You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
قائدین تحریک آزادی قسط ۵
جنگ آزادی ۱۸۵۷ء میں علامہ فیض احمدبدایونی کے دینی وسیاسی کارنامے
مرتب:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
حضرت مولانا فیض احمد بن حکیم غلام احمد کی ولادت ۱۲۲۳ھ/۱۸۰۸ء میں مولوی محلہ بدایوں میں ہوئی۔تین سال کی عمرمیں یتیم ہوگئے۔والدہ کے زیر سایہ تعلیم پاکر عالم وفاضل ہوئے۔آپ کے حقیقی ماموں حضرت علامہ فضل رسول بدایونی نے آپ کی مکمل سرپرستی ونگہداشت کی۔چودہ سال کی عمر میں علوم نقلیہ وعقلیہ سے فارغ ہونے کے بعد درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔معاصرین میں آپ امتیازی حیثیت کے مالک تھے۔شاعری کا بھی اعلیٰ ذوق تھا ،رسواؔ آپ کا تخلص تھا۔اپنے نانا حضرت شاہ عبدالحمید عثمانی بدایونی خلیفۂ شمس العارفین حضرت سید شاہ آل احمد اچھے میاں قادری برکاتی مارہروی سے آپ کو بیعت وارادت کے ساتھ خصوصی فیضان حاصل ہوا۔بدایوں میں سلسلہ تدریس کے بعد صدر نظامت آگرہ میں پیش کار اور پھر بورڈ آف ریونیو میں سررشتہ دار ہوئے۔لفٹننٹ گورنرسر ولیم میور نے آپ سے عربی سیکھی۔ثروت ووقار کے باوجو د دل فقیرانہ اور مزاج شاہانہ تھا۔اہل وطن(بدایوں)کی آپ بڑی مدد کرتے تھے۔وسیع اخلاق کے مالک تھے۔ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ ساتھ عیسائی مذہب نے بھی فروغ پایا۔انگریزوں اور پادریوں نے ہندوستان کو مذہبی حیثیت سے بھی فتح کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔کمپنی کی تائید واعانت سے مذہب مسیحی کی تنظیم اور ترقی عمل میں آئی۔ملک کے طول وعرض میں اس تنظیم کے آثار قائم کئے گئے۔چرچ مشن سوسائٹی،بائبل سوسائٹی،مشن فنڈ اور مدارس جگہ جگہ قائم کئے گئے۔مذہبی کتابوں اور رسائل کی اشاعت کے ذریعہ ہندوستانیوں کے رجحانات وعقائد سلب کرنے کی کوشش کی گئی۔غرض یہ وہ زمانہ تھا کہ عیسائیوں نے ہندوستان میں اسلام کے خلاف زبردست مہم جاری کردکھی تھی۔پادری فنڈر (Revd C.C.D. Fonder)یورپ سے ہندوستان آیا،یہاں اس نے دل شکن تقریروں کا سلسلہ شروع کیااور اس کی کتاب ’’میزان الحق‘‘نے خوف وہراس پیدا کیا۔پادری فنڈر نے آگرہ کو مناظرہ کا گڑھ ٹھہرایا۔کیوں کہ آگرہ ہی اس وقت علما کا سب سے بڑامرکز تھا۔پادری کا خیال تھا کہ اگر یہاں کسی طرح فتح ہوگئی تو عیسائیت کی تبلیغ میں بڑی مدد ملے گی۔اس نے مشاہیر علما کو چیلنج دیا۔۱۰؍اپریل ۱۸۵۴ء آگرہ میں مناظرہ کا پہلا اجلاس ہوا۔اہل اسلام کی جانب سے مذہب عیسوی کے مشہورماہرو مناظر مولوی رحمت اللہ کیرانوی اور مناظر دوم ڈاکٹر وزیر خاں اکبرآبادی تھے۔مولانا فیض احمد بدایونی ان کے دست راست اور معاون ومددگار تھے۔تین روز تک مناظرہ ہوا۔پادری فنڈر کو انجیل کی تحریف کا اقرار کرنا پڑااور اس نے شکست فاش کھائی اور آگرہ سے راہ فرار اختیار کرکے سیدھا یورپ پہنچا۔اس تاریخی مناظرہ میں مولانا فیض احمد بدایونی نے ڈاکٹر وزیر خاں کو ہر طرح مدددی۔
ہندوستان کی قابل فخر تاریخی جامع مسجد آگرہ کا اس زمانہ میں عجیب حال تھا،اکثر حصے پر لوگوں نے قبضہ کررکھاتھا،بیچ کے حصے میں صرف ستر اسّی نمازی نماز ادا کرسکتے تھے۔باقی حصوں پر کبوتر بازوں اور رسیاں بٹنے والوں کا قبضہ تھا۔مسجد کی دکانیں بنیوں کے پاس رہن تھی۔مولانا بدایونی کی کاوش سے مسجد کا انتظام درست کیاگیا،دکانیں خالی کرائی گئیں،کبوتر بازوں کو نکالاگیا،مسجد میں رسّی بٹنے کا کام ختم کیاگیااور مسجد کے انتظام کے لیے لوکل ایجنسی آگرہ کا قیام عمل میںآیاجس کے تحت آج تک جامع مسجد آگرہ کا انتظام ہے۔مولانا فیض احمد بدایونی کئی کتب ورسائل کے مصنف ومؤ لف تھے مگر ان میں بیشتر کے مسودات انقلاب ۱۸۵۷ء کی افراتفری میں ضائع ہوگئے۔تعلیم الجاہل مطبوعہ ۱۲۶۹ھ۔المقامۃ البغدادیۃ(منثور)وھدیۂ قادریہ (منظوم) مطبوعہ ۱۳۰۳ھ آپ کی تحریری یادگاریں ہیں۔
میرٹھ اور دہلی میں عَلم ِ انقلاب (۱۸۵۷ئ)بلند ہواتو اس کا فوری اثر آگرہ پر پڑاجو صوبائی حکومت کا مرکز تھا۔مجاہدین فوج کی سرپرستی ڈاکٹر وزیر خاں اور مولوی فیض احمد بدایونی نے کی۔دہلی کی شکست کے بعد جنرل بخت خاں کے ساتھ دونوں سرپرستوں نے فتواے جہاد کی تشہیر کی۔اس فتوی پر مولانافضل حق خیرآبادی،مفتی صدرالدین آزردہؔ، مفتی فضل کریم اور مولوی عبدالقادری وغیرہ کے دستخط تھے۔مذکورہ بالا حضرات کی موجودگی اور فتویٰ کی تشہیر کی وجہ سے بدایوں اور اس کے مضافات کے ہزاروں افراد مجاہدین میں شامل ہوئے۔(انسائیکلوپیڈیا آف بدایوں)انقلاب ۱۸۵۷ء میں آپ اپنے کچھ ساتھیوں کو لے کر دہلی پہنچے اور یہاں جاری جنگ میں کھل کر حصہ لیا۔کچھ دن تک شہزادہ مرزا مغل فرزند بہادر شاہ ظفر کے پیش کار رہے اور جنرل بخت خاں روہیلہ کے ساتھ انقلاب کی ناکامی کے بعد دہلی سے واپس چلے گئے۔اپریل ۱۸۵۸ء میں مولانا بدایونی نے ککرالہ (بدایوں)کے معرکے میں جنرل بخت خاں کے ساتھ دادِ شجاعت دی جہاں انگریز جنرل پینی میدان جنگ میں ماراگیا۔یہاں کی پسپائی کے بعد آپ بریلی چلے گئے جہاں خان بہادر خاں ولد ذوالفقار خاں ولد حافظ رحمت اللہ خاں روہیلہ انگریزوں سے برسرپیکار تھے۔لکھنؤ میں مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی کے ساتھ بھی آپ رہے اور انگریزوں سے جنگ کی۔یہاں سے مولانا مدراسی کے ساتھ شاہجہاں پور (قصبہ محمدی)گئے اور جب مولانا مدراسی نے شاہ جہاں پور میں اپنی حکومت قائم کی توان کی وزارت میں شامل ہوئے۔شاہ جہاں پور پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد آپ نیپال کی طرف نکل گئے اور بعد کے حالات کا کچھ علم نہیںکہ آپ پر کیاگذری اور کہاں کس طرح آپ کا انتقال ہوا؟آپ کے ماموں مولانا فضل رسول بدایونی نے آپ کی تلاش میں قسطنطنیہ تک سفر کیا مگر کہیں سراغ نہ لگ سکا۔اس طرح مولانا فیض احمد بدایونی نے دینی اور سیاسی محاذپر مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔(ماخوذ:(۱)چند ممتاز علمائے انقلاب ۱۸۵۷،(۲)۱۸۵۷ء پس منظر وپیش منظر،از:علامہ یاسین اختر مصباحی صاحب)
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.