You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سستی
---------
چند دن قبل میرے دوست احباب پاکستان کی بگڑتی ہوئی سیاسی و معاشی حالت پر تبصرہ کررہے تھے۔کوئی کسی پارٹی کو نشانہ بنا رہا تھا کوئی کسی سیاسی پارٹی کو نشانہ بنا رہا تھا ۔الغرض ہر کوئی اپنے مد مقابل پارٹی کو قصور وار ٹھرا رہا تھا۔اور اسی کشمکش میں بغیر کسی نتیجہ پر پہنچے مجلس برخواست ہو گئی۔لیکن میرے ذہن میں یہ سوال بدستور قائم رہا کہ آخر اس بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیچھے کونسی طاقت کار فرما ہے ؟ جو ہماری ترقی کی راہوں میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے؟جو ہمیں بلندیوں سے پستی کی طرف لے جارہی ہے ؟ جو ہمیں غالب سے مغلوب کرنے کے در پہ ہے ؟جو ہمارے وقار کو مجروح کر رہی ہے؟اسی جستجو میں دوران مطالعہ حضرت عمر بن عبدالعز یز رضی اﷲ عنہ کا ایک ایمان افروز واقعہ میری نظر سے گزرا جس نے میرے ذہن میں پیدا ہونے والے تمام سوالات کا ایسا جامع جواب فراہم کیا کہ جسکا انکار نا ممکن ہے جسکو دنیا کی کوئی طاقت ٹھکرا نہیں سکتی ۔حضرت جلال الدین سیوطی رضی اﷲ عنہ حضرت یونس بن شبیب رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہے کہ یو نس فرماتے ہیں کہ میں نے جب حضرت عمر بن عبد العزیز ر ضی اﷲ عنہ کو خلافت سے پہلے دیکھا تو ان کے پاجامہ کا نیفہ ان کے موٹاپے کی وجہ سے ان کے شکن میں گھسا ہوا تھا مگر جب زمانہ خلافت میں دیکھا تو آپ کی پسلی کی ہر ہڈی بغیر ہاتھ لگائے گنی(شمار)جاسکتی تھی (تاریخ الخلفاء ) یعنی حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ عنہ نے اقتدار میں آتے ہی تمام اسائشوں کو ترک کر دیا ۔اسی وجہ سے ان کے اقتدار کی نظیر نہیں ملتی ۔کیونکہ آسائش،آرام پرستی ،لگژری وہ دیمک ہے جب کسی قوم میں داخل ہو جاتی ہیں تو اسکو مکمل طور پر ہڑپ کر جاتی ہیں۔لگژری ہی وہ عفریت ہے جو قوموں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیتی ہے ۔آرام پرستی انسان کو سمجھوتے پر مجبور کرتی ہے اور سمجھوتے میرٹ،انصاف ،مساوات کے اصولوں کو چاٹ جاتے ہیں ۔اور یہی سستی ،نا اہلی اورغداری پیدا کرتی ہیں اور یوں روم کی حکمرانی ہو ،یونان کی بادشاہت ہو ،اندلس کی سلطنت ہو،مغل شہنشاہت ہو یا پھر ترک خلافت ہو دنیا کی بڑی مملکتیں خاک کا پیوند ہو جاتی ہیں ۔اور تاریخ کے طالب علموں کے علاوہ کوئی انکے نام تک سے واقف نہیں ہوتا ۔روم دنیا کا پہلا شہر تھا جس نے دس لاکھ کا ہندسہ چھوا تھا ،ایک سو تین قبل مسیح میں روم میں دس لاکھ لوگ آباد تھے،حکومت پورے شہر میں گرم پانی سپلائی کرتی تھی ،شہر میں نہانے کے سولہ سو تالاب تھے ،تمام گلیاں پکی تھی،اور حکومت ان گلیوں میں مشعلیں روشن کرتی تھی ،روم کے تمام لوگوں کے پاس ذاتی مکان تھے ،تمام لوگ تعلیم یافتہ تھے ،روم کے تمام شہری اوسطاایک کلو سونے کے مالک تھے ،روم کی سلطنت چھ براعظموں میں پھیلی ہوئی تھی ،لیکن رومن ایمپائر میں آرام پرستی ،سکون طلبی ،آسائش،سستی داخل ہوئی وہاں سمجھوتے ،بے انصافی اور ظلم شروع ہوئے اور پھر وہاں ایسے ظالم ،حریص اور مفادپرست بادشاہ آئے جن میں قوت فیصلہ کی بھی کمی تھی اور جو متلون مزاج تھے ،چناچہ یہ سلطنت تاریخ کے اوراق میں جذب ہو گئی ۔سکندر اعظم نے آدھی دنیا روندھ ڈالی ،سکندر اعظم کی سلطنت 51ممالک پر قائم تھی ،لیکن اس پر بے انصافی ،سمجھوتے اور ظلم کا سورج طلوع ہوا ۔اور یہ بھی تاریخ میں سمٹ کر رہ گئی۔ہندوستان چھوٹا براعظم کہلاتا تھا ،اس پر مغلوں نے کم وبیش ہزار سال حکومت کی ،لیکن پھرانگریزوں نے بہادرشاہ ظفر کی پگڑی کھول کر اس کے گلے میں ڈال دی ،اور ہندوستان کے آخری تاجدار نے عمر کی گھڑیاں رنگوں میں دن گنتے گنتے گزار دیں۔مسلمان ہمیشہ اندلس پر فخر کرتے ہیں اور فخر کرنا بھی چاہیے۔کیونکہ جب لندن ،پیر س ا ور ایمسٹرڈیم کی گلیوں میں فٹ فٹ کیچڑ ہوتا تھا اسوقت قرطبہ شہر میں اڑھائی لاکھ پکے گھر تھے ،اسیّ ہزار چار سو دکانیں تھی ،او ر سولہ سومساجد تھی ،اس وقت قرطبہ شہر کے ہر گھر میں لائبری تھی،پوری دنیا سے کتب نیلام ہونے کے لئے قرطبہ پہنچتی تھی ،لیکن اس سلطنت میں سستی ،آرام طلبی،عیش پرستی داخل ہوئی اور اندلس کا آخری بادشاہ ابو عبداﷲ محمد فری ڈی ننڈ (Fredi nend) کو الحمراء کی چابیاں سونپ کر مراکش کے شہر فیض چلا گیا اور اس نے آخری عمر فیض میں بھیک مانگ کر گزار دی ۔جبکہ پانچ برس بعد اندلس میں ایک بھی مسلمان باقی نہ رہا ۔آج یورپ،سنٹرل ایشیاء،چین،مراکش اور بیت المقدس تک پھیلی سلطنت کہاں ہے ؟بنوامیہ ،بنوعباس اور ترکوں کی خلافت کہاں گئی؟کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہ اسلامی ریاست جس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا وہ سورج کی کرنوں کے ساتھ ہی رخصت ہو گئی ۔امیرتیمور کی بادشاہت54ممالک تک پھیلی تھی وہ ریاست کہاں ہے؟پرتگال نے ہندوستان کے دروازے تک دستک دی تھی۔برطانیہ 68ممالک کا مالک تھا اور روس نے کرہ ارض کے آدھے حصے پر سرخ لکیر کھینچ دی تھی روم ،چچنیا،فلسطین،عراق،اٹلی،سپین،افغانستان ان تمام ممالک پر اسلامی راج ہوتاتھا ۔لیکن یہ ساری سلطنتیں کہاں ہیں؟کیا یہ سب ریاستیں ہوابن کر ہوا میں تحلیل نہیں ہو گئیں۔کیوں؟کیونکہ یہ بھی آرام پرستی،سستی،لگژری کے مرض میں مبتلاہوگئی تھیں اور ان میں بھی بے انصافی،ظلم اور سمجھوتے شروع ہو گئے تھے۔دنیا کی کوئی بھی زوال پزیر قوم کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لی جائے تو معلو م ہو گا انکی بربادی کا ایک سبب آرام پرستی ،سستی ،کاہلی ،اور لگژری تھا ۔
اگر آرام پرستی کو ترک کیا ہوتا تو یروشلم کو بارہ مرتبہ روندہ نہ گیا ہوتا ۔آج مسلم ممالک پر قبضہ نہ ہوتا۔ آل سعود نے جنت البقیع اور دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مزارات کو مسمار کرنے کی ناپاک جسارت نہ کی ہو تی۔
ابن عبدالوہاب کو گنبدخضراء کو معاذاﷲ صنم اکبر کہنے کی جراء ت نہ ہوتی۔
آج ہمارے ملک میں نظام مصطفی کا راج ہوتا۔آج عالمی منڈیوں میں یہودی کمپنیوں کا قبضہ نہ ہوتا ۔ لیکن معذرت کے ساتھ آج حرم شریف میں اذان یہودی ساؤنڈ سسٹم پر دی جا تی ہے ۔اور مسجد نبوی لے لئے ائر کنڈیشنر سسٹم عیسائی کمپنی سے خریدا جاتا ہے ۔جبکہ 90فیصد ٹوپیاں ،جائے نمازچین سے برآمد ہوتی ہے ۔
اسی اثنا ء میں جب پاکستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر کلام کیا جاتاہے تو کہا جاتا ہے کہ
ِـ‘‘یہ ملک اﷲ نے بنایا تھا اور اﷲ ہی اسکی حفاظت کرے گا ‘‘
یہ بات کہنے والوں کو غور کرنا چاہیے1971ء تک کا پاکستان بھی اﷲ نے بنایا تھا ۔تو پھر وہاں اﷲ نے حفاظت کیوں نہ کی؟ہاں!اﷲ حفاظت فرماتا ہے اﷲ مدد کرتا ہے ۔لیکن اس قوم کی جو آرام پرست نہ ہو،جو قوم ظالموں ،بے ایمانوں ،نا انصافوں اور عیش پرستوں سے خالی ہو ۔اے میرے پاکستانی ،میرے مسلمان بھائی اگر اﷲ کی مدد کا طلبگار ہے تو اپنے اندر سے عیش پرستی کو ختم کرنا ہوگا۔
وگرنہ پاکستان کا حال بھی وہی ہوگا جو یونان کا ہوا ،جو اندلس کا ہوا،جو فلسطین کا ہوا ،جو کشمیر کا ہوا ،جو عراق کا ہوا۔اس سے پہلے کہ ہمارا نام تاریخ کی کتا بوں میں دفن ہو جائے ہمیں اپنی حا لت زار پر غور کرنا ہو گا ۔اور اپنے اندر پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔
-----------------------------------------------------
نا سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے مسلمانوں
تمھا ری داستاں تک نہ رہی گی داستانوں میں
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.