱۹۹۴ئ۔
(۳۰) جناب محمد صادق قصوری نے ’’تحریک پاکستان میں علما ومشائخ کا کردار‘‘( ص ۲۹۹) میں لکھا ہے کہ حضرت مولانا ابو الحسنات قادری کی وفات (۱۹۶۱ئ)کے بعد مولانا بدایونی باتفاق رائے جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی صدر منتخب کیے گئے، لیکن مولانا عبدالحامد بدایونی کی کتاب ’’ تأثرات روس ‘‘۱۹۵۷ء میں شائع ہوئی اس کے سرورق پراور کتاب میں متعدد مقامات پر مولانا کے نام کے ساتھ’’ صدر مرکزی جمعیت علمائے پاکستان ‘‘ لکھا ہے۔
(۳۱) مبلغ اسلام علامہ شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی قادری : خلیل احمد رانا ، ص ۵۵، کراچی ۱۹۹۴ئ۔
(۳۲) تحریک تحفظ ختم نبوت صدیق اکبر تا علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی : محمد احمد ترازی ، ص۳۱۲، افق پبلی کیشنز کراچی ، ۲۰۰۹ء ۔
(۳۳) عہد رواں کی عبقری شخصیت : ص ۸۷، بحوالہ تحریک تحفظ ختم نبوت صدیق اکبر تا علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی : محمد احمد ترازی ، ص۳۱۳، افق پبلی کیشنز کراچی ، ۲۰۰۹ئ۔
(۳۴) تأثرات روس: عبدالحامد بدایونی ، ص ۴، مرکزی جمعیت علمائے پاکستان کراچی ، ۱۹۵۷ ئ۔
(۳۵) مرجع سابق ، ص ۱۱۱۔
(۳۶) مرجع سابق:ص ۹۹/۱۰۰۔
(۳۷)۱۹۵۸ء کے مارشل لاکے دوران ایوب خاں نے تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا ، اس کی زد میں جمعیت علمائے پاکستان بھی آگئی تھی ،لہٰذا جمعیت کے ارکان بالخصوص مولانا عبدالحامد بدایونی اور مولانا شاہ احمد نورانی نے ایک متبادل جماعت ’’ انجمن تبلیغ اسلام ‘‘ کے نام سے تشکیل دی ، اس میں علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری ، مفتی سید شجاعت علی قادری وغیرہ شامل تھے، ۱۹۶۴ء میں تمام سیاسی جماعتیں بحال کردی گئیں، لہٰذا جمعیت پھر سے سرگرم عمل ہوگئی۔
(۳۸)اس سفر کی روداد مولانا عبدالحامد بدایونی نے ’’ ممالک عربیہ اور ایران کا سفر نامہ ‘‘کے نام سے ترتیب دی تھی جو مرکزی انجمن تبلیغ اسلام کراچی سے ۱۹۶۱ء میں شائع ہوئی ، یہ سفر نامہ پیش نظر ہے ،مذکورہ معلومات اسی سے ماخوذ ہیں ۔
(۳۹) ممالک عربیہ اور ایران کا سفر نامہ : عبدالحامد بدایونی ، ص ۳۴؍۳۵، انجمن تبلیغ اسلام کراچی ، ۱۹۶۱ئ۔
(۴۰)حیات جمیل مع افکار جمیل :فیض الرسول رضا نورانی،ص۲۱۴،مکتبہ اہل سنت لاہور،۲۰۰۸ئ۔
(۴۱) تحریک تحفظ ختم نبوت صدیق اکبر تا علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی : محمد احمد ترازی ،ص ۳۵۹، افق پبلی کیشنز کراچی ،۲۰۰۹ئ۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.