You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
جانے والے تھجے روئے گا زمانہ برسوں ۔ ۔ ۔ ۔
”شہید ِ بغداد“ اُسیدالحق قادری بدایونی ۔ ۔ ۔ ۔کیا خوب شہادت پائی ہے
تحریر:۔محمداحمد ترازی
--------------------
”محترم السلام علیکم! کیاآپ وہی ترازی صاحب ہیں جن کی کتاب”تحریک ختم نبوت سیّدنا صدیق اکبر تا علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی“ہے۔؟
یہ کتاب میری نظر سے گزری ہے،خانوادہ علیمیہ پربہت خوب کاوش ہے،میں نے حال ہی میں ایک طویل مضمون قلم بند کیا ہے،آپ کی کتاب کا حوالہ بھی دیا ہے۔
“ 24اپریل 2012ء کو سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک پر محترم اُسید الحق محمد عاصم قادری شہید کا ہمارے نام یہ پہلا پیغام تھا جو آگے چل کر مزید رابطے کا سبب بنا۔۔۔۔۔۔شہید سے دوسرا رابطہ 29مئی 2012ء کو اُس وقت ہوا جب ہم نے اپنے فیس پیج پر علامہ عبدالحامد بدایونی اور مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کے جون1957کے دورہ روس سے متعلق تصاویر شیئر کیں۔۔۔ توعلامہ اسیدالحق صاحب نے پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا۔۔۔۔۔جناب ترازی صاحب ”تاثرات روس“ہمارے کتب خانے میں موجود ہے۔۔۔۔۔لیکن مجھے ایک کتاب کی تلاش ہے ،ممکن ہے آپ کے پاس ہو، علامہ بدایونی اور مولانا عبدالعلیم صدیقی کے 1946ء میں حجاز کا سفرنامہ حامد بھائی نے لکھا تھا ”وفد حجاز کی رپورٹ “ کے نام سے یہ کتاب اگر دستیاب ہوجائے تو میں بہت ممنون ہونگا۔“
اِس کے بعد 20مارچ 2013ء کو شہید کا برقی پیغام ملا جس میں آپ نے لکھا”السلام علیکم!ایک ضرورت کیلئے تکلیف دے رہا ہوں،ثاقب بھائی سے بھی کہہ چکا ہوں،مجھے جے یو پی کی 1952ءتا 1957ءکے درمیان کی سالانہ رپورٹ درکار ہے،یہ غالباً ایک ساتھ شائع ہوئی ہے،دراصل اِن سالوں میں جے یو پی کا ایک وفد حجاز گیا تھا اور اُس نے شاہ سعود سے ملاقات کرکے گنبد خضراءشریف کے تحفظ کا مطالبہ کیا تھا،میں مولانا عبدالحامد بدایونی کا رسالہ” الجواب المشکور“ شائع کررہا ہوں،اُس کے مقدمے کے سلسلے میں مجھے معلومات درکار ہیں،اگر فرصت ہو تو اِس جانب توجہ فرمائیں۔
“ حسن اتفاق کہ مولانا اُسید الحق قادری صاحب کی مطلوبہ دستاویزات اور 1952ءمیں جے یوپی کے وفد کی رپورٹ ”تحفظ مسجد نبوی اور آثار مبارکہ“عربی،فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں ہمارے ریکارڈ میں موجود تھی،جو ہم نے انہیں ارسال کردیں،آپ نے بے پناہ اظہارتشکر فرمایا اوراِن دستاویزات کو بطور حوالہ استعمال کرنے کی اجازت طلب کی۔
اکتوبر 2013ءمیں ہم نے اپنے فیس پیج پر ”فتاویٰ علماءطہران بجواز بناءالانبیاءوالائمة وزیارتھم علیم السلام“سن اشاعت رجب 1381ھ اور مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی کا تقریباً 70سال قبل 1366ھ میں شائع ہونے والا ایک نادر عربی رسالہ جس پر اخوان المسلمین کے بانی شیخ حسن البناءکی تقریظ موجود ہے ” الفتوی النصوص فی بیان الضرائن و المکوس“ کے ٹائٹل پیج پر لگائے تو شہید نے اِن دونوں اہم رسالوں کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار فرمایا،ہم نے دونوں رسالے انہیں ارسال فرماتے ہوئے گزارش کی کہ وہ ہمارے لیے ” الفتوی النصوص فی بیان الضرائن و المکوس“کے اردو ترجمہ کا اہتمام فرمادیں،ہم اِس ترجمے کو افادہ عام کیلئے پاکستان میں شائع کرنا چاہتے ہیں،حضرت نے بہت جلد ترجمہ مکمل کرکے ارسال کرنے کا وعدہ فرمایا،لیکن زندگی نے انہیں وعدہ وفا کرنے کی مہلت نہیں دی ۔
9نومبر 2013ءکو جناب اُسید الحق کی جانب سے ملنے والا پیغام”ہمارے ایک دوست مبلغ اسلام پر پی ایچ ڈی کررہے ہیں،میں نے آپ کا حوالہ دیا ہے،اگر ممکن ہو تو کچھ تعاون فرمادیں “ہمارے نام حضرت کاآخری برقی مراسلہ ثابت ہوا،اورملت اسلامیہ کا یہ نابغہ روزگار نوجوان خانوادہ بدایونی کا چشم وچراغ اور عظیم اسلامی اسکالر 4 مارچ کو عراق میں دہشت گردی کا نشانہ بن کر ہمیں حیران وغمگین چھوڑگیا۔
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ......عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کرگیا وہ
قارئین محترم !اپریل 2013ءسے قبل ہماراعلامہ اسید الحق عاصم قادری سے غائبانہ تعارف تھا۔۔۔۔۔جس کی بنیادماہنامہ” جام نور“ میں شائع ہونے والے آپ کے علمی و تحقیقی مضامین اور مجاہد آزادی علامہ فضل الحق خیرآبادی پر پاکستان میں شائع ہونے والی کتاب ”خیرآبادیات“ تھی۔۔۔۔۔۔گو پاک بھارت سرحدی دیوار نے ہمیں کبھی علامہ اسیدالحق قادری سے شرف ِملاقات کا موقع نہیں دیا۔۔۔۔۔لیکن انٹر نیٹ کی دنیا سرحدی حدود وقیود کی پابند نہیں۔۔۔۔۔۔آپ کہیں بھی کسی سے بھی رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔۔۔۔یوں نیٹ کے ذریعے _علامہ اسید الحق قادری سے قائم ہونے والا یہ مختصر سا تعلق ہمارے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھا،ہم نے ہمیشہ اِس تعلق کو اپنے لیے باعث فخرومسرت جانا اور مجلس ِاحباب میں ذکرکرتے ہوئے نازاں وشاداں رہے۔
علامہ اسیدالحق قادری خانوادہ قادریہ بدایوں کی علمی،تہذیبی اور روحانی وراثتوں کے امین تھے۔۔۔۔۔آپ حضرت مولاناشاہ فضل رسول قادری بدایونی،تاج الفحول مولانا عبدالقادر بدایونی،مولانا عبدالقدیربدایونی اور شیخ عبدالحمید محمد سالم قادری کے علوم وفضل کے حقیقی وارث تھے۔۔۔۔۔6مئی 1975ء کو بدایوں میں جنم لینے والے اِس علم وفن کے آفتاب نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد کے زیر سرپرستی مدرسہ قادریہ میں حاصل کی ۔۔۔۔ خواجہ علم وفن علامہ مظفر حسین رضوی صاحب قبلہ کی بارگاہ میں زانوے تلمذ طے کرکے فاضل درس نظامی ہوئے۔۔۔۔۔الہ آباد بورڈ اتر پردیش سے فاضل دینیات اور فاضل ادب عربی کیا۔۔۔۔۔جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے ایم،اے علوم اسلامیہ مکمل کیا اور فن تفسیر وعلوم قرآن میں تخصص کیلئے جامعہ ازھر تشریف لے گئے۔۔۔۔وہیں آپ نے دارالافتاءالمصریۃ سے تخصص فی الافتاءبھی کیا۔۔۔۔۔علامہ اسید الحق قادری 2004ءمیں ہندوستان واپس تشریف لائے اور تخلیقی و تصنیفی میدان میں قدم رکھا۔
اور صرف دس سال کے مختصر عرصے میں ساٹھ سے زائد کتابوں کی تخریج وتصحیح، تصنیف وتالیف اور تحقیق وتدوین کا حیرت انگیز اور فقید المثال کارنامہ انجام دے ڈالا۔۔۔۔۔۔یوں صرف 38 سال کی عمر قلیل میں بزرگوں جیسے کام کرنے والے اسیدالحق قادری نوجوان محقق اور ندرت فکر رکھنے والے عظیم اسلامی اسکالر کے روپ میں ملت اسلامیہ میں ممتاز مقام حاصل کرچکے تھے۔۔۔۔ انہوں نے اپنے خانوادے کی علمی وتصنیفی خدمات کو ایک نئے رنگ و آہنگ سے مزین کیا اور تاج الفحول اکیڈمی کے زیر نگرانی اپنے بزرگوں کی سو سے زائد تصانیف اپنی تخریج و تخشیہ اور تقدیم کے ساتھ شائع کرنے اور بعض کتابوں کو ہندی ،گجراتی اور انگریزی زبانوں میں منتقل کرنے کا بھی اہتمام کیا۔۔۔۔۔اُن کی تصنیف وتالیف میں ”قرآن کی سائنسی تفسیر،خامہ تلاشی،خیرآبادیات،عربی محاورات،حدیث افتراق امت اور منتخب التواریخ“کی تقدیم جدید علمی وادبی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھیں گئیں۔
گذشتہ سال اُن کی پندرہ کتابیں منظر عام پر آئیں۔۔۔۔جن میں خانوادہ بدایوں کی مفصل تاریخ ”اکمل التاریخ“مصنفہ مولانا ضیاءالقادری،خانوادہ مارہرہ شریف کی مکمل تاریخ ”تذکرہ نوری“مصنفہ قاضی غلام شبر نوری،ترجمہ و شرح قصیدتان رائعتان“،”الجواب المشکور“مصنفہ مولانا عبدالحامد بدایونی اور حضرت شمس مارہرہ آل احمد اچھے میاں کے جشن دو صد سالہ کی مناسبت سے تین اہم اور وقیع کتابیں قابل ذکر ہیں۔۔۔۔۔آپ کا سب سے بڑا کارنامہ اپنے خاندان کی تاریخ کی ازسر نو اشاعت اور اپنے پیر خانے خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف کی تاریخ اور اکابر مارہرہ کی حیات وخدمات پر مبنی کتب کی اشاعت جدید ہے۔۔۔۔۔علامہ اسید الحق نے مختلف علوم وفنون پر بھی قلم اٹھایا اور سیکڑوں تحقیقی مضامین سپرد قلم کیے، جوماہنامہ ”جام نور “ کے صفحات کی زینت بن کر اُس کے علمی معیار میں اضافے کا سبب بنے۔
علامہ اسیدالحق قادری کا شمار قرآن وحدیث پر گہری نظر رکھنے والے نوجوان علماءمیں ہوتاتھا۔۔۔۔آپ علوم عقلیہ ونقلیہ پر کامل عبور رکھتے تھے،اسید الحق قادری برصغیر پاک وہند میں نوجوان علماءکے سرخیل اور نئی نسل میں علم وادب کی ایک معتبر شخصیت تھے۔۔۔۔۔۔۔آپ صحیح معنوں میں عالم دین اور اپنے آباؤ اجداد کی وراثتوں کے امین اور اُن کے نقش قدم پر چلنے والے تھے،
علامہ محمد افروز چڑیا کوٹی فرماتے ہیں
” انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایسے وقت میں کیاجب فیض وتحقیق کی جنس گراں مایہ بازار علم سے تقریباً اٹھ چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فکرونظر کے زوایئے دھندلا سے گئے تھے۔۔۔۔۔تعلیمی و تنظیمی امور بری طرح انحطاط وتعطل کے شکار تھے۔۔۔۔۔۔تحقیقی مزاج مفلوج اور اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر دوسروں کیلئے کچھ سوچنے کا شعور قریباً اپاہج ہوچکا تھا اور جماعت تحقیق و تخلیص سے آنکھیں موند کر محض چند رسمی معمولات میں الجھ کر رہ گئی تھی۔۔۔۔ایسے خشمگیں حالات میں چمن اہلسنّت کی حنا بندی اور علم وتحقیق کی گرتی ہوئی قدروں کو سنبھالا دینے کیلئے علامہ میدان میں اترے اور انتھک کوششوں اور اپنے مدبرانہ خیالات سے وہ انقلاب بپا کرتے ہیں کہ زمانہ عش عش کراٹھتا ہے۔“
حضرت علامہ اسید الحق قادری کی زندگی” کم وقت میں زیادہ کام“ سے عبارت ہے۔۔۔۔۔یہی وجہ ہے کہ کم عمری میں انہوں نے علمی میدان میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔۔۔۔۔ علمی وادبی حلقوں کو اُن سے بڑی توقعات وابستہ تھیں۔۔۔۔ زندگی اگر وفا کرتی تووہ اور بھی محیرالعقول اور تاریخ ساز کارنامے انجام دیتے۔۔۔۔مگر کاتب تقدیر کی دی ہوئی مہلت ہی اتنی تھی۔۔۔۔۔منگل 4مارچ 2014ء کو وہ اُس وقت ہمیں افسردہ و سوگوار چھوڑ کر عازم جنت ہوئے جب ایک 25رکنی زیارتی وفد جس میں اُن کے والد محترم مولانا عبدالحمید محمد سالم قادری اور چھوٹے بھائی مولانا محمد عبدالغنی عطیف میاں قادری بھی شامل تھے، کے ہمراہ بغداد شریف کی زیارت سے فارغ ہوکر ”اربل“جاتے ہوئے شاہراہ سلیمانیہ پر ایک دہشت گردانہ حملے میں شہید کردیئے گئے۔۔۔۔۔یوں ہمیشہ علم وادب کی آبیاری کرنے والی سرزمین ِدجلہ وفرات ایک عالم بے دبدل کے خون سے رنگین ہوگئی،۔۔۔۔۔نہیں جمعرات 6مارچ 2014ءکوواپس ہندوستان روانہ ہونا تھا۔۔۔۔۔۔مگر مشیت ایزدی یہی تھی کہ اِس دن اُن کے جسد خاکی کوبغداد کے الگیلانیہ میں احاطہ درگاہ غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی میں سپرد خاک کیا جائے،پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
زندگی میں ایک بار انہوں نے اِس تمنا کا اظہار فرمایاتھاکہ
”جینے کیلئے مدینہ اور مرنے کیلئے بغداد پسند کرتا ہوں“ ،
” فتزت وَ رَبّ الکَعبہ“ ربّ کعبہ کی قسم وہ کامیاب ہوگئے،
اللہ کریم نے اپنے محبوب بندے کی خواہش کو رتبہ شہادت سے اِس طرح بدلا کہ
ملت ِاسلامیہ انہیں ہمیشہ ”شہید ِبغداد“ کے نام سے یاد رکھے گی،
آج دنیائے علم وتحقیق کے اِس ابھرتے ہوئے مفکر ومدبر،ممتاز محقق،متبحرعالم دین،محدث و فقیہ،قادرالکلام شاعر اور متحرک وفعال علم دوست شخصیت سے وابستہ چند متذکرہ یادیں ہمارا سرمایہ_ افتخارہیں۔۔۔۔۔بلاشبہ شہید اسید الحق قادری ایک عبقری شخصیت تھے،انہوں نے تلاش وجستجو کو ایک نیا رنگ دیا اور عصری تقاضوں کے مطابق تحقیق و تنقید کے نئے زوایئے متعین کرکے میدان علم وادب پر اپنے اَنمٹ نقوش چھوڑے،اُن کے چلے جانے سے ملّت ِاسلامیہ کا جو عظیم نقصان ہوا،یقینا اُس کی تلافی کئی دہائیوں تک ممکن نہیں ہے، شاعر مشرق اقبال نے ایسے ہی لوگوں کیلئے کہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجھے معلوم بھی کچھ کہ صدیوں کے تفکر سے
کلیجہ پھونک کر کرتی ہے فطرت اِک بشر پیدا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.