You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ﴿۲۷۸﴾ فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖۚ (پ ۳،البقرۃ:۲۷۸،۲۷۹)
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑدو جو باقی رہ گیاہے سود ا گر مسلمان ہو پھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کرلو اللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کا۔
اللہ عزوجل سے لڑائی کا مفہوم:
سود خور اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کرتاہے اور اللہ عزوجل اس سے جنگ کااعلان فرماتاہے ۔ ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جس کے اور اللہ عزوجل کے درمیان جنگ ہواور اس سے اللہ عزوجل کی ناراضگی ہو۔
شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم كافرمانِ عبرت نشان ہے:
جس نے سود کھایااگرچہ ایک ہی درہم ہو توگویااس نے اسلام میں اپنی ماں سے زنا کیا۔
سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک ومختار باِذنِ پروَردْگارعزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم كافرمان ہے :
عذاب کے فرشتے سود کھانے والوں کو اس طرح پچھاڑے دیں گے جس طرح سخت بخار والا پچھاڑے کھاتاہے ۔
تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نُبوت، مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِعظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزت،محسنِ انسانيت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کافرمانِ ذیشان ہے :
اللہ عزوجل نے سود لینے والے،سود دینے والے،سود کے گواہ اور سودکے لکھنے والے اور گودنے اور گدوانے والی (اس سے مراد سُوئی سے جسم میں چھید لگا کر اس میں رنگ یا سرمہ بھرناہے) اور حلالہ کرنے والے اور حلالہ کروانے والے ۱؎ اور زکوٰۃ ادانہ کرنے والے سب پرلعنت فرمائی ہے۔
===========================
۱؎: صدرالشریعہ، بدرالطریقہ مفتی محمد امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی در مختار کے حوالے سے فرماتے ہیں:
نکاح بشرط ِ التحلیل جس کے بارے میں حدیث پاک میں لعنت آئی وہ یہ ہے کہ عقد نکاح یعنی ایجاب و قبول میں حلالہ کی شرط لگائی جائے اور یہ نکاح مکروہ ِ تحریمی ہے ۔ زوج ِاول وثانی اور عورت تینو ں گناہ گار ہوں گے مگر عورت اس نکاح سے بھی بشرائط حلالہ شوہرِ اول کے لیے حلال ہوجائے گی اورشرط باطل ہے اور شوہرِثانی طلاق دینے پر مجبور نہیں اور اگر عقد میں شرط نہ ہواگرچہ نیت میں ہوتو کراہت اصلاً نہیں بلکہ اگرنیتِ خیرہو تو مستحق ِاجرہے ۔
(بہار شریعت ،ج۲،حصہ ۸،ص۷۲، مکتبہ رضویہ باب المدینہ کراچی)
============================
اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کافرمان ہے:
آخری زمانے میں چار بری خصلتیں ظاہر ہوں گی:
(۱)سود کھانا
(۲)خرید وفروخت میں جھوٹی قسم کھانا
(۳)ناپ اور
(۴)تول میں کمی کرنا۔
جب یہ برائیاں ظاہر ہوں گی تو لوگوں میں کئی طرح کے امراض پھوٹ پڑیں گے اور اللہ عزوجل ان کو خونریزی میں مبتلاء کرد ے گا۔
(۳)اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے :
یَوْمَ یَقُوۡمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ؕ﴿۶﴾ (پ ۳۰،المطففین:۶)
ترجمہ کنزالایمان :جس دن سب لوگ رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔
(یعنی سب کھڑے ہوں گے) سوائے سود خور کے کہ وہ کھڑاہونا چاہے گا لیکن مجنون اور مخبوط الحواس(یعنی بے ہو ش) ہو کر گر پڑے گا یہاں تک کہ لوگ حساب سے فارغ ہو جائيں گے۔
حُسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کافرمانِ عبرت نشان ہے :
جس شخص نے جتناسود کھایااللہ عزوجل اُتناہی اس کے پیٹ کو آگ سے بھرے گااور اگر اس نے (سود سے)کوئی مال کمایاتو اللہ عزوجل اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گااور سود خور اس وقت تک اللہ عزوجل کی ناراضگی اور لعنت میں رہتا ہے جب تک اس کے پاس ایک بھی سودی قیراط (ایک مقدارکا نام ہے ) موجود ہوتاہے۔
شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم كافرمان ہے :
سونے کے بدلے سونا اور چاندی کے بدلے چاندی برابربرابر ہوناچاہے اور جو زائد (یعنی سود)ہے اس کے ذریعے سود لینے والے کو جہنم میں داغاجائے گااور سود نیکیوں کو ختم کرتا،عبادات کو باطل کرتااور گناہوں کو بڑھاتاہے۔ اور جس روزہ دار نے سود کے مال سے افطار کیا اللہ عزوجل اس کا روزہ قبول نہیں فرمائے گااور جس نے اس حال میں نماز پڑھی کہ اس کے پیٹ میں حرام(یعنی سود)تھا اللہ عزوجل اس کی نماز قبول نہ فرمائے گااور اگر اس سودی مال سے صدقہ کیاتو اللہ عزوجل اس کاصدقہ قبول نہ فرمائے گااور سود خو ر پر بروزِ قیامت کوئی لمحہ ایسانہ گزرے گاکہ اللہ عزوجل اس پرلعنت نہ فرمائے۔
یاد رکھئے! حق تعالیٰ کاسود خور سے اعلانِ جنگ ہے اور وہ اس کی طرف نظرِ رحمت فرمائے گا نہ اس سے کلام فرمائے گا۔ پس اے بندے !تُو اللہ عزوجل سے جنگ میں اپنی کمزوری پر نظر ڈال کہ کون مغلوب ہوگااور جہنم میں ڈالا جائے گا۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.