You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
واقعہ کربلا حضرت ابوجعفر امام محمد باقر رحمہ اللہ کی زبانی
عمار الدھنی روایت کرتے ہیں کہ اس نے محمد بن علی بن حسین سے عرض کیا یعنی امام محمد باقر رحمہ اللہ سے کہ مجھ سے واقعہ کربلا ایسے انداز سے بیان فرمائیں گویا آپ خود وہاں موجود تھے اور وہ سامنے ہو رہا ہے۔ اس پر حضرت امام محمدباقر رحمہ اللہ نے واقعہ کربلا اس طرح بیان فرمایا۔
بیعت یزید
------------
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے وقت ولید بن عتبہ بن ابی سفیان حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھتیجا اور یزید کا چچیرا بھائی مدینہ منورہ کا گورنر تھا۔ اس کو یزید نے حکم بھیجا کہ وہ میرے لئے بیعت لے۔ جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا تو امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے سوچنے کی مہلت دیں اور نرمی اختیار کریں۔ چنانچہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ مہلت لے کر مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔
کوفیوں کے خط
----------------
جب آپ مکہ معظمہ پہنچ گئے تو کوفیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے قاصد و پیغامات بھیجے اور عرض کی کہ آپ رضی اللہ عنہ کوفہ تشریف لے آئیں ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں ، ہم لوگوں نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا ہے ، اس کے گورنر کے پیچھے جمعہ پڑھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت کوفہ کے گورنر نعمان بن بشیر تھے۔ جب کوفیوں کی طرف سے اس قسم کے پیغامات آئے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے تحقیق احوال کے لئے پروگرام بنایا۔
حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کوفہ میں
----------------------------------------
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو کوفہ روانہ کیا تا کہ وہ وہاں کی صورت حال کا اچھی طرح جائزہ لیں۔ پروگرام کے مطابق مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ مکہ سے پہلے مدینہ منورہ گئے وہاں سے راستہ کی رہنمائی کے لئے دو آدمی ساتھ لئے اور کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ جس راستہ سے گئے وہ انتہائی خطرناک تھا۔ ریگستانی علاقہ سے گزرتے ہوئے ایک راہبر پیاس کی وجہ سے ہلاک ہو گیا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ مجھے اس خدمت سے سبکدوش کر دیا جائے لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کی معذرت قبول نہ فرمائی اور حکم فرمایا کہ کوفہ ضرور جاؤ اس حکم کی وجہ سے امام مسلم بن عقل رضی اللہ عنہ کوفہ گئے اور وہاں جا کر عوسجہ کوفی کے پاس ٹھہرے۔
کوفیوں کی بیعت
-----------------
کوفیوں کو جب امام مسلم رضی اللہ عنہ کی آمد کی خبر ہوئی تو خفیہ طور پر ان کے پاس پہنچے اور بارہ ہزار کوفیوں نے ان کے ہاتھ پر امام حسین رضی اللہ عنہ کے لئے بیعت کی۔
گورنر کوفہ نعمان بن بشیر کی معزولی
--------------------------------
امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر جب بارہ ہزار کوفیوں نے بیعت کی تو یزید کے ایک بہی خواہ عبداللہ بن مسلم حضرمی نے نعمان بن بشیر کو کہا کہ دیکھو شہر کی صورتحال کیا ہے یا تو کوفہ والے آپ کو کمزور سمجھتے ہیں یا آپ واقعتا کمزور ہیں۔
حضرت نعمان نے جواب دیا :
میری ایسی کمزوری جو اطاعت الٰہی میں ہو اس طاقت سے بہتر ہے جو خدا کی نافرمانی میں ہو۔ جس کام پر اللہ نے پردہ ڈالا اس کو کیوں ظاہر کروں۔
اس کے بعد عبداللہ بن مسلم حضرمی نے اس کی شکایت یزید کے پاس لکھ کر بھیج دی۔ یزید نے اپنے ایک آزاد کردہ غلام سرحون سے مشورہ کیا اس نے کہا کہ اگر آپ کے باپ معاویہ رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے تو آپ اس کے مشورہ پر عمل کرتے۔ یزید نے کہا کہ ضرور عمل کرتا۔ سرحون نے مشورہ دیا فوری طور پر عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا گورنر مقرر کر دو۔ حالانکہ صورتحال یہ تھی کہ یزید ان دنوں ابن زیاد کو بصرہ کی گورنری سے معزول کرنا چاہتا تھا۔ مگر سرحون کا مشورہ قبول کرتے ہوئے نعمان بن بشیر کو معزول کر دیا اور ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر بنا دیا اور کہا کہ کوفہ پہنچ کر مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو تلاش کرو اگر مل جائے تو اسے قتل کر دو۔
عبیداللہ بن زیاد کوفے کا نیا گورنر
-----------------------------
ابن زیاد بصرہ کے چند ساتھیوں کے ہمراہ اس حالت میں کوفہ آیا کہ اس نے نقاب کر رکھا تھا وہ جس مجلس سے بھی گزرتا سلام کرتا۔ لوگ جواب میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سمجھ کر ” وعلیک یا ابن رسول اللہ “ (اے رسول کے بیٹے آپ پر بھی سلام ہو) جواب دیتے۔
کوفی سمجھتے تھے کہ حسین رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں۔ یہاں تک کہ ابن زیاد قصر امارت میں پہنچ گیا۔
مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی تلاش
----------------------------------
ابن زیاد نے کوفہ پہنچ کر اپنے غلام کو تین ہزار درہم دئیے اور کہا جاؤ اس شخص کا پتہ لگاؤ جو کہ کوفہ والوں سے بیعت لیتا ہے۔ لیکن اپنے آپ کو ظاہر کرو کہ میں حمص شام کا باشندہ ہوں اور بیعت کرنے آیا ہوں اور یہ رقم پیش خدمت ہے۔ آپ اپنے مشن میں صرف کر سکیں۔ غلام اس حیلہ سے یہ اس شخص تک پہنچ گیا جو بیعت کا اہتمام کرتا تھا۔ جب اس نے رقم پیش کی اور بیعت کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس آدمی نے خوش ہو کہا کہ تمہیں ہدایت کا راستہ نصیب ہوا ہے۔ لیکن افسوس کہ ابھی تک ہمارا کام پختہ نہیں ہوا۔ تاہم وہ اس غلام کو مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا۔ امام مسلم رضی اللہ عنہ نے اس سے بیعت لی اور رقم بھی قبول کر لی۔ اب وہ یہاں سے نکلا اور سیدھا ابن زیاد کے پاس پہنچا اور سب کچھ اس کو بتلا دیا۔ ادھر حضرت مسلم رضی اللہ عنہ ابن زیاد کی کوفہ آمد سے عوسجہ کا گھر چھوڑ کر ہانی بن عروہ کے گھر منتقل ہو چکے تھے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیج دیا تھا کہ بارہ ہزار کوفیوں نے بیعت کر لی ہے۔ آپ کوفہ تشریف لے آئیں۔
ھانی بن عروہ کی گرفتاری
----------------------
جب ابن زیاد کو پتہ چل گیا کہ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ ہانی بن عروہ کے گھر ہیں۔ اس نے کہا کیا بات ہے کہ ہانی مجھے ملنے نہیں آئے۔ محمد بن اشعث چند ساتھیوں کے ساتھ ھانی کے دروازہ پر آئے ، ہانی اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ” گورنر نے آپ کو یاد کیا ہے لہٰذا آپ کو گورنر کے پاس جانا چاہئے۔ “ چنانچہ ان کے زور پر ھانی ابن زیاد کے پاس پہنچے۔
اتفاق سے اس وقت قاضی شریح بھی ابن زیاد کے پاس موجود تھے۔ ان سے مخاطب ہو کر کہا دیکھو اس احمق کی قضاء ہمارے پاس لے آئی ہے۔ ہانی نے سلام کہا۔ ابن زیاد بولا : مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کہاں ہے؟
ہانی بن عروہ نے کہا : مجھے علم نہیں ہے۔
اس پر ابن زیاد نے تین ہزار درہم والے غلام کو سامنے کر دیا۔ ھانی بالکل لاجواب ہو گیا اور کہا : میں نے ان کو بلایا نہیں وہ خود بخود میرے گھر میں آ گئے ہیں ابن زیاد نے کہا : کہ اس کو حاضر کرو۔ اس پر ھانی نے پس و پیش کیا۔ جس پر ابن زیاد نے اپنے قریب کر کے اس زور سے چھڑی ماری جس سے ان کی بھنویں پھٹ گئیں اور پھر تلوار سے وار کرنا چاہا لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ ابن زیاد نے کہا کہ : اب تیرا خون حلال ہے۔ اور اس کو قصر امارت کے ایک حصہ میں قید کر دیا۔
اس واقعہ کی اطلاع پرھانی کے قبیلہ نے قصر امارت پر حملہ کر دیا۔ ابن زیاد نے قاضی شریح کے ذریعہ ان کو پیغام بھیجا کہ ہانی کو مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کا پتہ و تحقیق کرنے کے لئے روکا ہے خطرے کی کوئی بات نہیں اور قاضی شریح کے ساتھ بھی ایک غلام کو بھیج دیا کہ دیکھو یہ لوگوں کو کیا کہتے ہیں قاضی شریح لوگوں کی طرف جاتے ہوئے ھانی کے پاس سے گزرے تو اس نے کہا : کہ میرے بارے میں اللہ سے ڈرنا۔ ابن زیاد میرے قتل کے درپے ہے تاہم قاضی شریح نے ابن زیاد کی بات کہہ کر مطمئن کر دیا۔ یہ بات سن کر لوگ مطمئن ہو گئے۔
مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کا خروج
---------------------------------
مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو جب اس ہنگامے کا علم ہوا تو خروج کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ چار ہزار لوگ ایک روایت کے مطابق چالیس ہزار آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ ان کو جنگی طریقہ سے ترتیب دے کر قصر امارت کی طرف روانہ کر دیا۔ ابن زیاد کو اطلاع ہوئی تو اس نے سردار ان کوفہ کو بلایا جب لشکر قصر امارت تک پہنچ گیا تو سرداران کوفہ نے اپنے اپنے قبیلہ کو سمجھایا تو وہ آہستہ آہستہ کھسکنا شروع ہو گئے۔ رات کے اندھیرے تک کوئی باقی نہ رہا۔
کوفیوں کی غداری اور امام مسلم رضی اللہ عنہ کی شہادت
------------------------------------------------
حضرت مسلم رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا سب نے دھوکہ دیا ہے اور تنہا رہ گئے ہیں تو راستہ پر چل پڑے ایک مکان پر پہنچے اندر سے ایک خاتون نکلی۔ آپ نے پانی مانگا اس عورت نے پانی پلا دیا اور واپس اندر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر باہر آئی۔ آپ کو دروازہ پر دیکھ کر کہا کہ اے اللہ کے بندے تیرا اس طرح بیٹھنا مشکوک ہے۔ یہاں سے چلے جاؤ۔ آپ نے کہا میں مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ ہوں تم مجھے پناہ دو گی؟ اس نے کہا آ جائیے۔ آپ اندر چلے گئے۔ جب اس عورت کے لڑکے محمد بن اشعث کو پتہ چلا کہ حضرت مسلم بن عقیل رحمہ اللہ ان کے گھر ہیں تو اس نے فورا ابن زیاد کو اطلاع کر دی۔ ابن زیاد نے اس کے ہمراہ پولیس روانہ کر دی۔ پولیس نے جا کر مکان کا محاصرہ کر لیا۔ مسلم اطلاع ملتے ہی تلوار سونت کر باہر نکل آئے مقابلہ کا ارادہ کیا ، لیکن محمد بن اشعث نے روکا اور حفاظت کی ذمہ داری اٹھالی۔ حضرت مسلم کو پکڑ کر ابن زیاد کے پاس لے گئے۔ چنانچہ ابن زیاد کے حکم سے قصر امارت کی چھت پر لے جا کر مسلم کو شهید کر دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اور ان کی لاش بازار میں لوگوں کے سامنے پھینک دی اور ہانی بن عروہ کو کوڑا کرکٹ کی جگہ گھسیٹتے ہوئے سولی پر لٹکا دیا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مکہ سے کوفہ کی طرف روانگی
------------------------------------------------------
حضرت مسلم کا خط امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا کہ بارہ ہزار کوفیوں نے بیعت کر لی ہے لہٰذا آپ جلد کوفہ پہنچ جائیں۔ امام حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ قادسیہ سے تین میل کے فاصلے پر تھے کہ حربن یزید تمیمی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے سے ملا اس نے کہا کہاں جا رہے ہو؟ آپ نے فرمایا کوفہ.... اس نے کہا وہاں کسی خیر کی توقع نہیں ہے۔ آپ کو یہاں سے واپس ہو جانا چاہیے ۔ پھر اس نے کوفیوں کی بے وفائی اور حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کے قتل کا واقعہ سنایا۔ سارا واقعہ سن کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واپسی کا ارادہ کر لیا۔ لیکن مسلم رضی اللہ عنہ کے بھائیوں نے کہا ہم بدلہ لیں گے یا شہید ہو جائیں گے۔ اس پر امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہارے بغیر زندگی کا کوئی لطف نہیں ہے۔ اب سب کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے جب آپ کو ابن زیاد کی فوج کا ہر اول دستہ نظر آیا تو آپ نے کربلا کا رخ کر لیا۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی کربلا آمد
------------------------------------
جب آپ کربلا میں پہنچے خیمے نصب کر لئے۔ اس وقت آپ کے ساتھ پینتالیس سوار اور سو (100) کے قریب پیدل تھے۔ اس وقت ابن زیاد نے عمرو بن سعد کو بلایا کہ آپ حسین رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں میری مدد کریں۔ اس نے معذرت کی لیکن ابن زیاد نہ مانا۔ اس پر عمرو بن سعد نے ایک رات سوچنے کی مہلت لی۔ عمرو بن سعد نے سوچنے کے بعد آمادگی کا اظہار کیا۔ عمرو بن سعد کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی معقول تجویز
---------------------------------------------
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تین باتوں میں سے ایک مان لو۔
1۔ مجھے کسی اسلامی سرحد پر جانے دو۔
2۔ مجھے موقع دو کہ میں براہ راست یزید کے پاس پہنچ جاؤں۔
3۔ جہاں سے آیا ہوں وہاں واپس چلا جاؤں۔
ابن سعد نے تجویز قبول کر کے ابن زیاد کے پاس بھیج دی اس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بس ایک بات کی کہ حسین رضی اللہ عنہ بیعت کریں۔ عمرو بن سعد نے ہر بات امام حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچا دی۔ انہوں نے فرمایا ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس پر لڑائی چھڑ گئی۔ آپ کے سب ساتھی مظلومانہ شہید ہو گئے۔ دس سے زائد جوان گھر کے تھے۔ اسی اثناءمیں ایک تیر آیا جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بچے پر لگا جو گود میں تھا۔ اس سے خون کو صاف کرتے ہوئے فرمایا! اے اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما جنہوں نے پہلے بلایا اب ہمیں قتل کر رہے ہیں۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت
-----------------------------------
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے خود تلوار ہاتھ میں لی اور مردانہ وار مقابلہ کیا اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔۔۔
اور جس شخص کے ہاتھ سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے وہ قبیلہ مذحج کا آدمی تھا۔ اگرچہ اس کے بارے میں اور بھی اقوال ہیں۔ حج ھانی بن عروہ کا وہی قبیلہ جس نے قصر امارت پر چڑھائی کر دی۔ یہ شخص آپ کا سر تن سے جدا کر کے ابن زیاد کے پاس لے کر گیا۔ اس نے سر مبارک یزید کے پاس بھیج دیا۔ ادھر عمرو بن سعد بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کو لے کر ابن زیاد کے پاس پہنچ گیا۔ ان کے صرف ایک صاحبزادے علی بن حسین رضی اللہ عنہ زین العابدین بچے تھے۔ جو اس روایت کے راوی ابو جعفرامام محمد باقر کے والدماجد تھے۔ (الاصابہ ص : 17 ج2 ) تاریخ طبری کی روایت میں ہے کہ سنان بن انس نخعی نے شہید کیا اور خولی الاصبحی نے سرمبارک کاٹا۔
(تاریخ طبری ص246 ج : 14 )
اور وہ یہ شعر پڑھتا تھا :
اوقر رکابی فضۃ وذھبا
قد قتلت الملک المحجبا
قتلت خیر الناس اما وابا
وخیرھم اذ ینتسبون نسبا
میرے اونٹ سونے اور چاندی سے لادو
میں نے ایسے بادشاہ کو قتل کیا ہے
جس تک رسائی مشکل ہے ،
میں نے ایسے انسان کو مارا جس کے ماں باپ سب سے افضل ہیں
اور نسب کے اعتبار سے بہتر ہے۔
خواتین و بچے یزید کے دربار میں
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ، افراد خانہ یزید کے دربار میں پہنچے تو درباریوں نے فتح کی مبارکباد دی۔ دربار میں سے ایک شخص نے جرات کر کے ایک صاحبزادی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ امیر المومنین یہ مجھے دے دو یہ سن کر زینب بن علی رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم یہ نہیں ہو سکتا کہ بجز اس کے یزید دین الٰہی سے نکل جائے۔ جب دوبارہ اس شخص نے کہا تو یزید نے اس کو ڈانٹا اور ان سب کو اپنے محل میں بھیج دیا۔
اھل بیت کی مدینہ روانگی
----------------------
یزید نے سب کو تیار کرا کر مدینہ روانہ کر دیا۔ جب یہ مظلوم قافلہ مدینہ پہنچا تو خاندان عبدالمطلب کی ایک خاتون روتی ہوئی آئی اور یہ
اشعار پڑھتی تھی۔
ماذا تقولون ان قال النبی لکم
ماذا فعلتم وانتم اٰخر الامم
بعترتی و باھلی بعد مفتقدی
منھم اساری ومنھم ضرجوا بدم
ماکان ھذا جزائی اذ نصحت لکم
ان تخلفونی بسوءفی ذوی رحم
(تاریخ طبری ص : 257 ج : 4 )
اگر پیغمبر علیہ السلام نے پوچھا تو کیا جواب دو گے کہ تم آخری امت ہو کر میری وفات کے بعد میرے گھرانے کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ ان میں کچھ قیدی ہیں اور کچھ خون میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ میں زندگی بھر جو تمہیں نصیحت کرتا رہا تو اس کی یہ جزا نہ تھی کہ تم میرے رشتہ داروں سے ایسا سلوک کرتے۔
نوٹ :
====
حافظ بن حجر رحمہ اللہ عمار الدھنی کی یہ روایت الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں نقل کرنے بعد لکھتے ہیں :
قد صنف جماعۃ من القدماءفی مقتل الحسین تصانیف فیھا الغث والسمین والصحیح والسقیم فی ھذہ القصۃ التی سقتھا غنی
(الاصابہ ص : 17 ج : 2 )
متقدمین نے شہادت حسین رضی اللہ عنہ پر بہت کتابیں لکھی ہیں جس میں رطب و یابس بھر دیا ہے۔ لیکن یہ روایت جو میں نے بیان کی ہے تمام تصانیف سے بے نیاز کر دیتی ہے۔
محرم الحرام میں اخوت و بھائی چارہ کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور ملک و ملت کی حفاظت و بقا اور قیام امن کے لئے تقریر و تحریر میں تحقیقی و علمی ، مثبت اور مہذب انداز اختیار کرنا چاہئے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.