You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
خود کو بدلنا ہوگا
ماہ ربیع الاول میں ہر صاحب ایمان نے محافل میلاد کا انعقادکیا محفل میں شمولیت کی سعادت حاصل کی۔
یقیناذکر رسولﷺمحبت رسولﷺکی علامت ہے۔
اور محب ذکر رسولﷺ سے ہی زندگی کو روشن رکھتا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺکا فرمان ذیشان بھی ہے کہ
جو جس سے محبت کرتا ہے اس کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔اللہ کریم کا بے انتہا شکر ہے کہ جس نے ہمیں ذکر نبیﷺکی توفیق عطا فرمائی۔
ذرا تفکر کیجئے
- ہم نے محافل تو سجائیں
- گلیاں بازار بھی سجائے
- جلوس بھی نکالے
- لیکن ہم دعویٰ عشق رسولﷺرکھنے والے کہاں کھڑے ہیں۔
- رات بھر محفل ہو اور نمازیں قضاء ہوجائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- پیشہ ور نعت خواں گانے کی طرز پر نعتیں پڑھیں۔۔۔۔۔۔۔۔
- پیشہ ور نعت خوانوں سے رقم طے کر کے محفل میں بلائیں۔۔۔۔۔
- دف کے نام پر میوزک چلا کر ساری رات لائوڈ سپیکر چلائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- صرف شہرت کیلئے شہرت یافتہ نعت خواں بلائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- شریعت کا مخالف نعت خواں اسٹیج پر آکر عشق کی باتیں سنائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- اول تو علماء کرام کو مدعو ہی نہیں کیا جاتا اور اگر بلا ہی لیا جائے ،تو خطاب کا وقت وہ جب لوگ اٹھ کر جانے لگیں یا نیند غالب آنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- گلیوں بازاروں میں لاکھوں روپے کی سجاوٹ اور مسجد نمازیوں سے خالی ہوں،مدارس ذرائع آمدن نہ ہونے کے سبب ویران ہونے لگیں تو پھر سنیوں کو سوچنا ہوگا کہ ہمارا سرمایہ کہاں خرچ ہونے لگا۔
خود کو بدلنا ہوگا۔
ماہ ربیع الثانی میں محبوب سبحانی غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (رضی اللہ عنہ)کی گیارہویں شریف معروف ہے۔
محافل منعقد ہوتی ہیں جو کہ کرم، بخشش،رحمت کے حصول کیلئے اکسیر ہیں۔
محافل گیارہویں شریف کے مقاصد کو ہم جان گئے کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب نہیں میں ہوگا۔
دوستو!
خود کو بدلنا ہوگا۔
حضرت غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ)کی منور سیرت،افکار،تعلیمات کا مطالعہ کرنے سے یہ سبق ملتا ہے کہ
آپ کی حیات مبارکہ شریعت مطہرہ کی آئینہ دار تھی۔عمر مبارک کے چالیس سال عشاء کے وضو سے نماز فجر ادا فرمائی۔
اللہ اکبر
یاد خدا کی لذت کس قدر ہے۔
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
حضرت غوث الاعظم ساری رات ذکر الہیٰ میں گزاریں اور ہم غفلت کی نیند سے فرض نماز کیلئے بھی بیدار نہ ہوسکیں۔
خود کوبدلنا ہوگا۔
شہنشاہ بغداد نے پندرہ سال روزانہ ایک رات میں مکمل قرآن مجیدکی تلاوت سے خود کو معزز کیا ہے۔
اور ہم نعرے لگانے والے روزانہ تلاوت قرآن سے کتنا معمور ہوتے ہیں۔ہمارا حال تو ہم خود ہی جانتے ہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ محافل میلاد ،محافل گیارہویں شریف کے اہتمام کے ساتھ ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔
شریعت کے مطابق اس فانی زندگی کو گزارنا ہو گا۔
آئیے دین متین پر خود عمل کر کے دوسروں کو دعوت دیتے ہیں۔
- نمازی بن جاتے ہیں۔
- نمازی بناتے ہیں۔
- خدمت دین کرتے ہیں
- اگر ہم نے خود کو بدل لیا،کردارکے غازی بن گئے تو ہر سو خوشبو پھیلے گی۔
- مساجد نمازیوں سے بھر جائیں گی۔
- مدارس آباد ہوجائیں گے۔
- اسلام کا جھنڈا اور بلند ہوگا۔
- محبوب کریمﷺ راضی ہوجائین گے تو خدا بھی راضی ہو جائے گا۔
وما توفیقی الا باللہ۔
==========================
تحریر:حافظ محمدعدیل یوسف صدیقی صاحب
اداریہ : مجلہ محی الدین فیصل آباد
ربیع الثانی 1436 ہجری
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.