You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اس حقیقت سے انکار نہیں ہو سکتا کہ تمام دین ہمیں حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات اقدس سے ملا ہے۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اس کے ملائکہ اس کی کتابوں اور رسولوں اور یومِ قیامت وغیرہ عقائد واعمال سب چیزوں کا علم رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہم کو عطافرمایا ۔
اس لئے سارے دین کی بنیاد اور اصل الاصول (خلاصہ،لبِ لباب) نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات مقدسہ ہے اور بس…
بنابریں رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیثیت ایسی عظیم ہے جس کے وزن کو مؤمن کا دل و دماغ محسو س کرتاہے۔ مگر کماحقہ (جیسا اسکا حق ہے )اس کا اظہار کسی صورت سے ممکن نہیں۔
ایسی صورت میں تعظیمِ رسول کی اہمیت کسی مسلمان سے مخفی نہیں رہ سکتی ۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں نہایت اہتمام کے ساتھ مسلمانوں کو بارگاہِ رسالت کے آداب کی تعلیم فرمائی۔
------------------
پہلی آیت مبارکہ
ارشاد ہوتا ہے
{یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرْفَعُوۡۤا اَصْوٰتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوۡا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہۡرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنۡ تَحْبَطَ اَعْمٰلُکُمْ وَ اَنۡتُمْ لَا تَشْعُرُوۡنَ
(پ۲۶ ،الحجرات،الآیۃ ۲)
( اے ایمان والو! بلند نہ کر واپنی آوازیں نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی آواز پر اور نہ ان کے ساتھ بہت زور سے بات کرو جیسے تم ایک دوسرے سے آپس میں زور سے بولا کرتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب اکارت جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔)
دوسری آیت مبارکہ
اسکے ساتھ ہی دوسری آیت میں ارشاد ہوتاہے۔
{ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ اَصْوٰتَہُمْ عِنۡدَ رَسُوْلِ اللہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوۡبَہُمْ لِلتَّقْوٰیؕ لَہُمۡ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۳﴾ }(پ۲۶ ،سورۃ الحجرات،الآیۃ ۳ )
( بے شک جو لوگ اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ کے نزدیک وہ ایسے لوگ ہیں جن کے دل کو اللہ تعالیٰ نے پرہیزگاری کیلئے پرکھ لیا ہے۔ ان کیلئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔)
تیسری آیت مبارکہ
اور تیسری آیت میں ارشاد فرمایا :
{اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوۡنَ ﴿۴﴾ وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیۡہِمْ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ وَاللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾ٌ}(پ۲۶ ،سورۃ الحجرات،الآیۃ ۴،۵)
اے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم !بے شک جو لوگ آپ کو آپ کے رہنے کے حجروں سے باہر پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں اگر یہ لوگ اتنا صبر کرتے کہ آپ خود حجروں سے نکل کر ان کی طرف تشریف لے آتے تو ان کے حق میں بہت بہتر ہوتا اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
چوتھی آیت مبارکہ
چوتھی جگہ ارشاد فرمایا:
{یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رٰعِنَا وَقُوۡلُوا انۡظُرْنَا وَاسْمَعُوۡا ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۰۴﴾ }(پ۱،سورۃ البقرۃ،الآیۃ ۱۰۴)
(اے ایمان والو! تم نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے ساتھ رَاعِنَا کہہ کر خطاب نہ کیا کرو بلکہ اُنْظُرْنَا کہا کرو اور دھیان لگا کر سنتے رہا کرو اور کافروں کیلئے عذابِ دردناک ہے۔)
ان آیاتِ طیبات میں بارگاۂ رسالت کے آداب اور طرزِ تخاطب میں تعظیم وتوقیر کو ملحوظ رکھنے کی جو ہدایات اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہیں ، محتاجِ تشریح نہیں۔
نیز ان کی روشنی میں شانِ نبوت کی ادنیٰ گستاخی کا جرمِ عظیم ہونا آفتاب سے زیادہ روشن ہے۔ اس کے بعد اس مسئلہ کو علماءِ امت کی تصریحات میں ملاحظہ فرمائیے۔
تمام علمائے امت کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں توہین کفرہے
شَرْحُ شِفَا ء قَاضِیْ عِیَاض(متوفٰی ۵۴۴ھ) لِمُلاَّ عَلِی الْقَارِی (متوفٰی ۱۰۱۴ھ)ج۲ ص۳۹۳ پر ہے۔
’’قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ سَحْنُوْن اَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلٰی اَنَّ شَاتِمَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَالْمُسْتَنْقِصَ لَہُ کَافِرٌ وَمَنْ شَکَّ فِیْ کُفْرِہ وَ عَذَابِہ کَفَرَ۔‘‘ (الشفا للقاضی عیاض ،الباب الاول فی سبہ،حصہ ۲؍ ۲۱۵ ،مرکز اہلسنت برکات رضا)
===========
ایک شبہ کا ازالہ
اس مقام پر شبہ وارد کیا جاتا ہے کہ اگر کسی مسلمان کے کلام میں ننانوے وجہ کفر کی ہوں اور ایک وجہ اسلام کی ہو تو فقہا کا قول ہے کہ کفر کا فتویٰ نہیں دیا جائے گا۔
اس کا ازالہ یہ ہے کہ قول اس تقدیر پر ہے کہ کسی مسلمان کے کلام میں ننانوے وجوہ کفر کا صرف احتمال ہو کفرِ صریح (واضح کفر نہ ہو)نہ ہو لیکن جو کلام مفہومِ توہین میں صریح ہو اس میں کسی وجہ کو ملحوظ رکھ کر تاویل کرناجائز نہیں اس لئے کہ لفظِ صریح میں تاویل نہیں ہو سکتی۔
دیکھئے’’ اِکْفَارُ الْمُلْحِدِیْن ‘‘کے ص ۷۲پر علماء دیوبند کے مقتداء مولوی انور شاہ صاحب کشمیری لکھتے ہیں۔
’’ قَالَ حَبِِیْبُ بْنُ رَبِیْعٍ اِنَّ ادِّعَائَ التَّاوِیْلِ فِیْ لَفْظٍ صُرَاحٍ لَا یُقْبَلُ‘‘
(الشفا للقاضی عیاض ،الباب الاول فی سبہ،حصہ ۲؍ ۲۱۷ ،مرکز اہلسنت برکات رضا)
حبیب ابن ربیع نے فرمایا کہ لفظِ صریح میں تاویل کا دعویٰ قبول نہیں کیا جاتا اور اگر باوجود صراحت (واضح کفریہ کلمہ ہونے کے باوجود) تاویل کی گئی تو وہ تاویل فاسد ہوگی اور تاویلِ فاسد خود بمنزلہ کفر (صحیح کلمۂ کفریہ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے تاویل کرناخود کفر کے درجے میں ہے۔) ہے۔
ملاحظہ فرمائیے یہی مولوی انور شاہ صاحب دیوبندی’’ اِکْفَارُ الْمُلْحِدِیْن‘‘ کے صفحہ ۶۲ پر لکھتے
ہیں۔ ’’اَلتَّاوِیْلُ الْفَاسِدُ کَالْکُفْرِ‘‘ تاویلِ فاسد کفر کی طرح ہے۔
---------------------
ایک اور اعتراض کا جواب
حدیث شریف میں آیا ہے۔
’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ‘‘ (صحیح البخاری)
یعنی عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
لہذا علماء دیوبند کی عبارتوں میں اگرچہ کلماتِ توہین پائے جاتے ہیں مگر ان کی نیت توہین اور تنقیص کی نہیں۔ اس لئے ان پر حکمِ کفر عائد نہیں ہو سکتا۔
اس کے جواب میں گزارش ہے کہ حدیث کامفاد صرف اتنا ہے کہ کسی نیک عمل کا ثواب نیتِ ثواب کے بغیر نہیں ملتا۔ یہ مطلب نہیں کہ ہر عمل میں نیت معتبر ہے۔ اگر ایسا ہو تو کفر والحاد اور توہین وتنقیصِ نبوت کا دروازہ کھل جائے گا۔ ہر دریدہ دہن(بد زبان) بے باک جو چاہے گا کہتا پھرے گا، جب گرفت ہو گی تو صاف کہہ دے گا کہ میری نیت توہین کی نہ تھی، واضح رہے کہ لفظِ صریح میں جیسے تاویل نہیں ہو سکتی ایسے ہی نیت کا عذر بھی اس میں قابل قبول نہیں ہوتا۔
اِکْفَارُ الْمُلْحِدِیْن ،صفحہ ۷۳ پر مولوی انور شاہ صاحب کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں۔
’’اَلْمَدَارُ فِی الْحُکْمِ بِالْکُفْرِ عَلَی الظَّوَاہِرِ وَلَا نَظْرَ لِلْمَقْصُوْدِ وَ النِّیَّاتِ وَلَا نَظْرَ لِقَرَاءِنِ حَالِہٖ‘‘
(کفر کے حکم کا دارومدار ظاہر پر ہے۔ قصد ونیت اور قرائن حال پر نہیں۔)
یعنی کفر کا حکم لگاتے وقت ظاہری الفاظ و افعال کا اعتبار ہوتاہے ،اگر وہ واضح کفر پر مبنی ہوئے تو اب حکمِ کفر لگائیں گے اگرچہ نیت و ارادہ اچھا ہونا بیان کرے۔
نیز اسی ’’اِکْفَارُ الْمُلْحِدِیْن‘‘ کے صفحہ ۸۶ پر ہے۔
’’وَقَدْ ذَکَرَ الْعُلَمَاءُ اَنَّ التَّہَوُّرَ فِی عِرْضِ الْاَنْبِیَاءِ وَ اِن لَّمْ یَقْصِدِ السَّبَّ کُفْرٌ‘‘
(علماء نے فرمایاہے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلام کی شان میں جرأت ودلیری کفر ہے اگرچہ توہین مقصود نہ ہو۔)
توہین کا تعلق عرفِ عام اور محاورات اہلِ زبان سے ہوتاہے
بعض لوگ کلماتِ توہین کے معنی میں قسم قسم کی تاویلیں کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ اگر کسی تاویل سے معنی مستقیم (درست ) بھی ہو جائیں اور اس کے باوجود عرفِ عام ومحاورات اہلِ زبان (لوگوں کے سوچنے سمجھنے یا بول چال میں)میں اس کلمہ سے توہین کے معنی مفہوم ہوتے ہوں تو وہ سب تاویلات بیکار ہوں گی۔
مثلاًایک شخص اپنے والد یا استاد کوکہتا ہے آپ بڑے ’’وَلَدُ الْحَرَام‘‘ہیں اور تاویل یہ کرتاہے کہ لفظ حرام کے معنی فعلِ حرام نہیں بلکہ محترم کے ہیں جیسے ’’اَلْمَسْجِدُ الْحَرَام ‘‘اور ’’بَیِْتُ اللہِ الْحَرَام‘‘لہذا وَلَدُ الْحَرَام سے مراد ولد محترم ہے اور معنی یہ ہیں کہ آپ بڑے محترم ہیں تو یقینا کوئی اہلِ انصاف کسی بزرگ کے حق میں اس تاویل کی رو سے لفظ وَلَدُ الْحَرَام‘بولنے کو قطعاً جائز نہیں کہے گا اور ان کلمات کو بر بنائے عرف ومحاوراتِ اہلِ زبان کلماتِ توہین ہی قرار دے گا۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.