You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سورۃ الکوثر مکی یا مدنی"ایک تحقیق"
﷽
حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ لکھتے ہیں :
امام ابن مردودیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ سورۃ ” انا اعطینک الکوثر۔“ مکہ میں نازل ہوئی ہے، نیز امام ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کی مثل روایت کیا ہے۔ (الدالمنثور ج ٨ ص 589 داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
حافظ سیوطی نے الاتفان ج ١ ص ٧٠ میں اس کے خلاف لکھا ہے : وہ لکھتے ہیں :
صحیح یہ ہے کہ سورۃ الکوثر مدنی ہے، علامہ نووی نے شرح مسلم میں اس کو ترجیح دی ہے اور اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے :
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے، اچانک آپ کو اونگھ آگئی، آپ نے مسکراتے ہوئے سربلند کیا اور فرمایا : ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے، پھر آپ نے پڑھا :” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، انا اعطیناک الکوثر۔ فصل لربک وانحر۔ ان شانئک ھوالابتر۔“ پھر آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ کوثر کیا چیز ہے ہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کو زیادنہ علم ہے، آپ نے فرمایا : یہ وہ نہر ہے جس کا میرے رب عزو جل نے مجھ سے وعدہ کیا ہے، اس میں خیر کثیر ہے اور یہ وہ حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری امت وارد ہوگی، اس کے برتن ستاروں کے عدد کے برابر ہی، اس پر ان میں سے ایک بندہ وہاں سے نکالا جائے گا، میں کہوں گا : اے میرے رب ! یہ میرا امتی ہے، پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا : آپ از خود نہیں جانتے کہ اس نے آپ کے بعد دنی میں کیا نیا کام نکالا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٠٠ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٧٨٤ سنن نسائی رقم الحدیث : ١٩٠٤ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ١١٧٠٣)
علامہ نووی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں سونا جائز ہے، اور یہ کہ اپنے اصحاب کے سامنے سونا جائز ہے اور یہ کہ انسان اپنے اصحاب کے سامنے کسی بات پر مسکرائے تو اس کا سبب بیان کرنا جائز ہے، لیکن علامہ نووی نے اس کی شرح میہ نہیں لکھا کہ سورۃ الکوثر مکی ہے یا مدنی ہے، جیسا کہ حافظ سیوطی نے فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم بشری النووی ج ٢ ص ٥٥٥ مکتبہ نزار مصطفیے مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
امام بخاری نے کوثر کے متعلق جوا احادیث روایت کی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ الکوثر مکی ہے کیونکہ ان احادیث میں یہ تصریح ہے کہ آپ کو نہر کوثر شب معراج میں عطا کی گئی اور معراج آپ کو ہجرت سے ڈیڑھ سال پہلے مکہ میں ہوئی تھی، اس سے واضح ہوا کہ سورۃ الکوثر مکی ہے۔ امام بخاری نے سورۃ الکوثر کی تفسیر میں جو احادیث درج کی ہیں، وہ یہ ہیں :
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آسمان کی طرف معراج کرائی گئی تو آپ نے فرمایا : میں ایک نہر (دریا) پر آیا، جس کے دونوں کناروں پر کھوکھلے موتیوں کے گنبدتھے، میں نے کہا : اے جبریل یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا، یہ کوثر ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث، ٤٩٧٤-٣٥٧٠ صحیح مسلم رقم الحدیث ١٦٢ )
ابوعبیدہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے ” انا اعطینک الکوثر۔“ (الکوثر : ١) کے متعلق سوال کیا تو حضرت عائشہ نے فرمایا : یہ وہ نہر ہے جو تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کی گئی ہے، اس کے دونوں کناروں پر کھوکھیل موتی ہیں اور اس کے برتنوں کے تعداد ستاروں کی مثل ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٩٦٥ )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے الکوثر کی تفسیر میں فرمایا : یہ وہ خیر ہے جو اللہ نے آپ کو عطا کی ہے، ابو بشر بیان کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر سے کہا : لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ” الکوثر“ جنت میں نہر ہے، سعید نے کہا : جو نہر جنت میں ہے وہ بھی اس خیر کا فرد ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٩٦٦ )
حافظ شہاب الدین احمد علی بن حجر عسقلانی متوفی ١٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
سعید بن جبیر کے قول کا حاصل یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا ہے کہ ” الکوثر“ خیر کثیر ہے، یہ ان لوگوں کیقول کے خلاف نہیں ہے، جنہوں نے کہا ہے : اس سے مراد جنت میں نہر ہے، کیونکہ جنت میں نہر بھی خیر کثیر کے افراد میں سے ہے اور شاید کہ سعید بن جبیر نے یہ اشارہ کیا ہے کہ حضرت ابن عباس کی تاویل اپنے عموم کی وجہ سے اولیٰ ہے، لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ سے ” الکوثر“ کی نہر کے ساتھ تخصیص ثابت ہے، لہٰذا اس سے عدول نہیں کرنا چاہئے۔ (فتح الباری ج ٦ ص ١٤٢، دارالمعرفہ، بیروت، ١٤٢٦ ھ)
علامہ شہاب الدین احمد بن محمد خفا جی حنفی متوفی ١٠٦٩ ھ لکھتے ہیں :
علامہ سہیلی متوفی ٥٧١ ھ نے لکھا ہے کہ اس سورت کے مکی یا مدنی ہونے میں اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے کہ جب آپ کے صاحبزادے حضرت قاسم فوت ہوگئے تھے تو ابوجہل لعنہ اللہ نے یا عاص بن وائل نے آپ کو معاذ اللہ ابتر کہا تھا، اس وقت یہ سورت نازل ہوئی تھی، اس قول کی بناء پر یہ سورت مکی ہے اور یہی قول مشہور ہے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٠٠) کی بناء پر یہ کہا گیا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے۔ (عنایتہ القاضی ج ٩ ص ٥٧٧ دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٧ ھ)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.