You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
رازدارِنبوت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے ۲۲۱۰؍احادیث مروی ،آپ کے۲۰۰؍سے زائد شاگرد
--------------------------------------------------------------------
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اسلام کی عظیم فقیہ ومفتی
--------------------------------------------------------------------
محبوبۂ محبوبِ رب العالمین نے ۴۸؍سالوں تک اسلامی تعلیمات کی اشاعت کیں
================================
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال فرما نے کے بعداُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بڑی تیزی سے دینی علوم کی اشاعت اور فروغ کے لیے نمایاں کارنامے انجام دیئے۔ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے علم دین سیکھنے والے افراد کی تعداد 200؍ کے لگ بھگ ہے۔ جن میں صحابہ کرام بھی ہیں اور تابعین حضرات بھی ، رضی اللہ عنہم اجمعین۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات 58؍ھ میں ہوئی، اس حساب سے دیکھا جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انھوں نے 48؍سالوں تک مسلسل علم دین پھیلایا۔ آپ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ احادیث کی تعداد 2210؍ بتائی جاتی ہے ، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اسلامی علوم و فنون کی ترویج و اشاعت میںکتنا بڑا اور اہم کردار ادا کیا۔
روایتوں میں آتا ہے کہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بڑے خلوص و للہیت اور فیاضی کے ساتھ علم دین کی اشاعت فرمائی۔ لڑکے اور عورتیں اور جن مردوں سے ان کا پردہ نہ تھا، وہ پردے کے اندر بیٹھ کر اْن کی علمی مجلس میں فیض حاصل کرتے تھے اور باقی حضرات جنھیں ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا، وہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر علم کی تحصیل کیا کرتے تھے۔ مختلف قسم کے سوالات کیے جاتے تھے اور معلم کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی فیض یافتہ امت کی یہ مقدس ماں جنھیں راز دار ِ نبوت کہا جاتاہے یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اْن کے سوالات کے تسلی بخش جوابات قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال و افعال کی روشنی میں عنایت فرماتی تھیں۔ ہاں ! بعض مرتبہ کسی مسئلے کے حل کے لیے وہ سائل کو کسی دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ یا امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن میں سے کسی کے پاس بھیج دیا کرتی تھیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس مسئلہ کا شافی و کافی حل وہیں سے ملے گا۔ دینی مسائل معلوم کرنے کے لیے اگر کوئی سائل شرماتا تو وہ فرماتیں کہ علم کے حصول کے لیے شرماؤ نہیں بلکہ جو پوچھنا ہو وہ کھل کر پوچھو۔ یہی اصول دراصل درس و تدریس کا کامیاب ترین اصول ہے۔
آپ رضی اللہ عنہا ہر سال حج بیت اللہ شریف کے لیے مکہ معظمہ تشریف لے جایا کرتی تھیں تاکہ دور دراز سے آنے والے زائرین بھی اپنی علمی پیاس بجھا سکیں اور وہ علوم دینیہ کی ترویج و اشاعت کا فریضہ انجام دے سکیں۔
روایتوں میں آتا ہے کہ
حج کے لیے آنے والے افراد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے خیمہ کے باہر جمع ہو جاتے اور دینی سوالات کرتے اور وہ ان کے جوابات عنایت فرماتیں۔ مکہ معظمہ میں زم زم کے کنویں کے قریب پردہ ڈال کر آپ رضی اللہ عنہا تشریف فرما ہو جاتیں اور فتویٰ طلب کرنے والوں کا مجمع لگ جاتا۔ آپ تمام لوگوں کے سوالات کے جوابات دے کر اْن سائلین کی رہنمائی فرماتیں۔ اس طرح حج بیت اللہ شریف کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ علم دین کی اشاعت کا یہ عمل پورے جوش و خروش اور مستعدی سے جاری رہتا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا شمار اْن جلیل القدر صحابیہ میں کیا گیا ہے جو باضابطہ طور پر فقیہ اور مفتی تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے والدماجد حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کے زمانہ خلافت سے مفتی ہو گئی تھیں ۔ یہاں تک کہ کتابوں میں آتا ہے کہ جلیل القدر خلفائے اسلام حضرت عمر فاروق و حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہما تو خود ان سے مسائل معلوم کرتے تھے۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ ٔامارت میں دمشق کے اندر قیام فرما تھے اور جب ضرورت پیش آتی قاصد بھیج کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مسئلہ معلوم کر کے عمل کرواتے تھے۔ قاصد ملک شام سے چل کر مدینۂ منورہ آتا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے دروازے کے سامنے با ادب کھڑے ہو کر سوال کا جواب حاصل کرتا اور واپس چلا جاتا تھا۔اسی طرح بہت سارے لوگ خطوط لکھ کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دینی معلومات حاصل کیا کرتے تھے اور وہ ان کے جوابات لکھا دیتی تھیں۔ حضرت عائشہ بنت طلحہ رضی اللہ عنہا جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خاص شاگردہ ہیں فرماتی ہیں :
’’لوگ مجھے دور دور کے شہروں سے خطوط لکھتے تھے اور ہدایا بھیجتے تھے میں عرض کرتی تھی کہ اے خالہ جان! یہ فلاں شخص کا خط ہے اور اس کا ہدیہ ہے، فرمائیے اس کا کیا جواب لکھوں ؟ وہ فرما دیتی تھیں کہ اے بیٹا اسے یہ جواب لکھ دو اور ہدیہ کا بدلہ دے دو۔‘‘
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.