You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
مشاہدات معراج غافلوں کے لیے عبرت کاذریعہ
--------------------------------
مشاہداتِ شب معراج میں امت مسلمہ کیلئے درس وعبرت کے نمونے
***************************************
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
========================
نبوت کا بارہواں سال اور رجب کی ستائیسویں شب میں خالق کائنات نے اپنے آخری ومحبوب نبی کولامکاں میں اپنے جلوئوں کادیدار کرایا۔ساتھ ہی جنت کی سیرکرائی اور جہنم کا مشاہدہ بھی۔
آپﷺ نے دوزخ کو دیکھا ،داروغۂ جہنم حضرت مالک نے دوزخ کا ڈھکنا کھولا تو جہنم جوش میں آگیا ،اور بلند ہو نے لگا،آقا ﷺفرماتے ہیں :میں نے بہت سارے لوگوں کو مختلف دردناک عذاب میں مبتلا دیکھا ۔جس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آقائے رحمتﷺ فرماتے ہیں : میں ایک وادی پر پہونچا وہاں بہت بری آواز سنی اور بدبو آئی ،میں نے پو چھا یہ بدبو اور آواز کیسی ہے ؟بتایا :یہ دوزخ کی آواز ہے جو عرض کررہی ہے :اے میرے رب !مجھے حسب وعدہ عطا فرما ،میرے زنجیر ،بیڑیا ں ،گڑھے ،پیپ ، عذاب کے کیڑے مکوڑے اور میری گہرائی بہت ہے اور میری گرمی شدید ہے ،رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :ہر مشرک مردو عورت ،خبیث مردوعورت تیرا ہے ،میدان حساب میں کسی متکبر کیلئے امان نہ ہو گی ،اس نے عرض کی میں خوش ہوں ۔ کتب احادیث سے ان عذابوں کی قدرے تفصیل پیش خدمت ہے۔
نمازسے غفلت:
سیاح لامکاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہواجن کے سر پتھروں سے کوٹے جارہے تھے ،جب کوٹ دیا جاتا وہ دوبارہ پہلی حالت پر آجاتا ، درمیان میں کچھ بھی مہلت نہ تھی ۔حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا جبریل! یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کیا :یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر فرض نماز کی ادائیگی سے غافل رہتے تھے ۔
زکوٰۃ کی ادائیگی سے غفلت:
پھر ایسی قوم دکھائی دی جن کے آگے پیچھے چیتھڑے تھے،وہ اس طرح چررہے تھے جس طرح اونٹ اور بکریاں چرتی ہیں اور ضریع (ایک خاردار کڑوی بوٹی)اور زقوم کھارہے تھے۔معراج کے دولہانے پوچھاجبرئیل یہ کون لوگ ہیں؟عرض کیایہ وہ ہیں جواپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا۔
صدقے سے غافل :
پھر آپ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے اگلی اور پچھلی شرمگاہوں پر کپڑے کے ٹکڑے تھے اور وہ وہاں اونٹوں اور بکریوں کی طرح چرتے تھوہر (ایک خار دار زہریلا پودا)اور دوزخی پتھر کھارہے تھے ۔میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ بلبل سدرہ نے عرض کیا :یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اموال میں سے صدقہ نہیں کرتے تھے اور اللہ جل شانہ کسی پر ظلم نہیں فرماتا ۔
زانی کاانجام :
پھر آپ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے سامنے ہنڈیوں میں گوشت پک رہا تھا اور کچھ کچا ناپاک گوشت بھی تھا وہ لوگ ناپاک اور خبیث کچا گوشت کھا رہے تھے اور حلال پکا ہوا گوشت چھوڑ رہے تھے ،آقا نے پوچھاجبریل !یہ کون لوگ ہیں ؟ بتایا یہ آپ کی امت کے ایسے لوگ ہیں جو حلال بیوی چھوڑ کر غیر حلال عورت کے ساتھ راتیں بسر کرتے تھے۔یہی حال اس عورت کاہوگاجو حلال اور طیب خاوند کی موجودگی میں غیرآدمی کی طرف رجوع کرتی ہے ۔
سودخور:
پھر ایک آدمی کودیکھاجوخون کی ایک نہرمیں تیررہاہے اور اس کے منہ میں پتھرڈالے جارہے ہیں،پوچھنے پرسیدالملائکہ نے بتایایہ سود خور ہے۔
خیانتی :
اب آپ کو ایسے لوگ دکھا ئے گئے جنہوں نے لکڑیوں کے ایسے گٹھے جمع کر رکھے ہیں جنہیں اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے اور وہ اس میں اضافہ کررہے ہیں ۔ پوچھا یہ کون ہیں ؟ بتایایہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جن کے پاس لوگوں کی امانتیں تھیں اوروہ ان کو ادا نہیں کرینگے اور مزید امانتیں رکھنے کے خواہش مند ہونگے۔
فتنہ پرورخطباء :
پھر غمخوار امت شفیع رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کی زبانیں اور ہونٹ قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے ،کٹنے کے بعد وہ پہلی حالت میں آجاتے ،اس کے درمیان بالکل مہلت نہ ملتی،حضور نے پوچھا جبریل !یہ کون ہیں ؟ عرض کیا یہ فتنہ پرور خطبااور مقررین ہیں ۔
غیبت کی سزا:
پھر ایسے لوگ نظرآئے جن کے ناخن تانبے کے ہیں اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کوان سے کھرچ رہے ہیں،حضرت جبرئیل نے عرض کیا:یہ وہ لوگ ہیں جولوگوں کاگوشت کھاتے ہیں یعنی ان کی غیبت میں مصروف رہتے ہیں اوران کی عزتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں۔
فضول گفتگو:
آقاﷺ فرماتے ہیں :پھر میں آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک چھوٹا سا سوراخ تھا جس سے بڑا بیل باہر نکلااب وہ واپس اس میں داخل ہونے کی کوشش میں تھا لیکن ایسا نہ ہونے پارہا تھا ،آقائے محتشم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا تو جبریل علیہ السلام نے عرض کیا :یہ وہ شخص ہے جو بڑی بات کرکے اس پر نادم ہوتا مگر اس پر طاقت نہیں رکھتا ۔
عطا ء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.