You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
ادارۂ شامنامہ کے شکریہ کے ساتھ قارئین کی خدمت میں آخری قسط
خوش قسمت ہے وہ ماں جس کے بطن سے خالد جیسافرزندپیداہوا
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
مختصر علالت کے بعداسلام کایہ بہادر سپاہی شہادت کی حسرت لئے اللہ کوپیاراہوگیا۔حضرت خالدرضی اللہ عنہ کے وفات کی خبرآناًفاناًسارے عالم اسلام میں پہنچ گئی۔اہل مدینہ افسردہ ہوگئے ، خلیفۃ المسلمین کی آنکھیں بھی اشکبار ہوگئیں۔حمص والوں نے آپ کی آرام گاہ ’’شاہراہِ حَما‘‘ پرایک باغ میں مسجد بنائی جسے لوگ’’مسجد خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ‘‘کہتے ہیں۔آپ نے اٹھاون سال کی عمرپائی۔حضرت خالد کی وفات کے بعد جب ان کے اثاثے کاجائزہ لیاگیاتومعلوم ہواکہ آپ نے ایک غلام،ایک گھوڑااور چندہتھیاروں کے سواکچھ نہیں چھوڑا۔اللہ اللہ!دنیاکاسب سے بڑاجرنیل اور ذاتی اثاثے کی یہ کیفیت۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کی زندگی کامقصدنہ ذاتی وجاہت تھااور نہ پُرتکلف زندگی۔بلکہ راہِ خدا میں شہادت کی طلب ہی ان کامقصد حیات تھا۔ان کی جان اللہ کی راہ میں وقف تھی اور مال بھی اللہ کی راہ میں صرف ہوا۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوان کی وفات کی اطلاع ملی تو بے حد غمگین ہوئے اور انہوں نے فرمایا:’’مسلمانوں کوایک ایسانقصان پہنچاہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔حضرت خالد رضی اللہ عنہ ایسے جرنیل کہ اب شایدہی کوئی ان کی جگہ لے سکے ،وہ دشمن کے لئے مصیبت تھے‘‘۔(سیدناحضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ،ص۱۹)جب حضرت خالدرضی اللہ عنہ کاجنازہ اٹھایاگیاتوآپ کی ہمشیرہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ بنت ولید اپنے بھائی کی مفارقت میں جگرخراش نالہ وفغاں کرتی تھیں۔اس وقت سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی برداشت نہ کرسکے اور بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسونکل آئے۔سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور فرمایا:’’اب مائیں خالد جیسافرزندجننے( دینے) سے معذور ہیں۔حضرت خالد کی موت ناقابل تلافی نقصان ہے۔اے ابوسلیمان خالدتجھے اسلام اور اہل اسلام کی طرف سے نیک جزاعطاکرے،تونے اسلامی عظمت کوچار چاند لگادیے‘‘۔(نورانی حکایات،ص۵۳)
ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالدرضی اللہ عنہ کی والدہ کودیکھاکہ بیٹے کے غم میںہڈیوں کاڈھانچہ رہ گئی تھیں۔آپ نے دریافت فرمایاکہ’’یہ کون بی بی ہیں جواس قدر مغموم وپریشان ہیں؟‘‘لوگوں نے عرض کیاکہ خالدرضی اللہ عنہ بن ولیدکی والدہ ہیں۔آپ نے فرمایا:’’خوش قسمت ہے وہ ماں جس کے بطن سے خالد جیسافرزندپیداہوا۔پھرفرمایا:جب تک نعمت موجودہو،اس کی قدر کی جاتی لیکن جب وہ ضائع ہوجائے تو اس کی قدر ومنزلت پہچانی جاتی ہے‘‘۔ایک دفعہ عرب کاایک شاعر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا،آپ نے فرمایا’’مجھے خالد بن ولیدکے متعلق اپنے اشعار سنائو‘‘۔وہ عرب کابہترین شاعر تھالیکن اشعار سننے کے بعدسیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’تم خالد کاحق ادا نہیں کرسکے‘‘۔(سیدناحضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ،ص۲۰)
حضرت خالدرضی اللہ عنہ کے تین بیٹے تھے۔سلیمان آپ کے بڑے بیٹے تھے جومصرکی جنگ میںلڑتے ہوئے شہیدہوئے۔عبدالرحمن جو۴۶؍ھ تک زندہ رہے،حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میںکسی نے آپ کوزہردے دیاتھا۔ حضرت خالدرضی اللہ عنہ کاایک پوتابھی تھا،آپ کاہم نام تھا،خالدبن عبدالرحمن بن خالدبن ولید۔وہ بھی ان کی طرح بہادر تھے لیکن ان سے نسل آگے نہ بڑھ سکی ۔ (حضرت خالدرضی اللہ عنہ بن ولید کی آپ بیتی،ص۴۳)یہ ایسی باتیں ہیں جوکسی بھی قوم کے ہیرواور دنیامیں کسی بھی جرنیل کی زندگی میں نہیں ملتی۔انسانیت کی پوری تاریخ میں صرف حضرت خالدرضی اللہ عنہ ہی ایک ایسے جرنیل ہیں جنہوںنے سامانِ حرب کی کثرت اور ٹڈی دل دشمن سے کئی بڑی لڑائیاںحسن تدبیر اور شجاعت کے بل بوتے پرفتح کیں اور لکیر کافقیربن کر دوسروں کے بنائے ہوئے قاعدوں اور طریقوں کے مطابق بساطِ جنگ سجانے کی بجائے ایک مجتہد اور مخترع شان سے جنگ کے قاعدے اور نئے اسلوب وضع کئے۔اکثرلڑائیوں کے ذکر میںیہ بات ملے گی کہ انہوں نے اپنے لشکرکوچند قدم پیچھے ہٹاکرفتح حاصل کی۔بعض اوقات عام فوجی اصولوں کے خلاف بالکل معمولی طاقت کے ساتھ دشمن کی بڑی بڑی جماعتوں پرٹوٹ پڑے۔کبھی بجلی کی سی تیزی کے ساتھ ہفتوں اور مہینوں کی راہ دنوں میں طے کرکے دشمن کی توقع اور اندازے کے بالکل خلاف اسے منزلوں آگے جالیا۔غرض کہ موقع اور ضرورت کے مطابق انہوں نے اپنے خود قاعدے بنالئے اور اس بات کی کبھی پروا نہیں کی کہ دنیاکے ماہرینِ جنگ نے ایسے مواقع کے لئے کیاتدابیربتائی ہیں۔
پھریہ بھی نہیں کہ اس مشہورمقولے کے مطابق’’جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے‘‘انہوں نے ہرچالاکی اور مکاری کوجائز سمجھاہو،صلح اور جنگ دونوں صورتوں میں باہمی معاہدوں اور وعدوں کاجس قدرلحاظ حضرت خالدرضی اللہ عنہ کرتے تھے شاید ہی کسی اور قوم کے ہیرونے کیاہو۔اپنے عہدکاپاس،پاک بازی،فرض شناسی،بالغ نظری،موقع شناسی،اپنی جان کے مقابلے میں اپنے مشن سے محبت،ناقابل شکست اعتمادارو بے نظیرشجاعت،یہ تمام خوبیاں حضرت خالدرضی اللہ عنہ کے کردار میں بدرجۂ اتم نظرآتی ہیں۔انہوں نے اپنے مقصد کے مقابلے میں اپنی زندگی کوکبھی عزیز نہیں رکھا۔دوسرے جرنیلوں کی طرح قلب لشکرمیں محفوظ مقام پر رہ کراحکام صادر کرنے کی بجائے وہ ہمیشہ صف میں رہ کردشمن سے دست بدست جنگ کرتے تھے۔انہیں اسلام کی صداقت اور اپنی مہم کی کامیابی کااسی طرح یقین تھا جس طرح دوسرے دن سورج نکلنے کا۔وہ قبل از وقت دشمن کی جنگی چالوںکوسمجھنے میں اپناجواب نہ رکھتے تھے۔انہیں اپنے سپاہیوں کی جان اور عزت کاہروقت خیال رہتاتھا۔ان کی زیادہ سے زیادہ کوشش ہوتی تھی کہ کم سے کم جانی نقصان کے ساتھ لڑائی میں فتح ہو،بے غرضی اور اولی الامرکے ساتھ وفاداری کایہ عالم تھاکہ اپنی معزولی کی خبرسن کران کے تیور پربل تک نہیں آیااور نہ ان کی جدوجہداور جنگی مساعی میں فرق آیا۔یہی وہ خوبیاں ہیں،جن کی وجہ سے آج ہرایک مخالف کوکہناپڑتاہے کہ’’خالد دنیاکاسب سے بڑاجرنیل تھا‘‘۔
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، جرنلسٹ،ایم ایچ سیٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.