You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
بصرہ میں ایک بزرگ مِسکی یعنی ’’مشک کی خوشبو میں بسا ہوا ‘‘ کے نام سے مشہور تھے، کسی نے بَاِ صْرار اس خوشبو سے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا
’’ میں کوئی خوشبو نہیں لگاتا، میرا قصہ بڑا عجیب ہے، میں بغدادِ معلی کا رہنے والا ہوں ، جوانی میں بہت حسین وجمیل تھا اور صاحبِ شرم و حیاء بھی۔ ایک کپڑے والے کی دوکان پر میں نے ملازمت اختیار کی، ایک روز ایک بڑھیا آئی اور اس نے کچھ قیمتی کپڑے نکلوائے اور دوکاندار سے کہا: میں ان کپڑوں کو گھر لے جانا چاہتی ہوں ، اس نوجوان کو میرے ساتھ بھیج دیں ، جوکپڑے پسند آئیں گے وہ رکھ لیں گے پھر ان کی قیمت اور بقیہ کپڑے اس نوجوان کے ہاتھ بھیج دیں گے۔ چنانچہ مالک ِدکان کے کہنے پر میں بڑھیا کے ساتھ ہو لیا۔ وہ مجھے ایک عالیشان کوٹھی پر لے آئی اور مجھے ایک کمرے میں بٹھا دیا۔ کچھ دیر بعد ایک نوجوان عورت کمرے میں داخل ہوئی اور اس نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا، پھر میرے قریب بیٹھ گئی، میں گھبرا کر نگاہیں نیچی کئے فورا ًوہاں سے ہٹ گیا مگر اس پر شہوت سوار تھی وہ میرے پیچھے پڑ گئی، میں نے بہت کہا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈر ،وہ ہمیں دیکھ رہا ہے لیکن وہ میرے ساتھ منہ کالا کرنے پر مُصِرّ تھی۔ میرے ذہن میں اس گناہ سے بچنے کی ایک تجویز آئی تو میں نے اس سے کہا: مجھے بیتُ الْخَلاء جانے دو، اس نے اجازت دے دی۔ میں نے بیت الخلاء میں جا کر دل مضبوط کر کے وہاں کی نجاست اپنے ہاتھ منہ اور کپڑوں پر مل لی، اب جوں ہی باہر آیا تو میری عاشقہ گھبرا کر بھاگی اور کوٹھی میں ’’پاگل، پاگل‘‘ کا شور اٹھا۔ میں نے وہاں سے بھاگ کر ایک باغ میں پناہ لی، غسل کیا اور کپڑے پاک کر کے وہاں سے چل دیا۔ رات جب میں سویا تو خواب میں دیکھا کہ کوئی آیا ہے اور میرے چہرے اور لباس پر اپنا ہاتھ پھیر رہا ہے اور کہہ رہا ہے: مجھے جانتے ہو میں کون ہوں ؟سنو! میں جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام ہوں۔ جب میری آنکھ کھلی تو میرے سارے بدن اور لباس میں خوشبو آ رہی تھی جو آج تک قائم ہے اور یہ سب حضرت سیدنا جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کے ہاتھ کی برکت ہے۔
(روض الریاحین،الحکایۃ السابعۃ عشرۃ بعد الاربع مائۃ، ص۳۳۴-۳۳۵)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.