You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے انہوں نے کہاکہ
ایک عورت اپنی دوبیٹیوں کے ساتھ بھیک مانگتی ہوئی ہمارے گھر میں داخل ہوئی اورمیرے پاس ایک کھجورکے سوااس نے کچھ نہیں پایامیں نے اس کو وہی ایک کھجوردیدی
تواس نے اس کھجورکواپنی دونوں بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردیا
اورخوداس نے اس میں سے کچھ نہیں کھایاپھراٹھی اور چلی گئی
جب نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ہمارے مکان میں آئے تو میں نے حضورکواس واقعہ کی خبردی
توحضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایاکہ
جوشخص ان بیٹیوں کے ساتھ مبتلاکیاگیایہ بیٹیاں اس کے لیے جہنم سے پردہ بن جائیں گی۔
------------------------------
(بخاری ،ج۱،ص۱۹۰)
================
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ
رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ
جس شخص کے بیٹی ہوئی اور اس نے نہ اس کو زندہ دفن کیانہ اس کی توہین کی نہ اپنے بیٹوں کو اس پر ترجیح دی
تو اس کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمائے گا۔
------------------------------
(مشکوٰۃ،ج،ص۴۲۳)
===============
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے انہوں نے کہاکہ
رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ
جس نے تین بیٹیوں یاان کے مثل بہنوں کی پرورش کاانتظام کیا پھران کوادب سکھایااوران پرمہربان رہایہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں (شادی ہوجانے کے بعد)بے نیازکر دے
تواس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ جنت واجب کردیتا ہے
یہ سن کر ایک مرد نے کہا کہ یادو لڑکیاں؟
تو فرمایا کہ یادو لڑکیاں یہاں تک کہ اگرلوگ کہتے یا ایک لڑکی؟
توآپ فرمادیتے ایک ہی لڑکی۔
===================
تشریحات وفوائد
(۱)حدیث نمبر۱ کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے بیٹیاں دی ہیں اور و ہ ان کی نہایت ہی محبت و شفقت کے ساتھ پرورش کرتا ہے تو قیامت کے دن یہی بیٹیا ں اس کے لیے جہنم سے پردہ بن جائیں گی کہ وہ شخص جہنم میں جانا تو بڑی بات ہے جہنم کو دیکھ بھی نہ سکے گا۔ بیٹیوں کے ملنے کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے مبتلا کیا جانا فرمایا اس میں اشارہ ہے کہ جس کے یہاں بیٹی پیدا ہوئی گویاوہ ایک امتحان میں ڈال دیا گیا لہٰذا اس کے لیے صبروتحمل ضروری ہے۔
(۲) حدیث نمبر ۲ میں بیٹیوں کو ماں باپ کے لیے جنت میں جانے کا ذریعہ و وسیلہ بتایاگیاہے مگر شرط یہ ہے کہ بیٹیوں کو بیٹوں سے کم اور حقیر نہ سمجھے اور ان کی تعلیم وتربیت میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔مگر واضح رہے کہ یہ شرط بڑی کڑی اور کٹھن ہے لیکن اس کا بدلہ بھی جنت ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی انعام ہو ہی نہیں سکتا۔
(۳) حدیث نمبر ۳کاماحصل یہ ہے کہ بیٹیوں اوربہنوں کی پرورش کایکساں اجرو ثواب ہے اور تین بیٹیوں اور بہنوں کی پرورش کا جواجرو ثواب ہے وہی دو یا ایک بیٹی اوربہن کی پرورش کا بھی اجرو ثواب ہے۔
====================
=======================
ماخوذ از: بہشت کی کنجیاں
مؤلف:
شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفی الاعظمی علیہ رحمۃ اللہ الغنی
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.