You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
معاشرے میں طلاق کابڑھتا ھوا رجحان ،نقصانات اوراحتیاطی تدابیر :-
شادی ایک خوبصورت بندھن ہے مگر یہ جس قدر پیارا اور مضبوط بندھن ہے اسی قدر نازک بھی ہے۔ ہلکی ہلکی ضربیں بھی اس کی مضبوط ڈور کو ناقابل تلافی نقصان پہنچادیتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس بندھن کو توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ہمارے معاشرے کا ایک بڑا ناسور’’طلاق‘‘ہے۔اللہ کے نزدیک حلال کاموں میں ناپسندیدہ کام طلاق ھے اس کی وجہ کئی خاندان تباہ و برباد ھو جاتے ہیں صحیح ہے کہ اسلام نے اس کو حلال قرار دیا ہے لیکن یہ ایک ایسا فعل ہے جس کی وجہ سے عرش الٰہی بھی کانپ جاتا ہے،مگرلوگ بڑے آرام سے طلاق دے دیتے ہیں آخرایسا کیوں ؟طلاق ہوتی کیوں ہے؟ وہ رشتہ جو اتنی خوشی سے طے کیا جاتا ہے اسے ختم کرنے کا منصوبہ کیوں بنایاجاتا ہے؟چند سالوں پہلے ہمارے معاشرے میں لفظ’’طلاق‘‘ایک گالی سمجھا جاتا تھا۔طلاق کو ہر زمانے میں برا سمجھا جاتا رہا ہے۔ پہلے کسی خاندان میں طلاق کا سانحہ ہوتا تو پورا خاندان اور برادری دہل جاتی تھی، طلاق کی خبر سننے والے حیرت و تاسف کے مارے انگلیاں دانتوں تلے دبالیتے تھے۔ مگر آج آئے دن طلاق کے قصے سننے میں آتے ہیں، طلاق ہوجانا عام سی بات بن گئی ہے۔ لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں طلاق کا تناسب دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے جو دیمک کی طرح اس معاشرے کے سکون کو چاٹ رہا ہے۔
اسباب:طلاق کے اسباب میں سے ایک اہم سبب دین اسلام سے دوری ہے ،اس کے بعد دیگر وجوہات آتی ہیں۔ کاش! ذرا توجہ اس طرف بھی ہوتی کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو دین سے آشنا کیا جاتا،کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بیٹی کو قرآن کے سائے میں رخصت کرنے کی بجائے قرآنی تعلیمات دے کر رخصت کرو گے تو اس کی زندگی زیادہ اچھی گزرے گی۔ کاش لڑکے اور لڑکی کو ان کے حقوق و فرائض سے آگاہ کیا جاتا مثلاً: زندگی گزارنے کا طریقہ کیا ہے ؟ میاں بیوی کے حقوق و فرائض کیا ہیں؟ شادی کا مطلب کیا ہے ؟ ،شادی کا مقصد کیا ہے؟ اس رشتے کو نبھانا کتنا ضروری ہے ؟ وغیرہ۔میاں بیوی کا رشتہ اعتماد اور بھروسے کی بنیاد پر قائم رہتا ہے جب کبھی دونوں میں اعتماد اور بھروسے کی بنیادیں ہلتی ہیں تو اس رشتے کی بنیادیں بھی کمزور ہو جاتی ہے اور یہ رشتہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔عدم برداشت بھی طلاق کا ایک اہم سبب ہے۔ دو شادی شدہ افراد میں علیحدگی کا سبب بننے والی بنیادی وجوہات میں گھریلو ناچاقی بھی شامل ہے۔ قربانی دینے کے عزم میں کمی، زبردستی شادی، مشترکہ خاندانی نظام سے بغاوت، سماجی اسٹیٹس، حرص و ہوس، بیوی یا شوہر کا شکی مزاج ہونا، دوسری یا جلد بازی میں محبت کی شادی، ٹی وی ڈراموں اور فلموں کے اثرات، معاشی مسائل،شوہر کا نشہ کرنا، سٹہ، جُوا یا خراب عادتیں طلاق کے اضافے کا سبب بن رہی ہیں ۔ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح میں مادیت پرستی، ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا ، بے اعتمادی، دیگر لوگوں کی میاں بیوی کے معاملات میں بے جا مداخلت اور دوسروں کی باتوں پر بلا تصدیق یقین کرلینا شامل ہیں جبکہ ڈراموں میں طلاق کو اہم ترین موضوع کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جو کہ گھر بسانے اور مضبوط رکھنے کے حوالے سے رہنمائی کی بجائے طلاق کے لیے ماحول سازگار بنانے کی نئی تراکیب متعارف کرائی جارہی ہیں۔ اس بارے میں میڈیا کو اپنی روش بدلنی پڑے گی۔
نقصانات:
طلاق خانگی زندگی کی تباہی کے ساتھ سب سے زیادہ اولاد کو متاثر کرتی ہے ۔ طلاق کی آگ کی لپیٹ میں دو خاندان بری طرح جلتے اور جھلستے رہتے ہیں۔ ایک بچی کے طلاق کے سبب بقیہ بہنوں کو رشتے نہیں آتے اور ایسے گھرانوں میں لوگ اپنی بیٹیاں دینے سے پرہیز کرتے ہیں۔ لڑکی دیندار اور پاکباز ہے تو ٹھیک ورنہ نفسانی خواہش کی تکمیل متعلقہ عورت کو برائیوں کے دلدل میین ایسا پھینک دیتی ہے جہاں نہ اسے اپنی عزت کاخیال ہوتا ہے اور نہ ہی خاندان کی آبرو کا۔ پھر جنسی بیماریوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتا رہتاہے اور معاشرہ تعفن سے بھرجاتاہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ بچے ہوجانے کے باوجود معمولی معمولی وجوہات کی بنا پر علیحدگیاں ہورہی ہیں ، علیحدگی کے بعد عورت اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاتی ہے ، مرد بھی نئی زندگی شروع کردیتاہے، متاثر ہوتی ہے صرف اولاد۔ جو کبھی کسی کے ہاتھوں پلتی ہے اورکبھی کسی کے۔ طلاق جیسا قدم اٹھانے والے لمحے بھر کے لیے بھی اس نکتے پر غور نہیں کرتے، نتیجتاً اْن کے بچوں کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے اور وہ کبھی نہ ختم ہونے والی احساس کمتری اور نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچپن میں والدین کی شفقت سے محرومی بچوں کو جرائم کی طرف راغب کرنے کا سبب بنتی ہے، اکثر اوقات طلاق خودکشی اور قتل کا سبب بھی بن جاتی ہے، ایسے بچے معمول کی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے، عدم توازن اور عدم تحفظ کاشکار ہوجاتے ہیں، اْن کی تعلیمی اورمعاشرتی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور اْن میں اعتماد اور خودداری کافقدان رہتاہے جو معاشرے کو ایک مفید اور کار آمد شہری سے محروم کردیتا ہے۔
احتیاطی تدابیر:
کوئی بھی شخص مکمل نہیں ہوتا ، ہر ایک میں کچھ خامیاں ہوتی ہیں تو کچھ خوبیاں بھی ضرور ہوتی ہیں۔ چنانچہ ٹھنڈے دل و دماغ سے ایک دوسرے کی خامیوں، کوتاہیوں کو نظر انداز کرکے خوبیاں اور اچھائیاں تلاش کرنی چاہئیں۔ ایک پرسکون زندگی کے لیے عورت کے ساتھ ساتھ مرد کو بھی صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ گھر صرف عورت بناتی ہے، جب میاں بیوی کو گاڑی کے دو پہئیے تصور کیا جاتا ہے تو دونوں کو مل کر گھر بنانے اور بچانے کی کوشش کرنی چاہیے، عورت کو بھی چاہیے کہ وہ تحمل سے کام لے۔ سب سے پہلے تو میاں بیوی کو اپنے مسائل کی نشاندہی خود کرنی چاہیے اور اس کا حل جہاں تک ممکن ہو خود سوچنا چاہیے بجائے اس کے کہ کوئی تیسرا شخص ان کے معاملات میں دخل اندازی کرے۔ طلاق کے شرح کو کم کرنے کے لئے سمجھوتہ اور قوت برداشت پیدا کرنی چاہئے۔ شادی کو مجبوری نہیں بلکہ روح کا رشتہ ہونا چاہئے۔باہمی رواداری اور میاں بیوی کے درمیان سمجھوتہ طلاق کی شرح کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
موجودہ ضرورت:
بدقسمتی سے مغربی تہذیب کے اثرات اور مادر پدر آزاد معاشرے کی اندھی تقلید کی وجہ سے ہمارے ہاں ماضی کے مقابلے میں طلاق کی شرح خطرناک حدتک پہنچ کر ایک سماجی مسئلہ بن چکی ہے جو ہمارے اسلامی معاشرے میں موجود آئیڈیل خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہے، لہٰذا ضرورت اس اَمر کی ہے کہ اسلام کے قانونِ طلاق کو قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کرنے کی سعی کی جائے تاکہ اس کا ناجائز استعمال روکا جا سکے اور فرد ، خاندان اور معاشرے کو بہت سے سماجی مسائل اور الجھنوں سے بچایا جاسکے، اس کام کیلئے معاشرے کے حساس اور ذمہ دار طبقات اور علما کو خصوصی توجہ دینے اور اس کے اسباب وعلل کا جائزہ لے کر تدارک کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ یاد رکھیں طلاق ایک ناپسندیدہ فعل ہے جس معاشرے میں طلاق کی کثرت ہو جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ معاشرہ اپنی فطری زندگی کے راستے سے بھٹک گیا ہے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.