You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
رسالہ
’’آداب احمدی‘‘
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بعد حمد حضرت رب العالمین اور نعت جناب سیّد المرسلین ﷺ کے محبان و عاشقان رسول مقبول کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ غرض اصلی اور مقصود کلی ادراکِ فضائل اور دریافتِ محامد سرور انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت اور اتباع سنت ہے اور اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کی محبت یہی ہے کہ ان کے فرمانے پر عمل کرنے اور خلاف کتاب وسنت کے راہ نہ چلے ۔پس ہر مسلمان کو لازم و واجب ہے کہ سب قول و فعل میں طریقہ ء مسنون کو ملحوظ رکھے اور رضائے خدا اور خوشنودیِ رسول مصطفیﷺ کی خواہشِ نفسانی پر مقدم جانے اس واسطے کہ بندہء مسلمان کو اقتدائے سنت سے اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے اور اس کے گناہ بخشتا ہے ۔
حق تعالیٰ جلّ شانہٗ فرماتا ہے
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْر’‘ رَّحِیْمُ
اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرماں بردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پارہ03، ال عمران:31)
اور جس کام کو آنحضرت ﷺ نے کیا یا حکم کرنے کا فرمایا اس کے بجالانے میں فلاح و بہبود دارین سمجھے اور جس بات کو منع کیا اس کا کرنا باعث ہلاک اور نقصان دنیا و آخرت کا جانے ۔ بعضے افعال مسنون ظاہر میں سہل و قلیل معلوم ہوتے ہیں اورا ن میں فوائد کثیر اور ثواب عظیم ہوتا ہے اور بعض امور ممنوع ادنی و حقیر ہیں اور ان کا کرنا بہت بڑا گناہ اور سبب غضب و قہر خداوند ذوالجلال کا ہوتا ہے اور اکثر لوگ بسبب لا علمی کے اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ من جملہ ان کے چند امور بطور نمونہ یہاں بیان ہوتے ہیں؛
مسواک کرنا سنت ہے:
’’ مسواک‘‘ کہ اس کے کرنے میں ثوابِ عظیم اور مُوجبِ خوشنودیِ ربّ کریم اور فوائد قوِیم ہیں ۔بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
تَفْضُلُ الصَّلٰوۃُ الَّتِیْ یُسْتَاکَ لَھَا عَلَی الصَّلٰوۃِ الَّتِیْ یُسْتَاکَ لَھَا سَبْعِیْنَ ضِعْفًا
یعنی وہ نماز جو مسواک کر کے پڑھی جائے اس نماز سے ثواب میں ستر (70) حصہ زیادہ ہوتی ہے کہ بے مسواک پڑھی جائے۔ (مستدرک للحاکم:469،شعب الایمان:2654)
اور طب نبوی میں لکھا ہے کہ مسواک منہ کو پاک کرتی ہے اورربُّ العالمین کو خوش کرتی ہے اور نگاہ کو روشن کرتی ہے اور فصاحت زیادہ کرتی ہے اور حلق کو بلغم سے صاف کرتی ہے اور رطوبت کو قطع کرتی ہے اور بڑھاپا دیر میں لاتی ہے اور پشت کو سیدھا رکھتی ہے اور اجر کو دُونا کرتی ہے اور نزع کو آسان کرتی ہے اور موت کے وقت کلمہء شہادت یاد دلاتی ہے اور شیطان کو سیاہ رُو کرتی ہے اور روزی کو وسیع کرتی ہے اور دانتوں کے میل و درد کو دُور کرتی ہے اور عقل کو زیادہ کرتی ہے اور دل کو پاک کرتی ہے اور منہ کونورانی کرتی ہے اور دل اور بدن کو قوت دیتی ہے اور ہر بیماری کو شفا دیتی ہے اور اس کے سوا اور کتابوں میں بھی اس کے بہت فوائد لکھے ہیں۔ پس ایسے ثواب عظیم اور فائدوں قویم سے محروم ہونا بہت نامناسب ہے۔
داڑھی رکھنا واجب ہے:
دوسرا داڑھی رکھنا بقدر یک مشت اور مونچھیں کتروانا واجب اور شعائر اسلام اور سنت انبیائے کرام علیہم السلام سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
اَحْفُوْا الشَّوَارِبَ وَا َعْفُوْا اللُّحٰی
یعنی مونچھیں باریک کر و اور خوب تراشو اور داڑھیاں چھوڑو اور بڑھاؤ(اس کو امام بخاری اور مسلم نے روایت کیا)۔ (مسلم:380، ترمذی:2687،نسائی:4959)
اور داڑھی منڈانا یا ایک مُشت سے کم کرنا اور کترانا یا بیچ سے منڈا کے گل مُچھے بناناحرام ہے اور مجوس اور مشرکین کے ساتھ مشابہت ہے۔
صحیح مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
جَزُّوْا الشَّوَارِبَ وَاعْفُوْا اللُّحٰی خَالِفُوْا الْمَجُوْسَ
یعنی مونچھیں باریک تراشو اور داڑھیاں بڑھاؤ اور مجوس کے خلاف کرو۔(مسلم:383)
بعض روایتوں میں خَالِفُوْا الْمُشْرِکِیْنَ وارد ہے اور داڑھی کو لپیٹنا اور باندھنا اور اوپر چڑھانا ممنوع ہے۔حدیث میں ہے
مَنْ عَقَدَ لَحِیَتَہٗ فَاِنَّ مُحَمَّدََ اَبْرِی ئ’‘ مِّنْہُ ای جَعَّدَہٗ
یعنی جو شخص اپنی داڑھی لپیٹے اور باندھے پس بے شک محمد ﷺ اس سے بیزار ہیں۔
(اس مضمون کی متعدد روایات کچھ الفاظ کے فرق کے ساتھ ابوداؤد:33،نسائی:4981،مسند احمد:16381، 16382،16386میں موجود ہیں۔قادری)
اور حضرت زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا
مَنْ لَمْ ْ یَاْخُذْ مِنْ شَارِبِہٖ فَلَیْسَ مِنَّا
یعنی جو کوئی اپنی مونچھیں نہ کترائے پس ہم میں سے نہیں اور ہمارے طریقہ پر نہیں۔(نسائی:4961 ، مسند احمد:18462،18473)
معاذ اللہ اگر کسی ہندو سے’’ چوٹی‘‘ کہ اُ ن کے شعار دین سے ہے، منڈانے کے واسطے کہا جائے تو کبھی نہ مانے اور مسلمان ہو کر خوشنودیِ زنانِ بازاری اور مشابہت ہنود کے دام دے کر داڑھی منڈا دیں اور خوف مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمِِ فَھُوَ مِنْھُمْ (جو جس قوم سے مشابہت کرے وہ انہیں میں سے ہے۔ابوداؤد:3512) اور خدا کا عذاب دل سے بُھلا دیں ۔
فائدہ:
احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ دس(10) خصلتیں داڑھی میں مکروہ ہیں:
1۔ داڑھی کا خضاب سے سیاہ کرنا کہ وہ دوزخیوں کا خضاب ہے اور سب سے پہلے فرعون نے کیا تھا۔
2۔وقار و اظہار بزرگی اور تبحر علم کے واسطے اس کا دوا سے سفید کرنا
3۔ اس کے بالوں کا عبث سے یا ابتدائے جوانی سے نوچنا تاکہ امرد معلوم ہو
4۔ اس کے سفید بالوں کا چُننا ، بڑھاپے کے ننگ و عار سے ۔
5۔ داڑھی کو ایک مُشت سے کم کرنا
6۔ اس کو بشمول موئے ہائے سر کے زیادہ کرنا
7۔ داڑھی لوگوں کو دکھانے کے واسطے آراستہ کرنا
8۔ اظہار ورع اور تقویٰ کے اُلجھائے رکھنا اور کنگھی نہ کرنا تا کہ معلوم ہو کہ داڑھی کی بھی خبر نہیں لیتا۔
9۔ اس کی سفیدی یا سیاہی دیکھ کر بڑھاپے یا جوانی پر تکبر کرنا
10۔ سرخ یا زرد خضاب کرنا تاکہ لوگ صالح اور متقی معلوم کریں نہ کہ اتباع سنت کے واسطے۔
عمامہ باندھنا:
عمامہ باندھنا کہ دنیا میں عظمت و وقار اور آخرت میں ثواب بے شمارہے ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عمامہ باندھو تا کہ عقل و بزرگی کو زیادہ کرے، عمامہ ہمارے اور مشرکوں کے درمیان فارِق (فرق کرنے والا) ہے۔
ایک اور روایت میں ہے عمامہ ایمان اور کفر کے درمیان فارِق ہے اور ہر پیچ دستار کے عوض کہ اس کو مرد اپنے سر پر پھیرتا ہے قیامت کو ایک نور دیا جائے گا ۔ دو رکعت نماز نفل ہو یا فرض با عمامہ ستر (70)رکعت بے عمامہ سے بہتر ہے۔
مساجد میں پگڑی باندھ کے آؤ کہ پگڑیاں مسلمانوں کی ٹوپی ہیں۔
پگڑیوں کو لازم پکڑو کہ وہ خصائل ملائکہ سے ہیں۔ خدا ئے تعالیٰ نے میری بدرو حنین کے روز ملائکہ سے مدد کی جو کہ پگڑیاں پہنے تھے۔ کذا فی شرح سفر السعادت
ٹخنوں سے نیچے پاجامہ رکھنا گناہ ہے:
مردوں کو ٹحنوں سے نیچا پاجامہ پہننا درست نہیں کہ باعث عذاب اور محرومی ثواب ہے ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
مَنْ جَرَّ ثَوْبَہٗ خُیَلَآئَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ اِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ
یعنی جو شخص اپنا کپڑا از راہِ تکبر کھینچے اللہ عزوجل اس کی طرف قیامت کے دن نظر رحمت سے نہ دیکھے گا۔ (موطا امام مالک :1423میں ’’مَنْ جَرَّ‘‘ کی بجائے ’’الَّذِیْ یَجُرُُّّؔ‘‘ کے الفاظ ہیں۔ قادری)
یہ حدیثیں صحیحین میں موجود ہیں اور بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
ما اَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْن مِنَ الْاِزَارِ فِی النَّارِ
یعنی ٹحنوں سے نیچا ازار آگ میں ہے۔ (بخاری:5341، نسائی :5236)
معاذا للہ ٹحنوں سے نیچا پاجامہ پہننا ، ظاہر میں لوگ اس کو نہایت سہل اور خفیف سمجھتے ہیں ، اس پریہ وعید شدید ہے ۔ حق تعالیٰ سب مسلمانوں کو اس گناہ بے لذّت اور سب خلاف سنت طریقوں سے بچائے اور اتباع سنت کی توفیق عنایت فرمائے اور اس کے سوا اور بھی احادیث کثیرہ فضائل و ثواب اتباع سنت اور عتاب و عقاب اختیار طریقہ خلاف سنت میں وارد ہیں کہ اس مقام میں درج کرنا ان کا بنظر طُولِ کلام کے مصلحت نہ دیکھا ۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.