You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
وہابیت کی انسانیت دشمنی ودہشت گردی کا حقیقت پسندانہ تجزیہ
تشدد-دُنیا کے لیے ایک اہم وسُلگتامسئلہ ہے۔ جس کا آغاز مغربی سازشوں کے نتیجے میں ہو۔ زرخریدمولویوں نے اپنی کتابوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین وبے ادبی کا سنگین جرم کیا اور تعظیم وتکریمِ محبوبانِ خدا کو شرک وبدعت سمجھا۔
ابتدا میں بانیِ وہابیت محمد بن عبدالوہاب نجدی نے مسلمانوں کو مشرک قرار دے کر حجاز میں ان کا قتل کیا۔ اسی روایت کو ان کے ماننے والوں نے دُنیا کے مختلف خطوں میں آگے بڑھایا؛شاید اس نکتے کے قبول میں کسی کو تامل ہو لیکن مطالعہ ان حقائق کے تسلیم پرمجبور کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ پاک میں جب ان کے بعض گروپس ہتھیاروں سے لیس ہوئے تو ان کے تشدد کا نشانہ اہلِ سُنّت بنے جو اُن کی نظر وںمیں مشرک وبدعتی تھے۔معمولاتِ اہلِ سُنّت کو انھوں نے شرک وبدعت سے تعبیر کیا؛اور اہلِ سُنّت پر تشدد کو جائزسمجھا؛ان کا خون بہانا حلال ٹھہرایا۔
میلاد کی مخالفت میں بیان:
سعودی عرب کے وہابی مفتی شیخ عبدالعزیز الشیخ نے ۳؍جنوری۲۰۱۵ء کو اپنے ایک بیان میں یوم ولادتِ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم منانے کو گناہ و بدعت سے تعبیر کیا۔
(بحوالہ http://www.arabnews.com/featured/news/683771)
وہابی فرقہ (جو برصغیر میں مقلد’دیوبندی‘ وغیرمقلد’اہل حدیث‘ میں ڈِوائڈ ہے) کے نزدیک میلاد منانا شرک وبدعت سے کم نہیں۔ انھیں ہر وہ عمل جس سے اللہ کریم کے پیارے رسول سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم کا اظہار ہو اس سے چڑھ اور عداوت ہے۔
اسی لیے کئی برس گزرے ان کی ہم خیال دہشت گرد تنظیمیں مثلاً سپاہِ صحابہ، جمعیۃالدعوۃ، لشکر طیبہ،جیش محمدی، تحریکِ طالبانِ پاکستان وغیرہ- نے معمولات وعقائدِ اہلِ سُنّت سے شدید حسد ودُشمنی کی بنیاد پر پاکستان میں اہلِ سُنّت کو جم کر نشانہ بنایا؛کھل کر دشمنی کا اظہار کیا۔ اِسی عداوتِ رسول کریم میں وہابی فکر کے حامل دہشت پسندوں نے کچھ عرصہ قبل کراچی کے نشتر پارک میں میلاد منانے والے عاشقانِ مصطفی کو خاک وخوں میں نہلا دیا۔ کتنے ہی شہید اور زخمی ہوئے۔ لیکن ایسے ظلم وتشدد سے عشاق کیوں کر ذکرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم چھویں گے!-ایں خیال است و محال است وجنوں- اس لیے کہ
ان (ﷺ)پر مر مٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
مزارات پر حملے، مآثرِ مقدسہ کی بے حرمتی وانہدامی کے لیے وہابی گروہوں کاعملی تشدد عرب سے عجم تک جاری ہے۔ شام و عراق، مصر میں بھی وہابی تشدد کے شکار مزاراتِ صحابہ واولیا بنے ہیں۔ ISISداعش کی حرکات اسی نوعیت کی ہیں؛جن کا فکری رشتہ بانی وہابیت سے جا ملتا ہے۔بعض عناصر جو شام وعراق و مصر کی حکومتوں کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں انھیں اس حقیقت پر غورکرنا چاہیے کہ جن حکومتوں نے ان مزارات پر برسوں سے حسنِ انتظام کے لیے بجٹ متعین کیے؛ ان کی تعظیم کی، زائرین کے لیے سہولتیں مہیا کیں وہ آج کیوں انھیں منہدم کریں گی!- ۱۶؍دسمبر۲۰۱۴ء کی تازہ ترین واردات ’’سانحۂ پشاور‘‘ دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔جس میں ۱۳۶؍بچے شہید ہوئے اور دوسو کے لگ بھگ زخمی۔اس وحشیانہ عمل کی ساری دنیا میں مذمت کی گئی۔جنھوں نے مذمت نہیں کی یقینی طور پر انھیں دہشت گردوں سے اتفاق ہے، ہم دردی و محبت ہے۔
دیوبندی مولوی دہشت گردوں کی حمایت میں:
روزنامہ نوائے وقت لاہور (۱۸؍دسمبر۲۰۱۴ء کے شذرہ میں)لکھتا ہے:’’لال مسجد کے خطیب اور برقع اوڑھ کر اسی مسجد سے آپریشن کے دوران فرار کی کوشش کے دوران پکڑے جانے والے مولانا عبدالعزیز نے سانحۂ پشاور پر سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سانحہ کی مذمت کرنے سے انکار کیا ہے۔ انھوں نے انٹرویو کے دوران کہا کہ جب غلطیاں دونوں طرف سے ہوں تو وہ صرف ایک فریق کی مذمت نہیں کیا کرتے۔سانحۂ پشاور پر پوری قوم کے دل رنج و غم سے زخمی ہیں، تو حضرت مولانا نے ان پر یہ کہہ کر نمک چھڑکا کہ طالبان شرعی جنگ لڑ رہے ہیں۔مزید یہ کہ ان کا تعلق دیوبند علما سے ہے۔اور پورے ملک میں کسی دیوبندی مفتی نے ان کے خلاف فتویٰ نہیں دیا۔ ‘‘
یہی اخبار مزید لکھتا ہے: ’’وہ (یعنی مولوی عبدالعزیز دیوبندی) پاکستان میں داعش کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں بلکہ فخر سے اپنا تعلق اس دہشت گرد تنظیم کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ایسے لوگوں کی موجودگی میں پاکستان سے دہشت گردی کا فتنہ ختم نہیں ہوسکتا۔
علمائے دیوبند کو اس امر کی وضاحت کرنی چاہیے کہ کیا وہ بقول مولوی عبدالعزیز واقعی دہشت گردوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جن علمائے کرام نے دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خلاف فتوے دیے،کیا ان کی شریعت کوئی اور ہے؟…‘‘
جب تک دہشت گردوں اور دہشت گردوں کی حمایت اور سرپرستی کرنے والوں کی فتنہ پردازیوں کا قلع قمع نہیں کیا جاتا’’سانحۂ پشاور‘‘ ایسے سانحات کا خطرہ بدستور رہے گا۔
(ماہ نامہ نورالحبیب، بصیر پور پاکستان،ربیع النور۱۴۳۶ھ،ص۷۔۸)
نوائے وقت کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ دیوبندی فرقے نے دہشت گردوں کی مخالفت میں کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا۔اُلٹے مولوی عبدالعزیزدیوبندی نے ’’داعش‘‘ جس نے شام وعراق میں اسلامی آثار ومزاراتِ صحابہ کوشہید کیا- اس کی کھلی حمایت کی؛ ایسے حالات میں کس طرح دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکتا ہے؟ جب کہ واٹس اپ پر سانحۂ پشاور کے بعد وہابی دیوبندی فرقے سے جڑے بعض افراد کے جو تبصرے آئے ان میں بھی کسی نہ کسی طرح متشدد افراد کی چھپی حمایت محسوس کی گئی۔ کہیں اس سانحہ کو یہودیت وعیسائیت کے سرڈالا گیا۔ کہیں کسی اور کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ ہم مانتے ہیں اس بات کو کہ اس میں یہودیوں کی پشت پناہی ہے لیکن ان کے آلۂ کار وہابی ہیں جیسا کہ اس ضمن میں ایک صدی قبل کا ایک معاہدہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے،جویہاں نقل کیا جاتا ہے۔
اسرائیل کی حمایت میں معاہدہ:
سعودی حکمراں عبدالعزیز ابن سعود نے اپنی حکومت کے قیام سے قبل۱۹۱۵ء میں برطانیہ سے خفیہ معاہدہ کیا تھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی حمایت ان الفاظ میں کی تھی:
میں سلطان عبدالعزیز بن عبدالرحمن آلِ فیصل آلِ سعود برطانیہ عظمیٰ کے مندوب’ سرپرسی کاکس‘ کے لیے ایک ہزار مرتبہ اس بات کا اعتراف واقرار کرتا ہوں کہ فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں یا برطانیہ اس فلسطین کو جسے چاہے دیدے۔ میں برطانیہ کی رائے سے صبح قیامت تک اختلاف وانحراف نہیں کرسکتا۔
(ازافادات تاریخ آلِ سعود، مصنف ناصرالسعید، ناشر منشوراتِ مکہ مکرمہ، طبع ۱۴۰۴ھ)
دہشت گردوں کے حامیان سے گزارش ہے کہ یہودی وعیسائی ہاتھ کس طرز کا ہے مذکورہ معاہدے کی روشنی میں اِسے سمجھیں اور اس میں وہابی فرقے کا عمل دخل کیسا ہے وہ بھی Analyseکریں۔علم الیقین کی بنیاد پر تجزیہ پیش کریں؛ ہوائی فائرنگ سے حقائق بدلا نہیں کرتے۔
ہندوستانی وہابیوں کی مجرمانہ خاموشی:
دُنیا عالمی گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ کوئی بھی حادثہ ہویا ایکسی ڈنٹ- اس کی اطلاع لمحوں میں دُنیا بھر میں پھیل جاتی ہے۔ جووہابیت کی نمائندہ جماعتیں ہمارے ملک میں کسی بھی معمولی سانحہ پر اخبارات میں بیان بازی کاسلسلہ شروع کردیتی ہیں وہ وہابی فکروخیال کی حامل تنظیموں کی کسی بھی دہشت گردانہ واردات پر ایسی خاموشی اختیار کرلیتی ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو! ان کے حلیف ومعاون گروہ جو اتحاد بین المسلمین کے دعوے دار ہیں وہ بھی وہابی تشدد کی مذمت میں دو بول بولنے سے عاجز وساکت ومجبور ہیں۔ درج ذیل سانحات پر ان کی زبانیں گنگ رہی ہیں۔ جب کہ یہ سانحات اُمتِ مسلمہ کے لیے بھاری زخم ثابت ہوئے ہیں،اور ان سے مخالفینِ اسلام نے بہت فائدے حاصل کیے:
سانحات:
نشتر پارک کراچی میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہونے والا بم بلاسٹ
بم بلاسٹ حضرت داتاگنج بخش رحمۃاللہ علیہ لاہور
بم بلاسٹمزارِ اقدس بابا فریدگنج شکررحمۃاللہ علیہ پاک پٹن
انہدام مزارِ اقدس حضرت سلمان فارسی
شام و عراق میں مزاراتِ صحابہ واولیا کی شہادت
سری نگرکشمیر میں درگاہِ حضرت بل و درگاہِ حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی کے سانحات
صوبۂ سرحد پاکستان میں دہشت گردانہ وارداتیں
پاک میں قائدینِ سُنّی تحریک کی شہادتیں
پاک میں علمائے اہل سنت کی شہادتیں
گنبد خضرا کے انہدام سے متعلق سعودی حکومت کا مجوزہ پلان
سعودی کے مذہبی اداروں کے ذمہ داران کے ذریعے شائع ایسے بیانات جن میں -تعظیم روضۂ نبوی- کو شرک قرار دیاگیا
تعظیم رسول ﷺ، زیارتِ روضۂ رسول ﷺ کی نیت سے سفر کو حرام قرار دینے والے دل آزار لٹریچر کی سعودی حکومت کی جانب سے مسلسل اشاعت وحجاج میں تقسیم
روضۂ رسول کریم ﷺ پر ادب واحترام سے کھڑے ہونے پر مسلمانوں کو مشرک کہاجاتا ہے
دیوبندی فرقے کی نمائندہ تنظیم پر بی جے پی کے ایک لیڈر نے ایک الزام لگایا تو سب چیخنے لگے اور اس کے بیان کی مذمت کرنے لگے- لیکن مذکورہ بڑے بڑے سانحات کے لیے کوئی وہابی جماعت یا گروہ یا وہابیت کے تحفظ کے لیے قائم متحدہ مسلکی تنظیمیں یا کونسلیں ایک کالم یادوکالم میں کوئی بیان جاری کرنے کی جرأت نہ کرسکیں، ان کے اندر اتنی توانائی نہ رہی کہ مذکورہ سانحات پر سیاسی ہی سہی؛ مجبوراً ہی کوئی مذمتی بیان جاری کردیتیں۔
سچ تسلیم کریں:
دہشت گردی کی مخالفت میں کانفرنسوں کا انعقاد وہابیت کو دہشت گردوں کی خاموش حمایت کے جرم سے نہیں بچا سکتا ۔
یاد رکھنا چاہیے کہ اگر انسانیت سے سچی ہم دردی و خیرخواہی ہے تو جڑ کا خاتمہ کرنا چاہیے۔زبانی جمع خرچ سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہونے والا۔ بلکہ اس ضمن میں دہشت گردوں کی کھلی مخالفت کرنی ہوگی۔
اپنے لٹریچر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و گستاخی والی عبارتوں کو نکال کر سچی توبہ کرنی ہوگی۔ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دلوں میں بسانا ہوگا جبھی انسانیت سے محبت کی روح جاگے گی اور نفرتوں کی آتش سرد ہوگی۔
[email protected]
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.