You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سیدناخالد بن ولید عزم ،تدبیر،استحکام اوراستقلال کاعظیم مردمجاہد
خداکی قسم!ہم تمہیں بادلوں سے بھی نیچے اتارلائیں گے
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
یقینادوسری قوموں اور ملکوں کی تاریخوں میں بھی ایسے لوگوں کے تذکرے ملیں گے جنہوں نے اپنی تلواروں اور تدبیر کی بدولت زمانے سے اپنا لوہامنوایا۔جنہوں نے بڑے بڑے معرکے سَر کرکے قوموں کی قسمتیں اوردنیاکانقشہ بدل دیا۔لیکن اپنی پوری زندگیوں میں کتنی بار انہوں نے یہ کارنامے انجام دیئے؟جن قوموں اور ملکوں کوانہوں نے شکست دی،ان کی حربی قوتیں کیاتھیں؟اور خود ان کے جلومیں کتنی قوموں کے پھریرے تھے؟اگران سوالوں پرغورکیاجائے تودنیاکے فاتحین کوحضرت خالد رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں ہرگز نہیں لایاجاسکتا۔تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ قوت کے نشے میں سرشارہوکرطاقت ور قوموں نے اپنی کمزور ہمسایہ قوموں پریلغار کی اور شہنشاہوں کے تنخواہ دارمؤرخوں نے ظلم وزیادتی کی ان داستانوں کوشجاعت اور شہادت کاملمع چڑھاکرتاریخ کے اوراق کی زینت بنادیا۔حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی یہ کتنی بڑی خصوصیت ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کم وبیش سواسولڑائیاں لڑیں۔جن میں ان کی فوجی طاقت دشمن کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی تھی مگرکسی ایک لڑائی میں بھی شکست نہیں کھائی۔
عین التمر کی پُر خطر مہم
عراقی مہم میںحضرت خالد رضی اللہ عنہ کوامیرالمومنین سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ کاخط ملتاہے جس میں حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی امدادکے لئے فوراًروانہ ہونے کافرمان تھا۔وہ شام کی طرف کوچ کرنے کاقصد فرماتے ہیں اور عین التمرکی راہ سے جوسب سے قریب راستہ ہے،حدودشام میںداخل ہونے کی تجویز پیش کیں۔اس دشوار گزارصحراکی مشکلات سے واقفیت رکھنے والے حضرت رافع رضی اللہ عنہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کومشورہ دیتے ہیں کہ عین التمرکی راہ سے تشریف لے جانے کاقصد ترک کردیجئے کیونکہ اس خوفناک صحرامیں قدم رکھناجان بوجھ کر موت کودعوت دیناہے۔یہ ایساراستہ ہے کہ پانچ دن کی منزل میں پانی کاایک قطرہ بھی کہیںسے دستیاب نہ ہوگا۔سواری اور باربرداری کے جانوروں کاہلاک ہوجانایقینی ہے۔کوئی اور ہوتاتو حضرت رافع رضی اللہ عنہ کے اس مشورے کوقبول کرکے قریبی راہ سے جانے کاارادہ ترک کردیتا۔لیکن حضرت خالد رضی اللہ عنہ کسی مشکل سے گھبرانے کی جگہ اس پرقابوپانے کے تجاویز سوچتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں کہ چالیس اونٹوں کواچھی طرح پانی پلاکران کے منہ باندھ دیئے جائیںاور ہرمسلمان اپنی ضرورت کے مطابق پانی ساتھ لے لے۔آپ ہرمنزل پر دس اونٹ ذبح کراتے ہیں اور ان کے پیٹ سے نکلاہواپانی ٹھنڈاکرکے جانوروں کوپلاتے ہوئے موت کی اس وادی کونہایت کامیابی کے ساتھ عبور کرلیتے ہیں۔یہ عزم اور تدبیرکاکتنابڑامظاہرہ ہے اس کااندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے عرب کے وسیع ریگستانوں میںپیاس کے سبب ہلاک ہونے والے قافلوں کی ہڈیاںبکھری ہوئی دیکھی ہوں یالرزہ خیز داستانیں سنی ہوں۔ اس حقیقت سے آشنا بڑے سے بڑا بہادر بھی ایسے راستے پرقدم بڑھانے کی جرات نہیں کرسکتا جس میں پانچ دن تک پانی ملنے کاامکان نہ ہو۔ (سیدناخالد بن ولیدرضی اللہ عنہ،ص؍۲۲)
ان تمام باتوں کے علاوہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی زندگی میںسب سے زیادہ قابل لحاظ امر یہ ہے کہ ان کے ہمراہی صحرائے عرب کے غیر تربیت یافتہ مٹھی بھر افراد تھے۔خود انہوں نے بھی کسی فوجی کالج میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کی تھی۔پھرمقابلہ کس کے ساتھ تھا،قیصرروم اور شہنشاہِ ایران کے آہن پوش منظم لشکروں کے ساتھ۔جن کے وسائل اورسامان حرب کاکوئی اندازہ بھی قائم کرنامشکل تھا۔وسیع اور دولت مند سلطنتیں ان کی پشت پر تھیں اور اپنے سالاروں کوبرابرکمک بھیجتی رہتی تھیں۔ادھرمسلمانوں کایہ عالم تھا کہ اگرکسی کے پاس تلوار ہے تونیام ندارد،نیزہ ہے توڈھال نہیںاورگھوڑاہے توزین سے محروم۔ اپنے وطن سے منزلیں دور،پرائے ملک میں آکرایسے بے سروسامان لشکر کارومیوں اور ایرانیوں کے عظیم الشان لشکروں کوشکست دیناکسی معجزے سے کم نہیں۔حضرت خالد رضی اللہ عنہ عراق اور شام میں جتنی لڑائیاں لڑیں ان تمام میں کوئی ایک جنگ بھی ایسی نہیں جس میں مسلمانوں کی تعداددشمن کی فوج کے نصف کے برابرہو۔لیکن ہر معرکے میں مظفرومنصور رہے،ہرلڑائی میں دشمن کوشکست فاش دی۔
شہر قنسرین کامحاصرہ
حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ نے دمشق اور اردن کی فتح کے بعد شام کے اہم ترین شہر قنسرین کامحاصرہ کیا۔اہل قنسرین اس صورت حال سے نپٹنے کے لئے کافی دیر سے تیاری کررہے تھے۔ چنانچہ قلعہ بندہوکربیٹھ رہے۔جب محاصرے نے طول کھینچا توایک دن حضرت خالد رضی اللہ عنہ بنفس نفیس شہرپناہ کے دروازے کے پاس پہنچے اور زور زور سے دروازہ کھٹکھٹاکرآوازدی۔فصیل کے برج سے محافظوں نے دیکھااور آنے کاسبب پوچھا۔حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میں تمہارے حاکم یااس کے نمائندے سے بات کرناچاہتاہوں۔حاکم کانمائندہ فصیل پرچڑھا۔آپ نے اس سے فرمایا ’’ تمہاری یہ حرکت بالکل فضول اور بے فائدہ ہے کہ محصور ہوکرقلعہ میں بیٹھ گئے ہو،واللہ!ہمارے پیش نظرنہ مالِ غنیمت حاصل کرناہے نہ ملک فتح کرنا،ہم تومحض خداکے نام کی سربلندی کے لئے یہاںآئے ہیں، ہم سے ہمارے پیغمبرﷺکاوعدہ ہے کہ ہم یہ ملک فتح کرکے رہیں گے۔خداکی قسم!اگرتم بادلوں میںبھی جاچھپوتوہم تمھیںوہاں سے بھی نیچے اتارلائیںگے،زودیابدیرتمہیں بخوشی یابزورہماری اطاعت قبول کرناہوگی‘‘۔حاکم قنسرین کوجب یہ پیغام پہنچایاگیاتووہ کانپ اٹھااور فوراًمشورہ کرنے کے لئے دربارآراستہ کیا۔ایک بوڑھے پادری نے رائے دی کہ شہرکادروازہ کھول دیاجائے اور مسلمانوںسے صلح کرلی جائے۔مسلمانوںکے سپہ سالار نے جوکچھ کہاہے یہ اس کااپناقول نہیں ہے’’مجھے اس میںاقوال نبوت کی خوشبوآتی ہے‘‘چنانچہ اسی رائے پرعمل ہوااور قنسرین پربآسانی مسلمانوں کاقبضہ ہوگیا۔(نورانی حکایات،ص۶۷)
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.