You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
شیر کا بچہ پیدا ہوتے ہی ماں باپ سے بچھڑ گیا ، جب اس کی آنکھ کھلی تو اردگرد بکریوں کا ریوڑ تھا ؛ وہ انھی میں پلا ، بڑھا ، جوان ہوا ۔
بکریوں کی صحبت نے اسے بکری بنادیا ؛ بکریوں کے ساتھ گھاس پھوس کھاتا ، بکریاں بھیڑیے کو دیکھ کر بھاگتیں تو یہ بھی بھاگ کھڑا ہوتا ۔
ایک دن ایک شیر چرا گاہ کی طرف آنکلا ، اُس نے جب اپنے ہم جنس کو بکریوں کے ساتھ چرتے دیکھا تو بڑا حیران ہوا اور حیرانی اس وقت مزید بڑھی جب اُسے دیکھ کربکریوں کے ساتھ یہ بھی بھاگ کھڑا ہوا ۔
شیر نے کہا یہ اصل میری ، نسل میری ، شکل میری ؛ اس کی عادتوں کو کیا ہوگیا!
ضرور اِسے بکریوں کی صحبت نے خراب کردیا ہے ۔
کیوں نہ اسے بتایا جائے کہ تو کون ہے ، کہاں سے آیا ہے ، کیوں آیا ہے ۔
شیر اس بچے کو کان سے پکڑکر پانی کے چشمے پر لے گیا اور کہا اندر جھانکو ۔
اس نے پانی میں جب اپنی شکل وصورت دیکھ لی تو شیرنے اس کے کان پر منھ رکھ کے گرج دار آواز نکالی ، جس نے اس کا دماغ کھول دیا ؛ اور اسے معلوم ہوگیا کہ میں کون ہوں ، کیا ہوں !!
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
چودہ اگست کومعرض وجود میں آنے والے اسلامی ملک کی فوج شیر کی اولاد تھی ، اس نے اصلی و نسلی شیر ( پاکستان ) کی کوکھ سے جنم لیا ، لیکن بکریوں ( امریکہ وبرطانیہ وغیرہ ) کے ریوڑ نے اس کے عادات و اطوار خراب کردیے ؛ یہ بھول گئی میں کون ہوں ، کیا ہوں !
اب کئی سالوں بعد خادم حسین رضوی نامی ایک شیر کا ادھرسے گزر ہوا ہے ، جو اِسے بدر وحنین کے چشمے پر کھڑا کرکے منھ دکھانا اورگرج دار آواز میں سمجھانا چاہتا ہے کہ تو کون ہے ، کیا ہے !!
اگر یہ سمجھ گئی توبھیڑیوں ( گستاخان رسول ) سے ڈر کر بھاگے گی نہیں ، بلکہ اِس کی گرج دار آواز ( بندوقیں ، میزائل ، جہاز ) گیرٹ ولڈرز جیسے بھیڑیوں کا پتاپانی کردے گی ۔
خدا کرے یہ سمجھ جائے !!
---
لقمان شاہد
https://www.facebook.com/qari.luqman.92
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.