You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
ابھی غیرت ِمسلم زندہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
توہین رسالت،مغرب کی قلمی،فکری اور ثقافتی دہشت گردی ۔ ۔ ۔ ۔
تحریر :۔محمد احمد ترازی
--------------------
اِس سے زیادہ سفلہ پن،ذہنی پسماندگی،کمینگی اورڈھٹائی کیا ہوگی کہ ایک ایسا معاشرے کا فرد،جس کی نوجوان لڑکیاں شادی سے پہلے جنسی تعلقات کو برا نہ سمجھیں۔۔۔۔۔۔جس کے بچے اپنے باپ کا نام نہ جانتے ہوں۔۔۔۔۔جس کے والدین کو اولاد اور اولاد کو والدین کی خبر نہ ہو۔۔۔۔۔جس کے بوڑھے بے کارو ناکارہ سمجھ کر اولڈ ہوم میں پھینک دیئے جائیں۔۔۔۔ اور جس کے مادر پدر آزاد ماحول میں انسان انسان کو نہ پہچانے۔۔۔۔۔اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ِاقدس میں زبان طعن دراز کرے۔۔۔۔دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر کیچڑ اچھالنے کی ناپاک جسارت کرے۔۔۔۔۔دنیا بھر کے کڑوڑوں مسلمانوں کی دل آزاری کا مرتکب ہو اور وہاں کے حکمران و انتظامیہ دوسرے مذاہب بالخصوص اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی کی کوششوں کو آزادی اظہار کا نام دے کر چپ سادھ لے تو اِسے اسلام دشمنوں کو خباثت و کمینگی اور ذلالت کی تمام حدوں کو پار کرنے کا موقع فراہم کرنے کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔شایدبے شرمی،بے حیائی ،بے حمیتی اور منافقت کی کوئی آخری حد نہیں ہوتی،دوسری طرف عالم اسلام کے غلام حکمرانوں کا شرمناک اور بزدلانہ طرز عمل کہ اپنے آقا انکل سام کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے یہ بھی بھول جائیں کہ کسی کے مذہبی عقائد کو نشانہ بنا کر اُسے مشتعل کرنا بھی اتنا ہی قابل مذمت اور قابل گرفت فعل ہے جتنا کہ تشدد کا ارتکاب کرنا ۔
آج لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی قونصل خانے کے سامنے احتجاج کے دوران عمارت پر مسلح افراد کے حملے کوکئی زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے،مگر اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اِس دل آزار فلم میں پائے جانے والے شر انگیز مواد کے باعث دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور امریکی سفارت کاروں کے قتل کا مذکورہ واقعہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی اسی فلم کے خلاف احتجاج کے دوران پیش آیا ہے،جس کی تشہیر گستاخ امریکی پادری ٹیری جونز کی جانب سے کی گئی،یہ وہی پادری ہے جوماضی میں بھی قرآن پاک کو نذر آتش کر نے اور نیویارک میں گراؤنڈزیرو کے قریب مسجد کی تعمیر کی مخالفت کر کے ایسی اشتعال انگیز فضا پیدا کر چکا ہے،جس کے باعث دنیا بھر کے مسلمان پہلے بھی سراپا احتجاج بنے رہے،مگر اِس بار اُس نے یو ٹیوب پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی ویڈیو کلپ چلا کر اور بعض مقامات پر اِس فلم کے کچھ حصوں کی نمائش کر کے ایک بار پھر دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرکے ایسی فضا پیدا کردی،جس کا ردعمل لیبیا،سوڈان،مصر،تیونس اور یمن میں امریکی سفارت خانوں کے باہر مظاہروں کی صورت میں سامنے آیاہے،مصر،لیبیاءتیونس،عراق ، پاکستان،ایران،افغانستان،بھارت اور بنگلہ دیش سمیت دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے مسلمان اِس ہرزہ سرائی کے خلاف غیض وغضب کی تصویر بنے،یا اللہ .....یارسول صلی اللہ علیہ وسلم“کے نعرے لگاتے امریکی سفارتخانوں پر چڑھ دوڑے ہیں،اُن کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ گستاخ رسول کی ایک سزا....سر تن سے جدا،سر تن سے جدا،آج پوری اسلامی دنیامیں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی اِس مبینہ فلم کی تیاری پر جس شدید ردعمل کا اظہار کیاجارہاہے اُس نے عالم کفر کو لرزہ براندام کردیا ہے ۔
یقینا یہ عالم اسلام کے جذبات کو دانستہ مشتعل کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے،یہی وجہ ہے کہ جامع الازہر اسے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے اور فرقہ واریت پھیلانے کی سازش قرار دیتے ہوئے فلم پر پابندی کا مطالبہ کرتاہے،مصر کے مفتی اعظم کے مطابق ”محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹرائل کاعالمی دن، کے نام سے تیار کی گئی یہ فلم کینہ پرور اور بیمارذہینت کے لوگوں کی اسلام دشمنی اور تعصب کا ایک واضح ثبوت ہے، آزادی اظہارِ رائے کی آڑ میں اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کی جاسکتی،نہ اِس کی اجازت دی سکتی ہے، انہوں نے اپنے بیان میں نائن الیون کی برسی کے موقع پر امریکی قبطیوں کی جانب سے گستاخانہ فلم ریلیز کرنے کی شدید مذمت کی اور کہاکہ اسلام دشمن عناصر اِس قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں سے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں،اُن کا کہنا تھاکہ آزادی اظہار ایک الگ چیز ہے اور مقدس ہستیوں کی توہین الگ معاملہ ہے،اسلام سمیت دنیا کا کوئی مذہب مخالف مذہب کی شخصیات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا،نہ ہی کوئی مذہب ایسی شرمناک حرکات کو آزادی اظہار تسلیم کرتاہے،یہ عالمی حقوق کی سنگین پامالی ہے،مٹھی بھر شرپسند عناصر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں،مفتی اعظم نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور آزادی کے عالمی مبلغین سے مطالبہ کیا کہ وہ شرپسندوں کے ہاتھوں اسلام اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی شان میں کی جانے والی گستاخیوں کاسلسلہ بند کروائیں اور اخلاق بافتہ گستاخانہ فلم کے تمام کرداروں کے خلاف عالمی قوانین کے تحت کارروائی کریں ۔
مگردنیا بھر کے مسلمانوں کے شدید احتجاج کے باوجود امریکی صدر اور امریکی وزیر خارجہ نے امریکی سفارتخانوں پر حملوں کی مذمت تو کی،لیکن اِس گستاخانہ فلم پر پابندی کے حوالے سے معنی خیز خاموشی اختیار کی،امریکہ کا قاہرہ میں اپنے سفارتخانے پر حملے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہنا تھا کہ واشنگٹن کسی بھی مذہب بالخصوص دین اسلام کو گزند پہنچانے کی کسی بھی کوشش کی شدید مذمت کرتاہے، ایسا کرنے والے امریکی پالیسیوں کی ترجمانی نہیں کرتے اور وہ امریکہ میں اظہار رائے کی آزادی کا فائدہ اٹھاکر ایسے اقدامات اٹھاتے ہیں،لیکن امریکہ اُن کے خلاف قانونی کارروائی کر کے انہیں سزا نہیں دلواسکتا،درحقیقت اِس قسم کی مکروہ حرکات کی حوصلہ افزائی اور اجازت دینے کے مترادف اور اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ جس اقدام کو واشنگٹن قابل مذمت قرار دیتا ہے،وہ خود اُس کے خلاف کارروائی کے معاملے میں سنجیدہ کیوں نہیں ہے؟ اگر یہ تسلیم بھی کر لیاجائے کہ امریکی پالیسی میں اِس قسم کی گستاخانہ فلم کی اجازت ہے تو بھی کسی ایک شخص یا چند اشخاص کو یہ حق کیسے دیا جا سکتاہے کہ وہ دوسروں کے مذہب یا اُن کی برگزیدہ شخصیات کی توہین و تنقیص کریں،جبکہ خود امریکی معاشرے میں ہتک عزت کے قوانین موجود ہیں جس کے مطابق کوئی شخص اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں کسی دوسرے کی کردار کشی نہیں کرسکتا،مگراسلام کی برگزیدہ شخصیات کی گستاخیوں کے خلاف امریکی حکام کے پاس کوئی قانون موجود نہیں،جس کا صاف مطلب اسلام اور مسلمانوں کی مقدس شخصیات کے خلاف گستاخانہ حرکات کی سرپرستی اور لائسنس دینا ہی سمجھا جائے گا،چنانچہ اِس تناظر میں امریکی حکومت کواِس قسم کے مکروہ اقدامات سے بری الذمہ قرار نہیں دیاجاسکتا ۔
آج نائن الیون سمیت جن واقعات کے ذمہ دار مسلمان قرار دیئے جاتے ہیں،وہ درحقیقت بالواسطہ یا بلاواسطہ بڑی حد تک تہذیبوں میں تصادم کے نظریئے کا ہی شاخسانہ محسوس ہوتے ہیں،خود مغربی ملکوں کو جو مسلم د نیا کو انتہا پسندی سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں،کواِس بات کا جائزہ لینے کی شدید ضرورت ہے کہ ٹیری جونز جیسے خبیث اور بیمار ذہنیت کے لوگ جس طبقہ فکر کی نمائندگی کرتے ہیں،کیا ایسے لوگوں کو محض آزادی_ اظہار رائے کے نام پر دوسرے مذاہیب بالخصوص مسلمانوں کے جذبات کو پامال کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے ؟اظہار رائے کی آزادی کے علمبرداروں کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ آزادی اظہار کے نام پر ایسی قبیح سرگرمیوں کی اجازت دینا کتنا درست ہے جو صرایحاً قلمی،فکری اور ثقافتی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہوں اور جس سے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کو تکلیف و ٹھیس پہنچے،چنانچہ مصر کے مفتی اعظم کے بیان کی روشنی میں آزادی اظہار اور مقدس ہستیوں کی توہین دو الگ الگ معاملے ہیں جنھیں یکجا کر کے نہیں دیکھا جاسکتا،لہٰذا اسلام دشمنوں کی جانب سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے بنائی گئی گستاخانہ فلم ایک ایسی نا پاک جسارت قرار پاتی ہے جو مغرب کی منافقت اور نفرت انگیز مکروہ چہرہ سامنے لاتی ہے اور اُس کی خباثت و خیانت کا پردہ چاک کرتے ہوئے ظاہر کرتی ہے کہ اسلام دشمنی میں یہودونصاریٰ آپس میں متحد اور معاون و مددگار ہیں، لاکھ اُس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے طور طریقے،قدار ورویئے اور معاشرت و معیشت سب ہی کچھ کیوں نہ بدل چکا ہو،مگر اُس کے انداز فکر اور اسلام دشمنی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا ہے،وہ کل بھی اسلام اور مسلمانوں کا دشمن تھا اور آج بھی ہے،چنانچہ اِس تناظر میں مسلم رہنماؤں اور دانشوروں کا یہ موقف مبنی بر حقیقت ہے کہ فلم بنانے اور یو ٹیوب پر ریلیز کرنے کا مقصد مسلمانوں کو مشتعل کرکے اُن کے جذبات کو بھڑکانا ہے تاکہ ردعمل کے طور پر مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دینے کا بہانہ ہاتھ آسکے اور مغربی طاقتیں اِس کی آڑ میں اُمت مسلمہ کے خلاف صلیبی جنگ کے نئے محاذ کھول کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کر سکیں ۔
یقینا یہ ایک سوچی سمجھی سازش اور اسلام کے خلاف مغرب کی اُس بین الاقوامی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کا کرہّ ارض سے صفایا کرناہے،سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر مسلمانوں کے خلاف ہی ایسی مذموم حرکات کا ارتکاب کیوں کیا جاتا ہے؟ کیوں توہین آمیز خاکوں،شعائر اسلامی کی توہین اوراسلام اور پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کے ذریعے بار بارمسلمانوں کی غیرت کو للکاراجاتا ہے؟کیوں یورپی ممالک میں مسلمان کو دہشت گرد اور مسلم خواتین کے اسکارف پہنے پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔؟اِس کا سیدھا سادہ جواب ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان دیگر الہامی کتب (توریت،زبور،انجیل) اور تمام انبیاءومرسلٰین پرایمان رکھنے کے ساتھ اسلام،شعائر اسلام اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت حوالے بڑے حساس واقع ہوئے ہیں،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا تحفظ اور شعائر اسلامی کی حفاظت اسلام کی بنیاد و اساس ہے،جس کیلئے ہر مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے اورزبان و نسل سے تعلق رکھتا ہو،اسلام اور صاحب اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا تحفظ اپنی جان سے بھی زیادہ ضروری سمجھتا ہے،جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق و محبت کا تقاضہ مختلف رنگ و نسل اور زبان و علاقوں میں تقسیم اُمت مسلمہ کو ہمیشہ اہل کفر کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنادیتا ہے،یہی وہ جذبہ ہے جو عالم کفر کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے اور جس کے خاتمے کیلئے وہ وقتاً فوقتاً اِس قسم کی شر انگیز مذموم کوششیں کرتا رہتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ عالم کفر مسلمانوں سے نہیں بلکہ اُن کے ایمان کی راکھ میں چھپی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس چنگاری سے ڈر و خوف اور خطرہ محسوس کرتاہے،جو کسی بھی وقت شعلہ جوالہ بن کر اُس کے طاغوتی نظام کے درودیوار زمین بوس کرسکتی ہے،لیکن ہر بار وہ اسلام دشمنی میں یہ بات بھول جاتا ہے کہ مسلمان خواہ کتنا ہی بدعمل اور دین سے دور کیوں نہ ہو،ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کیلئے جان دینا یا لینا ایک اعزاز اور سعادت سمجھتا ہے،اُسے اپنی جان مال اور عزت و آبرؤ سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت عزیز ہے،جس کی حفاظت کیلئے وہ ہر لمحہ کٹ مرنے کو تیار ہے،لہٰذاشعائر اسلامی کا مذاق اڑانے اور توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناپاک جسارت کرکے صلیبی جنگ بھڑکانے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ زندگی سے زیادہ موت سے محبت کرنے والے مسلمانوں کی غیرت کو نہ للکاریں،اگریہ اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر تمہیں دنیا کے کسی کونے میں بھی پناہ نہیں ملے گی ۔
کمزور ہیں ہم لوگ مگر اتنا بتا دیں
میراث ہے دار پہ انکار نہ کرنا
آزادی رائے کا احساس ہے لیکن
تم ذات محمدپہ کبھی وار نہ کرنا
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.