You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سیرت صحابہ کے چند گوشے
ساجدعا لم نصیری
البرکات اسلامک ریسرچ اینڈٹرینگ انسٹی ٹیوٹ
Email; [email protected]
صحابی وہ ہے جس نے نبی کریم سے حالت ایمان میں ملاقات کی ہواور ایمان پر وفات ہوئی ہو ۔( الاصابہ فی تمییز الصحابہ ۱؍۱۹)
اولین صحابہ میں سے حضرت خدیجہ بنت خویلد،علی بن ابی طالب ، زید بن حارثہ ، ابو بکر بن قحافہ ، عثمان بن عفان ، زبیر بن عوام ، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص وغیرہ رضی اللہ عنہم ہیں ۔(فقہ السیرہ النبویہ ص ۶۸ دارالسلام للطباعۃ مصر )
اس تحریر میں ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی کے کچھ مناظر پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
(1)دین کی راہ میں مصائب و آلام کا سامنا
------------------------------------------------
صحابہ کرام نے دین کی راہ میں بیشمار مصائب و آلام کا سامنا کیا، اور طرح طرح کی اذیتوں کو برداشت کیا ، وہ پنے ایمان کے تحفظ کے لئے چٹان سے بھی زیادہ سخت تھے ،جن کے واقعا ت پڑھ کر ایمان میں استحکام پیدا ہوتا ہے
یہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا ہیں آپ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں ، جنہوں نے ناموس رسالت کے تحفظ کے لئے اپنی پیاری جان کی قربانی پیش کی،اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی ان کے جذبہ ایمانی کو طرح طرح سے آ زمایا گیا ، لیکن جان کا خوف بھی ان کے جذ بہ ایمانی کو شکست نہ دے سکا
روایتو ں میں مذکور ہے کہ انہیں گرم کنکریوں میں لٹایا جاتا ، لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کردیا جا تا لیکن لبوں پر محبت رسول کے پھول کھلتے رہے اور پائے استقلال میں ذرا سی بھی لغزش نہ آئی ۔عورت تو نازک آبگینوں کا نام ہے جو ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جاتے ہیں لیکن حضرت سمیہ رضی اللہ عنہ کا ایمان حصارآہنی بن گیا
روی ا ن ابا جھل طعنھا فی دبرھا بحربۃ فی یدہ فقتلھا فھی اول شھید فی الاسلام و کا ن قتلھا قبل الھجرۃ ، و کانت ممن اظھر الاسلام بمکۃ فی اول الاسلام(اسدالغابہ ابن اثیر ۷؍۱۵۳)
ترجمہ ؛ روایت ہے کہ ابو جھل نے انکے جسم کے نازک حصے پر بر چھی کا وار کیا جس سے وہ شیہد ہوگئیں ، یہ اسلام کی پہلی شہید خاتون تھیں، جن کی شہا دت ہجرت سے پہلے ہوئی ، جنہوں نے مکہ مکرمہ میں اسلام کے ابتدائی دور میں اپنے اسلام کا اظہار کیا
اسی طرح عماربن یاسر رضی اللہ عنہما کی داستان بھی بڑی درس ناک ہے جسے پڑھ کر ردل منہ کو آ جاتا ہے۔
(2)صحابہ کرام محبت واتباع رسول ﷺ
----------------------------------------------
صحابہ کرام ذات مصطفی ﷺ کو اپنی محبت کا مرکز اور محور سمجھتے تھے وہ جانتے تھے کہ مصطفی ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ تعلق جس قدر مضبوط مستحکم ہو تا جائے گااسی قدر ایمان بھی مضبوط ہوتاجائےگا یہی وجہ ہے کہ وہ آپکی اس درجہ تعظیم تکریم کیا کر تے تھے کہ مخالفین بھی ان کے اس پر پکا ر اٹھے کہ اب یہ قوم نا قابل تسخیر قوت بن چکی ہے ، صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام کی وارفتگی کا جو منظر حضرت عروہ بن مسعود نے دیکھا ، -وہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے- تو انہوں نے کفار مکہ سے بر ملا کہہ دیا کہ:
میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار میں سلیقہ ادب و احترام دیکھا ہے لیکن خداکی قسم میں نے ہر گزکسی بادشاہ کو نہیں دیکھا ہے کہ ان کے مصاحب اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم محمد( ﷺ) کے اصحاب اپنے رسول محمد( ﷺ)کی کرتے ہیں۔
بعد ازاں انہوں نے کفار مکہ کو مسلمانو ں پر حملہ نہ کرنے کا مشورہ دیا، کیونکہ وہ بطور ما ہر سفارت کارجانتے تھے کہ جو قوم اپنے رسول کے جسم سے مس ہونے والا پانی زمین پر گرنا برداشت نہیں کرسکتی وہ میدان جنگ میں اس کے خون کا زمین پر گرنا کیونکر برداشت کرسکتی ہے۔ (حیا ت محمد محمد حسین ہیکل ص۴۶۳ ادارہ ثقافہ اسلامیہ لاہور )
مورخین بیا ن کرتے ہیں کہ غزوہ احد میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ حضور نبی کریمﷺ معاذاللہ شہید کر دیئے گئے ، اس خبر کا سننا تھا کہ مدینے میں ہر طرف کہرام مچ گیا ، اہل مدینہ شہر سے باہر نکل آئے ، ان میں قبیلہ انصار کی ایک خاتون حضرت ہند بنت حزام رضی اللہ عنہ بھی تھیں جس کے باپ ، بھائی ، اور خاوند حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے تھے اور تمام کے تمام شہید ہو گئے تھے ۔
جب لوگوں نے انہیں ان لوگوں کی شہادت کے بارے میں بتایا وہ کہنے لگی
ما فعل برسول اللہ ﷺ یعنی رسول اللہ ﷺ کیسے ہیں
لوگوں نے بتایا خیر ھو بحمد اللہ کما تحبین الحمد للہ آ پ اسی طرح خیریت سے ہیں جیسے تو پسند کرتی ہیں
رسول اللہ کودیکھنے کے بعد کہنے لگی ؛
یا رسول اللہ کل مصیبۃ بعد ک جلل ؛ آ پ کے ہو تے ہو ئے ہر پریشانی ہیچ ہیں( المواھب اللدنیہ ۲؍۹۳)
(3)دینی امور کی طرف رغبت
-----------------------------
اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے
﴿تری ھم رکعا سجدا یبتغون فضلا من اللہ و رضوانا﴾( القران الکریم سورہ الفتح آ یت نمبر ۲۹)
ترجمہ : تم ان کو رکوع کرتے ہوئے ،سجدہ کرتے ہوئے پاؤگے وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے ہیں
مذکورہ آیت میں اللہ رب العزت نےصحابہ کرام کی عبادت وریاضت کاتذکرہ فرمایا ہے
صحابہ کی جماعت عابدوں اور ساجدوں کی جماعت تھی ،صوم و صلاۃ کے پابند ،اللہ کی رضااور اس کی خشنودی کے طلبگار ، خیرات و صدقات کی طرف سبقت کرنے والے ، حقو ق اللہ ا ور حقوق العباد کے مکمل پاسدار تھے ، ان کی مونانہ صفات کو اللہ تعالی مزید وضاحت کے ساتھ بیان فرماتا ہے
﴿التائبو ن العا بدون الحامدون السائحون الراکعون الساجدون الآ مرون بالمعروف والناھون عن المنکر والحافظون لحدوداللہ و بشرالمومنین ﴾ (القرا ن الکریم سورہ التوبہ ایت نمبر ۱۱۲)
ترجمہ ؛توبہ والے ، عبادت والے، سراہنے والے ،روزے والے، رکوع والے، سجدہ والے، بھلائی وا لے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدیں نگاہ رکھنے والے اور خوشی سناؤ مسلمانوں کو ۔(کنزالایمان)
(4)بعض اوصاف حمیدہ
--------------------------
اللہ تعالی قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے
﴿محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار ورحماء بینھم﴾ الایۃ (القران الکریم سورہ الفتح آیت نمبر ۲۹)
ترجمہ :محمد اللہ کے رسول ہیں اور انکے ساتھ والے کافروں پر سخت اور آپس میں نرم دل ہیں
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی صحابہ کرام کے اوصاف کاتذکرہ فرمارہا ہے کہ وہ کفار کے مقابلے میں بڑے بہادر ، بڑے طاقتور ہیں کفار کے مقابلے میں تو یہ فولاد کی چٹان ہیں لیکن اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ بڑے نرم دل ، بڑے شفیق اور بڑے مہربان ہیں ۔
صحابہ کرام کی زندگی میں رحما ء بینھم کی عملی تفسیر اس واقعہ میں ملتی ہے
مشرکین مکہ کے ظلم و ستم سے نجا ت حاصل کرنے او ر اپنے ایمان کو بچانے کیلئے نبی پاک ﷺ اور صحابہ کرام مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے ، نبی پاک نے انصار اور مہاجرین کے درمیان مواخاۃ کارشتہ قائم فرمایا اس کے بعد انصار صحابہ کرام نے آپس میں نرم دلی کی ایسی مثال پیش کی جسے دنیا دیکھ کر دشت بدنداں ہیں
حضرت عبدالرحمن بن عوف کا مواخاۃ حضرت سعد بن ربیع انصاری کے ساتھ ہو ا ، حضرت سعد مال ودولت کے اعتبار سے اچھے تھے انہوں نے دل کھول اپنے مہا جر بھائی کی مدد کی ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو اپنے گھر لے گئے ، اور کہا یہ میرا گھر اور میری دولت ہے میں ان سب میں آدھے حصے کا مالک آ پ کو بناتاہوں ،امداد اور بھائی چارگی کی انتہاتک پہونچتے ہو ئے یہاں تک پیش کش کی کہ یہ میری بیویاں ہیں جنہیں چاہو پسند کر لو میں طلاق دے دوں گا تم ان سے نکاح کر لینا حضرت عبدالرحمن نے ان کا شکریہ ادا کیا (صحیح البخاری کتاب المناقب ، باب اخاء النبی ﷺبین المھا جرین الانصار )
یہ ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی اخوت اور بھائی چارگی
(5)صحابہ کرام کے اعمال اور پیشے
---------------------------------------
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے رزق حلال حاصل کرنے اور اپنے اہل وعیال کی شکم سیری کے لئے مختلف طرح کے پیشے اختیار کئے ،کسی نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا ،کسی نے زراعت کو کسب حلال کا ذریعہ سمجھا ،ان حضرات نے ملکی اورغیر ملکی تجارتی اسفار بھی کئے ۔
انصار کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ زراعت وباغ والے تھے جبکہ مہاجرین حضرات نے تجارت کو پیشہ بنایا تھا ،حضرت عبد الرحمٰن بن عوف اور براء بن عازب تاجر تھے ،حضرت خباب بن ارث لوہاری کا پیشہ کر تے تھے ،ان سارے اعمال اور پیشے سے ان کے انداز فکر کو سمجھا جاسکتا ہے ،رہبران دین اور داعیان ملت ہونے کے باوجود اس طرح کے پیشے اختیار کئے ،لیکن ہر موڑ پر دین کے احکام ملحوظ نظر رکھتے تھے ۔
حضرت ابن عباس سے مروی ہے انہوں نے فرمایا ،عکاظ ،مجنہ ،ذو المجار ،اور بنو قینقاع زمانہ جاہلیت کے بازار تھے صحابہ کرام نے اس میں تجارت کر نے میں گناہ سمجھا تو یہ آیت کریمہ نا زل ہوئی ۔
﴿ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُواْ فَضْلاً مِّن رَّبِّكُمْ ﴾ سورہ البقرہ ایت نمبر 198
ترجمہ : تم پر کوئی حرج نہیں کہ اپنے رب کا فضل ڈھونڈو
(6)صحابہ کی اقتدا ذریعہ ہدایت ونجات
۔عن عمر بن الخطاب رضی الله عنہ قال: سمعت رسول اللہ یقول: سألت ربی عن اختلاف اصحابی من بعدی فاوحی الی یا محمد! ان اصحابک عندی بمنزلۃ النجوم فی السماء بعضھا اقوی من بعض ولکل نور فمن اخذ بشئ مما ھم علیہ من اختلافھم فھو عندی علی ھدی
(مشکوۃ المصابیح ص ۵۵۴ امام خطیب تبریزی مجلس برکات مبارک پور)
ترجمہ؛ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ
میں نے اللہ تعالی سے میرے بعد صحابہ کے درمیان ہونے والے اختلاف کے بارے میں پوچھا ، اللہ تعالی نے وحی نازل فرمائی کہ
اے محمد تمھارے اصحاب میرے نزدیک آسمان میں ستارے کے ما نند ہیں بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے لیکن ہر ایک کے پاس روشنی ہیں ، تو جو بھی ان میں سے کسی کی رائے پر چلے گا وہ میرے نزدیک ہدایت پر ہوگا
انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا
میرے اصحاب ستارے کے مانند ہیں ان میں سے جس کی اقتدا کروگے حق پرہوگے
اہل سنت و جماعت کا متفقہ فیصلہ ہے
الصحابۃ کلھم عدول ، ترجمہ تمام صحابہ کرام عادل ہیں
یہ تھے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی سیرت طیبہ اور حیات مقدسہ کی ایک جھلک
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں صحابہ کرام کی نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.