You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
پیکرِ اخلاص ومحبت حضور قبلہ پیر سید محمد مظہر قیُّوم شاہ صاحب رحمۃُ اللہ علیہ
راقم ُالحروف:۔
...........
مُحمد بُرھان اُلحق جلالیؔ(ایم۔اے ،بی ایڈ،بی ۔ایم۔ایس۔ایس)جہلم
******************************************
.....................................
جسے میں سناتا تھا درد دل میرا وہ غمگسار چلا گیا
جسے آشناؤں کاپاس تھا وہ کرم شعار چلاگیا
.....................................
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے وہی دوستوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس اس چاند کی جو تہہ مزار چلا گیا
....................................
آج اس صاحب کردار کی باتیں ہوں گی
ان کی گفتار ان کی رفتار کی باتیں ہوں گی
جو جلاتا تھا اندھیوں میں محبت کے چراغ
آج اس روشنی کے مینار کی باتیں ہوں گی
...................................
اس دنیا فانی میں ایسی شخصیات وجود پذیر ہوتی رہتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کہ جن کا زندگی کا اکثر وقت دنیا کی فلاح و بہبود کے لئے گزرتا ہے ۔۔۔۔وہ جو رحمت بن کر آتی ہیں جو اپنوں سے ،مساکین سے ، غرباء سے اور یتیموں سے غموں کو دور کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔جن کی زندگی کا مقصد دوسروں کی زندگی کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہوتاہے۔۔۔۔۔۔ مشکلات کو دور کرنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔جو ہر ایک سے خندہ پیشانی سے پیش آنے والے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔جو ہر مصیبت ،آفت و بلا پریشانی میں دوسروں کی مدد کرنے والے ہوتے ہیں۔۔ جو اپنوں سے کیا بلکہ غیروں سے بھی حلم و برد باری سے پیش آنے والے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ جن کے وجود میں اخلاص و محبت کوفضلاء و مدرسین کے سروں پر دست شفقت رکھنے والے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی ہستیاں کہ جنہوں نے اپنے وجود سے غصہ کو مٹادیا ہو جن کا مقصد دنیا کمانا نہ ہو بلکہ لوگوں کو دین کی راہ پر چلانا ہو۔۔۔۔۔ ایسی ہستیاں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔۔۔۔ ۔مگر ایک ایسی ہستی میں مندرجہ بالا ساری خصوصیات موجود تھیں ۔۔۔۔۔وہ آج ہم میں نہ رہی جن کا شمار دنیا کے بر گزیدہ درویش منش ملنساز ،صو فی با صفا ء افراد میں ہوتا ہے۔۔۔۔۔ جنہوں نے کبھی غرور و تکبر نہ کیا۔۔۔۔۔ میری مراد سیدی مرشدی مربی و محسن پیکر اخلاص و محبت حضور قبلہ پیر سید محمد مظہر قیوم شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ جنہوں نے اس بندہ نا چیز اس گناہ گار طالب علم پر ہر وقت دست شفقت رکھا۔۔۔۔۔۔۔ اپنی دعاؤں میں یاد رکھا۔۔۔۔ میرے یہ مربی ومحسن کہ جب ان کے وصال کی اطلاع مجھے ملی تو ایسا معلوم ہوا کہ میرے پاؤں سے زمین نکل گئی ہے۔۔۔۔۔ بہرحال دل بے قابو ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ بڑی مشکل سے ہمت باندھی اور اس ترجمان حقیقت و معرفت پیکر اخلاص و محبت کے جنازے میں شرکت کے لئے چل پڑا۔۔۔۔۔ ۔جب بھکھی شریف کی سر زمین میں پاؤں رکھا تو ہر طرف خلق خدا کا ہجوم تھا۔۔۔۔۔ ہر کوئی دوسرے سے لپٹ کر رو رہا تھا۔بہرحال دربار شریف پر حاضری دی ۔
صاحبزادہ پیر سید نوید الحسن شاہ صاحب سے ملاقات کی۔۔۔۔۔ پھر بیٹھ کر ورد وظائف پڑھنے لگا۔۔۔ اور ہم بےتاب تھے کہ کب ہمارے اس مرشد کامل،ولی کامل اور ولی ابن ولی کی زیارت کرائیں گے کہ رات کا وقت دھیرے دھیرے جا رہا تھا اور ہم صرف اس صداء کے انتظار میں تھے کہ آئیے زیارت کیجئے۔۔۔۔۔۔ عوام الناس کا رش زیادہ سے زیادہ ہورہا تھا ۔۔۔۔۔عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندراندرون ملک بلکہ بیرون ملک سے آرہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔آخر کار وہ وقت آگیا اور رات کے تقریباساڑھے بارہ بجے ہم نے اپنے مرشد کامل کی زیارت کی۔۔۔۔ چہرے پر مسکراہٹ تھی جو ایک عاشق صادق کی نشانی ہے۔۔۔۔۔ صبح ہوئی تو ایک اور صدمہ آلگا کہ مفتی اعظم پاکستان استاذالاساتذہ علامہ مفتی اصغر علی رضوی صاحب بھی جان بحق ہو گئے۔۔۔۔۔ صبح ہم نے ان کی زیارت کی ہر طرف دکھ و الم کی فضا برپا تھی۔۔۔۔۔ مگر جو خدا کو منظور تھا۔۔۔۔ رات کے قوت سے ہی عشاقان حافظ الحدیث و جانشین حۤفظ الحدیث پاکستان کے کونے کونے سے آرہے تھے۔۔۔۔۔۔ صبح نماز فجر کے بعد جہاں جہاں تک نظر جارہی تھی وہاں وہاں تک فرزندان اسلام کابے پناہ ہجوم تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہرحال ہم نے نماز جنازہ پڑھی نماز جنازہ سے قبل مناظر اسلام حجۃ الاسلام برادر اصغر پیر سید محمد مظہر قیوم شاہ صاحب (پیر سید عرفان شاہ صاحب مشہدی ) لندن سے تشریف لا چکے تھے۔۔۔۔۔۔ بے پناہ شیوخ الحدیث، پیران عظام، مشائخ عظام ،مدرسین و طلباء اور ہر طبقہ فکر کے افراد ہر شعبہ زندگی کے افراد جنازے میں شریک ہوئے۔۔۔۔۔ ہر آنکھ اشک بہا رہی تھی۔۔۔۔ ۔کیونکہ یہ ایک عاشق صادق کا جنازہ تھا۔۔۔۔۔ میرا قلم ان کو خراج تحسین پیش کرنے سے قاصر ہے۔۔۔۔۔ ۔مگر میں صرف چند ایک واقعات رقم کروں گا جو سچ پر مبنی ہیں۔۔۔۔۔ ۔ میرے ایک برادر شہر دینہ کے رھائشی حافظ ندیم عنصر جلالی جو میرے ہم مکتب بھی رہے انہوں نے ایک واقعہ حلفیہ بیان دیتے ہوئے اپنی بیعت کا واقعہ سنایا کہ میں نے حفظ قرآن مکمل کیا تو میری دستار بندی جگر گوشہ حافظُ الحدیث پیکر اخلاص و محبت رحمۃ اللہ علیہ نے کی۔۔۔۔ میں نے ان کی ذات میں سادگی و حلم و برد باری کا عُنصر اعلیٰ درجہ کا پایا۔۔۔۔۔ میں نے سوچا کہ آپ کی بیعت کی جائے مگر دل مطمئن نہیں تھا کہ ان ہی دنوں کھاریاں میں آپ کا پروگرام تھا گرمی زوروں پر تھی ۔۔۔۔۔ بے بہا گرمی کی وجہ سے عوام پریشان تھی۔۔۔۔ میں نے پروگرام میں جانے کا ارادہ کیا میں راستے میں جاتے ہوئے دل میں کہا کہ آج میں ان کو ولی اللہ تب مانوں گا کہ جب بارش ہوگی۔۔۔۔۔ ۔ میں نے یہ ارادہ کیا کہ سخت گرمی تھی کہیں بھی بادل کا ٹکڑا نہ تھا کہ اچانک موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔اور تھمی تو میں نے پروگرام کے آخر میں جب ملنے کیلئے ھاتھ آگے کیا تو حضرت یوں گویا ہوئے۔۔۔۔۔ کہ اب بھی تمھارا دل مطمئن نہیں ۔۔۔۔۔ حالانکہ میں نے ان سے کوئی بات نہ کی تھی بہرحال میں نے اسی وقت ان کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کا شرف حاصل کیا۔
مفہوم حدیث:۔
..............
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم اولیاء اللہ کے پاس بیٹھو تو اپنے دلوں کو سنبھال کر بیٹھو ۔کیونکہ وہ اللہ کی عطاکی ہوئی نظر سے دیکھتے ہیں۔
******************
بہرحال یہاں ایک ضمنا ایک بات عرض کرتا چلوں کہ اگر ایک ولی اللہ اللہ کی عطا کی ہوئی نظر سے دیکھ سکتا ہے جو کہ آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیوں نہیں دیکھ سکتے ؟؟؟؟؟؟؟؟
راقم الحروف کو حضور حافظ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ اور جانشین حضور حافظ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کی دعاؤں کی وجہ سے تین کتب لکھنے کا موقع میسر آیا ورنہ میں کم علم طالب علم کہاں ؟اور کتب کی تحریر کہاں ؟
بہرحال ایک مرتبہ ایسے ہوا کہ میں نے اپنی پہلی کتاب(مقام والدین)تحریر کی تو میں ایک ،دو وجوہات کی وجہ سے پریشان تھا کہ آنکھ لگ گئی۔۔۔۔۔ اور جگر گوشہ حضور حافظ الحدیث پیر سید محمد مظہر قیوم شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت نصیب ہوئی۔۔۔۔ فرمانے لگے کہ بیٹا پریشان کیوں ہوتے ہو اللہ بہتر کرے گا۔اور ہوا بھی یوں کہ میں جن وجوہات کے باعث پریشان تھا وہ خود بخود حل ہوگئیں۔
میری دوسری کتاب (صیام السالکین ،رمضان ،روزے اور ہم)جس دن اختتام پذیر ہوئی۔۔۔ تو سیدی مرشدی جگر گوشہ حضور حافظ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ میرے خواب میں تشریف لائے اور آکر راقم کو کتاب کی مبارکباد دی۔
ضمنا واقعہ:۔
------------
جس طرح راقم پرسیدی مرشدی جگر گوشہ حضور حافظ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ مہربانی کیا کرتے تھے ۔۔۔۔اسی طرح سیدی مرشدی حضور حافظ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ بھی مہربانی فرمایا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔ ربیع الاوّل کا مہینہ تھا کہ ایک رات راقم کو بہت سخت تکلیف ہوگئی یہاں تک کہ چند منٹ بیٹھنا دشوار تھا ۔۔۔۔۔میں ایک اندھیرے والے کمرے میں چلا گیا اور بیٹھ کر حضور حافظ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کو یاد کرنے لگا ۔۔۔۔اور میں تقریبا ٤٥ یا ٥٠ منٹ بیٹھا رہا کوئی تکلیف محسوس نہ ہوئی اور کچھ دیر بعد کمرہ روشن ہوا اور حضور حافظ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ تشریف لے آئے اور فرمایا کہ پریشان نہ ہو اور کندھے پہ ہاتھ رکھا اور چلے گئے۔ اس کے بعد تکلیف نہ رہی۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ ہم اولیاء اللہ کو پکاریں تو وہ مدد کو آسکتے ہیں تو پھر آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیوں نہیں آسکتے ؟آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر امتی کے حالات سے آگا ہ ہیں او ر انکی مشکلات بھی دور کرتے ہیں ۔
٢٢ اگست کو رات کے وقت ہم دربار شریف کے ساتھ سیڑھیوں پر بیٹھے تھےکہ ایک آدمی اپنی داستان سنا رھا تھا کہ کس طرح قبلہ پیر صاحب نے اس پر نظر فرمائی وہ بتا رہا تھا۔۔۔۔ کہ کراچی جانا تھاکہ ٹرین کا ٹکٹ کٹایا میں کسی مجبوری کے باعث لیٹ ہو گیا اور اس ٹرین کے بعد اس روز اور کوئی گاڑی جانے والی نہ تھی کہنے لگا کہ میں ریلوے اسٹیشن پہنچا تو راستے میں بار بار حضور پیر صاحب کو یاد کر کے مدد چاہ رہا تھا اسٹیشن پہنچا تو گاڑی کا وقت جا چکا تھا ۔۔۔۔۔مگر ابھی گاڑی لیٹ تھی دوسری گاڑی پہلے نکل چکی تھی جو بعد میں آنے والی تھی ۔۔۔۔۔میں گاڑی پر سوار ہوا تو لوگوں سے پوچھا کہ یہ گاڑی لیٹ کیوں ہوئی کہنے لگے کہ یہ بالکل رائٹ ٹائم پر چلی او ر رائٹ ٹائم پر آرہی تھی کہ اچانک رک گئی رکنے کا کوئی ظاہری سبب بھی نہ تھا۔۔۔۔۔ بغیر وجہ کے رکی ٹکٹ چیکر سے معلوم کیا تو اس نے بھی کہا کوئی وجہ نہیں پھر بھی رکی اور دوسری گاڑی نکلی پھر یہ چلی۔۔۔۔۔ اور اس کے اور اس کے درمیان کافی وقت کا فاصلہ تھا وہ آدمی کہنے لگا کہ میرا تو اعتقاد ہے کہ وہ سبب بنانے والے میرے سیدی مرشدی تھے۔۔۔۔۔۔ کہ جن کو پکارا تو انہوں نے مدد کی اور میں نے جلد پہنچنا تھا لہذا میں (ٹائم پر)مقرر وقت سے قبل ہی وہاں پہنچ گیا ۔۔۔۔۔۔کہنے لگا میرا اس دن جانا بے حد ضروری تھا اس کے علاوہ جانے کا دوسراکوئی ذریعہ بھی نہ تھا ۔
سیدی مرشدی پیر محمد مظہر قیوم شاہ صاحب چاہے بڑا ہو یا چھوٹا سبھی سے اچھے طریقے سے ملا کرتے تھے۔۔۔۔۔ آج سے ١٠ سال قبل شاہدولہ دریائی( گجرات) کے مزار پرآپ تشریف لائے۔۔۔۔۔ تو ابو نے عرض کی کہ جناب نسبت پکی کرنی ہے تو قبلہ پیر صاحب اسی وقت مجھے اپنے ساتھ حجرے میں لے گئے اور بیعت کی۔
قبلہ حضرت راقم الحروف سے بڑی شفقت فرمایاکرتے تھے ۔۔۔۔۔۔اگر میں لاہور ہوتا تو آپ لاہور جا تے تو بلا لیا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ ۔میں میر پور ہوتا تو آپ اپنے پاس جب میرپور جاتے تھے۔۔۔۔۔ بلا لیا کرتے تھے آپ ہر غلطی کی راہنمائی کرتے تھے آپ ایک مرتبہ ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب کے ہاں تشریف لائے تھے۔۔۔۔۔۔ میں جامعہ نظامیہ رضویہ میں تھا۔۔۔۔آپ نے ڈاکٹر صاحب کے پاس بلا لیا اور فرمایا ۔۔۔۔کہ یہ ایک غلطی اس کتاب (صیام السالکین /رمضان ، روزے اور ہم ) میں رہ گئی ہے اس کو درست کر لینا۔۔۔۔ ۔آپ نے ہر مقام پر میری حوصلہ افزائی کی اور میرے لیے دعا کی۔۔۔۔۔۔ ہم پر قبلہ حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نوازشات بے شمار ہیں۔۔۔۔۔ بہرحال طوالت کے خوف کے پیش نظر اتنا ہی کہوں گا۔۔۔۔۔ کہ آپ نہائت ہی درویش، بردباری کے پیکر صوفی باصفا ،ترجمان حقیقت و معرفت، پیکر اخلاص و محبت،منبع فیوض و برکا ت علم و حکمت کے بحر بیکراں تھے ۔۔۔ آج ہر کوئی آپ کو سلام پیش کرتا ہے آپ کے جنازے میں اغیار کا شریک ہونا ، مخالفین کا آنا بھی اس بات کی گواہی ہے کہ آپ کی ذات کوئی عام ہستی نہ تھی وہ ہستی تھی کہ جنہوں نے اپنی پوری زندگی اس کام کے لئے وقف کی تھی لوگوں کو ہدائت و راہنمائی میں لگے رہے۔ کبھی کسی سے کوئی مطالبہ نہ کیا نہ ہی کسی بات کا برا منایا ۔
...........................
مظہر نور خدا ہیں مظہر قیوم شاہ
شمع بزم اولیاء ہیں مظہر قیوم شاہ
..........................
نعمت جب آدمی کے پاس ہواسکو تو اس کا احساس اور قدر نہیں ہوتا....... مگر جب وہ نعمت چھن جائے تو قدرآتی ہے.... جب آپ زندہ تھے تو مخالفین باتیں کرتے رہتے تھے آج وہ ہم میں نہیں تو وہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں جس طرح امام شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ کیا گیا بہرحال میں یہی کہوں گا کہ خدا ان کی قبر انور پر کروڑہا رحمتیں نازل فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے
آمین ثم آمین
کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی چلا جائے تو اس کی پیروی کرو نہ کہ زندہ کی (کیونکہ وہ کبھی بھی گمراہ ہو سکتا ہے)جس کی زندہ مثالیں موجود ہیں ہماری دعا ہے کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ تیرے گھر کی نگہبانی کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد آتی ہیں مجھے پیاری ادائیں انکی میٹھی میٹھی سی وہ پُر سوز دعائیں ان کی
اللہ اللہ رخ مظہر قیوم زماں عشق سرکا ر کا پرتو تھیں نگاہیں ان کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیار سے ہر کس نا کس کو لگانا سینے ہر کسی کیلئے بے لوث عطائیں ان کی
جو بھی اک بار ملا ان سے فدا ہے ان پر یاد آئیں گی ہزاروں کو وفائیں ان کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھیمے لہجے میں وہ پُرسوز بیانات ان کے گونجتی پھرتی ہیں ہر سمت صدائیں ان کی
ان کی ہر بات محبت کا حسین پیکر تھی اور مظہر بھلا کیا بات سنائیں ان کی
یاد آتی ہیں مجھے پیاری ادائیں انکی میٹھی میٹھی سی وہ پُر سوز دعائیں ان کی
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.