You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
دور جدید کے آغاز کے بعد زندگی سے متعلق ہر میدان میں زبردست ترقی ہوئی ہے.یہ ترقیات علوم وفنون اور نئی ٹکنالوجی کی رہین منت ہیں.علوم و فنون تو اسی وقت سے انسانی آبادی کی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ رہے ہیں ،جب سے انسان نے شعور کے مرحلے میں قدم رکھا اور اس نے کائنات کی بے پناہ قوتوں کو مسخر کرنا شروع کیا مگر آج علوم و فنون اپنی ترقی کی انتہا کو پہونچتے ہوئے نظر آرہے ہیں.
گزشتہ دو تین صدیوں میں سماجی علوم کی مختلف شاخوں کو علٰیحدہ علٰیحدہ مطالعہ کیا جانے لگا اور انہوں نے با قاعدہ الگ الگ فن کی شکل اختیار کرلی...مثلا سیاسیات،اقتصادیات،وغیرہ یہ علوم اگرچہ پہلے سے بھی موجود تھے مگر انھیں ایک فن کی حیثیت نہیں حاصل تھی، سب کو فلسفہ کے ذیل میں پڑھا جاتا تھا ،فن کی حیثیت انھیں دور جدید میں حاصل ہوئی. انھیں علوم میں 'علم سماجیات'بھی ہے جسے جدید علوم میں بہت اہم مقام حاصل ہے.
سماجیات انگریزی لفظsociologyکا ترجمہ ہے جو لاطینی لفظ''socius''بمعنی ''سماج'' اور یونانی لفظ'' logos''بمعنی ''مطالعہ یاعلم'' سے مل کر بنا ہے .اس طرح اس کا معنی ''سماج کا علم یا سما ج کا مطالعہ''ہوتا ہے.اردو میں اسے 'سماجیات 'کے علاوہ'عمرانیات'اور 'علم اجتماع' بھی کہا جاتا ہے.
علم سماجیات کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں.جن کاما حصل یہ ہے کہ سماجیات میں ان تمام انسانی تعلقات کے تانوں بانوں کا تجزیاتی مطالعہ کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے اجتماعی زندگی تشکیل پاتی ہے اور سماج مختلف جہتوں میں ارتقائی منازل طے کرتا ہے .([1])
علم و فن کی تاریخ میں علامہ ابن خلدون کا 'مقدمہ تاریخ'سماجیات کی پہلی اور مستقل دستاویز ہے.جس میں مصنف نے نہایت علمی انداز میں سماجی قوتوں کے ارتقائی تجزیاتی مطالعہ پر زور دیا ہے، لیکن انھوں نے 'سماجیات 'کی اصطلاح وضع نہیں کی اور اس کام کو ١٨٣٩ء میں مشہور فرانسیسی فلاسفر'اگست کامٹے' نے پایہ تکمیل کو پہونچایا۔اسی وجہ سے اس کو 'بابائے سماجیات '(father of sociology)کا خطاب دیا جاتا ہے.لیکن اس کے صحیح حق دار 'علامہ ابن خلدون 'ہی ہیں.
سماجیات کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے(١)نظری سماجیات:اس میں سماجی قوتوں مثلا اداروں ،اقداراور روایات وغیرہ کانظری اور منطقی مطالعہ کیا جاتا ہے.(٢)عملی یا تطبیقی سماجیات:یہ سماجی رہن سہن میں پیدا ہونے والی مشکلات اور ان کے حل سے متعلق ہوتا ہے .پیش نظر مقالے میں اسی دوسرے حصے پر روشنی ڈالی گئی ہے .
معاشرہ جن برائیوں یا مشکلات سے دوچار ہوتا ہے ،وہ تین طرح کی ہوتی ہیں (١)وہ برائیاں یا مشکلات جو شخصی ابتری کا محرک ہوتی ہیں مثلا :شراب نوشی ودیگر منشیات کی لت، جوا بازی، گداگری،خودکشی اور عصمت فروشی وغیرہ.(٢)وہ برائیاں یا مشکلات جو خاندانی بد نظمی کا داعیہ بنتی ہیں مثلا:ازدواجی زندگی میں بے ہنگمی،خاندانی الجھنیں اور طلاق وغیرہ.(٣)وہ برائیاں یا مشکلات جو پوری قوم کی بد حالی کا سبب ہوتی ہیں مثلا:فرقہ واریت،ذات پرستی، بد عنوانی اوربے روزگاری وغیرہ.
برائیا ں خواہ کسی بھی نوعیت کی ہوں ،بالواسطہ یا بلا واسطہ پورے سماج پر اثر انداز ہوتی ہیں.کیونکہ ارسطو کے بقول 'انسان ایک سماجی جانور ہے '،تجرد انسانی فطرت سے ہم آہنگ نہیں،اگر کوئی شخص دوسرے کو مشکلات میں پڑا دیکھتا ہے تو گو کہ وہ ظاہر نہ کرے مگر اس کے نہاں خانۂ دل میں اس کے لئے کہیں نہ کہیں کوئی گوشہ نرم ضرورہوجاتاہے. لہذااگرخوشحال،خوشگوار،جنت نظیر اورصحت مند معاشرہ تعمیر کرنا ہو تو برائیوں کا خاتمہ ناگزیر ہے، چاہے وہ شخصی ہوں یا خاندانی یا پھر سماجی....
ان تمام چیزوںپر سیر حا صل بحث یاان کی وجہ سے سماج اور معاشرے پر پڑنے والے اثرات پر مفصل تبصرہ کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے،لہذاصرف شراب نوشی ۔جس میں دیگر منشیات کا استعمال بھی شامل ہے۔اور فرقہ واریت۔جس کے ضمن میں ذات پرستی ،عصبیت اور علاقائیت بھی ہیں۔پر اسلامی زاویہء نظر سے گفتگو ہوگی.
شراب نوشی(Alcoholism):
ماہرین کے مطابق شرابی دو طرح ہوتے ہیں:(١)غیر عادی:ایسا شرابی جو شراب نوشی چھوڑ سکتا ہو۔(٢)عادی :ایسا شرابی جو شراب نوشی ترک نہیں کر سکتا .اسی قسم کے شرابی کو 'پریشان کن شرابی'کہا جاتا ہے.ڈاکٹر ڈرفی (Durfee)کے مطابق:''پریشان کن شرابی 'ایسا شرابی ہے جس کی شراب نوشی کے نتیجہ میں:(١)اس کی صحت خراب ،اس کا ذہنی سکون متاثر ،اس کی گھریلو زندگی ناخوشگوارہو جائے ،اس کا کاروبار خطرے میں پڑ جائے اور اس کی ناموری جاتی رہے ،اور (٢) شراب نوشی اس کی فطرت ثانیہ بن کر رہ جائے.'([2])
اکثر علماء سماجیات کا خیا ل ہے کہ یہی دوسری قسم کی شراب نوشی سماجی برائی ہے ، تو سوال یہ ہوتا ہے کہ... کیاشراب نوشی کی پہلی قسم سماجی برائی نہیں....؟بعض تجزیہ نگاروں نے اس کو بھی سما جی برائی ثابت کی ہے،اور یہ تجزیہ درست ہے بھی!دلیل یہ ہے کہ اگرچہ اس سے کوئی سماجی برائی یا پریشانی جنم نہیں لیتی مگر یہ عادی قسم کا شرابی بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے.اور قاعدہ ہے کہ برائی کی طرف لے جانے والی چیز بھی بری ہوتی ہے .جی۔آر ۔مدان(G.R.Madan)نے اس تعلق سے بڑی اچھی بات کہی ہے جس کا ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا ،لکھتے ہیں:'مشکل یہ ہے کہ ایک مرتبہ جو شخص شراب نوشی کر تا ہے، تو اس کی لت میں پڑجاتا ، اور مقدار بڑھاتا رہتا ہے .جس کے اثرات بڑے نقصان دہ ہوتے ہیں،خود پینے کے لئے اور سماج کے لئے بھی ۔جو لوگ اعتدال کے دائرے میں رہ کر شراب نوشی کرتے ہیں ان شمار حد سے زیادہ گھٹا ہوا ہے.مشہور مقولہ ہے 'once a drinker always a drinker'(جو ایک بار شراب پیتا ہے بار بار پیتا ہے ).حقیقت تو یہ ہے کہ تمام بلا نوش ابتداء میں اعتدال کے ساتھ ہی مے کشی کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ مقدار بڑھاتے رہتے ہیں حتی کہ شراب کے رسیا بن جاتے ہیں'[3]
مذکورہ بالا سطور کو غور سے پڑھیے تو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں بالکل دشواری نہ ہوگی کہ تھوڑی یا زیادہ ،ایک بار یا بار بار ،تنہا یا ندیموں کے ساتھ یا پھر محفل رقص و سرود میں شراب نوشی بہر حال خاندان ،سماج اور خود شرابی کے لئے تباہ کن ہے.اب شراب نوشی کے تعلق سے اسلامی حکم سنئے :
یا یھاالذین اٰمنواانما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون([4])
(اے ایمان والو!شراب اور جوا اور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیں ،شیطانی کام ۔تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ)
شرا ب کی تباہ کاریوں کے مد نظر اسلام نے نہ صرف یہ کہ شراب کوحرام قرار دیا بلکہ ان برتنوں کے استعما ل سے بھی باز رہنے کا حکم دیا جن میں شراب کشید کی جاتی تھی یا پی جاتی تھی ۔([5])
ظاہر ہے کہ ایسا شراب کی حرمت میں شدت پیدا کرنے کے لئے کیا گیا.لیکن اس سے ایک نفسیاتی نکتہ نکل کر سامنے آتا ہے ،کہ اگر انسان اسی برتن میں پانی پئے گا جس میں ایک مدت تک شراب نوش کر چکا ہے تو غیر شعوری طور شراب کی چاہت اس کے دل میں زندہ ہو جاے گی ۔
کہا جاتا ہے کہ 'شاعر قومی تہذیب کا ترجمان ہوتا ہے'اگر یہ بات سچ ہے تو یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ قدیم عربی سماج اور شراب میں چولی دامن کا ساتھ تھا ،کیوںکہ دور جاہلیت کی شاعری میں عورت،اونٹنی گھوڑااور محبوب کے اجڑے دیار پر آٹھ آٹھ آنسورونے کے علاوہ اگر کوئی چیز ملتی ہے تو وہ ہے شراب ...مگر بیان کیا جاتا ہے کہ 'جب مدینہ کی گلیوںمیں منادی رسول نے حرمت کاشراب اعلان کیا تو نالیوںمیں شراب برسات کے پانی کی طرح بہائی جانے لگی'([6])
کسی سماج کی اس طرح کایا پلٹ جانا جتنا تعجب خیز ہے اس سے کہیں زیادہ نادر ...اس کا سہرا اسلامی تعلیمات کی پاکیزگی اور ستھرائی کے علاوہ اگر کسی چیز کو جاتا ہے تو وہ ہے ان تعلیمات کا منطقی اور سائینٹفک ہونا.
اسلام نے انسداد شراب نوشی کا جوطریقہ اپنایا ہے سماجیات کے طالب علم اور سماجی کارکن کے لئے اس میں بہت کچھ موجود ہے .سماجیات سے دلچسپی رکھنے والوں پر یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ہر سماج کے اندر اپنی کچھ روایات ،اقداراور قیود ہوتے ہیں،جوبطور ورثہ ایک نسل سے دوسری نسل کی جانب منتقل ہوتے رہتے ہیں،خواہی ،ناخواہی سماج کے افراد کو ان پر عمل کرنا پڑتا ہے،چاہے وہ سماج اور اس کے افراد دونوں کے لئے تباہ کن ہی کیوں نہ ہو جائیں ۔لہذا اس سماج سے جہاں برائیا ں ،روایات یا اقدار کا روپ دھار لیں،برائیوں پر یکایک پابندی لگا دینے سے برائیاں ختم ہونے کے بجائے دو چند ہو جائیں گی .اس لئے ایک سماجی کار کن کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے حکیمانہ طریقہ سے سماج کو ان برائیوں سے بیزار کرے اور قابل نفرت امور بنا ئے اس کے بعد اس پر پابندی عائد کرے جیسا کہ قران نے کیا ہے ..قران میں سب سے پہلے فرمایا گیا:
فیھما اثم کبیر و منافع للناس واثمھما اکبرواثمھما اکبر من نفعھما([7])
( ان دونوں۔شراب اور جوا۔میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے کچھ دنیوی نفع بھی اوران کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے )
اسکے بعد جب لوگوں کے اندر ان سماجی بر ائیوں سے بے زاری عام ہو گئی تو کچھ مخصوص اوقات میں شراب پر پابندی عاید کی گئی..حکم ہوا:
لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری([8])( نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ )
اس کے بعد اس پر پورے طور سے پابندی لگائی گئی([9])اور اس کو قانونا جرم قرار دیا گیا جس کے مرتکب کے لئے سزا تجویز کی گئی.([10])
یہاں پر اس کا ذکر بھی بہت ضروری ہے کہ آئین اسلام کی رو سے جہاں شراب نوشی سماجی جرم ہے وہیں ان دوسری منشیات کا استعمال بھی جرم ہے جو عقل انسانی پر پردہ ڈال دیں....چنانچہ ہرنشہ آور خمر ہے اور ہر خمر حرام ہے ...ہر وہ مشروب جو نشہ پیداکرے حرام ہے ....میں ہر نشہ آور شئی سے منع کرتا ہوں ...جیسے مضامین کی حامل متعدد احادیث کتب احادیث میں درج ہیں.جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام کا جو برتاؤ شراب نوشی کے ساتھ ہے وہی برتاؤ دیگر منشیات کے استعمال کے ساتھ بھی ہے.
فرقہ پرستی(communalism):
اس پر خامہ فرسائی کرنے کے لئے سب پہلے یہ اجاگر کر دینا لازم ہے کہ 'فرقہ پرستی 'کا مفہوم کن حدوں تک پہونچتا ہے .مشہور ہندوستانی عالم سماجیات 'رام آہوجا'لکھتے ہیں:'فرقہ پرستی کو ایک نظریہ مانا جا سکتا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ سماج مختلف مذہبی فرقوں میں بٹا ہوا ہے .جن کے اغراض ومقاصد ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے اور ان میں آپسی رنجش رہتی ہے.کسی مذہبی فرقہ کے جو افراد دوسرے فرقہ کے افراد اور مذہب کے خلاف واویلا مچاتے اور ہنگامہ آرائی کرتے ہیں ،انہیں'فرقہ پرست'کا نام دیا جا سکتا .ان کا یہ ہنگامہ ۔دوسرے مذہبی فرقہ پر جھوٹی الزام تراشی ،نقصان رسانی اور ہتک عزت کی نوعیت کی ہوتی ہے اور کبھی کبھی یہ جھگڑالوٹ مار،غارت گری، بے کس و مجبور کا دکان و مکان نذر آتش کرنے،عورتوں کی عصمت دری کرنے اور بلا تفریق مرد و زن کشت وخون کا بازار گرم کرنے کا بھیانک روپ دھار لیتا ہے.([11])
تھوڑی سی خرد وبرد کے ساتھ یہی تمام باتیں ذات پرستی،عصبیت اور علاقائیت کے ساتھ بھی چسپاں کی جا سکتی ہیں،کیونکہ اس زمرے کی تمام 'پرستیوں 'میں یہی فکر کار فرما ہوتی ہے کہ انسان بحیثیت انسان بھی اپنے خاندان ،ذات،نسل،اور علاقہ کو برتر و اعلی باور کر لیتا ہے اور دوسروں کو اچھوت، نیچ ،ذلیل ا ور دوسری خمیر کا بنا ہوا فرض کر لیتا ہے.اس نظریہء تفریق کی سب بہترین مثال'ہندو سماج 'ہے.قدیم دور سے یہ چار بڑی ذاتوں میں بٹا ہوا ہے.اور کسی نہ کسی شکل یہ سماجی درجہ بندی ہنوز باقی ہے .شدید مزاحمت، احتجاج،مسلسل جدو جہد اور کئی عدد تحریکوں کے باوجود برہمن،کھتری،ویش اور شودر کے درمیان پایا جانے والا کھڈعبور نہ کیا جا سکا ..'ہندوستانی دیہات ہندی سماج کا آئینہ دار ہیں'یہ قول ماہرین کے درمیان زبان زد ہے.اور تقریبا پچہتر فی صد ملک کی آبادی دیہی علاقوںمیں رہتی .اگر ان دیہی علاقوں پر تنقیدی نظر ڈالی جائے تو ایک نہیں بیشمار گاؤں میں یہ تفریق مل جائےگی وہ بھی ایسی سنگین صورت میں کہ 'سمرتیوں' کی اساطیری دنیا کی سیر کرا دے جس میں انسانیت تو فقط 'دوج'ذاتوں کی جاگیر ہے،ان کے علاوہ شودر اور غیر ذاتوں کا وجود کتے، بلی، گدھے وغیرہ کے وجود سے زیادہ معنی نہیں رکھتا.
اسلام نے اپنے پیروکاروں کو اس طرح کی سماجی تفریق سے ہمیشہ باز رہنے کی تاکید کی.اسلامی نقطہء نظر سے تمام انسان حضرت آدم کی اولاد ہیں خواہ وہ کسی قبیلہ اور ذات کے ہوں اور بڑائی کا معیار صرف تقوی اور پرہیزگاری ہے .
یا یھا الناس انا خلقنا من ذکر وانثی وجعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ، ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم([12])اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیںشاخیںاور قبیلے کیا کہ آپس میں پیچان رکھو بے شک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے .
· اسلامی زاویہء نگاہ سے تمام انسان محترم ہیں.
ولقد کرمنا بنی آدم و حملناھم فی البر والبحر ورزقناھم من الطیبٰت و فضلناھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلا.([13])اور بے شک ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور ان کو خشکی اور تری میں سوار کیا ان کو ستھری چیزیں روزی دیں اور ان کو اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا
· غیر مذاہب کے لئے اسلام کا جو رویہ رہا ہے،پوری انسانی تاریح اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے. چنانچہ دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کی توہین سے اسلام نے منع کیا .
ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوااللہ عدوا بغیر علم([14])
اور انہیں گالی نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ اللہ کی شان میں بے ادبی کریںگے زیادتی اور جہالت سے۔
· اسلام نے اس بات کو سخت نا پسند کیا ہے کہ کسی بھی قوم کے مذہبی معاملات میں ایسی دخل اندازی کی جائے جو ان کے مذہبی امور ،تہذیب یا پرسنل لامیں خلل کے مرادف ہو.([15]) کہا جاتا ہے کہ 'Everything is fair in love and war'(محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے)،محبت کے معاملے کے ،ممکن ہے ،زمان و مکان کی حد بندیاں آڑے آئیں مگر جنگ کے معاملے میں آج کی نام نہاد 'سیکولرحکومتیں'بھی بالکل اسی طرح اس قاعدہ پر عمل پیرا ہیں ،جس طرح عرب کے دور جاہلیت یا یورپ کے دور ظلمات میں اس پر عمل کیا جاتا تھا .مگر مذہب اسلام نے یک قلم اس کو جھٹلا دیا .چنانچہ اسلامی جنگی آئین میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ کسی عورت ،بچے یا بوڈھے کو قتل نہ کیا جائے ،آبادی کو ویر ان نہ کیا جائے ،پھلداردرختوں کو کاٹا نہ جائے ،نخلستان کو نہ جلایا جائے ......قرانی حکم ہے:لا تقتلواالنفس التی حرم اللہ الا بالحق([16])(اور کوئی جان جس کی حرمت اللہ نے رکھی ناحق نہ مارو)
یہ ہے اسلام کا سماج جس میں ہر فرد کے مال واولاد، عصمت وعفت کی حفاظت کی ضمانت ہے.نہ کوئی برتر ہے ،نہ کوئی کمتر ،نہ گورے کو کالے پر فضیلت حاصل ہے ،نہ کالے کو گورے پر.سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے۔خود سوچئے ایسے سماج میں فرقہ پرستی راہ پاسکتی ہے...؟؟؟
سماجی برائیوں کی اسلامی حیثیت کا یہ ایک نمونہ ہے،جو ان چند سطور میں پیش کیا گیا .اسی طرح اگر اسلامی قوانین میں غور وفکر کیا جائے تو یہ بات روز روشن سے کہیں زیا دہ آشکارہ ہو جا ے گی کہ سماجی اصلاحات اور صحت مند معاشرے کی تعمیر یا سماج کو انارکی اور مشکلات سے بچائے رکھنے کے جتنے بھی نظریات وجود میں آئے ،مذہب اسلام کے نظریہ ء سماج کے آگے کاکالعدم قرار پائیں گے۔۔.
[1] ماخوذاز: محمد عبدالقادر عمادی، ڈاکٹر، ابتدائی سماجیات،ص١٣[1]
[2] Durfee charles,to drink or not to drink(1937)p.11
[3] Madan,G.R.,Indian social problems(i)p.154
[4] القران الکریم،المائدہ،آیۃ ٩٠
[5] وہ برتن حنتم،دبائ،نقیراور مزفت ہیں۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ رقم فرماتے ہیں کہ علماء کا قول ہے کہ ان برتنوں میں نبیذ تیار کرنا اور ان کا استعمال کرنا صدر اسلام میں حرام تھا،کیونکہ اس وقت مقصد یہ تھا کہ شراب کی نشانیوں کو مٹا دیا جائے اور اس کی حرمت میں زور پیداکیا جائے،اس کے بعد یہ حکم منسوخ کر دیا گیا۔اور یہی جمہو ر علماء کا قول ہے ۔اور بعض کاقول کہ یہ برتن ہنوز حرام ہیں،یہ امام مالک اور امام احمد رحمہمااللہ کا مذہب ہے۔ (لمعات التنقیح فی شرح مشکاۃ المصابیح ص١٠٤)
[6] بدرالقادری،مولانا ،اسلام اور امن عالم ص٢٨١۔
[7] الکریم،البقرہ،آیۃ٢١٩۔
[8] القران الکریم،النساء،آیۃ٤٣۔
[9] آیت حرمت شراب'یا ایہا الذین اٰمنواانما الخمر ۔الخ المائدہ ،آیۃ٩٠ہے
[10] حضور ؐنے شراب نوشی کی سزا میں چالیس درے لگائے کیونکہ اس میں حد قذف کا احتمال ہے اور صحابہء کرام نے شراب نوشی کے فساد کی زیادتی کے مد نظر اسی ّدرے لگائے (ماخوذ از:اسلام اور امن عالم ص٢٨٣)
[11] رام آہوجا، سماجک سمسیائیں،طبع ثانی،ص١١٩(ہندی)
[12] القران الکریم،الحجرات آیۃ ١٣
[13] القران الکریم ،بنی اسرائیل،آیۃ٧٠
[14] القران الکریم،الانعام آیۃ١٠٨
[15] لا یحال بینہم وبین شرائعہم(ان کے اور ان کی شریعتوں کے درمیان حائل نہ ہوا جائے)،تاریخ الطبری،جز٤،ذکر الخبر عن وقعۃالمسلمین والفرس بنہاوند،بحوالہ اسلام اور امن عالم ص٣٦
[16] القران الکریم،الانعام
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.