You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ:اسلام کی عظیم اور اولین درس گاہ کے ممتاز طالب علم
-------------------------------------------------------------------
سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ:ذخیرۂ حدیث کے سب سے بڑے راوی
====================================
کمال وخوبی والے نبی احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ نے بے شمار لوگوں کو کمال وخوبی والا بنایااور حقیقت میں کمال وخوبی والا وہ شخص ہے جو دوسروں کوبھی کمال وخوبی والا بنادے۔
رسول اکرم ﷺکا یہ فیض ہمیشہ جاری رہے گا،آقا علیہ السلام صبح قیامت تک اپنے جاں نثاروں کوکمال وخوبی والا بناتے رہیں گے۔
پیارے مصطفی ﷺ نے جن لوگوں کو کمال وخوبی والابنایاان میں سے ایک مشہور ومعروف ذات مبارکہ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے جو کہ رسول اللہ ﷺ کی قائم کردہ اسلام کی سب سے پہلی یونی ورسٹی ’’صفہ‘‘ کے ممتاز طالب علم اور فن حدیث کے ماہر ہیں۔جنہوں نے براہ راست مشکوٰۃ نبوت ﷺسے فیض حاصل کیاہے۔
زمانۂ جاہلیت میں میں آپ کانام عبد الشمس یاعبدعمروتھا۔
اسلام میں آپ کانام عبداللہ یاعبدالرحمن ہوا۔
قوی یہ ہے کہ آپ دوسی ہیں،حاکم اور ابواحمدکہتے ہیں کہ آپ کانام عبدالرحمن بن صخر ہے ۔
(نزھۃ القاری ،کتاب الایمان،ص249)
آپ کی کنیت ’’ابوہریرۃ‘‘ہے اور یہ کنیت اس قدر مشہور ہوئی کہ آپ کااصل نام بھی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
اس کنیت کی وجہ یہ ہے کہ آپ کوبلی بڑی پیاری تھی،حتیٰ کہ ایک بار آستین میں بلی لئے ہوئے تھے۔
حضورﷺنے فرمایا:
’’تم ابوہریرہ یعنی بلیوں والے ہو‘‘۔
تب سے آپ اس کنیت سے مشہور ہوگئے،
(نزھۃ القاری ،کتاب الایمان،ص249،مراۃ المناجیح ، ج1 ، ص 46)
ولادت وقبیلہ:
آپ کانسبی تعلق قبیلۂ دوس سے ہے
(ترمذی شریف مترجم اردو،ابواب المناقب،جلددوم،ص؍752)
دوس قبیلہ عرب قبیلے ’’ازد‘‘کی ایک شاخ ہے جبکہ اس نے اپنے مورث اعلیٰ’’دوس‘‘کے نام کی نسبت سے شہرت پائی ہے۔
بنودوس’ ’یمن‘‘ کے ایک گوشے میں آباد تھے۔
آپ کی ولادت ہجرت نبوی ﷺ سے تقریباً چوبیس برس قبل ہوئی۔
قبول اسلا م:
7؍ہجری میں خیبر کی فتح کے سال ایمان لائے اور غزوۂ خیبر میں شریک ہوئے۔پھر حضورﷺ کے ساتھ سایہ کی طرح رہے۔علم کابہت شوق تھا۔ہردم حضورﷺ کے ساتھ رہتے تھے۔اللہ پاک نے آپ کوغضب کاحافظہ دیاتھا۔
(جامع الاحادیث،حالات راویان حدیث،426)
قبول اسلام کے بعد سے حضورﷺ کے پردہ فرمانے تک یعنی محرم 7؍ہجری تاربیع الاول 11؍ہجری تک آپ کی چار سالہ زندگی کاحاصل آقاعلیہ السلام کی خدمت کرنا،رخ والضحیٰ کی زیارت کاشرف حاصل کرنااورعلوم ومعارف کے سرچشمہ فیض بارگاہِ نبوت ﷺ سے سیرابی اور حصول فیض کرناتھا۔
سفر ہویاحضر،خلوت ہویاجلوت،رات ہویادن،امن ہویاجنگ کاموقع،صحت ہویابیماری،خوشی کے لمحات ہوں یارنج والم کی گھڑیاں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول گرامی وقارﷺ کی خدمت میں حاضر رہنے کے لیے بیتاب وبے قرار رہتے تھے۔اس نیک مقصد کے حصول کے خاطر آپ نے ازدواجی زندگی کوخیرآباد کہا،ذریعہ معاش ترک کیا اور اصحاب صفہ کی نفوس قدسیہ کی جماعت میں شامل ہوکرفقروفاقہ کے عالم میں زندگی گزاری۔
تقریباًتین سال سے زائد عرصہ آپ نے اسلام کی اس عظیم اور اولین درس گاہ کے ممتاز طالب علم کی حیثیت سے گزارا۔اس دوران مصیبتوں اور پریشانیوں کے پہاڑٹوٹے،فقروفاقہ کے طوفان اٹھے،رنج والم کی گھٹائیں چھائیں،صبرآزمالمحات کی برسات ہوئی مگر آپ نے ان تمام باتوں کو برداشت کیا اور دامن مصطفی ﷺ سے وابستہ رہے۔
حصول علم کے لیے قربانی:
غزوۂ خیبر کے موقع پرآپ سب سے پہلے حضورﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اور پھر آخرحیات مقدسہ تک حاضربارگاہ رہے۔آپ نے اس زمانہ میں کس طرح زندگی کے ایام گزارے ،
فرماتے ہیں:
’’خداوندقدوس کی قسم!میں بھوک سے جگرتھام کے زمین پر بیٹھ جاتا اورپیٹ پرپتھرباندھ لیتاتھا،منبررسول اور حجرۂ مقدسہ کے درمیان کبھی چکرا کر گر پڑتا ، لوگ سمجھتے میں پاگل ہوں حالانکہ یہ صرف بھوک کااثرتھا۔
(تدوین حدیث مع اصول حدیث،35)
ان جان فشانیوں کے عالم میں بھی آپ نے حضورﷺ کے شب وروز،عادات واطوار،اخلاق واوصاف اور اقوال وفرمودات کواپنے قلب وذہن میں محفوظ کرلینے کامشن جاری رکھا۔
قوی حافظے کاسبب:
پہلے آپ کاحافظہ اتنا قوی نہیں تھا،ایک بار خدمت اقدس ﷺ میں حاضر ہوئے،ضعفِ حافظہ کی شکایت کی،مختار نبی ﷺنے فرمایا:
اپنی چادر پھیلائو،انہوں نے چادر پھیلادی، حضور اکرم ﷺ نے دوچلّواس میں ڈالاپھرحکم دیاکہ چادر سینے سے لگالو،انہوں نے ایسا ہی کیا۔
فرماتے ہیں:
پھرمیراحافظہ اتناقوی ہوگیا کہ اس کے بعد سے پھرکچھ نہیں بھولا۔ (بخاری،کتاب العلم،بحوالہ نزھۃ القاری ،کتاب الایمان،ص249،ترمذی شریف مترجم اردو،ابواب المناقب،جلددوم،ص؍752)
اس کے بعد آپ کے علم کاعالم یہ ہواکہ خود ہی ارشاد فرماتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ سے میں نے دوتھیلے
(علم کے)سیکھے،ایک کومیں نے عام کردیادوسرے اگرظاہرکردوں تولوگ میرانرخرہ کاٹ ڈالیں۔
(صحیح بخاری شریف عربی مترجم،کتاب العلم،ص154)
امام بخاری فرماتے ہیں نرخرہ جہاں سے کھانااترتاہے ۔
اس کی منظرکشی محب گرامی ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی نے یوں کی ؎
نبی کے دست مبارک کی برکتیں دیکھو عطا کی حفظ کی دولت ابوہریرہ کو
دوسی تم سے سبقت لے گیا:
حاکم رحمۃ اللہ علیہ حضرت محمد بن قیس بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اوران سے کوئی بات پوچھی۔
انہوں نے فرمایا:
تم ابوہریرہ کے پاس چلے جائواور ان سے یہ مسئلہ دریافت کرلو کیونکہ ایک دفعہ میں،ابوہریرہ اور ایک تیسراشخص مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور دعائیں مانگ رہے تھے۔اتنے میں رسول خداﷺ تشریف لے آئے۔میں اور میراساتھی دعاکرتے،تورسول اللہ ﷺ ہماری دعاپر آمین فرماتے ،پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے دعاکی۔
ان کی دعاکے کلمات یہ تھے،
ترجمہ:
یااللہ !میں تجھ سے انہی چیزوں کاسوال کرتاہوں جن کاسوال میرے ساتھیوں نے کیاہے۔ مزیدبرآں میں تجھ سے ایسے علم کاسوال کرتاہوں جوکبھی فراموش نہ ہو۔حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: آمین۔
ہم نے عرض کی :
یارسول اللہ ﷺ!ہم بھی ایساعلم مانگتے ہیں جوکبھی فراموش نہ ہو۔
رسول گرامی وقارﷺ نے فرمایا:
’’اس معاملے میں دوسی تم سے سبقت لے گیاہے‘‘۔
(الخصائص الکبریٰ،جلددوم،ص484)
یعنی کہ علم نہ بھولنے جیسی اہم خصوصیت خالص حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئی ۔
مجاہدانہ زندگی:
خالق کائنات نے جہاں آپ کو علم وفضل سے نوازاتھا وہاں آپ کے قلب مبارک میں جذبۂ جہاد بھی موجزن فرمایاتھا۔
عہد رسالت میں غزوۂ خیبر 7؍ھ میں شرکت فرمائی،اس کے علاوہ آپ غزوۂ وادی القریٰ(غزوۂ فدک)،غزوۂ ذات الرقاع،غزوۂ فتح مکہ،غزوۂ تبوک اور بعض سرایامیں بھی شریک رہے۔
جب عہد صدیقی میں فتن ارتدادکے شعلے بھڑکے تو ان نازک لمحات میں بھی آپ ان مخلص مومنین میں شامل تھے جنہوں نے سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ کے زیرامارت ان فتنوں کی بیخ کنی کی۔
عہدفاروقی آیاتواس میں بھی ملک شام کے جہاد اور جنگ یرموک میں تاریخ جہادرقم کی۔
سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعدعہدِ عثمانی میں’’بلنجر‘‘اور آرمینیہ جرجان وغیرہ کی لڑائیوں میں بھی آپ کی شمولیت کاتذکرہ ملتاہے۔
کثرت روایات کاسبب:
صحابہ کرام بسااوقات دن میں تجارت اور کھیتی باڑی میں مشغول رہتے تھے لہٰذاجن کو روزآنہ حاضری کاموقع نصیب نہ ہوتاتووہ اس دن حاضر رہنے والے حضرات سے کسی جدید طرزعمل اور اس دن کی مکمل کارکردگی سے واقف ہونے کے لیے بے چین رہتے۔
بعض دیوانۂ عشق ومحبت وہ بھی تھے جنہوں نے خانگی الجھنوں سے سبکدوشی بلکہ کنارہ کشی اختیار کرکے آخر وقت تک کیلئے یہ عہدوپیماں کرلیاتھاکہ اب اس درکوچھوڑکرنہ جائینگے۔
اصحاب صفہ کی جماعت اس پر پوری طرح کاربندرہتی اور شبانہ روزان کا مشغلہ یہ ہی رہ گیاتھاکہ جوکچھ محبوب کردگارسے سنیں یادرکھیں اور اس کواپنی زندگی میں جذب کرلیں۔اس جماعت کے سرگروہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں،جوذخیرۂ حدیث کے سب سے بڑے راوی شمار ہوتے ہیں،
لوگوں کوان کی کثرت روایت پرکبھی تعجب ہوتاتوفرماتے:
’’تم لوگ کہتے ہوکہ ابوہریرہ،رسول اکرم ﷺ کی بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتاہے اور یہ بھی کہتے ہوکہ مہاجرین وانصار اتنی حدیثیں کیوں نہیں بیان کرتے ،توسنو، مہاجرین تواپنی تجارت میں مصروف رہتے اورانصار کامشغلہ کھیتی باڑی تھا اور میراحال یہ تھاکہ میں صرف پیٹ پر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر رہتا،جب انصارومہاجرین غائب رہتے میں اس وقت بھی موجود ہوتا،اصحاب صفہ میں ایک مسکین میں بھی تھا،جب لوگ بھولتے تومیں احادیث یادرکھتاتھا۔
(نزھۃ القاری،کتاب الایمان،ص249،مسند احمد بن حنبل ، بحوالہ : تدوین حدیث مع اصول حدیث،ص34)
اس کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ حضورﷺ نے آپ کی یادداشت کے لیے دعاکی تھی جس کااثریہ ہواکہ فرماتے ہیں۔
’’میں پھرکبھی حضورپاک ﷺ کی حدیث نہیں بھولا‘‘۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
ابوہریرہ!ہم میں سے تم سب سے زیادہ حضورﷺ کی مجلس میں بیٹھتے اور سب سے زیادہ حدیثیں یاد رکھتے تھے۔
(ترمذی شریف مترجم اردو،ابواب المناقب،جلددوم،ص؍753)
حفظ وضبط کی نادر مثال:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے 5372؍احادیث مروی ہیں،حضوراقدس ﷺ نے ان کی یادداشت کے لیے دعاکی تھی جس کے نتیجہ میں آپ فرماتے تھے کہ پھر میں کبھی کوئی حدیث نہیں بھولا،آپ کے اس دعویٰ پر ہوسکتاہے کچھ شک گذراہوکہ ایک دن مروان بن الحکم نے آپ کوبلایا،مروان کے سکریٹری ابوالزعزہ کابیان ہے کہ مجھے پہلے ہی حکم مل چکاتھاکہ پردہ کے پیچھے بیٹھ کر جوکچھ بیان کریں لکھتاجائوں،بہرحال یہ ہی ہوا،مروان مختلف انداز سے سوالات کرتا اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ احادیث کریمہ بیان کرتے جاتے اور میں پس پردہ لکھتاجاتاتھا،یہاں تک کہ ایک اچھاخاصہ مجموعہ تیار ہوگیا لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوکچھ خبرنہ تھی۔اس کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ چلے گئے اور وہ مجموعہ بحفاظت رکھ دیاگیا۔
ابوالزعزہ کہتے ہیں:
مروان نے اس مجموعہ کوایک سال تک رکھ چھوڑا،اس کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوپھر بلایااور مجھے بٹھاکر آپ سے وہی احادیث پھرپوچھیں،میں کتاب دیکھتاجاتاتھا،پوری کتاب سنادی لیکن نہ کسی لفظ کااضافہ تھااور نہ کمی۔
(تدوین حدیث مع اصول حدیث،ص ؍98)
گویایہ آپ کاامتحان تھا جس میں آپ دعائے رسول ﷺ کی بدولت فائزالمرام رہے اور اہل دربارنے آپ کے قوت حافظہ کی توثیق کی۔
کتابت حدیث:
حضرت حسن بن عمروبیان کرتے ہیں:
میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک حدیث پڑھی،آپ نے اس کوتسلیم نہ کیا،
میں نے عرض کیا:
یہ حدیث میں نے آپ ہی سے سنی ہے،
فرمایا:
اگرواقعی تم نے یہ حدیث مجھ سے سنی ہے تو پھریہ میرے پاس لکھی ہوئی موجودہوگی۔
پھرآپ میراہاتھ پکڑ کرمجھے اپنے گھرلے گئے،آپ نے ہمیں حضورﷺ کی احادیث کی کئی کتابیں دکھائیں،وہاں وہ متلعقہ حدیث بھی موجودتھی،
آپ نے فرمایا:
میں نے تم سے کہاتھاناکہ اگریہ حدیث میں نے تمہیں سنائی ہے توضرورمیرے پاس لکھی ہوگی۔
(تدوین حدیث مع اصول حدیث،ص87)
اس روایت سے ظاہرکہ آپ کے پاس تحریر شدہ احادیث دس پانچ نہیں تھیں بلکہ جوکچھ وہ بیان کرتے تھے ان سب کوقید کتابت میں لے آئے تھے۔
قارئین کرام اس بات سے بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ صحابہ کے دور میں کتناعظیم ذخیرۂ حدیث بشکل کتابت ظہورپذیرہوچکاتھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لوگ کثرت سے اپنے بچے حفظ احادیث کے لیے بٹھاتے تھے۔
آپس میں مذاکرۂ حدیث کاطریقہ بھی جاری کیاگیاتھا،اساتذہ متعلمین کاآموختہ سنتے،سبقاًسبقاً احادیث یاد کرائی جاتی تھیں،کوئی صرف پانچ حدیثوں کادرس دیتا اور کوئی دوہی پر اکتفاکرلیتاتھا۔(تدوین حدیث مع اصول حدیث،ص97)
روایات کے مجموعے:روایت حدیث میں آپ کی شان امتیازی حیثیت کی حامل ہے،پانچ ہزار سے زائد احادیث کاذخیرہ تنہاآپ سے مروی ہے جوآج بھی کتابوں میں محفوظ ہے۔آپ کی روایات بھی آپ کے دور میں جمع وتدوین کے مراحل سے گزرکرکتابی شکل میں جمع ہوگئی تھیں،اس سلسلے کے چند نسخے مشہورہیں۔
(۱)پہلانسخہ بشیربن نہیک کامرتب کردہ ہے۔وہ کہتے ہیں:میں جوکچھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنتاوہ لکھ لیاکرتاتھا،جب میں ان سے رخصت ہونے لگا تووہ مجموعہ میں نے آپ کوپڑھ کرسنایااور عرض کیا:یہ وہ احادیث ہیں جومیں نے آپ سے سماعت کی ہیں،فرمایا:ہاں!صحیح ہیں۔(ابودائود،باب فی ترک الوضو،بحوالہ:تدوین حدیث،ص؍86)
(۲)دوسرامجموعہ زیادہ مشہور ہے اور یہ ہمام بن منبہ کامرتب کردہ ہے۔یہ اب چھپ چکاہے۔اس مجموعہ کی اکثر احادیث مسند احمد،صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہیں،ان کے موزانہ سے پتہ چلتاہے کہ ان میں ذرہ برابرفرق نہیں،پہلی صدی اور تیسری صدی کے مجموعوںکی مطابقت اس بات کاکھلاثبوت ہے کہ احادیث ہرقسم کی آمیزش سے محفوظ رہیں۔یہ یمن کے امراء سے تھے،ان کے علاوہ تلامذہ اور خود آپ کے مرتب کردہ مجموعے بھی تھے۔(تدوین حدیث،ص؍86)
مرویات:آپ سے پانچ ہزار سے زائد احادیث مروی ہیں۔تین سوپانچ امام بخاری وامام مسلم دونوں نے،ترانوے صرف امام بخاری نے اور ایک سونوے صرف امام مسلم نے روایت کی ہیں۔امام بخاری کہتے ہیں کہ آپ سے آٹھ سوحضرات سے زیادہ نے روایات کی ہیںجن میں صحابی بھی ہیں اور تابعی بھی۔اجلہ صحابہ مثلاً: حضرت ابن عباس،ابن عمر،جابراور انس رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ان سے احادیث اخذ کیں۔آپ اللہ کے فضل پریوں شکراداکرتے،یتیمی میں پلا،مسکینی کی حالت میں ہجرت کی،بسرہ بن غزوان کانوکربنا،انہوں نے میری شادی بھی کردی،اس اللہ کاشکر جس نے دین کوپشت پناہ اور ابوہریرہ کوامام بنادیا۔اتنی کثرت کے ساتھ حدیثیں بیان کرنے کے باوجودروزآنہ ہزار رکعت نفل پڑھتے۔ ( نزھۃ القاری، کتاب الایمان، ص250) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:صحابہ کرام میں سے کسی کے پاس مجھ سے زیادہ احادیث پاک کاذخیرہ نہیں ہے۔(مسند احمد بن حنبل ،بحوالہ:تدوین حدیث مع اصول حدیث،ص؍80)
عہدخلفاء میں خدمات:عہد رسالت ﷺکے بعد بھی آپ کی زندگی دینی،علمی اور مجاہدانہ کارناموں سے لبریزہے۔عہدصدیقی میں آپ گوشہ نشین ہوکر اشاعت حدیث کی خدمت انجام دیتے رہے۔سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بحرین کے عامل رہے۔سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مشرقی ممالک میں ہونے والے جہاد میں شرکت کے لیے مدینۂ منورہ آئے۔شورش کے زمانے میں لوگو ں کوسیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ کی امدادوحمایت پرآمادہ کرنے کی بھرپورکوشش کی۔ارباب سیر کے بیان کے مطابق آپ ان حضرات میں شامل تھے جوحضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے دفاع کے لیے جان ہتھیلی پررکھ کرکاشانۂ خلافت میں موجود تھے۔سیدناعلی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب فتنوںنے سراٹھایاتو بہت سے صحابۂ کرام نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ،انہی میں آپ بھی شامل تھے۔سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی بعض موقعوں پر امارت مدینہ کے فرائض انجام دیئے۔
دعائے وصال:59؍ہجری میں 87؍سال کی عمرپاکر مدینۂ طیبہ میں وصال فرمایا۔یہ دعامانگاکرتے ،اے اللہ!60؍ہجری اور چھوکروں کی حکومت سے پناہ مانگتاہوں،اس دعا سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جو حامل اسرار تھے انھیں معلوم تھاکہ 60؍ہجری کاآغاز لڑکوں کی حکومت اور فتنوں کاوقت ہوگا۔ان کی یہ دعاقبول ہوئی اور یزیدپلید کے تسلط سے سال بھرپہلے مدینۂ طینہ میں رحلت پائی۔( نزھۃ القاری ، کتاب الایمان،ص250،خطبات محرم،ص؍341)
درس:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حیات طیبہ کے ان درخشاں پہلوئوں سے جہاںرسول اکرمﷺکا اپنے غلاموں پر کرم فرمانامعلوم ہوا،وہی اس بات کابھی درس حاصل ہوا کہ راہ اسلام میں پہلے قربان ہوناپڑتاہے تب کہی جاکر نوازشات،انعامات و اکرامات کے دروازے کھلتے ہیں۔ہمیں چاہئے کہ اسلاف کرام کی حیات مبارکہ سے درس حاصل کرتے ہوئے حصول علم کے لیے کوشش کریںاورتبلیغ دین کافریضہ انجام دیں۔اللہ پاک علم وعمل کی توفیق عطافرمائے۔آمین
مٹادے اپنی ہستی کو اگرکچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کرگل وزار بنتاہے
عطا ء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.