You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
نہایت حسین مکالمہ
تحریر :شیخ الحدیث صاحبزادہ سید ارشد سعید کاظمی
امت مسلمہ کی اکثریت نے انبیاء کرام اور اولیاء عظام کو اپنا مشکل کشاء اور حاجت روا مان لیا ہے اور بکثرت لوگ ان کے مزارات اور خود ان کے پاس بھی جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ انہیں اس عقیدہ سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ انہیں سمجھاتے ہیں کہ ان کے پاس جانا درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جنکی تم عبادت کرتے ہو وہ تو اپنے لئے بھی کچھ نہیں کرسکتے، چہ جائیکہ وہ تمہارا بیڑا پار کریں اور پھر ایک طویل فہرست آیات کی پیش کر دی جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک موحد اور ایک عام آدمی کا مکالمہ ملا حظہ فرمایئے۔
مُوَحِّد: تم اپنے آپ کو بڑا مسلمان سمجھتے ہو لیکن جب دیکھو کبھی تم کسی مزار پر نظر آتے ہو تو کبھی کسی اپنے خود ساختہ بنائے ہوئے رہنما، پیشواء، پیر، فقیر کے پاس، تمہیں تو صرف اور صرف اللہ کے حضور حاضر ہوناچاہئے۔ ان قبروں، آستانوں اور پیروں، فقیروں کو چھوڑو۔
عام مسلمان: بھائی مسجد میں تو پانچ وقت کی حاضری ہوتی ہے اور اپنے رب کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر دعائیں مانگتا ہوں۔
مُوَحِّد: تمہاری یہ تمام عبادتیں رائیگاں جائیں گی کیونکہ تم قبروں اور آستانوں پر جا کر شرک کرتے ہو۔
عام مسلمان: بھائی! ہم شرک کیسے کرتے ہیں ذرا ہمیں سمجھائو تو سہی۔
مُوَحِّد: پورے جوش میں! اللہ تعالیٰ نے قبروں، پیروں ، فقیروں کے پاس جانے سے منع فرمایا ہے۔
عام مسلمان: بھائی! وہ کیسے؟
مُوَحِّد: دیکھو بیشمار آیات ہیں ملاحظہ کرومثلاً
ترجمہ:"فرما دیجئے کیا اللہ کے علاوہ تم ان کی عبادت کرتے ہو جو کہ تمہارے کسی ضرر اور نفع کے مالک نہیں ہیں" (سورۃ المائدہ : آیت نمبر۷۶
اور جیسا کہ سورۃ العنکبوت میں بھی ہے
ترجمہ: جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر مددگار بنالئے ہیں ان کی مثال اس مکڑی کی طرح ہے کہ اس نے جالے کا گھر بنایا اور اس میں شک نہیں کہ اس کا گھر تمام گھروں سے زیادہ کمزور ہے۔(سورۃ العنکبوت آیت نمبر۴۱
اور اس کے علاوہ سورۃ الحج آیت نمبر۷۳، سورۃ الزمر آیت نمبر۳، سورۃ الاحقاف آیت نمبر۴ بھی پڑھ لو۔
عام مسلمان: بھائی! آپ نے اتنی آیات پیش کردیں اس سے تو یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ اس وقت کے عرب لوگ بھی اپنے اپنے پیروں، فقیروں اور قبروں پر جاتے ہونگے، کیونکہ بقول تمہارے ان آیات میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو وہاں جانے سے روک رہا ہے،بھلا یہ بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو اس زمانہ میں ایسا کرنے سے منع فرمارہا ہے وہ اس زمانہ کے مسلمان یعنی صحابہ کرام تھے یا کوئی اور لوگ۔
مُوَحِّد: ارے توبہ کرو، وہ صحابہ کیسے ہوسکتے ہیں، بھلا صحابہ ایسا کام کیوں کرنے لگے۔ یہ کام کرنے والے لوگ تو اس زمانے کے مشرکین تھے۔
عام مسلمان: تو وہ مشرکین کیا قبروں اور آستانوں یا کسی پیر فقیر کے پاس جایا کرتے تھے، اگر وہ پیروں ، فقیروں کے پاس جایا کرتے تھے تو ذرا ان پیروں، فقیروں کے نام تو بتا دو اور اگر وہ قبروں پر حاضری دیا کرتے تھے تو ان قبروں کی نشاندہی کر دو؟
مُوَحِّد: ارے وہ کسی قبر پر تو جا ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک تو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا تصور ہی نہیں ہے چہ جائیکہ وہ کسی قبر والے کو زندہ سمجھ کر وہاں اس کی قبر کے پاس بیٹھیں اور اس سے مانگیں اور اس زمانہ میں تو کوئی پیر، فقیر تھے ہی نہیں کہ جن کے پاس یہ مشرکین جاتے۔
عام مسلمان: ارے بھائی! ذرا غور تو کرو کہ تم کہہ کیا رہے ہو، وہ آیات پڑھ پڑھ کر ہمیں قبروں اور پیروں کے پاس جانے سے روکتے ہو جو کہ اس سلسلہ میں نازل ہی نہیں ہوئی ہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسا کہ ہیرے کی قیمت بجری بنانے والی فیکٹری میں جا کر پوچھی جائے کہ بتاؤہیرے کی کیا قیمت ہے۔ تو وہاں سے یہی جواب ملے گا کہ بھائی یہ تو بجری کی فیکٹری ہے، جوہری کی دکان نہیں۔ اگر ہیرے کی قیمت پوچھنی ہے تو کسی جوہری کی دکان پر جا کر پوچھو۔اے بھائی مسلمانوں کو اتنا بڑا دھوکہ تو نہ دو اور کلمہ گو مسلمانوں کو خواہ مخواہ جہنمی نہ بناؤ اور انہیں بلا وجہ مشرک قرار نہ دو! یہ تو ایسی بات ہے کہ شراب کی حرمت کی آیات پڑھ پڑھ کر صندل اور الائچی کے خوشبودار شربتوں کو حرام قرار دیا جانے لگے، بھائی وہ مشرکین اور انکے بت ہیں جبکہ یہاں تو مسلمان اور اللہ تعالیٰ کے مقدس بندے ہیں۔ تم مسلمانوں کو مشرکین اور انبیاء کرام اور اولیاء اللہ کو بتوں پر قیاس نہ کرو، اس طرح تو مفہوم قرآن بدل کر رہ جائیگا اور پورا دین مسخ ہو جائیگا۔
مُوَحِّد: ارے کیسی بات کہتے ہو، دیکھو جس طرح کہ ہندو جو بتوں کے پجاری ہیں وہ اپنے بتوں کو غسل دیا کرتے ہیں، یہ مسلمان بھی اپنے بزرگوں کی قبروں کو غسل دیتے ہیں ذرا مشرکوں اور ہندؤوں سے ان کی مشابہت تو دیکھو کتنی ہے، بالکل وہی مشرکانہ طور طریقے معلوم ہوتے ہیں۔
عام مسلمان: ارے بھائی! اگر مشابہت کی بات کرتے ہو تو اس طرح تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے۔
الف) ہندؤوں کے نزدیک گنگا اور جمنا کا پانی متبرک ہے اور تمہارے نزدیک زم زم اور حوض کوثر کا پانی۔
ب) ہندو پتھروں کو چوما کرتے ہیں اور تم حجر اسود کو۔
ج) ہندو بتوں کی طرف منہ کرکے سجدہ کرتے ہیں اور تم بھی پتھروں کے بنے ہوئے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے سجدہ کرتے ہو۔
مُوَحِّد: ارے کیسی بات کرتے ہو بھائی!زم زم کے پانی کو تو اللہ تعالیٰ نے متبرک قرار دیا ہے۔
عام مسلمان: بہر حال مشابہت تو پائی گئی ہے۔ اچھا تو یہ بتاؤ کہ خانہ کعبہ شریف کو غسل دینا اور بتوں کو غسل دینا، کیا ایک جیسا نہیں لگتا؟ یہ غسل کعبہ کا حکم کونسی آیت یا حدیث میں آیا ہے۔
مُوَحِّد: لاجواب ہوتے ہوئے! ارے توبہ کرو یہ خانہ کعبہ اور وہ بت ہیں، تمہاری باتیں ہماری سمجھ سے بالا تر ہیں۔
عام مسلمان: اچھا یہ بتاؤ کہ کیا حضور ﷺیا خلفائے راشدین کے زمانہ میں غسل کعبہ ہوا کرتا تھا تو اس میں کس کس صحابی نے شرکت فرمائی تھی؟
مُوَحِّد: ارے کیا بات کرتے ہو! ہم یہ بات مانتے ہیں کہ غسل کعبہ پہلے نہ ہوا کرتا تھا مگر اس کے کرنے میں مضائقہ ہی کیا ہے۔
عام مسلمان: اے بھائی! ذرا سوچو تو سہی کیا کعبہ شریف کو غسل دینا بدعت نہ ہوا۔
مُوَحِّد: بدعت تو ہے مگر اس کے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اس لئے کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ دین نے ہمیں ایسا کرنے سے روکا نہیں ہے۔
عام مسلمان: اے بھائی! یہی تو ہم کہتے ہیں ہر وہ نیا کام جسے دین منع نہ کرے اس کے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے اور اسے بدعت، بدعت کی رٹ لگا کر، ناجائز، حرام اور شرک و بدعت کہہ کر رد نہیں کر دینا چاہئے۔
مُوَحِّد: لاجواب ہو کر بات بدلتے ہوئے ارے تم تو کہاں کی بات کہاں لے آئے ہو۔ بات تو ہو رہی تھی قبروں اور پیروں سے متعلق، یہ بتاؤکہ تم مقدس بندوں کے پاس جانے کو ضروری کیوں قرار دیتے ہو۔ اس کے جواز کے کیوں قائل ہو جبکہ ہم نے تمہیں کئی آیات پڑھ کر سنائی ہیں کہ ان کے پا س جانا جائز نہیں۔
عام مسلمان: اے بھائی پھر تم وہی بات کررہے ہو جس کا ہم جواب دے آئے ہیں برائے مہربانی بتوں والی آیات پڑھ پڑھ کر انبیاء کرام اور اولیاء اللہ پر چسپاں نہ کرو یہ تو میں ابھی ثابت کروں گا کہ ہم انبیاء کرام اور اولیاء عظام کے پاس کیوں جاتے ہیں۔ مگر یہ تو بتاؤکہ بتوں والی آیات میں تم لوگ انبیاء کرام اور اولیاء عظام کی شان کو تلاش کرتے ہو اور بتوں والی آیات کا حکم ان مقدس شخصیات پر لگاتے ہو یہ کتنا بڑا ظلم و ستم ظریفی ہے۔ اگر ان مقدس حضرات کی شان تلاش کرنی ہے تو وہ بتوں والی آیات میں نہ ملیں گی بلکہ ان آیات میں ملیں گی جو خود ان بزرگ ہستیوں کے بارے میں نازل ہوئیں ہیں۔
مُوَحِّد: ذرا تم خود ہی وہ آیات پیش کردو جن سے ان مقدس شخصیات اور بتوں کے درمیان فرق واضح ہو جائے تاکہ ہماری سمجھ میں بھی یہ بات آجائے کہ تم کہنا کیا چاہتے ہو۔
عام مسلمان: سرِدست تو اتنا عرض کروں گا کہ بتوں والی آیات میں تو رب العالمین کا یہی پیغام بار بار آرہا ہے کہ تم ان کے پاس مت جاؤ اور نہ ان سے کچھ مانگووہ تمہیں کچھ بھی نہیں دے سکیں گے مگر جب پیارے نبی مکرم ﷺکا ذکر آتا ہے تو سورۃ المنافقون میں یوں ارشاد ہوتا ہے۔
جب اُن منافقین سے کہا جائے کہ (رسول کی بارگاہ میں) آؤ کہ وہ رسول تمہارے لئے دعائے مغفرت فرمائیں تو وہ (منافقین انکار کرتے ہوئے)اپنے سروں کو مٹکاتے ہیں ۔ اور آپ نے انہیں دیکھا کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر نہیں ہوتے اور وہ تکبر کرتے ہیں( کہ ہم رسول کے پاس اپنے گناہوں کو بخشوانے کیلئے کیوں جائیں تو اب آپ ان کا انجام بھی سماعت فرمائیں) کہ ان کیلئے برابر ہے کہ آپ ان کیلئے استغفار فرمائیں یا نہ فرمائیں اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔(سورۃ المنافقون۔ ۵،۶
دیکھو اے میرے بھائی! یہ فرق ہے انبیاء کرام اور بتوں میں، کہ بتوں کے پاس جانے سے انسان جہنمی اور مشرک ہو جاتا ہے جبکہ رسول اللہ ﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضر نہ ہونے سے انسان جہنمی اور کافر ہوجاتا ہے، بتوں سے مانگے تو دوزخی ہو جائیگا جبکہ رسول اللہ ﷺ سے اپنے لئے دعائے استغفار کرانے سے جنتی ہو جاتا ہے۔
دوسرا فرق:کہ بتوں کے پاس عقیدت و احترام کے ساتھ جانے سے بندہ گنہگارہو جاتا ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ کے متعلق ارشاد ہوتا ہے ۔ کہ اگر انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کرلیا تھا یعنی گناہ کربیٹھے تھے تو وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو جاتے اور انہوں نے اللہ سے معافی مانگی ہوتی اور رسول بھی ان کیلئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی ہوتی اور رسول بھی ان کیلئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے تو وہ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول فرمانے والا اور انتہائی رحمت فرمانے والا پاتے (سورۃ النساء ۔۶۴
دیکھو بھائی! یہ فرق ہے نبی مکرم ﷺ اور بتوں میں کہ بتوں کے پاس جانے سے بندہ گنہگار ہوجاتا ہے جبکہ رسول اللہ ﷺکی وہ عظیم بارگاہ ہے کہ ان کے پاس حاضر ہونے سے گناہ دھل جاتے ہیں اور مزید یہ کہ اللہ کی رحمت بھی برستی ہے۔
مُوَحِّد: ارے تم کیسی بات کرتے ہو! اس مسلمان کی بخشش تو اس بناء پر ہوئی تھی کہ اس نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی بھلا اس میں رسول کا کیا تعلق؟
عام مسلمان: اے بھائی! اگر رسول اللہ ﷺ کا کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ صرف استغفار کرنے کی بناء پر بخشا گیا تب یہ تو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو یوں کیوں فرمایا کہ تم رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں آجاؤ اور پھر رسول ﷺبھی تمہارے لئے دعا مغفرت فرمائیں تب جا کر تمہاری بخشش ہوگی اور جو بات تم کہہ رہے ہو اگر وہ درست ہوتی تو اللہ تعالیٰ بھی یوں فرماتا کہ رسول کے پاس نہ جانا ۔اگر گئے تو مشرک ہو جاؤ گے اور کبھی بھی بخشے نہ جاؤ گے بلکہ حجروں اور کمروں میں بند ہو کر محض اللہ تعالیٰ سے دعائے مغفرت مانگو تب جا کر تمہاری بخشش ہوگی۔
مُوَحِّد: تو یہ بتاؤ کہ ابھی تم نے سورۃ المنافقوں کی آیت پڑھی ہے اور کہا ہے کہ ان منافقین کے لئے برابر ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کیلئے استغفار کریں یا نہ کریں اللہ تعالیٰ ان کو نہیں بخشے گا۔ اگر رسول اللہ ﷺکی استغفار ان کیلئے بخشش اور رحمت کا سبب بنتی تو اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کی استغفار کی بناء پر ان کی بخشش کرنہ دیتا؟
عام مسلمان: بھائی! یہی بات تو سمجھنے کی ہے کہ یہ منافقین چونکہ خود تو رسو ل اللہ ﷺ سے گناہوں کی معافی کیلئے دعا کرانا پسند نہیں کرتے تھے تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی کہ وہ منافقین خود تو غرور و نخوت کا مجسمہ بنے اکڑے کھڑے رہیں اور میرا حبیب ﷺ ان کیلئے دعائے مغفرت فرمائے اور اس بناء پر انکی بخشش ہو جائے۔
ہاں! اگر وہ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں گناہوں کی معافی کے طلبگار بن کر جاتے تو رسول اللہ ﷺکی دعا کی وجہ سے وہ یقینا بخشے جاتے جیسا کہ ابھی (سورۃ النساء آیت نمبر۶۴)میں گزرا ۔
اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی ہے کہ اس آیت کریمہ میں محض اس بات کو بیان کرنا مقصود نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے لئے دعائے مغفرت فرما دیں تو دہ بخشے جائیں گے بلکہ وہ حضور ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہو کر دعا کے طلبگار بنیں اور وہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کریں کہ یارسول اللہ ﷺ آپ ﷺہمارے لئے دعائے مغفرت فرمائیں تب جا کر ان کی بخشش ہوگی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ بتوں کو پکارو گے تو جہنم میں جاؤ گے مگر رسول پاک ﷺ کو اپنی بخشش کیلئے پکارو گے تو جنتی بن جاؤ گے۔
مُوَحِّد: اچھا ذرا یہ بتاؤ کہ قرآن مجید میں یہ جو آتا ہے کہ تم اللہ کے علاوہ کسی اور معبود کو نہ پکارو، تو اس بارے میں تم کیا کہتے ہو
عام مسلمان: بھائی! اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کے علاوہ کسی اور معبود کو نہ پکارو۔ ہم کسی معبود کو نہیں پکارتے ہیں بلکہ نبیوں اور ولیوں کو پکارتے ہیں اور انہیں اللہ کا بندہ سمجھ کر پکارتے ہیں معبود سمجھ کر نہیں۔ برخلاف مشرکین کے کہ وہ اپنے بتوں کو معبود سمجھ کر پکارا کرتے تھے۔
مُوَحِّد: اچھا اس آیت میں تو ہے کہ کسی اور معبود کو نہ پکارو مگر دوسری آیت میں یہ جو آتا ہے کہ مسجدیں اللہ کے لئے ہیں تم اللہ کے ساتھ کسی بھی اور کو نہ پکارو یعنی معبود سمجھ کر پکارنے کی قید نہیں لگائی؟
عام مسلمان: اے بھائی! اگر اس آیت کریمہ کا یہ مطلب لیا جائے کہ مسجدوں میں اللہ کے علاوہ کسی اور کو نہ پکارو تو یہ بتاؤ کہ تم مسجد میں اذان دیتے ہوئے یہ نہیں کہتے ہو"حی علی الصلوٰۃ، حی علی الفلاح"کہ آؤ نماز کی طرف، آؤ فلاح و بہبود کی طرف۔ بتاؤ کیا تم یہ اللہ تعالیٰ کو نماز اور فلاح کے لئے پکار رہے ہو(نعوذ باللہ)یا بندوں کو؟
مُوَحِّد: بندوں کو! نعوذ باللہ ہم اللہ کو نماز کیلئے کیسے پکار سکتے ہیں، وہ تو نماز پڑھنے سے پاک ہے اور فلاح تو وہ خود عطا فرماتا ہے۔ ہم اس کو فلاح کی طرف کیسے پکار سکتے ہیں۔
عام مسلمان: بس یہی تو میں تم سے کہلوانا چاہتا تھا، اب ذرا یہ بتاؤ کہ تم مسجدوں میں لوگوں کو کیوں پکارتے ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے منع بھی فرمایا ہے کہ تم مسجدوں میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو اور تمہاری تو بڑی بڑی مسجدیں ہیں اگر تم دین نہ پھیلاؤ گے تو اور کون پھیلائے گا پس آج سے یا تو اپنی مسجدوں میں اذان دینا بند کردو یا کم از کم ـ"حی علی الصلوٰۃ، حی علی الفلاح"کے جملے تو ضرور نکال دو۔
مُوَحِّد: زِچ ہوتے ہوئے ! تو ذرا تم ہی ان آیات کی تشریح کردو۔
عام مسلمان: بھائی! مطلب تو واضح ہے کہ قرآن مجید کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے۔ وہ اس طرح کہ جس آیت میں یہ آیا ہے کہ تم مسجدوں میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارواس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو معبودسمجھ کر نہ پکارو کیونکہ دوسری آیات میں واضح ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو۔ ہاں اگر بندوں کو بندہ سمجھ کر پکارو گے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔
مُوَحِّد: بات دراصل یہ ہے کہ تم رسول اللہ ﷺ اور اولیاء کرام کو دُور سے پکارتے ہو اور دُور سے تو صرف اللہ تعالیٰ ہی سُن سکتا ہے کوئی اور نہیں سُن سکتا۔ تم تو انہیں اسی طرح سننے والا مانتے ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو مانتے ہو۔
عام مسلمان: اچھا بھائی! پہلے ہمارا عقیدہ سن لو کہ ہم انبیاء کرام اور اولیاء عظام کو دُور سے سننے والا کیسے مانتے ہیں پھر بتاؤ کیا تم اللہ تعالیٰ کو بھی اسی طرح دُور سے سننے والا مانتے ہو تو تب شرک ہوگا ورنہ شرک نہ ہوگا۔
عقیدہ سنو! اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کرام اور اولیاء عظام میں ایسی قوت سماعت سننے کی طاقت رکھ دیتا ہے کہ وہ دُور و نزدیک کی تمام باتیں سن سکتے ہیں کیا تم اللہ تعالیٰ کے بارے میں بھی یہی عقیدہ رکھتے ہو کہ اسے بھی کسی نے ایسی قوت عطا کی ہے جس کی بناء پر وہ سنتا ہے یا یہ طاقت اس کی اپنی ہے۔
مُوَحِّد: اللہ تعالیٰ کو سننے کی طاقت کون دے گا! وہ تو اللہ ہے۔
عام مسلمان: بھائی یہی تو فرق ہے کہ انبیاء و اولیاء میں کہ یہ قوت ان میں اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج ہو کر نہیں سنتا ، مگر بندہ اللہ کا محتاج ہے اور جب اللہ تعالیٰ اس میں یہ قوت رکھ دیتا ہے تو وہ بھی دُور و نزدیک کی ہر بات سن لیتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ تو خود سنتا ہے اسے کوئی سنانے والا نہیں۔
مُوَحِّد: بھلا اللہ تعالیٰ کسی میں ایسی قوت کیوں رکھے گا؟ اسے کیا ضرورت در پیش آگئی کہ وہ کسی میں ایسی قوت رکھے؟ کیا وہ نبیوں ، ولیوں کا محتاج ہے کہ وہ پہلے ہماری باتیں دور سے سنیں پھر اللہ تعالیٰ کو پتا چلے گا ورنہ نہیں۔
عام مسلمان: بھائی مجھے تو یہ پتا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ضرورت پیش آتی ہے کہ بندہ کو۔ مگر میں اتنی بات ضرور جانتا ہوں کہ قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی سیدنا سلیمان علیہ السلام میں دُور و نزدیک سے سننے کی قوت رکھ دی تھی۔ جیسا کہ سورۃ النمل میں ہے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام جب اپنے تخت پر پرواز کرتے ہوئے چیونٹیوں کی وادی میں آئے تو ایک چیونٹی نے باقی چیونٹیوں سے کہا اے چیونٹیو! اپنے بِلوں میں داخل ہو جاؤ کہ کہیں سلیمان علیہ السلام کا لشکر بے خیالی میں تمہیں کچل نہ ڈالے تو سیدنا سلیمان علیہ السلام ان کی یہ بات سن کر مسکرا دیئے اور عرض کیا کہ اے میرے رب( چونکہ تو نے یہ قوت مجھے عطا فرمائی ہے اس لئے) تو مجھے اتنی توفیق عطا فرما کہ میں تیرا شکر ادا کرتا رہوں۔(آیت نمبر۱۹،۱۸
یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام میں اللہ تعالیٰ نے یہ قوت رکھ دی تھی کہ اپنے تخت پر اڑتے ہوئے چیونٹی کی آواز سن رہے ہیں اور ان کی بولی بھی سمجھ رہے ہیں۔
مُوَحِّد: اچھا چلو یہ تو مان لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا سلیمان علیہ السلام میں یہ قوت رکھ دی تھی لیکن یہ جو تم اپنے نبی کریم ﷺکے متعلق عقیدہ رکھتے ہو کہ وہ بھی دُور و نزدیک کی تمام باتیں سن لیتے ہیں۔ یہ کہاں سے ثابت ہے؟
عام مسلمان: اے بھائی! پہلے یہ بات تو مان لو کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی میں ایسی قوت رکھ دے تو یہ ممکن ہے اور اسے شرک نہیں کہا جائیگا۔ رہا ہمارے آقا و مولا ﷺکا معاملہ! تو اس بارے میں بیشمار حدیثیں ہیں مثلاً حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا! ـ
کہ میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ہو اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے(مشکوۃ شریف ص457رواہ احمد و ترمذی
دوسری حدیث ملا حظہ فرمائیں
اللہ تعالیٰ نے میرے لئے تمام زمین کو کھول دیا پس میں نے اس کے مشرق و مغرب کو دیکھ لیا(رواہ مسلم390جلد2
تیسری حدیث ملاحظہ فرمائیں
بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ہم میں جلوہ گر ہوئے پس آپ ﷺ نے ہمیں ابتدائے خلق کی خبریں دینا شروع فرمائیں یہاں تک کہ جنتی، جنت میں داخل ہوگئے اور جہنمی اپنے ٹھکانوں میں، جس نے حضور ﷺ کے اس خطبہ کو یاد رکھا اسے یا د رہ گیا اور جو بھول گیا سو وہ بھول گیا۔(بخاری شریف۔حدیث نمبر3192
چوتھی حدیث ملاحظہ فرمائیں
ـ ـ کہ حضور ﷺ نے جب( سورج کو گرہن لگنے کے وقت کی نماز) نماز کسوف پڑھائی پھر ارشاد فرما یاکوئی بھی ایسی چیز باقی نہیں رہی جو کہ میں نے اس جگہ میں ابھی ابھی نہ دیکھ لی ہو" (بخاری شریف ۔ حدیث نمبر1053
مُوَحِّد: تم یہ جو کہتے ہو کہ ہمارے نبی ﷺکو اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات کا وارث بنا دیا ہے یہ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ کائنات تو ہو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے وارث بن جائیں رسول اللہ ﷺ۔ کیا اس کی کوئی مثال قرآن یا حدیث میں آئی ہے؟
عام مسلمان: ہاں بھائی اس کی کئی مثالیں آئی میں مثلاً ہمارے آقا و مولا ﷺ تو تمام انبیاء کے سردار ہیں قرآن مجید میں تو سیدنا سلیمان علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ ان کو کائنات کی ہر نعمت میں سے حصہ ملا ہے جیسا کہ سورۃ النمل میں ہے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا یعنی اعلان کیا ترجمہ۔ اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھلائی گئی ہیں اور ہمیں ہر ہر شئے میں سے عطا کیاگیا ہے بیشک یہ اللہ کا فضل ہے ۔ (النمل آیت نمبر۱۶)جب سیدنا سلیمان علیہ السلام کو ہر چیز میں سے عطا کیا گیا تو ہمارے آقا ﷺ کوکائنات کے وارث بننے میں کونسی چیز رکاوٹ ہوسکتی ہے۔
جبکہ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد پاک بھی ہے کہ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا فرما دی گئی ہیں ۔ـ بخاری شریف۔ جلد نمبر1، ص179
اور جیسا کہ سورۃ الانبیاء میں ہے کہ بیشک نصیحت (کاذکرکرنے) کے بعد ہم نے زبور میں لکھ دیا ہے کہ یقیناً میرے نیک بندے زمین کے وارث ہونگے۔(سورۃ الانبیاء ۱۰۵
نیز سورۃ الاعراف میں ہے"بیشک زمین صرف اللہ کی ہے(لیکن) وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اُسے (زمین) کا وارث بنادیتا ہے" (سورۃ الاعراف آیت نمبر۱۲۸
ان آیات کریمہ میں تو بالکل واضح طور پر فرمادیا ہے کہ زمین ہماری ہوگی مگر اس کے وارث نیک بندے ہوں گے اب بتاؤ کہ کیا اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس کی زمین کے وارث نہیں ہو سکتے ۔
مُوَحِّد: بات کو پھیرتے ہوئے! اچھا یہ تمہاری منتیں مرادیں کیا ہیں یہ شرک نہیں تو اور کیا ہے؟
عام مسلمان: یہ آپ حضرات کی عادت ہے کہ ایک بات میں لاجواب ہونے لگتے ہو تو دوسری بات چھیڑ دیتے ہو بہرحال اس کا بھی جواب لیتے جاؤ کہ جہاں تک تعلق ہے منتوں ، مرادوں کا تو اس میں پہلے ہمارا عقیدہ سن لو پھر اعتراض کرنا۔
عقیدہ:ہم منت اس طرح مانتے ہیں اے اللہ یہ صاحب مزار تیرا برگزیدہ بندہ ہے ہم اس کے مزار پر خیرات کریں گے ،دیگیں پکائیں گے اور فقراء کو کھلائیں گے پس تو ہماری فلاں مشکل کشائی فرما دے اب بتاؤ اس خیرات کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔
مُوَحِّد: تمہارے اس عقیدہ کے بارے میں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ تم نے مزار والوں کواپنے اور اللہ کے درمیان وسیلہ مان لیا ہے جو کہ درست نہیں ہے کیونکہ تم یہی عقیدہ رکھتے ہو۔ ہم جب ان کے مزارات پر منت مانیں گے تو ہمارا یہ کام جلدی ہو جائے گا۔ کیونکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے مقرب تھے یہی عقیدہ مشرکین اپنے بتوں کے بارے میں رکھتے تھے جیسا کہ سورۃ الزمر میں ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے علاوہ شریک بنائے ہوئے ہیں (اور وہ کہتے ہیں) کہ ہم ان کی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کردیں گے۔سورۃ الزمر آیت۳) یعنی وہ اپنے بتوں کو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ مانتے تھے اور تم بھی اپنے پیروں ، فقیروں اور انبیاء کرام کو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ اور وسیلہ مانتے ہو۔
عام مسلمان: اے بھائی! سورۃ الزمر کی جس آیت کا تم نے حوالہ دیا ہے اس میں تو صاف صاف لکھا ہے کہ وہ مشرکین کہتے ہیں کہ ہم ان بتوں کی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں گے یعنی وہ ان بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے اس بناء پر تووہ مشرک تھے جبکہ ہم اولیاء و انبیاء کی عبادت نہیں کرتے ہیں اس لئے ہم مشرک نہیں ہیں۔ رہی یہ بات کہ آیا انبیاء کرام اپنے امتیوں کو اللہ تعالیٰ سے قریب کرتے ہیں یا نہیں؟ ذرا تم خود سوچو تو سہی کہ اگر نبی اللہ تعالیٰ سے قریب کرنے کے لئے نہیں آیا تو نبی ﷺکے آنے کا مقصد کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے تو انبیاء کرام کو تو بھیجا ہی اس لئے ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے قریب کر دیں۔ مگر بتوں کو اللہ تعالیٰ اپنے قرب کے لئے وسیلہ نہیں بنایا ہے اس لئے برائے مہربانی بتوں والی آیات پڑھ پڑھ کر انبیاء کرام اور اولیاء عظام پر چسپاں نہ کریں یہی بات میں نے شروع میں بھی عرض کی تھی۔
مُوَحِّد: دیکھو تم جن مقدس بندوں کو پکارتے ہو وہ سب مل کر بھی ایک مکھی تو بنا نہیں سکتے ہیں جیسا کہ سورۃ الحج میں ہے
اے لوگو! ایک مثال بیان کی گئی ہے غور سے سنو! یقیناً اللہ کو چھوڑ کر تم جن کی عبادت کرتے ہو اگر وہ تمام مل بھی جائیں تو ایک مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ اسے واپس نہیں لے سکتے (سورۃ الحج آیت۷۳
دیکھو یہ حال ہے تمہارے خود ساختہ مشکل کشاؤں کا۔
عام مسلمان: بھائی! میں نے آپ سے پہلے بھی عرض کی تھی کہ جو آیتیں بتوں کے متعلق نازل ہوئی ہیں ان میں انبیاء کرام اور اولیاء عظام کی شان تلاش نہ کرو اور نہ ہی ان آیات سے انبیائے کرام و اولیاء عظام کی قدر و منزلت ناپی جا سکتی ہے۔
مُوَحِّد: ارے تم تو ہر آیت کے متعلق یہ کہہ دیتے ہو کہ یہ بتوں سے متعلق ہے تمہارے پا س کیا دلیل ہے کہ یہ آیات انبیاء و اولیا کے متعلق نہیں ہے بلکہ بتوں کے متعلق ہے۔
عام مسلمان: بھائی! یہ آیت کریمہ خود بتلا رہی ہے کہ اس کا تعلق بتوں کے ساتھ ہے انسانوں کے ساتھ نہیں۔
مُوَحِّد: وہ کس طرح؟
عام مسلمان: لو سنو! اس آیت کریمہ میں ان بتوں کی بیچارگی کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ اس سے واپس تک تو لے نہیں سکتے تو وہ تمہاری کیا مدد کریں گے۔ ذرا آپ خود غور کرو کہ اگر کوئی انسان کی دوسرے سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو کیا وہ مالک اپنی چیز واپس لے سکتا ہے یا نہیں؟
مُوَحِّد: لے سکتا ہے۔
عام مسلمان: بھائی یہی تو ہم کہتے ہیں کہ جو چھینی ہوئی چیز واپس نہ لے سکے وہ بت ہی ہو سکتا ہے۔ انسان نہیں۔
مُوَحِّد: اچھا بات تو سمجھ آ گئی مگر یہ بتاؤ اگر تمہارے سارے انبیاء و اولیاء اور پیر ، فقیر مل بھی جائیں تو کیا ایک مکھی بنا سکتے ہیں؟
عام مسلمان: بھائی جب یہ آیت انسانوں کے متعلق ہے ہی نہیں تو اس کو آپ انبیاء و اولیاء عظام پر کیسے چسپاں کرسکتے ہو۔
مُوَحِّد: زور دیتے ہوئے ! بات نہ بدلو یہ بتاؤ کہ اگر سارے انبیاء و اولیاء مل جائیں تو کیا ایک مکھی بھی بنا سکتے ہیں۔
عام مسلمان: ہاں! کیوں نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوت و طاقت سے مکھی تو مکھی وہ تو پورا جیتا جاگتا پرندہ بنا سکتے ہیں۔
مُوَحِّد: ہنستے ہوئے، وہ کیسے؟
عام مسلمان: دیکھو! سورۃ ال عمران میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تمہارے ( ایمانوں کو مضبوط کرنے کیلئے) مٹی سے ایک پرندے کی مورتی بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اڑنے والا پرندہ بن جاتی ہے۔(آل عمران آیت نمبر۴۹
اب بتاؤ کہ نبی نے مٹی کی مورتی کو جیتا جاگتا پرندہ نہیں بنا دیا۔ پس ثابت ہو گیا کہ مکھی بنانے والی آیت کریمہ بتوں سے متعلق ہے۔ اس کے مقدس بندوں کے لئے نہیں۔اچھایہ بتاؤ کیا تمہیں یہ معلوم ہے کہ آیت کریمہ میں پھونک مارنے کا ذکر کیوں آیا ہے۔
مُوَحِّد: نہیں۔
عام مسلمان: دراصل یہ نبی کا دم ہے۔کہ اگر نبی مٹی پر پھونک مارے یعنی دم کردے تو اس میں بھی حیات اور زندگی پیدا ہوجاتی ہے۔ تمہاری سمجھ میں میری یہ بات آئے گی تو نہیں۔ کیونکہ تم دم درود کے قائل جو نہیں ہو مگر پھر بھی
"شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات"
مُوَحِّد: اچھا یہ تو بتاؤ کہ سورۃ فاطر میں یہ جو آتا ہے کہ
عام مسلمان: ارے بھائی! پھر تم نے وہی حرکت کی کہ بتوں والی آیات اللہ تعالیٰ کے مقدس بندوں پر چسپاں کر دی۔
مُوَحِّد: جو آیات بھی ہم پیش کرتے ہیں تم اس کے بارے میں یہ کہہ کر بات ختم کر دیتے ہو کہ یہ بتوں سے متعلق ہے۔ ذرا اب ثابت کرو کہ یہ آیت بھی بتوں سے متعلق ہے۔
عام مسلمان: بھائی! تم خود اسی آیت کریمہ میں غور کر لو تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ آیت بھی بتوں سے متعلق ہے۔ کہ اس میں یہ بتلایا جا رہا ہے"تم جنہیں اللہ کے علاوہ پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے اوپر کے چھلکے کے مالک نہیں ہیں"اب تم یہ بتلاؤ کیا یہ ممکن ہے کہ انسان پورے کے پورے کھجوروں کے باغات کا مالک تو ہو مگر ان باغات کی کھجوروں کی گٹھلیوں کے اوپر کے چھلکوں کا مالک نہ ہو۔
مُوَحِّد: یہ تو ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ جب وہ تمام کھجوروں کے درختوں کا مالک ہوگا تو ان پرلگی ہوئی تمام کھجوروں کا بھی مالک ہوگا۔ اور جب وہ کھجوروں کا مالک ہوگا تو کھجوروں کی گٹھلیوں کے اوپر کے چھلکے کا بھی مالک ہوگا۔
عام مسلمان: بھائی!یہی بات تو میں سمجھانا چاہتا تھا کہ جنہیں وہ مشرکین اللہ کے سوا پکارتے تھے وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں کیونکہ وہ تو پتھروں کے تراشے ہوئے بت ہیں انسان نہیں کیونکہ انسان تو پورے کے پورے کھجوروں کے باغات کا مالک ہو جاتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ آیت بھی بتوں سے متعلق ہے مقدس شخصیات سے متعلق نہیں۔
مُوَحِّد: زِچ ہوتے ہوئے۔ ارے تم نے حد کر دی ہے اپنی باتیں ہی منواؤ گے اور ہماری ایک نہ سنو گے، اچھا کیا تمہارے پاس کوئی ایسا طریقہ ہے کہ ہم فوراً سمجھ لیں کہ یہ آیت بتوں سے متعلق ہے اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کے مقدس بندوں کے متعلق ہیں۔
عام مسلمان: ہاں بھائی اندازہ پیش کیا جاسکتا ہے ورنہ تو اس بات کو تفسیروں میں واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔
مُوَحِّد: بے صبری سے! وہ اندازہ کیا ہے؟
عام مسلمان: تحمل سے، جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے مقدس بندوں کے متعلق کوئی آیت پڑھے تو تم اس میں غور کرو کہ اگر اس میں "من دون اللہ ـ" یا"من دونہ"کے کلمات ہیں سمجھ لو کہ ان سے مراد بت ہیں۔کیونکہ "من دون اللہ ـ " یا"من دونہ"کا معنی ہے اللہ کو چھوڑ کر ، کیونکہ وہ مشرکین اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان بتوں کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اور ان کی عبادت کرتے تھے اور "من دون اللہ ـ" سے یہ بات بھی واضح ہور ہی ہے کہ وہ مشرکین اللہ تعالیٰ سے بے نیاز ہوتے ہوئے اپنے بتوں کو مستقل مانتے تھے۔ کہ اللہ چاہے یا نہ چاہے یہ ہمارے بت ہمارا کام کر دیں گے۔ اس لئے تو بار بار ان آیات میں "من دون اللہ ـ" کے کلمات آ رہے ہیں یعنی وہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انہیں پکارتے تھے مگر ہم تو اللہ تعالیٰ چھوڑ کر ان مقدس بندوں کو نہیں پکارتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نسبت دیتے ہوئے انہیں مانتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ نسبت دیتے ہوئے یوں کہتے ہیں نبی اللہ، حبیب اللہ، ولی اللہ وغیرہ اور ہم مقدس بندوں کو اللہ تعالیٰ کا محتاج مانتے ہوئے پکارتے ہیں۔
مُوَحِّد: اچھا یہ تو معلوم ہوگیا ہے کہ بتوں والی آیات میں "من دون اللہ ـ" یا"من دونہ"کے کلمات آتے ہیں۔ اب ذرا یہ تو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ کے مقدس بندوں والی آیات میں بھی کوئی ایسا کلمہ آتا ہے جس کی بنا ء پر پہچان لیں کہ یہ آیات اللہ تعالیٰ کے مقدس بندوں سے متعلق ہے۔
عام مسلمان: ہاں بھائی! اس کے بارے میں اتنا عرض ہے کہ مقدس حضرات کے بارے میں چونکہ بیشمار آیات آئی ہیں اس لئے سرِدست صرف اتنا عرض ہے کہ مقدس شخصیات کے اختیارات جہاں بیان کئے ہیں وہاں یا تو اللہ تعالیٰ کے فضل کا ذکر ہے یا"باذن اللہ"کے کلمہ کو ذکر کیا ہے کہ یہ ر ب کے فضل سے ہے۔ یا یہ کہ"باذن اللہ"یعنی رب کے حکم و اجازت سے یہ کام ہوا ہے۔مثلاً آپ ملاحظہ فرمائیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کے بیان میں بار بار"باذن اللہ"آ رہا ہے۔ اور اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم "من دون اللہ"والے نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے بے نیاز ہوکر ان مقدس شخصیات کو پکاریں بلکہ "باذن اللہ"والے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اذن سے ان کے تصرفات کو مانتے ہیں۔ یعنی اپنے بزرگوں پر"من دون اللہ"والی آیات چسپاں نہیں کرتے ہیں بلکہ"باذن اللہ"سے انہیں پہچانتے ہیں پس ان سے معجزات اور کرامات اور تصرفات کے قائل ہیں۔ آیات ملاحظہ فرمائیں۔ہم اپنے بزرگوں کو اس طرح نہیں مانتے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے بے نیاز ہو جائیں بلکہ ہم تو اپنے بزرگوں کو اللہ تعالیٰ کے اذن ، (حکم) کا محتاج مانتے ہوئے
من دون اللہ والی آیات
ترجمہ: اے لوگو! ایک مثال بیان کی گئی ہے اسے کان لگا کر سنو! یقیناً اللہ کو چھوڑ کر تم جنہیں پکارتے ہو اگر وہ سب مل کر بھی ایک مکھی بنانا چاہیں تو نہ بنا سکیں گے( مکھی کا پیدا کرنا تو درکنار) اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ اسے واپس بھی نہیں لے سکتے ہیں۔(سورۃ الحج آیت نمبر۷۳
ترجمہ: اور جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں۔(سورۃ فاطر آیت نمبر۱۳
باذن اللہ والی آیت
ترجمہ: میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی مورتی بناتا ہوں پھر میں اسمیں پھونک مارتا ہوں پس وہ اللہ کے اِذن سے اڑنے والا پرندہ بن جاتی ہے اور میں شفایاب کرتا ہوں مادرزاد اندھے اور برص والے کو اور میں اللہ کے اِذن سے مردے زندہ کرتا ہوں۔(سورۃ آل عمران ۴۹
مُوَحِّد: ارے تم نے تو پورا زور اس بات پر خرچ کر دیا ہے کہ یہ آیات بتوں سے متعلق ہیں اللہ تعالیٰ کے مقدس بندوں سے متعلق نہیں۔ لیکن دراصل یہ جو بت ہیں وہ بزرگ اور مقدس شخصیات کے بنائے گئے تھے یعنی دراصل پوچا ان بتوں کی نہیں ہوتی تھی بلکہ ان بزرگ شخصیات کی ہوا کرتی تھی اس لئے یہ بات مان لو کہ بتوں والی آیات کو مقدس حضرات پر چسپاں کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
عام مسلمان: حیران ہوتے ہوئے! وہ کیسے؟ اپنی بات واضح کرو۔
مُوَحِّد: یہ کہنا غلط ہے کہ بت پرست بتوں کی پوچا کرتے ہیں وہ لوگ بھی پتھر کو پتھر ہی جانتے ہی۔ اگر پتھروں کی پوجا مقصود ہوتی تو وہ پہاڑ کی پوجا کرتے۔ جہاں بڑے بڑے پتھر ہوتے ہیں۔اور سڑکوں پرپتھر استعمال کر کے پتھر کی بے حرمتی کبھی نہ کرتے۔ مگر پتھر کوجب کسی قابل احترام بزرگ شخصیت سے منسوب کرکے لایا جاتا ہے تو پھر اس پتھر کا احترام کرنا اور اس کی پوجا کرنا وہ فرض جانتے ہیں وہ ان بزرگوں کی پوجا کرتے ہیں جن سے وہ پتھر یا لکڑی کا بت منسوب ہوتا ہے۔ مقصود بت نہیں بلکہ بزرگ کی ذات ہوتی ہے۔ بت کا پجاری دنیا میں کوئی نہیں ہے بلکہ پوجا بزرگ کی مقصود ہوتی ہے۔ احادیث کی کتب میں صاف بیان ہے کہ مشرکین پتھروں کی پرستش نہیں کرتے تھے بلکہ ان 360بتوں کو انہوں نے اللہ کے نیک بندوں سے منسوب کر رکھا تھا ان میں سے ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی تھا۔اور لات کون تھا۔ نہ صرف ایک بت نہیں تھا بلکہ عرب کا ایک نیک شخص تھا جو حاجیوں کو ستو کھلاتا تھا۔ ان کی خدمت کرتا تھا آپ حیران ہونگے کہ اس کے مرنے کے بعد مشرکین مکہ نے اس کا بت بنا کر اسے اپنے اور اللہ کے درمیان وسیلہ و سفارشی بنا رکھا تھا۔ اور جیسا کہ قرآن پاک میں قوم نوح کے پانچ معبودوں ودّ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کا ذکر ہے، جن کی پرستش کی وجہ سے قوم نوح کو غرق کیا گیا۔یہ پانچ افرادقوم نوح کے صالح لوگ تھے جن کو موت کے بعد لوگوں نے اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ بنا رکھا تھا۔ جیسا کہ ان کے بارے میں قرآن میں بیان ہے۔ اس قوم کے سرداروں نے اپنی قوم سے کہا
تم اپنے معبودوں کو مت چھوڑو۔ تم اپنے ودّ کو، سواع کو، یغوث کو، یعوق کو اور نسر کو مت چھوڑو" (سورۃ نوح71/23
عام مسلمان: یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ مشرکین ان بتوں کے پردے میں مقد س شخصیات کی پوجا کرتے تھے کیونکہ یہ عقیدہ تو ان بزرگ شخصیات کو جہنم میں پہنچا دے گا جبکہ ان کا تو اس میں کوئی بھی قصور نہیں جیسا کہ سورۃ انبیاءآیت نمبر۹۸ میں ہے
بیشک (اے مشرکو) تم اور جنکی تم اللہ کے علاوہ پوجا کرتے ہو جہنم کا ایندھن ہیں اور تم سب اسی جہنم میں پہنچو گے۔
اگر پوجا ان بتوں کی نہیں ہو رہی بلکہ ان بزر گ شخصیات کی ہو رہی ہے"تو آپ ذرا خود غور فرمائیے کہ سیدنا نوح علیہ السلام کے زمانے کے پانچ بزرگ کیا مشرکین کے شرک کرنے کی بناء پر اپنے ناکردہ جرم کی سزا خواہ مخواہ اس طرح پانے لگیں کہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم کا ایندھن بن جائیں۔
بھلابتلائیے تو سہی کہ اس میں ان بزرگ شخصیات نے کیا قصور کیا ہے اور کس جرم کی پاداش میں انہیں جہنم میں داخل کیا جائیگا جبکہ قرآن مجید میں رب العالمین نے یہ بات بھی ارشاد فرما دی ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائیگا ۔( سورۃ الانعام آیت نمبر۱۶۴)یعنی یہ ممکن نہیں ہے کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ یہ تو اس طرح ہوگا کہ شرک تو کریں مشرکین اور ان کے جرم کی سزا ان مقدس شخصیات کو ملے۔ تو اس کا مطلب تو یہ ہو جائے گا کہ کوئی بھی شخص کسی موحد شخص کی ڈمی بنائے اور اس کی چند روز پوجا پاٹ کرے یا کسی ہندو کی منت سماجت کرے کہ تم تو یہ کام کرتے ہی رہتے ہو اپنے رام کی خاطر میرے لئے ذرا دیر کیلئے اس ڈمی کی بھی پرستش کرلو اور جب وہ ہندو اس کی پرستش کرلے پھر یہ شخص شور مچا دے کہ یہ ڈمی والی عظیم الشان موحد شخصیت تو جہنمی ہے کیونکہ دراصل اس کی ڈمی ہے اور سورۃ انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرما دیا ہے کہ اے مشرکو! تم اور جنکی تم پوجا کرتے ہو جہنم کا ایندھن ہیں پس اے لوگو سن لو میں تو اس شرک سے توبہ تائب ہوتا ہوں۔ رہ گیا یہ ڈمی والا تو اس کا تو میں نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جنت سے پتہ کاٹ دیا ہے یہ تو گیا جہنم میں، اور میں تو ہوں جنتی۔ اب آپ خود غور فرمائیں کہ اس کا یہ عقیدہ کتنا مضحکہ خیز ہے کہ کوئی بھی انسان جس وقت جسکو اور جب چاہے جہنمی بنا دے۔
مُوَحِّد: بگڑتے ہوئے! ارے یہ خواہ مخواہ کی جھک جھک نہ کرو تمہاری یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر یہ تو بتاؤ کہ بھلا پھر ان بتوں کے نام ان مقدس شخصیات کے ناموں پر کیوں رکھے گئے؟
عام مسلمان: بھائی ذرا تم خودانصاف اورٹھنڈے دل سے سوچو تو سہی کہ اگر کسی نے ان بتوں کے نام ان بزرگوں اور مقدس شخصیات کے ناموں پر رکھ دیئے تو اس میں ہمارا اور ان مقدس شخصیات کا کیا قصور ہے۔ اچھا ذرا یہ بتاؤ تمہارا کیا نام ہے؟
مُوَحِّد: (پورے جوش میں) کامران
عام مسلمان: اچھا یہ بتاؤ اگر کوئی ہندو اپنے کسی بت کا نام"کامران"رکھ لے تو کیا تم بھی اس بت کے ساتھ جہنم میں جاؤ گے جبکہ قرآن مجید میں آیا ہے ۔ کہ تم اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔(سورۃ البقرۃ آیت نمبر۲۴)تمہارا جہنم میں جانا اس لئے ضروری ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں سے فرمایا ہے کہ تم اور جن کی تم پوجا کرتے ہو جہنم میں جاؤ گے۔ یعنی وہ ہندو، مشرک اس لئے جہنم میں گیا کہ وہ مشرک تھا اور وہ بت اس لئے جہنم میں جائے گا جیسا کہ اس بات کو سورۃ البقرۃ آیت نمبر۲۴میں بیان کیا گیا ہے۔" اس جہنم کا ایندھن انسانوں کے ساتھ ساتھ پتھر بھی ہیں" اور تم اس لئے جہنم میں جاؤ گے کہ درحقیقت اس بت کی پوجا نہیں کی گئی بلکہ تمہاری پوجا کی گئی کیونکہ تم نے ابھی خو د تو کہا ہے کہ دراصل پوجا بتوں کی نہیں ہوتی بلکہ ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کے ناموں پر ان بتوں کے نام رکھے گئے ہیں۔ اب بتاؤ تم جہنم سے اپنی جان کیسے چھڑا پاؤ گے۔
مُوَحِّد: (بوکھلاتے ہوئے) ارے! تمہاری تو مثالوں نے مروا دیا ہے کوئی ڈھنگ کی بات تو زبان سے نکالاکرو۔
عام مسلمان: (سنجیدگی سے) اے پیارے بھائی! پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم ابھی ابھی قرآن مجید سے یہ بات ثابت کئے دیتے ہیں کہ صرف ایک جیسے نام ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ دیکھو! اس آیت کریمہ کی روشنی میں جس طرح وہ بزرگ شخصیات جہنم میں جانے سے بچ جائیں گی۔ وہاں تم بھی جہنمی ہونے سے بچ سکو گے بشرطیکہ تم نے ہدایت حاصل کرلی ہو۔
مُوَحِّد: (بے صبری سے) اچھا پھر بتاؤ نا کہ وہ کونسی آیت ہے، رک کیوں گئے ہو؟
عام مسلمان: اے بھائی! تمہاری یہ بے قرار ی اور بے صبری بتلا رہی ہے کہ اس وقت تمہیں نہ تو ان بزرگ شخصیات سے کوئی سروکار ہے اور نہ ان بتوں کی پرواہ ہے بلکہ تمہیں تو صرف اور صرف اپنی پڑی ہے کہ کسی بھی طرح تم جہنمی ہونے بچ جاؤ۔ اچھا تو سنو! کہ پوجا دراصل ان بتوں ہی کی ہوا کرتی تھی نہ کہ بزرگ شخصیات کی۔ رہی یہ بات کہ بتوں کے نام تو ان مقدس شخصیات کے ناموں پر ہوا کرتے تھے تو اس کا جواب دینے کیلئے ہمیں کسی قسم کی تگ و دو کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ کیونکہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس بات کا جواب سورۃ النجم میں واضح طور پر عطا فرما دیا ہے کہ یہ صرف نام ہی نام ہیں یعنی ان بتوں کا ان مقدس شخصیات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، ملاحظہ ہو۔ اور یہ تو صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے تھے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نہیں اتاری۔(سورۃ النجم۲۳
اچھا لگے ہاتھوں ایک اور بھی دلیل لیتے جاؤکہ پوجا ان بتوں کی ہوا کرتی تھی نہ مقدس شخصیات کی دیکھو کہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور بتوں کے پوجنے والوں کے درمیان مکالمہ قرآن مجید میں موجود ہے کہ جب انہوں نے اپنی قوم کے مشرکین سے فرمایا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو تو مشرکین نے صاف صاف کہا کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور ہم انہی بتوں کیلئے دل جمعی کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ (سورۃ الشعراء آیت نمبر۷۱-۷۰
مُوَحِّد: اچھا تو حدیث میں جو آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی بت تھا جسے خانہ کعبہ سے فتح مکہ کے موقع پر نکالا گیا تھا تو اس کے بارے میں تم کیا کہتے ہو۔
عام مسلمان: اے بھائی! رہا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بت کا معاملہ تو اس کے متعلق کہیں پر یہ بات نہیں ملتی کہ اس بت کی پوجا کی جاتی تھی بلکہ احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس بت کو تو مشرکین نے پانسے پلٹنے کے تیروں کیلئے رکھا ہوا تھا جیسا کہ بخاری شریف میں اس سلسلے میں تفصیلی حدیث موجود ہے ورنہ کہیں تو یہ بات بھی آتی کہ لوگوں نے ابراہیم علیہ السلام کو بھی معبود بنالیا ہے۔ جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ "انہیں"لوگوں نے معبود بنا لیا تھا۔
مُوَحِّد: (قہقہہ مارتے ہوئے) لو پھنس گئے تم، اسے کہتے ہیں"اپنے ہی دام میں صیاد آگیا"دیکھو ہمارا سارا مسئلہ تو تم نے خود ایک ہی جملے میں حل کردیا ہے۔ اب بتاؤ کہ جس دلیل سے تم حضرت عیسی علیہ السلام کو بچاؤ گے کہ ان کی پوجا کی جاتی تھی اس کے باوجودبھی وہ جہنم میں نہیں جاسکتے ہیں۔ اسی دلیل سے ہم ان مقدس شخصیات کو بھی جہنم میں جانے سے بچا لیں گے۔ ہمارا مقصد بھی پورا ہوجائے گا کہ پوجا دراصل ان مقدس شخصیات ہی کی کیجاتی تھی مگر اس کے باوجود بھی وہ جہنم میں نہیں جائیں گے جس طرح کہ حضرت عیسی علیہ السلام جہنم میں نہیں جاسکتے ہیں۔
عام مسلمان: اے بھائی! مجھ پر اتنا بڑا الزام نہ لگاؤ! میں نے یہ کب کہا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پوجا کی جاتی تھی بلکہ میں نے تو یہ کہا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو ان عیسائیوں نے معبود مان لیا تھا۔
مُوَحِّد: اچھا اگر یہ بات ہے تو یہ بتاؤ کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی عباد ت کئے بغیر انہیں معبود کیسے مان سکتے ہیں۔
عام مسلمان: اے بھائی! اگر معبود کیلئے ضروری ہے کہ اس کی عبادت بھی کی جائے تو بھلا یہ تو بتاؤ کہ قرآن مجید نے حضرت مریم علیہا السلام کو "اِلہٰ"(معبود) کیوں کہا ہے جبکہ عیسائی حضرت مریم کی عبادت نہیں کرتے ہیں۔
مُوَحِّد: (جلدی سے) وہ کیسے؟
عام مسلمان: دیکھو قرآن مجید میں ہے کہ
اور جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا! اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! کیا آپ نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو"اِلہٰ" (معبود) بنا لو۔(سورۃ المائدہ آیت نمبر۱۱۶
تو اب بتاؤ کہ کیا قرآن مجید میں حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو معبود کیوں کہا ہے جبکہ ان کی عبادت بھی نہیں کی گئی۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو کسی بھی عیسائی سے خود پوچھ سکتے ہو کہ آیا وہ لوگ عیسی علیہ السلام کی یا حضرت مریم علیہا السلام کی عبادت کرتے ہیں تو وہ خود یہ بات بتائیں گے کہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے ہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔
مُوَحِّد: ارے بھائی! یہ تو تم بڑی بے ایمانی کرتے ہوکہ اچھے بھلے لاجواب ہوتے ہوئے اچانک قرآن مجید کو درمیان میں لے آتے ہو۔ اچھا چلو اس آیت سے تو یہ بات واضح ہے کہ معبود ماننے کیلئے عبادت کا کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہاں اس آیت میں حضرت مریم اور حضرت عیسی علیہا السلام کو معبود تو کہا گیا ہے اور عیسائیت سے یہ بات بھی واضح ہے کہ کوئی عیسائی ان کی عبادت نہیں کرتا۔ اچھا پھر یہ تو بتاؤ کہ یہ عیسائی جب حضرت عیسی و مریم علیہ السلام کی عبادت بھی نہیں کرتے ہیں پھر انہیں مشرک کیوں کہا گیا ہے۔
عام مسلمان: ہاں عیسائی کافر تو یقیناً ہیں۔میرے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ عیسائیوں کو کہیں بھی مشرک کہا گیا ہے ہاں اس وقت میں اس بات پر اصرار نہیں کرتا ہوں کہ کہیں بات کا رخ بدل نہ جائے بلکہ تمہارے اصرار پر اگر بالفرض یہ مان بھی لوں تو پھر میں یوں عرض کروں گا کہ عیسائی دراصل اس بناء پر مشرک قرار نہ پائیں گے کہ انہوں نے حضرت عیسی و مریم علیہما السلام کی عبادت کرکے انہیں معبود مانا تھا بلکہ وہ تو مشرک اس بناء پر ہوئے کہ انہوں نے حضرت عیسی کو اللہ کا بیٹا تسلیم کیا تھا۔ کیونکہ باپ اور بیٹے تو ایک ہی جنس سے ہوتے ہیں ظاہر ہے جس طرح انسان کا بیٹا انسان ہوتا ہے۔ الہٰ معبود کا بیٹا بھی معبود ہوگا نا۔ پس ثابت ہوا کہ عیسائیوں کے مشرک ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اِبن اللہ کا درجہ دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے" کہ بیشک ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا مسیح ابن مریم بھی اللہ ہے"(سورۃ المائدہ آیت نمبر۱۷
خلاصہ کلام
عام مسلمان: معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک توحید، اللہ تعالیٰ کو ایک ماننے کا نام نہیں بلکہ انبیاء اور اولیاء کی گستاخی کا نام ہے کیونکہ آپ حضرات توحید کی وضاحت کی شروعات ہی یہاں سے کرتے ہیں کہ تمہارے یہ خود ساختہ حاجت روا اور مشکل کشاء (انبیاء اور اولیاء) کچھ بھی نہیں کرسکتے اور وہ تمام آیت جو کہ بتوں اور مشرکوں سے متعلق آئی ہیں وہ تمام کی تمام انبیاء اور اولیاء پر چسپاں کرکر کے ان کو اتنا بے توقیر کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ ایک عام مسلمان اپنے نوکر سے تو کام کرنے کیلئے کہہ سکتا ہے اور اسے اپنے مشکل میں پکار سکتا ہے لیکن اگر کسی نے کسی بھی مقدس ہستی کو پکار لیا تو آپ حضرات کا ایک لہراتا ہوا شرک کا فتویٰ اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
مُوَحِّد: ہم پر یہ الزام ہے کہ ہم نے بتوں اور مشرکوں والی آیات کو جان بوجھ کر انبیاء اور اولیاء پر چسپاں کیا ہے۔ ہاں بھئی ! غلطی سے اگر ایسا ہو بھی گیا ہے تو اس میں اتنا برہم ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ خواہ مخواہ کا غصہ کسی اور پر جا کر نکالو۔
عام مسلمان: بھائی! اتنی ہٹ دھرمی بھی ٹھیک نہیں ہے کچھ تو خوف خدا کرو ہمارے علماء تو شرو ع سے اس بات پر زور دیتے آرہے ہیں کہ دیکھو یہ تم کیا کر رہے ہو کہ انبیاء اور اولیاء پر مشرکوں والی آیات پڑھ کر کیوں چسپاں کررہے ہو۔ پس اس وقت تم اور تمہارے علماء کہاں تھے انہوں نے ہمارے علماء کی بات پر کان کیوں نہ دھرے کہ آج اُمت کے ایک حصے کو گمراہی کی دلدل میں ڈال دیا ہے اور ہمارے علماء آج سے اس بات کی وضاحت نہیں کررہے ہیں بلکہ اس بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا فرمان عالی تو پندرہ سو سال پہلے سے موجود ہے جسے ہم پیش کرتے آئے ہیں اور ہم کہتے رہے ہیں کہ خدارا تم اس حرکت سے باز آجاؤ ورنہ تم بھی اس حدیث کے مصداق بن جاؤ گے۔ حدیث ملاحظہ ہو
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ان لوگوں کو مخلوق خدا میں بد بخت ترین جانتے تھے اور انہوں نے فرمایا کہ جو آیات کافروں(مشرکوں) کے متعلق نازل ہوئی ہیں ان لوگوں نے ان آیات کو مومنین پر چسپاں کرنا شروع کردیا ہے۔(بخاری شریف جلد2ص1024)۔
مُوَحِّد: بھائی! اتناغصہ نہ کرو اللہ جانتا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا ہے انجانے میں ہوا ہے۔
عام مسلمان: بھائی اتنا بھی انجانہ پن کیا۔ کہ لوگوں کے سمجھانے کے باوجود کئی سو سال سے اس اندھیرے میں انجان بنے چلے جا رہے ہو۔ بہر حال انشاء اللہ دوبارہ پھر عنقریب ملاقات ہوگی۔ اور اب ذرا سنبھل کر آنا کہ پھر تم اپنے عقائد کے بارے میں کہیں یہی نہ کہتے چلے جاؤ کہ بھائی اچانک اور انجانے میں یہ غلطیاں سر زد ہو گئی ہیں۔ اور آپ یہ بات جانتے ہیں کہ ایسی غلطیوں کا ازالہ صرف سوریSorryکرنے سے نہیں ہوجاتا ہے۔ بلکہ اس ناپاک عقیدے کو جتنی کوشش کرکے پھیلایا ہے اسی قدر کوشش کرکے مٹایا جائے۔ اور اپنی غلطی کا ازالہ کرکے ہمارے عقیدے کی تائید کرو۔
مُوَحِّد: بیچارگی سے! اچھا ذرا یہ بتاؤ کہ جن لوگوں نے ہمارے کہے میں آکر یہ غلط عقیدہ اپنا لیا ہے تو آیا اُن کے وبال سے ہمارا چھٹکارا ہوسکتا ہے؟
عام مسلمان: بھائی! جو لوگ صحیح عقیدہ، عاشق مصطفی تھے اگر آپ کے چکر میں آکر بے راہ روی کا شکار ہوگئے ہیں تو ان میں سے جو زندہ ہیں انہیں اپنے پہلے عقیدے کے بارے میں واضح طورپر آگاہ کرو کہ ہم کھلم کھلا گمراہی میں تھے اور ہمیں اس بات پر پچھتاوا ہے کہ ہم انبیاء کرام اور اولیاء عظام کے متعلق گھناؤنی سازش کرتے رہے ہیں اور انہیں مزید یہ بھی کہہ دو کہ اب ہم تم پر یہ بات واضح کررہے ہیں لہذا اب تم لوگ سیدھے راستہ پر آجاؤ کہ روز قیامت ہم تمہارے جوابدہ نہ ہونگے۔ ہاں اور جو لوگ انبیاء واولیاء کی گستاخیاں کرتے کرتے مرگئے ہیں وہ تو گئے جہنم میں اب ان کا کفر جو کہ تمہاری غلط بیانی کی بناء پر ہوا تھا اس کے وبال سے بچنے کیلئے ہمیشہ توبہ و استغفار کرتے رہو شاید کہ اللہ تعالیٰ تمہارے استغفار کے اخلاص کو دیکھ کر معاف فرما دے تو یہ بھی اس کی عنایت ہوگی۔
مُوَحِّد: "بھوں بھوں"(پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے)! میں سابقہ عقیدہ سے توبہ کرتا ہوں اور صدق دل سے توبہ تائب ہوتا ہوں کہ ہائے ساری زندگی ہم کیا کرتے رہے کہ شرک کے پردہ میں کفر کی کمائی کی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے۔ ہائے ہمارا یہ عقیدہ تو خارجیوں والا عقیدہ تھا، ہائے ہائے ہم یہ کیا کرتے رہے کہ ہائے اللہ ہم نے شیطانوں، بتوں اور مشرکوں کی آیات کا مصداق انبیاء کرام اور اولیاء عظام کو قرار دیا، یہ تو ایسا ہی ہے کہ ایک بھنگی کے احکامات وزیر اعظم یا صدر پر لگائے جانے لگیں بلکہ یہ تو اس سے بھی زیادہ بڑا جرم ہے۔ ہائے! ہم نے یہ کیا کیا بس اب تو اگر اللہ تعالیٰ ہماری توبہ کو قبول فرما لے تو اس کا کرم ورنہ تو ہم یقینا جہنم میں جانے کے حقدار ہیں۔
عام مسلمان: تسلی دیتے ہوئے کہ اے بھائی! اللہ تعالیٰ بڑا غفور الرحیم ہے فکر نہ کرو۔
مُوَحِّد: آنسو بہاتے ہوئے ! وہ تو غفور الرحیم ہے مگر ہمارا جرم بھی تو دیکھو کہ ہم نے بھی کوئی حد ہی کردی ہے گستاخی کرنے میں کہ ناپاک ترین چیز"بت اور شرک"کا حکم اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ پاک ہستیوں انبیاء اور اولیاء پر لگایا ہے۔
عام مسلمان: اچھا اب تمہاری بخشش کا ہمارے پاس تو ایک ہی حل ہے۔
مُوَحِّد: ہچکیاں لیتے ہوئے! ہاں وہ ۔۔۔۔۔ کیسے؟
عام مسلمان: کہ بس نبی آخر الزماں کے دامن سے چمٹ جاؤ اور ان کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو انشاء اللہ تمہاری بخشش ہوجائے گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے۔
اگر وہ کبھی اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے تو آپ کے پاس آ جاتے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور رسول بھی ان کیلئے مغفرت طلب کرتے تو وہ ضرور اللہ تعالیٰ کو بہت توبہ قبول کرنے والا بے حد رحم فرمانے والا پاتے۔ (سورۃ النساء آیت نمبر۶۴
اور اے میرے عزیز ازجان بھائی ان لوگوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ناطہ توڑ لو جن کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے کہ بروز قیامت وہ گستاخانِ مصطفی حسرت و یاس سے یوں کہیں گے
ترجمہ: جس دن (گستاخی کرنے والا ہر) ظالم (حسرت سے) اپنے ہاتھوں کو دانتوں سے چبائے گا اور کہے گا کاش میں نے رسول کے ساتھ اپنا غلامی کا راستہ اختیار کرلیا ہوتا۔ ہائے افسوس میں نے فلاں ( فلاں جو کہ مجھے درِ مصطفی سے دور کرنے والے ہیں) کو اپنا دوست نہ بناتا۔(سورۃ الفرقان آیت نمبر۲۷-۲۸
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.