You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
دو راویوں کے درمیان الفاظ ِحدیث میں اختلاف کی دو اقسام ہیں:
(۱)۔۔۔۔۔۔ ثقہ اپنے سے ارجح کی مخالفت کریگا ۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ ضعیف راجح کی مخالفت کریگا۔
شاذ و مَحْفوظ:
اگر ثقہ راوی اپنے سے ارجح (اوثق) کی مخالفت کرے تو ثقہ کی روایت کو شاذ جبکہ ارجح کی روایت کو محفوظ کہیں گے۔
شاذ و محفوظ کی مثال:
یاد رہے کہ شذوذ کبھی سند میں ہوتا ہے اور کبھی متن میں۔
شُذُوذ فی السَنَد کی مثال:
رَوَی التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَہْ مِنْ طَرِیْقِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ عَوْسَجَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَئنَّ رَجُلاً تُوُفِّیَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَدَعْ وَارِثاً اِلاَّ مَوْلیً ہُوَ أَعْتَقَہ، ۔
ترجمہ :امام ترمذی و نسائی و ابن ماجہ اپنی سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے زمانے میں فوت ہو گیا اور اس نے اپنے آزاد کئے گئے غلام کے سوا کوئی وارث نہ چھوڑا۔
اس حدیث کو ابن جریج نے ابن عیینہ کی متابعت کرتے ہوئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما تک متصل سندکے ساتھ بیان کیا ہے لیکن حماد بن زید نے سند میں انکی مخالفت کی ہے اور اسے عمرو بن دینار کے واسطے سے عوسجہ سے مرسلا نقل کیا اور سند میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ ابو حاتم نے ابن عیینہ کی حدیث کو محفوظ قرار دیا ہے اور حماد بن زید جو کہ ثقہ راوی ہیں کی روایت کو شاذ قرار دیا ہے کیونکہ ابن عیینہ حماد بن زید سے اوثق ہیں۔
شُذُوذ فی المَتَن کی مثال:
رَوٰی أَبُوْدَاو،دَ وَالتِرْمِذِيُّ مِنْ حَدِیْثِ عَبْدِ الْوَاحِدِ ابْنِ زِیَادٍ عَنْ الْاَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَیْرَۃَ مَرْفُوْعاً اِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ الْفَجْرَ فَلْیَضْطَجِعْ عَنْ یَّمِیْنِہٖ
ترجمہ : امام ابو داود و ترمذی اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا ًروایت کرتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی نماز فجر ادا کر چکے تو اسے چاہیے کہ اپنے دائیں پہلو کے بل لیٹ جائے۔ (تھوڑی دیر آرام کے لئے)
عبد الواحد کی یہ روایت شاذ ہے کہ کیونکہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو بیان کرنے میں عبد الواحد نے کثیر تعداد کی مخالفت کی ہے کیونکہ ایک کثیر تعداد نے اسے حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے فعل کے طور پر بیان کیا ہے نہ کہ بطورِ قول۔ لہذا عبد الواحد کی یہ روایت شاذ جبکہ کثیر تعداد کی مروی روایت محفوظ ہے۔
حکم:
شاذ حدیث مردود ہے اور محفوظ مقبول ۔
مَعْرُوف و مُنکَر:
جب ضعیف راوی الفاظ حدیث میں اپنے سے ارجح کی مخالفت کرے تو ضعیف کی روایت کو منکر جبکہ ارجح کی روایت کو معروف کہیں گے ۔
معروف ومُنکَر کی مثال:
رَوَی ابْنُ حَاتَمٍ مِنْ طَرِیْقِ حُبَیِّبِ بْنِ حَبِیْبٍ وَہُوَ أَخُوْ حَمْزَۃَ بْنِ حبیب الزِّیَّاتِ الْمُقْرِيْ عَنْ أَبِيْ اِسْحَاقَ عَنْ العَیْزَارِ بْنِ حُرَیْثٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَقَامَ الصَّلَاۃَ وَآتٰی الزَّکوٰۃَ وَحَجَّ الْبَیْتَ وَصَامَ وَقَرَی الضَّیْفَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔
ترجمہ: ابن حاتم نے حبیب بن حبیب جو کہ حمزہ بن حبیب الزیات المقری کے بھائی ہیں سے انھوں نے ابو اسحاق سے انھوں نے عیزار بن حریث سے اور انھوں نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز قا ئم کی اور زکاۃ ادا کی اور بیت اللہ کا حج کیا اور روزہ رکھا اور مہما ن کی مہمان نوازی کی وہ جنت میں داخل ہوگیا۔
ابو حاتم نے فرمایا کہ یہ حدیث منکر ہے کیونکہ حبیب (جوکہ ضعیف ہے) نے اسے دیگر ثقہ راویوں کی مخالفت کرتے ہوئے مرفوعا بیان کیا ہے حالانکہ دیگر ثقہ راویوں نے اسے ابو اسحاق سے موقوفا بیان کیا ہے لہذا ثقہ راویوں کی روایت معروف ہے ۔
حکم:
حدیثِ معروف مقبول ہے جبکہ منکر مردود۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصاب اصول حدیث
مع
افادات رضویۃ
پیشکش
مجلس المدینۃ العلمیۃ (دعوتِ اسلامی )
(شعبہ درسی کتب)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.