You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سیدناحضرت خالد بن ولید
اسلامی تاریخ کے اولوالعزم جرنیل کی فتوحات کا راز
==============================
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
شفاء شریف کی روایت ہے،حضرت سیدناخالد رضی اللہ عنہ اپنی فتوحات کاراز بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
خوش قسمتی سے حضور اکرم نورمجسم ﷺکے موئے مبارک میرے پاس تھے،میں نے ان کواپنی ٹوپی میں آگے کی طرف سی رکھاتھا،ان مقدس بالوں کی برکت تھی کہ عمر بھرہرجہاد میں مجھے فتح ونصرت حاصل ہوتی رہی۔
جنگ یرموک میں آپ للکارتے ہوئے لشکرِ کفار کی طرف بڑھے۔ادھر سے ایک پہلوان نکلاجس کانام ’’نسطور‘‘تھا۔دونوں میں دیرتک سخت مقابلہ ہوتارہاکہ آپ کاگھوڑا ٹھوکرکھاکرگرگیااور آپ زمین پرتشریف لے آئے اور آپ کی ٹوپی مبارک زمین پرجاپڑی۔نسطورموقع پاکرآپ کی پیٹھ پرآگیا۔اس وقت آپ پکار پکارکراپنے رفقاء سے فرمارہے تھے کہ میری ٹوپی مجھے دو،خداتم پررحم کرے۔ایک شخص جوآپ کے قبیلے ہی سے تعلق رکھتاتھادوڑکرآیااور ٹوپی مبارک اٹھاکرآپ کوپیش کردی۔آپ نے اسے پہن لیااور نسطور کامقابلہ یہاں تک کیاکہ اسے جہنم رسیدکیا۔
لوگوں کے دریافت کرنے پر آپ نے فرمایا:
اس ٹوپی میں حضوراکرمﷺ کے بال مبارک ہیں جومجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں، ہرجنگ میں ان مبارک بالوں کی برکت سے میں فتح یاب ہوتاہوں،اسی لئے میں بے قراری سے اپنی ٹوپی کی طلب میں تھا کہ کہیں ایسانہ ہوکہ ان کی برکت میرے پاس نہ رہے اور وہ کافروں کے ہاتھ لگ جائے۔
======================
(طبرانی وابویعلیٰ،بحوالہ:موئے مبارک،ص۱۳)
ایک اور روایت میں ہیکہ سیدناخالد رضی اللہ عنہ تھوڑی سی فوج ساتھ لئے ملک شام میں ’’جبلہ ‘‘ کی قوم کے مقابلے کے لئے گئے اور ٹوپی مبارک گھرمیں بھول گئے،جب مقابلہ ہواتورومیوں کابڑاافسر ماراگیا،اس وقت جبلہ نے تمام لشکرکوحکم دیاکہ مسلمانوں پریکبارگی سخت حملہ کردو،حملے کے وقت صحابۂ کرام کی حالت انتہائی نازک ہوگئی،یہاں تک کہ سیدنارافع بن عمرطائی رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ سے کہا: آج معلوم ہوتاہے کہ ہماری قضاآگئی ہے۔حضرت خالد نے کہا:سچ کہتے ہو،اس لئے کہ آج میں ٹوپی گھر بھول آیاہوں،ادھر تویہ حالت تھی اور ادھراسی رات مدینے کے تاجدار مصطفی کریم ﷺسیدناابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ (جولشکراسلام کے امیر تھے)کے خواب میں تشریف فرماہوئے اور آپﷺنے فرمایا:تم اس وقت سورہے ہواٹھواور خالد کی مددکوپہنچو،کفار نے ان کوگھیرلیاہے۔آپ اسی وقت اٹھے اور لشکر میں اعلان کردیاکہ فوراًتیار ہوجائو۔راستے میں انہوں نے ایک سوار کودیکھاجوگھوڑادوڑائے ہوئے ان کے آگے آگے جارہاتھا،چندتیزرفتار سواروں کوحکم دیاگیاکہ اس کاحال معلوم کرو۔سوار جب قریب پہنچے توپکارکرکہا:اے جواںمردسوار!ذراٹھہرو!یہ سنتے ہی وہ ٹھہرگیا،دریافت کرنے پرمعلوم ہواکہ وہ حضرت خالد کی زوجۂ محترمہ تھیں،حضرت ابوعبیدہ کے دریافت کرنے پر انہوں نے کہاکہ اے امیر!جب راتوں کومیں نے سنا کہ آپ نے لشکراسلام کونہایت بے تابی سے حکم فرمایاکہ سیدناخالد کودشمنوں نے گھیرلیاہے تومیں نے خیال کیاکہ وہ کبھی ناکام نہ ہوں گے کیونکہ ان کے ساتھ رسول گرامی وقارﷺ کے موئے مبارک ہیں۔لیکن جوں ہی میں نے دیکھاتومیری نظران کی ٹوپی پر پڑی جس میں موئے مبارک تھے۔مجھے نہایت ہی افسوس ہوااور میں اسی وقت چل پڑی کہ کسی طرح اس ٹوپی مبارک کوان تک پہنچادوں۔امیرقافلہ نے فرمایا:جلدی جائو خداتمہیں برکت دے۔سیدنارافع بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حالت یہ تھی کہ ہم اپنی زندگیوں سے بالکل مایوس ہوگئے تھے کہ اچانک تکبیرکی آوازآئی۔حضرت خالد نے جب آوازکی سمت نظرفرمائی توکیادیکھتے ہیں کہ ایک سوار آرہاہے،آپ اس سوار کے قریب پہنچے اور پوچھا:تم کون ہو؟انہوں نے جواب دیاکہ میں تمہاری بیوی ’’ام تمیم‘‘ہوں،تمہاری مبارک ٹوپی لائی ہوں جس کی برکت سے دشمنوں پر فتح پایاکرتے ہو۔راویٔ حدیث قسم کھاکرکہتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید نے ٹوپی مبارک پہن کرجب کفار پرحملہ کیاتو لشکرِکفار کے پائوں اکھڑ گئے اور مسلمانوں کوفتح حاصل ہوگئی۔
صحابۂ کرام کے نزدیک ان مقدس بالوں کی کتنی قدروشان تھی،اور پھروہ جلیل القدر صحابی جن کوشاہِ امم نے ’’سیف من سیوف اللہ‘‘(اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار)کے نورانی خطاب سے نوازا۔ان کی یہ حالت ہے کہ ایسے نازک وقت میں جبکہ دشمن خنجر بکف ان کے سر پرتھا،بڑی بے تابی سے ٹوپی طلب فرمارہے ہیں اور صاف صاف فرمارہے ہیں کہ میری ساری فتوحات کاباعث یہی ٹوپی مبارک ہے ۔یہ موئے مبارک کااعجاز ہے کہ ہرمعرکہ پران کی برکت سے فتح وکامرانی سیدناخالد بن ولید کے قدم چومتی رہی۔
عطا ء الرحمن نوری( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.